:مضمون نگار: ابن بشیر الحسینوی الاثری
باباجی رحمہ اللہ نے تقریبا قمری حساب سے ۹۸ سال عمر پائی اور ساری زندگی دین کی آبیاری کرتے گزر گئی۔
ان
کی زندگی بے شمار خوبیوں سے مزین تھی وہ مفکر تھے وہ محدث تھے وہ ولی تھے
وہ اتحاد چاہتے تھے وہ ساری زندگی دین کے لئے فکر مند رہے اپنی زندگی کا ہر
ہر سانس دین کی خاطر صرف کیا اور اپنے پیچھے ایک جمع غفیر شاگردوں کو
چھوڑا جو پوری دنیا میں قرآن وحدیث کی صدا بلند کر رہے ہیں اور اپنی یاد
گار جھونپڑیوں کے سائے شروع کیا جانے والا ادارہ دارالحدیث ایک عظیم ترین
مرکز کو آباد چھوڑا ۔
بابا
جی کی زندگی بہت زیادہ پہلووں سے منفرد تھی ،وہ بہت بڑے سخی تھے ،وہ درد
دل رکھنے والے انسان تھے ،وہ دکھی انسانیت کا ہاتھ تھامنے والے تھے ،وہ دین
کے طلبا سے والہانہ محبت کرتے تھے ،وہ بہت مثالی مہمان نواز تھے ،اور بذات
خود ایک تحریک تھے ،وہ وفا دار تھے جس سے چلے اس کے ساتھ زندگی گزار دی
،انھوں نے ہرہر شعبہ میں کام کیا،مثلا دعوت و تبلیغ ،نشرو اشاعت ،تحریکوں
میں حصہ لینا ،قوم کی زمام قیادت کو سنبھالا،مساجد کو قائم کیا اور دینی
جامعات کو عروج پہنچایا، وہ ہر اچھے انسان کے قدر دان تھے ان کی دوستی اور
دشمنی بنیاد قرآن و حدیث تھا۔ ہر ہر جگہ قرآن و حدیث کو دیکھا خواہ غمی
ہو یا خوشی ۔
اگر
میں کہوں کہ وہ اپنی ذات میں ایک تاریخ تھے ،وہ بذات خود ایک ادارہ تھے تو
یگانہ روز گار تھے تو کوئی بے جا نہ ہوگا ،اس مختصر سے عریضے میں ان کی
خدمات کا احاطہ نہ ممکن ہے بلکہ اس کے لئے تو سینکڑوں صفحات پر مشتمل ایک
تاریخ رقم کی جا رہی ہے ان شاء اللہ ،جس میں ان کی زندگی کے ہرہر پہلو کو
واضح کیا جائے گا ۔۔۔ان سے تعلق رکھنے والے احباب بھی اس پر توجہ دیں ۔
باباجی کی خدمات کا اجمالی خاکہ:
۱ـ:دارالحدیث الجامعۃ الکمالیۃ راجووال کا قیام
بابا
جی اپنی زندگی میں اپنے ادارے کاتمام اہتمام اپنے ہونہار بیٹے پروفیسر
ڈاکٹر عبیدالرحمن محسن حفظہ اللہ کے سپرد کرگئے تھے ۔جو پوری ذمہ داری سے
اس ادارے کو چلا رہے ہیں اور اس کی مستقل تاریخ ہے جو الگ سے ترتیب دی جا
رہی ہے ۔
۲:مکتبہ دارلحدیث راجووال
ادارہ
میں قیمتی قدیم و جدید کتب پر مشتمل بہت بڑا مکتبہ جہاں علمی و تحقیقی کتب
لکھی جا رہی ہے اور علاقے کے اہل علم اور طلبا جامعہ سے بھر پور فائدہ
اٹھاتے ہیں۔
۳:بے شمار مساجد کو تعمیر کیا ۔
۴:سینکڑوں طلبا کو دینی علوم کا علم دیا۔
بابا جی میں اللہ تعالی نے بے شمار خوبیاں پیدا فرمائی تھیں ان کا ذکر کیا جاتا ہے ۔
شیخ الحدیث محمد یوسف محدث راجووالوی رحمہ اللہ عاجزی پسند تھے ۔
علم
،عمل کے ساتھ ساتھ عاجز بھی تھے اپنے آپ کو کچھ بھی نہیں سمجھتے تھے نہ
القاب کو پسند کرتے تھے بس کہتے تھے کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اپنے نام کے
ساتھ سلفی ،وغیرہ القاب سے بہت نفرت کرتے تھے ۔
ہمیں
فضیلۃ الشیخ محمد آصف سلفی حفظہ اللہ مدرس دارالحدیث راجووال نے بیان کیا
کہ میں دارالحدیث میں نیا نیا استاد متعین ہوا ایک دن بابا جی نے مجھے
بلایا اور کہا آپ کون ہیں میں نے کہا محمد آصف سلفی توا س پر بابا جی سخت
ناراض ہوئے اور مجھے اچھا خاصہ ڈانٹا۔
شیخ
غلام رسول آف موڑ کھنڈا بیان کرتے ہیں کہ دارالقدس لاہور میں جلسہ تھا اس
کے اختتام پر ہم مسجد میں نیچے صفوں پر سوگئے ابھی لیٹے باتیں کر رہے تھے
کہ ہمارے پاس ہی مولانا محمد یوسف راجووالوی رحمہ اللہ بھی لیٹ گئے مجھے
میرا دوست کہنے لگا کہ یہ بہت بڑے محدث ہیں اور نیک انسان ہیں ۔میں ان کی
سادگی اور عاجزی سے بہت زیادہ متاثر ہوااور میں نے یہ واقعہ بہت زیادہ
لوگوں کو بیان کیا ‘‘۔
قاری
محمد مصطفی آف شیخ سعد کالو والا بیان کرتے ہیں کہ ہمیں حاجی احمد دین
آف شیخ سعد مدرسہ دارالحدیث راجووال میں داخل کروانے آئے تھے سخت سردی کے
دن تھے ہم کل چھ ساتھی تھے ان میں ایک چھوٹا سا بچہ تھا بابا جی نے اپنے
رومال سے اس کی ناک صاف کی۔ ان ہی 6لڑکوں
میں ایک لڑکا ویسے ہمارے ساتھ آیا تھا۔ وہ پڑھنے کا بالکل ارادہ نہیں
رکھتا تھا۔ اس نے جب یہ منظر دیکھا کہ اس قدر عاجزی محبت کرنے والا استاد
ہے، اسی وجہ سے وہ بھی داخل ہو گیا اور مدرسہ میں پڑھتا رہا ،بابا جی نے
ہماری جھوٹی چائے بھی پی تھی ۔‘‘
شیخ الحدیث رحمہ اللہ اہل علم سے محبت کرتے اورنیکی کے کاموں میں ان کی حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے ۔
یہ
وصف بہت کم لوگوں میں دیکھنے کو ملتا ہے کہ وہ اچھا کام کرنے والے کی
حوصلہ افزائی کریں ،لیکن یہ وصف ہمارے موصوف میں بہت زیادہ پایا جاتا
تھا،اس سے اہل علم مزید ہمت کرتے اور آگے نکلتے ہیں ۔
مجھے
شیخ نظام الدین متخرج دارالحدیث راجووال نے بیان کیا کہ زمانہ طالب علمی
ہم میں ،بھائی عبداللہ سلیم ،بھائی محمد زکریااور کچھ اور طلبا تہجد کے وقت
قرآن مجید یاد کررہے تھے بابا جی مسجد میں آئے ہمیں دیکھ کر بہت خوش
ہوئے اور جلدی جلدی سب بچوں کو ایک ایک سو روپے دیا اور جلدی سے گھر واپس
چلے گئے ،اس رات بارہ سو روپے بابا جی نے بچوں کو انعام دیا ۔‘‘
پروفیسر
سیف اللہ ساجد حفظہ اللہ،جامعہ دارالاسلام السلفیہ کھڈیاں نے بیان کیا کہ
جب میں نے شعبہ نشرو اشاعت شروع کیا اور پہلی کتاب صفات المومنین کو بابا
جی کے پاس لے کر حاضر ہوا۔ وہ دیکھ کر بہت خوش ہوئے، اس پر بابا جی نے میری
بہت زیادہ حوصلہ افزائی کی اور شاید کچھ نقدی انعام بھی دیا اور تحریری
مقدمہ بھی لکھااور وہ مقدمہ تنظیم اہل حدیث میں شائع ہوا ہے ۔‘‘
راقم
(ابن بشیر الحسینوی )ابھی دارالحدیث راجووال میں نیا نیا آیا تھا بابا جی
کو بعض طلبا نے راقم کا تعارف کروایا اور انداز تدریس سے آگاہ کیا تو
بابا جی بہت زیادہ خوش ہوئے اور ایک گھنٹہ مسلسل دعائیں کیں اور اگلے دن
تین سو روپے انعام بھیجا ۔
فضیلۃ
الشیخ محمد حسین ظاہری حفظہ اللہ،شیخ الحدیث جامعہ اسلامیہ ڈلن بنگلہ بیان
کرتے ہیں کہ اہل علم کے ساتھ نہایت محبت کرتے تھے اس سلسلہ میں کئی دفعہ
راقم کے پاس اوکاڑہ تشریف لائے کہ میں شیخ العرب والعجم علامہ سید بدیع
الدین شاہ صاحب راشدی رحمہ اللہ کو اپنے جامعہ میں تقریب بخاری پر مدعو
کرنا چاہتا ہوں آپ مجھے وقت لے کر دیں لیکن ان دنوں میں کویت جانے کی
تیاری میں تھا ملاقات نہ ہو سکی رقعہ بھی چھوڑ کر گئے لیکن ایسا نہ ہو سکا
بہر حال ان کو ضلع اوکاڑہ کی جمعیت اہل حدیث کا سرپرست بنانے اور جمعیت اہل
حدیث ضلع اوکاڑہ کو منظم کرنے میں اور راقم اور بزرگوں کا بہت بڑا ہاتھ
تھا ۔‘‘
محمد علی اسد آف لاہور بیان کرتے ہیں کہ بندہ ۱۹۷۸ء
کے دھارے میں نوجوان آدمی تھا ،جب کبھی راجووال سے گزرتا تو مشفقی مربی
مولانا محمد یوسف راجووال رحمہ اللہ کے ساتھ ملاقات کی غرض سے آنا جانا
ہوتا تو ان کی میرے ساتھ بے پناہ محبت یہاں تک کہ میری داڑھی کا بوسہ لیتے
اور فرماتے کہ اسد صاحب جب یہاں سے گزریں تو حلفا نہ بھولئے یقین جانئے ان
کے مسکراہٹ بھرے الفاظ آج زندہ ہوگئے ہیں اوراتنی محبت ،مہمان نوازی کا
تصور ،اتنا خلوص محبت یقینی طور پر ایک باپ سے بڑھ کر محسوس ہوتے تھے اللہ
تعالی نے آج ان کی وفات کا وقت لایا تو ایک خالص محب رسول کی قسمت ۱۲ربیع الاول کا دن مختص ہوا یہ ہے محبت رسول کا سچا ثبوت‘‘
مولانا
محمد ابراھیم عابد منڈی کنگن پور بیان کرتے ہیں کہ ہمارے پیارے استاد آج
دنیا فانی سے رخصت ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
مدرسہ
میں پڑھنے کے لئے آیا ،تو نہایت شفقت کی ،ایک دفعہ نہیں کئی بار کنگن پور
تشریف لائے جلسہ میں خطاب فرمایا تو کہا میرے ہاتھ میں قرآن مجید ہے اس
کو کہو کہ بولے آپ چند لمحات کے لئے خاموش ہو گئے ،بعد میں فرمایا :علماء
قرآن مجید پڑھتے ہیں ترجمہ تفسیر کرتے ہیں اس لئے علما کی خوب خدمت کیا
کریں ۔الحمدللہ چھ سال علم یہاں سے حاصل کیا اور رابطہ اور تعلق میں ذرہ
بھی فرق نہ آیا ۔‘‘
شیخ
احسن عظیم حفظہ اللہ (فاضل دارالحدیث راجووال) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن
میں مختار کل کے موضوع پر چند منٹ تقریر کی تو بابا جی بہت خوش ہوئے اور
اسی وقت مجھے ایک ہزار روپے اور خطبات ضیاء کتاب انعام میں دی ۔ ایک دفعہ
مجھے اپنی لاٹھی انعام میں دی اور کہاکہ اس کے سہارے آپ نے جمعہ کا خطبہ
دینا ہو گا بعض دفعہ سر سے اپنا رومال اتار کر دے دیتے ،اور آخر میں
فرماتے آہستہ سے بیٹا دعاکرنا کہ اللہ تعالی میرا خاتمہ ایمان پر کرے۔
اور
ادارہ میں پڑھنے والے طلبا سے کہتے کہ بیٹو !تم سب اپنے ماں باپ کو چھوڑ
کر آئے ہو میں تمھاری ماں بھی ہوں اور باپ بھی، یہاں آئے ہو تو تعلیم کو
ادھورا نہیں چھوڑنا بلکہ مکمل کرکے جانا ہے۔
حافظ
اسداللہ سبحانی متعلم دارالحدیث بیان کرتے ہیں کہ بابا جی مختلف طلبا کو
اپنے پاس بلاتے اور ان سے مختلف سوالات کرتے جو جواب صحیح دیتا اس کو انعام
دیتے ۔
بابا جی اہل علم اور طالب علموں کا بہت احترام کرتے تھے :
بابا
جی صرف اللہ تعالی کی رضا کے لئے اہل علم سے محبت کرتے تھے اور ان سے ہر
طرح کا تعاون کرتے آپ اس واقعہ سے اندازہ لگائیں کہ محقق العصر عبدالقادر
حصاروی رحمہ اللہ سے بابا جی کو لوجہ اللہ محبت تھی ،اور ان کے بہت بڑے
معاون تھے ،ان کی زندگی میں بھی ان کی کئی ایک کتب شائع کیں اور ان کی وفات
کے بعد ان کے فتاوی اور مقالات کو مختلف رسالوں سے جمع کروایا اس پر اپنے
ہونہار شاگرد مولانا ابراھیم خلیل آف حجرہ شاہ مقیم کی ڈیوٹی لگائی انھوں
نے اس کام کی خاطر دور دور کے سفر کئے اور تمام چیزوں کو فوٹو کاپی کروائے۔
دوسال کی مسلسل محنت سے ان تمام علمی چیزوں کو جمع کیا اور اس پر تمام
اخراجات بابا جی نے برداشت کئے اور پھر اس کو کمپوزنگ بھی خود اپنے خرچے پر
کروایا ،سبحان اللہ ۔۔اس قدر اہل علم کا احترام اور وہ بھی مادہ پرستی کے
دور میں شاید اس طرح کی مثال دور دور نہ ملے ۔۔۔پھر اس کو مکمل سیٹنگ
کرواکے مکتبہ اصحاب الحدیث کو دے دیا اور بے لوث انھیں کہا کہ اس کو شائع
کریں انھوں نے شائع کردیا اور وہی قیمتی کتاب سات ضخیم جلدوں میں فتاوی
حصاریہ ،مقالات علمیہ کے نام سے مطبوع ہے ۔
محمد
زبیر گورداسپوری بن بہاؤ الدین بن عبداللہ گورداسپوری حفظہ اللہ بیان
کرتے ہیں کہ میں اپنے داد ا جی کے ساتھ دارالحدیث میں گیا۔ بابا جی سے
ملاقات ہوئی تو انھوں نے دادا جی کا بہت زیادہ احترام کیا اور کہا کہ مجھے
اجازت دیں میں آپ کے ہاتھ کا بوسہ لینا چاہتا ہوا اور انھوں نے دادا جی کا
بوسہ لیا۔
مجھے
شیخ عنایت اللہ امین مدرس دارالحدیث راجووال نے بیان کیا کہ جب ہم نے سنن
الترمذی مکمل بابا جی سے پڑھی تو ہمیں کہا کہ اب تم محدث گوندلوی رحمہ اللہ
سے جا کر پڑھو اور خوب محنت کرکے پڑھو۔
مجھے
شیخ عبدالرشید جیتی والے نے بیان کیا کہ ہم بابا جی کے پاس کئی سال پڑھتے
رہے اچانک بیمار ہوگئے تو ہمیں کہا بیٹا اب تم صحیح بخاری شیخ الحدیث
عبدالجبار محدث کھنڈیلوی رحمہ اللہ کے پاس جا کر پڑھیں کیونکہ وہ بہت بڑے
محدث ہیں ۔اس وقت بابا جی کی بخاری کی کلاس میں دو طالب علم تھے ۔۱:عبدالرشید جیتی والے ۲:شیخ
صدیق سلیم آف ببر کھائی مہتمم مدرسہ ضیاء الاسلام گہلن ہٹھاڑ ،ان دونوں
بزرگوں نے مکمل صحیح بخاری کھنڈیلوی رحمہ اللہ سے دارالحدیث اوکاڑہ میں جا
کر پڑھی ۔
حکیم ثناء اللہ المدنی آف محلہ تالاب والا بیان کرتے ہیں کہ بابا جی کے ساتھ میری رفاقت ۱۹۵۹سے لے کر ۱۹۶۴
تک حضرو سفر میں رہی میں نے بابا جی کو عقیدہ و منھج میں مضبوط پایا سفر
میں آپ ذکرواذکار میں مصروف رہتے تھے مجھے وہ پیار سے نمبر دار کہتے تھے
،انھوں نے مجھے وصیت کی کہ آپ نے مجھ سے صحیح بخاری پڑھ کر جانا ہو گا
،پھر انھوں نے مجھے دورہ تفسیر کے لئے ۱۹۶۲ء میں جامعہ قدس لاہور حضر ت حافظ عبداللہ محدث روپڑی رحمہ اللہ کے پاس بھیجا اور اس کے بعد دورہ تفسیر کے لئے ۱۹۶۳
میں راولپنڈی مولانا غلام اللہ صاحب کے پاس بھیجا، اور میرے زمانہ طالب
علمی سے لے کر راولپنڈی کے دورہ تفسیر تک مولانا ابراھیم خلیل آف حجرہ شاہ
مقیم میرے ساتھ رہے ۔
میاں محمد صادق گل ناظم مدرسہ مرکز التوحید چک نمبر 408
لاں دیپالپور بیان کرتے ہیں کہ میں نے بابا جی کے پاس چار سال پڑھا مشکوۃ
اول بابا جی سے پڑھی۔بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ کوئی ساتھی مدرسہ کے ساتھ
گندم کا تعاون کرنے آیا اس نے کسی طالب علم کو ڈانٹا اس کا بابا جی کو علم
ہوا تو انھوں نے تعاون لینے سے انکار کر دیا بلکہ کہا کہ پہلے طالب علم کو
راضی کریں اور اس سے معافی مانگیں پھر آپ کا تعاون قبول کروں گا ،اس نے
طالب علم سے معافی مانگی بابا جی نے پھر تعاون قبول کیا ۔
اور
بیان کرتے ہیں کہ بابا جی رات کو سونے سے پہلے مدرسہ میں آتے اور طالب
علموں سے پوچھتے کہ سب نے کھانا کھایا ہے ؟سب کے پاس بستر ہیں ؟کوئی مہمان
تو نہیں آیا ؟
اگر کھانے وغیرہ کی ضرورت ہوتی تو بابا جی سونے سے پہلے گھر سے کھانا پکوا کر اس کو کھلاتے پھر سوتے ۔
اور
بیان کرتے ہیں کہ ایک دن ایک طالب علم کو معمولی سزادی اگلے دن کہا کہ آپ
کو سزا دینے کی وجہ سے ساری رات مجھے نیند نہیں آئی اس لئے آپ مجھے معاف
کر دیں
بابا جی ناشر بھی تھے :
بابا
جی نے پوری زندگی اہم دینی کتب بھی نشر کیں ،جن کی تعداد چالیس ہے ان میں
قیمتی اور ضخیم کتب بھی شامل ہیں، کہ فتاوی حصاریہ سات جلدوں میں شائع ہوئی
یہ بابا جی کی محنت شاقہ کا نتیجہ ہے۔ فجزاہ اللہ خیرا
بابا جی باذوق اہل علم تھے ۔
بابا
جی صاحب ذوق انسان تھے ساری زندگی پڑھنے اور پڑھانے سے تعلق رہا ،ان کا
حافظہ آخر عمر تک بالکل صحیح سلامت رہا اور آنے والے اہل علم سے سوال
پوچھا کرتے تھے ،راقم نے اپنے بیٹے محمد ناصرا لدین الحسینوی حفظہ اللہ کی
پیدائش کی خوشی میں اپنے مرکز امام بخاری گندھیاں اوتاڑ قصور کے تمام شیوخ
کرام اور دارالحدیث راجووال کے تمام شیوخ کرام کی چڑوں کی دعوت دارالحدیث
میں کی تمام میں تمام دونوں جامعات کے شیوخ کو اکٹھا دیکھنا چاہتا تھا وہ
ارادہ اللہ تعالی نے میری اس دعوت پر پورا کر دیا ۔دعوت کھانے کے بعد بابا
جی کی زیارت کے لئے ان کے گھر گئے راقم نے بابا جی کو تعارف کروایا کہ مرکز
امام بخاری کے شیخ الحدیث محمدیوسف قصوری حفظہ اللہ ہیں تو انھوں نے
مصافحہ کیا اور ساتھ پوچھا کہ صحیح بخاری کا مکمل نام کیا ہے ؟شیخ محمد
یوسف قصوری حفظہ اللہ نے مکمل جواب دیا اور پھر سوال پوچھا کہ امام بخاری
اپنی صحیح بخاری میں پہلے راوی مکی سے روایت لائے اور کتاب کی آخری حدیث
مدنی راوی سے کیوں روایت لائے ہیں ؟
اور یہ واقعہ بابا جی کی وفات سے صرف تین ہفتے پہلے کا ہے ۔
مذکورہ
واقعہ سے چند دن پہلے دارالحدیث راجووال میں شیخ محمد حسین ظاہری حفظہ
اللہ تشریف لائے جب بابا جی سے ملنے گئے، واپسی پر شیخ محمد عدنان حفظہ
اللہ مدیر التعلیم دارالحدیث راجووال ملے بابا جی نام پوچھا اور پھر سوال
کیا کہ عدنان کیا صیغہ ہے اس کا کیا معنی ہے ؟
بابا
جی جب زیادہ کمزور ہو گئے تو اپنے دوست بزرگ محمد علی جوہر حفظہ اللہ سے
کہا کہ داود راز رحمہ اللہ والی شرح صحیح بخاری مکمل مجھے لفظ بلفظ سناو
میں سننا چاہتا ہوں ،تو محمد علی جوہر حفظہ اللہ نے لفظ بلفظ ساری شرح صحیح
بخاری باباجی کو پڑھ کر سنائی۔سبحان اللہ ،علم کی پیاس آخر دم تک بجھاتے
رہے اور اس سے تعلق رکھا ۔
بابا
جی کی وفات سے تین ہفتے پہلے ہمیں فضیلۃ الشیخ عبیدالرحمن محسن حفظہ اللہ
کہنے لگے کہ آج والد محترم فرمارہے کہ بیٹا فلاں شعروں کی کتاب کو اب جلدی
شائع کریں وہ میں نے عورتوں کو کتاب پڑھانی ہے ۔سبحان اللہ ۔
شیخ الحدیث محمد یوسف محدث راجووالوی رحمہ اللہ اپنے لئے بخشش کی دعائیں بہت کروایا کرتے تھے
انسان
غلطی کا پتلا ہے اسے خود بھی اپنے گناہوں کی معافی مانگتے رہنا چاہیئے اور
ساتھیوں سے بھی گزارشت کرتے رہنا چاہئے کہ دعا کردیں اللہ تعالی میرے گناہ
معاف کرے ۔سبحان اللہ یہ ایک اہم وصف ہے اس میں عاجزی ہے اور اپنے آپ کو
تکبر سے بچانا ہے ،انسان کو کبھی اپنی آخرت سے غافل نہیں ہونا چاہیے ۔
محمد
عارف آف راجووال بیان کرتے ہیں کہ بابا جی نے مجھے کہا کہ بیٹا میرے فوت
ہونے کے بعد اور جنازہ پڑھنے سے پہلے دو رکعت پڑھ کرمیری بخشش کی دعا کرنا
۔‘‘
بابا
جی وفات سے چند ہفتے پہلے دارالحدیث راجووال فضیلۃا لشیخ محمد حسین ظاہر ی
حفظہ اللہ تشریف لائے کھانے سے فارغ ہو کر ہم بابا جی سے ملاقات کرنے کے
لئے گئے تو بابا جی سے بات چیت ہوئی اس میں بابا جی نے راقم (ابن بشیر
الحسینوی )سے کہا کہ آپ کے والد محترم زندہ ہیں ،راقم نے کہا جی زندہ ہیں
تو انھوں نے کہا کہ اپنے والد سے کہنا کہ میرے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالی
مجھے معاف کریں اور ساتھ شعر پڑھنے لگے کہ
جے دیکھیں میرے عملاں ولے کجھ نہیں میرے پلے
اور سب ساتھیوں سے کہا کہ دعا کریں میرا خاتمہ ایمان پر ہو ۔سبحان اللہ ۔اللہ تعالی کے ولیوں کی یہی فکر ہوتی ہے ۔
محمد
اقبال عابد بیا ن کرتے ہیں :کہ میں ایک ادنی سا آپ کا شاگرد ہوں میں نے
آپ سے مشکوۃ المصابیح مکمل پڑھی تھی آپ بڑے شفیق اور محبت کرنے والے
استاد تھے اور آپ ہم کو سبق پڑھاتے پڑھاتے کئی دفعہ پریشان ہو جاتے تھے
اور ہم سب کلاس والوں سے یہ وعدہ لیتے تھے کہ آپ میرے ساتھ یہ وعدہ کریں
میر ا جنازہ ضرور پڑھنا ہے میں بہت گناہ گار ہوں اور ہم نے الحمدللہ یہ
وعدہ پورا کیا ہے اور اس شفیق اور محبت کرنے والے استاد کے شاگرد ہونے کا
حق ادا کیا ہے ۔‘‘
شیخ الحدیث رحمہ اللہ کا اپنے ہم عصروں کے ہاں مقام :
راقم نے بابا جی کی بہت زیادہ تعریف سنی اور پڑھی ہے اس سے چند حوالاجات پیش خدمت ہیں ۔
خطیب
اہل حدیث عبداللہ گورداسپوری لکھتے ہیں :’’آپ بہت بڑے عالم دین ،محدث اور
تقوی و زہد میں عظیم مقام رکھتے ہیں ۔(مرحوم دوست عبداللہ سلیم کی یاد میں
صـ۶۹)
بابا جی کامل آہل میں
محمد
وسیم قصوری متعلم مرکز امام بخاری گندھیاں اوتاڑ قصور بیان کرتے ہیں کہ
بابا جی تقسیم پاکستان کے وقت ہمارے گاوں کامل آہل منڈی عثمان تشریف لائے
میرے دادا جی نے ان کو جگہ دی وہاں بابا جی نے دین کا کام شروع کر دیا اس
گاوں کے نوجوانوں کو فارسی کی کتب پڑھائیں اس کے بعد وہاں ہی آپ نے بڑے
بزرگوں کر پڑھانے کا کام بھی شروع کیا ،پھر کچھ عرصہ بعد آپ مستقل راجووال
آگئے
باباجی کی نصیحتیں
بابا
جی اپنے تلامذہ ،احباب کو اچھی اچھی نصیحتیں کیا کرتے تھے ،تاکہ وہ ان پر
چل کر کامیابی حاصل کریں انھیں نصیحتیں میں چند جو ہمیں ملی ہیں درج ذیل
ہیں ۔
عبدالمجید
حفظہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن ہم چند ساتھی بابا جی کو چھت پر لے کر
گئے تو باباجی نے ہم سے پوچھا کہ کس جگہ سے ہو ہم نے کہا کہ اوکاڑہ سے ہیں
بابا جی بہت خوش ہوئے تو ہم نے پوچھا بابا جی دعا کیسے کرنی چاہئے تو بابا
جی نے فرمایا بیٹا:ہمیشہ اللہ تعالی کے ناموں سے دعا کرنی چاہئے ۔‘‘
حافظ
حمزہ بیان کرتے ہیں کہ بابا جی فوت ہونے سے تین ماہ پہلے ایک دن ہم بابا
جی کو چھت سے نیچے اتارنے کے لئے گئے تو بابا جی کی طبیعت بہت زیادہ خراب
تھی ان کو اپنی خبر نہیں تھی جب نیچے لا رہے تھے تو میرے ساتھی نے سر پر
ٹوپی نہیں لی تھی توبابا جی کی نظر جب اس بچے پر پڑھی تو فورا اس کو نصیحت
کی کہ بیٹا سر ننگے نہیں رکھنا چاہئے ہر وقت سر کو ڈھانک کر رکھو ۔ ظہور
احمد خان حفظہ اللہ بیان کرتے ہیں :
میں
دارالحدیث میں پڑھتا تھا اور ساتھ انٹر کی تیاری بھی کررہا تھا ایک دن
بابا جی نے مجھے دیکھ لیا کہ میں سکول کی کتب پڑھ رہاہوں مجھے اپنے پاس
بلایا اور پوچھا کہ بیٹا کس چیز کی تیاری کررہے ہو ؟ میں نے کہا کہ انٹر کی
۔تو بابا جی نے مجھے نصیحت کی کہ بیٹا اس دنیا کے پیپروں کی تیار تو تم
کررہے ہو لیکن کبھی اس دنیا کی جو کہ دائمی زندگی ہے اس کی تیاری بھی کی ہے
بابا جی نے کہا بیٹا اصل تیاری تو آخرت کی ہے اس کے لئے بھی تیاری کرو
۔‘‘
مجھے
شیخ رفیق زاہد حفظہ اللہ مدرس دارالحدیث راجووال نے بیان کیا ہے کہ بابا
جی نے مجھے تین نصیحتیں کی اور وعدے کئے اور میں نے دو پر تو عمل کرلیا ہے
لیکن تیسرے کا علم نہیں پورا ہوتا ہے ہے کہ نہیں ۔۔
۱:اگر گوجرانوالہ سے ادارہ کو چھوڑنے کاارادہ ہو تو واپس میرے ادارے میں ہی آنا ہے ۔
۲:میرا جنازہ پڑھنا ہے ۔
۳:میرے اور میری اولاد کے ساتھ وفا کرنی ہے ۔
مجھے
مولانا سلیم عبداللہ آف کھڈیاں نے بیان کیا کہ بابا جی نے مجھے نصیحت کی
کہ جمعہ ضرور پڑھایا کرو اگر کوئی تعاون کر دے تو ٹھیک ورنہ اس کا اجر آپ
کو اللہ تعالی دے گا ،ان شاء اللہ اور جب بھی جمعہ پڑھاو پوری تیاری کرکے
پڑھاو ،میرا شاگرد محمد ابراھیم خلیل آف حجرہ شاہ مقیم پوری تیاری کرکے
جمعہ پڑھاتا ہے اس لئے وہ مجھے بہت اچھا لگتا ہے ۔
احمد
حسن متعلم دارالحدیث راجووال بیان کرتے ہیں کہ میں بابا جی کی خدمت میں
حاضر ہوا اور سلام بلایا لیکن بابا جی کو سنائی نہ دیا تو انھوں نے پوچھا
کہ مجھے سلام کہا ہے تو نے میں نے کہا جی ۔تو انھوں نے کہا دوبارہ کمرہ سے
باہر جاؤ پھر اونچی آواز میں سلام بلا کر داخل ہو ،اور میں نے اسی طرح
کیا پھر بابا جی نے مجھے نصیحت کی کہ بیٹا جب بھی کسی سے ملاقات کرو تو سب
سے پہلے السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہو ۔اور میرے لئے دعا کرنا کہ جب
میں فوت ہونے کے بعد اللہ تعالی کے دربار میں حاضر ہوں تو اللہ تعالی مجھے
کہے کہ اے یوسف تو میرے دین کا کام کرتا رہا ہے جا میں نے تجھے معاف کر
دیا ،اور یہ بھی نصیحت کی کہ بیٹا بڑو ں اور اساتذہ کا احترام کرنا ہے ،اس
میں تمہاری کامیابی ہے اور السلام علیکم کہنے میں پہل کرو نماز قائم کرو
اور میرے لئے خاتمہ بالایمان کی دعا کرو،یہ سب باتیں کیں اور ساتھ رونے لگے
۔
حافظ محمد بلال حسین فاضل دارالحدیث راجووال، لائبریرین جامعہ ہذا نے بیان کیا کہ بابا جی نے مجھے دو نصیحتیں کیں :
۱:طالب علم کو اپنی تعلیم مکمل کرنی چاہئے نا مکمل تعلیم انسان کو پریشان کرتی ہے ۔
۲:خطیب کو جمعہ پڑھاتے وقت پرچیوں کا سہارا نہیں لینا چاہئے خطبہ زبانی دینا چاہئے
شیخ الحدیث محمد یوسف محدث راجووالوی رحمہ اللہ کے قیمتی اقوال
بابا
جی رحمہ اللہ جب بھی کلام کرتے تو انتہائی باوزن باتیں کرتے جن میں دانائی
اور حکمت نظر آتی ،اس باب میں انھیں باتوں کو جمع کیا جا رہا ہے ۔
محمد
سہیل متعلم دارالحدیث راجووال بیان کرتے ہیں کہ بابا جی فرماتے تھے :’’اگر
آپ کسی کے اندر کوئی خوبی دیکھیں تو اس کو اپنے دل کے اندر جگہ دیں اور
اگر کسی کے اندر کوئی خامی دیکھیں تو اس کو لوگوں کے اندر مشہور نہ کریں۔‘‘
حافظ
محمد سلیم عابد یزدانی خطیب پاکپتن حفظہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ باباب جی
ایک دفعہ میری مسجد پاکپتن میں تشریف لائے وہاں بابا جی نے مجھے بہت زیادہ
باتیں سمجھائیں ان میں یہ بھی کہا کہ بیٹا شہر دیہاتوں سے بہتر ہوتے ہیں
آپ شہر کی مسجد میں ہیں یہاں ٹک کر کام کرنا ہے ،پتھر ایک ہی جگہ پڑا رہے
تو اس کا وزن ہوتا ہے ۔
بابا جی لاوارثوں اور محتاجوں کی خود پرورش کرتے اور ن کی شادیاں بھی خود کرتے۔
بابا
جی ایک نہایت رحم دل انسان تھے ساری زندگی لاوارثوں کو اپنے گھر میں پالتے
تھے خواہ بچیاں ہوں یا بچے اور خود ان کی شادی کرتے تھے ،شیخ غلام اللہ
رحمہ اللہ اور ان کی بہن لاوارث تھے والدین فوت ہو چکے تھے دونوں کو اپنے
گھر میں رکھا اور خوب پرورش کی اسی طرح مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ
آف ڈھنگ شاہ بھی لاوارث تھے ان کو بھی اپنے گھر میں پالا جب یہ تینوں
افراد جوان ہوئے تو مولانا غلام اللہ کی شادی مولانا عبدالعزیز رحمہ اللہ
آف اوکاڑہ کی بیٹی سے کی اور اپنے گھر سے بارات لے کر گئے سبحان اللہ اسی
طرح انھوں نے ان کی بہن کی شادی مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ سے کی
۔سبحان اللہ ۔
اللہ
تعالی نے بابا جی کو انتہائی مہربان دل دیا تھا ،اسی طرح مولانا محمد صدیق
سلیم مہتمم ضیاء السنۃ گہلن ہٹھاڑ کی بارات بھی اپنے گھر سے لے کر گئے
اورانھیں شادی کی پہلی رات سے ہی اپنے پاس مکان دیا،اور ساری عمر ان سے وفا
کی ۔
ابھی
چند سال پہلے بابا جی نے ایک غریب بچی کو گھر میں پالا تھا پھر اس کی شادی
کی ،اور مجھے شیخ عتیق اللہ فاضل دارالحدیث راجووال نے بتایا کہ بابا جی
شیخ عبیدالرحمن محسن حفظہ اللہ کو کہا ہوا ہے کہ آپ نے ماہانہ مخصوص رقم
الگ رکھنی ہے تاکہ آپ اپنے خرچے پر عتیق اللہ کی شادی کر سکیں ۔یاد رہے
عتیق اللہ بھائی بابا جی کی آخری عمر کا خادم خاص تھا ۔
بابا جی مہمان نواز تھے ۔
اللہ
تعالی نے بابا جی کو مہمان نوازی کی عظیم صفت سے نوازا تھا جب بھی کوئی
مہمان آتا اس کو خدمت کئے بغیر اس کو نہ جانے دیتے اور مہمان نوازی میں
کھانا وغیرہ گھر سے خود لاتے تھے ،اور کہتے کہ میں نیکی لینے کی خاطر یہ
خود کام کرتا ہوں اور کبھی فرماتے کہ یہ مہمان میرا ہے میں ہی اس کی خدمت
کروں گا۔
شیخ الحدیث رحمہ اللہ لوگوں سے معافی مانگا کرتے تھے کہ شاید کسی سے میں نے زیادتی کی ہو ۔
بڑے
لوگوں کی یہ صفت ہوتی ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں سے معافی مانگ لیتے ہیں کہ
شاید کہیں غفلت میں کسی کی دل آزاری نہ کی ہو ،اور اگر انسان ہونے کے ناطے
غصہ میں کسی کو جھڑک دیا تو فورا اس سے معافی مانگی اور معافی مانگے کا
انداز بھی اس قدر عجیب ہوتا کہ خود بھی روتے اور اگلے کو بھی رلاتے ۔
قیصر
شریف بن حاجی شریف آف راجووال بیان کرتے ہیں کہ ایک دن بابا جی نے اپنی
سخت بیماری کی حالت میں والد محترم کو پیغام بھیجا کہ میری بات سنیں ہم
آئے میںا بو جی کے ساتھ تھا بابا جی نے دو کرسیاں منگوائیں ہم ان پر بیٹھ
گئے اور کہا کہ شریف صاحب مجھے معاف کر دیں ،اس پر والد محترم نے کہا کہ
بابا جی آپ نے مجھ سے کوئی زیادتی نہیں کی جس کی وجہ سے میں آپ کو معاف
کردوں، اس پر بابا جی اصرار کرنے لگے کہ میں نے غلطی کی یا نہیں کی پھر بھی
آپ مجھے معاف کر دیں اور یہ کہہ کر بابا جی مسلسل رونے لگے اتنا روئے کہ
میں اور میرے والد محترم بھی زارو قطار رونے لگے ،اورآخر میرے والد محترم
نے کہا کہ بابا جی میں نے آپ کو معاف کیا ۔سبحان اللہ ۔
راقم
کو شیخ عنایت اللہ امین حفظہ اللہ نے بتایا کہ بابا جی نے کسی وجہ سے
عبدالوحید بھائی جو کہ اس وقت مدرسہ میں خادم تھے صفائی میں کمی کی وجہ سے
ڈنڈا ما ردیا پھر کچھ منٹوں بعد بابا جی نے مجھے کہا کہ جاو اور عبدالوحید
کو لاو میں بڑی مشکل سے اسے لایا اور بابا جی نے اس کو اپنا ڈنڈا دیا اور
کہا کہ جس طرح میں نے تجھے مارا اسی طرح مجھے مار لے اور اپنا بدلہ لے لے
اس پر بڑا اصرار کیا جب عبدالوحید نے ڈنڈا نہ پکڑا تو بابا جی نے کہا کہ
اگر بدلہ نہیں لینا چاہتا تو مجھے معاف کر دے اس نے کہا کہ بابا جی میں نے
آپ کو معاف کر دیا اس پر بابا جی بہت زیادہ روئے اور ساتھ عبدالوحید بھی
روتا رہا ۔‘‘
صدام
حسین متعلم دارالحدیث راجووال بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنی آنکھوں سے
دیکھا کہ بابا جی آخری عمر میں مسجد میں کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھتے تھے
ایک دن ان کی کرسی کے ساتھ باباصدیق بیٹھے ہوئے تھے ان کو اپنی لاٹھی مار
دی پھر پریشان ہوئے اور حاجی جوہر محمد کو اپنے ساتھ لے کر ان کے گھر گئے
اور ان سے معافی مانگی۔
بابا جی ادارے کے معاونین کو اپنی دعاوں میں یاد رکھتے تھے ۔
عبدالمنعم
حفظہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک دفعہ بابا جی سے ملنے آیا انھوں نے
مجھ سے پوچھا کہ کہاں سے آئے ہو تو میں نے کہا کہ ڈاہر سے ،بابا جی فرمانے
لگے کہ میں جب آپ کے گاوں میں گیا وہاں کے لوگ میرے ادارے کے ساتھ دل
کھول کر تعاون کیا تھا، میں آپ کے گاوں کے لوگوں کے لئے بہت زیادہ دعائیں
کرتا ہوں ۔
شیخ الحدیث محمد یوسف محدث راجووالوی رحمہ اللہ مستجاب الدعوات تھے
اس
باب میں باباجی کے متعلق وہ واقعات بیان کئے جائیں گے جن سے بابا جی کا
مستجاب الدعوات ہونا ثابت ہوتا ہے ،سبحان اللہ واقعی نیک لوگوں کا تعلق
اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس قدر گہرا ہوتا ہے کہ جب بھی انھیں کوئی ضروری کام
ہوتا ہے تو وہ فورا اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں اللہ تعالی اپنے ولی بندوں
کی دعا کو رد نہیں کرتے ۔
ماسٹر
عبدالرزاق بن محمد سلطان آف راجووال بیان کرتے ہیں کہ :ایک دفعہ
دارالحدیث کی سالانہ کانفرنس تھی بادل بہت زیادہ بن گیا لوگ ڈر گئے کہ اب
پروگرام ناکام ہو جائے گا بابا جی کمرے میں داخل ہوئے اور دو رکعت نماز
پڑھی اور اللہ تعالی سے گڑ گڑا کر دعا کی فورا بادل ختم ہوگیا اور بڑا
کامیاب پروگرام ہوا ۔
مجھے
شیخ عنایت اللہ امین مدرس دارالحدیث راجووال نے بیان کہ کہ میں باباجی سے
پڑھنے کے دوران ایک دفعہ ادارہ چھوڑ گیا تھا ،جب گھر پہنچا تو والد محترم
نے کہا کہ میں نے تجھے بابا جی کے مدرسہ سے ہی پڑھانا ہے اور مجھے واپس
ادارہ میں چھوڑنے کے لئے آگئے ،جب بابا جی سے ملاقات ہوئی تو بابا جی نے
میری پیشانی کابوسہ لیا اور کچھ پڑھا اس کے بعد میرا دل کبھی بھی مدرسہ میں
پڑھنے سے پریشان نہیں ہوا ۔
شیخ الحدیث محمد یوسف محدث راجووالوی رحمہ اللہ قرآن و حدیث پر سختی سے پابند تھے ۔
اللہ
تعالی کے برگزیدہ بندوں کی اول صفت یہی ہوتی ہے کہ وہ قرآن و حدیث کے
پابند ہوتے ہیں اور ولی حقیقت میں وہی ہوتا ہے جس کی زندگی کا ہرہر کام
قرآن وحدیث کے مطابق ہو ،افسوس کے بعض لوگوں نے ننگے اور عقل سے عاری
لوگوں کو اور بدعات و خرافات سے محبت کرنے والوں کو ولی سمجھ رکھا ہے ،اللہ
تعالی ان لوگوں کو ہدایت عطافرمائے آمین ۔
مبشر
ارشد حفظہ اللہ بیان کرتے ہیں :’’ایک دن بابا جی کے پاس کچھ لوگ آئے سب
نے دونوں ہاتھوں سے سلام لینے کی کوشش کی لیکن بابا جی نے ان کے ہاتھوں کو
پیچھے کر دیا اور ان میںا یک آدمی نے ایک ہاتھ سے سلام لیا بابا جی اس سے
سلام لیا بلکہ اس کے ہاتھ کو چوما بھی ۔‘‘
بابا جی الاعتصام ہفت روزہ لاہور کے معاون خاص تھے۔
حافظ
صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ لکھتے ہیں :الاعتصام پر جب بھی بحران آیا حضرت
مولانا حفظہ اللہ بساط بھر اس کے تعاون میں پیش پیش رہے۔(مرحوم دوست
عبداللہ سلیم کی یاد میں ص:۷۸)
اور محتر م حافظ احمد شاکر حفظہ اللہ ہفت روزالاعتصام (۲۴تا۳۰جنوری ۲۰۱۴)کے
اداریے میں لکھتے ہیں: الاعتصام سے ان کا تعلق شروع دن سے تھا اور اب تک
ہے الاعتصام سے ان کی غایت محبت یہ تھی کہ وہ الاعتصام پر تعاون کی برکھا
بھی برساتے رہے ۔
بابا جی تہجد گزار تھے ۔
مجھے مولانا عبدالرشید جیتی والے حفظہ اللہ نے بیان کیا کہ میں بابا جی کا
پہلا شاگرد ہوں، جب دارالحدیث کی عمارت کچی اینٹوں کی ہوتی تھی مسجد کچی
تھی اور ایک کمرہ کچاتھا ،اس وقت بابا جی نوجوان تھے لیکن اس وقت بھی تہجد
گزار تھے ،اور ہمیں روزانہ خود بیدار کرتے تھے جو طالب علم تہجد نہ پڑھتا
اس کو ڈانتے تھے ۔
محمد
نصیر احمد خان پہرے دار دارالحدیث راجووال بیان کرتا ہے کہ آدھی رات کے
وقت جب بھی میں دارالحدیث میں آتا کسی حاجت کے لئے تو بابا جی کو تہجد
پڑھتے ہوئے دیکھتا اگر بابا جی کے قریب جاتا تو بابا جی مجھے کہتے بیٹا میں
بہت گناہ گار انسان ہوں میرے لئے دعا کیا کریں اللہ تعالی مجھے معاف
فرمائے ۔
شیخ الحدیث رحمہ اللہ طلبا کے متعلق بہت زیادہ فکر مند رہتے تھے ۔
بابا
جی کا اصل سرمایہ علوم نبوت کے طلبا ہی تھے ان کی خاطر زندگی وقف کر رکھی
تھی یہی وجہ ہے کہ ان کے تمام طلبا ان سے خاص تعلق رکھتے ہیں ۔
حافظ
محمد امین آف جمشیر کلاں بیان کرتے ہیں کہ بابا جی طلبا سے بہت زیادہ
پیار کرتے تھے اور ان سے نہایت خوش طبعی سے ملتے تھے ۔‘‘
راقم
کے شاگرد رشید شیخ عبدالخالق سیف مدرس مرکز امام بخاری گندھیاں اوتاڑ قصور
نے بیان کیا کہ مولانا صاحب نے مجموعۃ الرسائل میں معلمین کو نصیحت کرتے
ہوئے کہا ہے کہ معلمین کو چاہئے کہ وہ ہر وقت باوضو رہا کریں او ر طلبا کو
اتنا نہ ماریں جس سے ان کو سخت نقصان ہو جائے ،اگر زیادہ مارا جائے توقیامت
کے دن پوچھ ہو گی ،اور فرمایا کرتے تھے کہ طلبا کو پڑھاتے ہوئے ان کو
اجراء زیادہ سے زیادہ کروایا جائے ۔‘‘
بابا
جی کی وصیتوں میں سے ایک یہ تھی میری وفات کی وجہ سے طلبا کی پڑھائی کا
حرج نہیں ہو نا چاہیے بس چند گھنٹے کلاسز نہ لگیں تاکہ میرے نماز جنازہ میں
شریک ہو سکیں اور پھر اسی طرح پڑھائی اپنے شڈول سے ہو،اور الحمدللہ
دارالحدیث میں اسی طرح ہوا ،وفات والے دن صبح دس بجے تک تمام شعبوں کی
کلاسز جاری رہیں پھر نماز مغرب کے بعد بھی شڈول کے مطابق تمام کلاسز لگیں
۔سبحان اللہ اس سے بھی بابا جی کی طلبا کے متعلق فکر عیاں ہوتی ہے ۔
حافظ
عتیق الرحمن آف منڈی واربرٹن بیان کرتے ہیں کہ میں نے سنا تھا کہ بابا جی
کے جب بھی کوئی طالب علم آتا اس کو کھانا ضرور کھلاتے تھے اور اگر اس کے
پاس پیسے نہ ہوتے تو اس کو پیسے بھی دیتے ۔‘‘
مولانا سعید حامد ساجد حفظہ اللہ لکھتے ہیں:۹۹۷ا
کی بات ہے جب حضرت بابا جی رحمہ اللہ ہمیں بخاری شریف پڑھاتے تھے فجر کی
نماز سے سلام پھیرتے ہی مجھے آواز دی ،مولوی سعید بخاری بخاری والے
ساتھیوں کو کمرے میں لے چلو پھر اسی وقت کمرے میں خود بھی تشریف لائے اور
پوچھا رات نوافل کس کس نے پڑھے ہیں۔ سب سے پوچھتے ،اسی طرح مسواک کا پوچھتے
اور فرمایا کہ تمام طلبا قرآن مجید سے ایک ایک پارہ تلاوت کرلیں پھر صحیح
بخاری پڑھتے ہیں ،ہم سب نے ایک ایک پارہ پڑھا اور بابا جی نے بھی مکمل ایک
پارہ پڑھا ۔
شیخ الحدیث محمد یوسف محدث راجووالوی رحمہ اللہ ولی اور متقی انسان تھے ۔
اس
علم کا کیا فائدہ جو انسان کو متقی نہ بنائے ،بعض لوگ علم ہونے کے باوجود
بھی عمل سے عاری ہوتے ہیں حقیقت میںا ن کے پاس علم نہیں ہوتا ،بابا جی علم
اور عمل سے مزین شخصیت تھی وہ وقت کے ولی تھے اور اللہ تعالی سے ڈرنے والے
تھے ۔
عبیداللہ
انور ناظم تبلیغ مرکزی جمعیت اہل حدیث ضلع خانیوال بیان کرتے ہیں کہ علامہ
احسان الہی ظہیر رحمہ اللہ نے بابا جی کے مدرسے میں ایک کانفرنس میں تقریر
کرتے ہوئے کہا تھا :لوگو تم کہتے ہو کہ اہل حدیثوں میں ولی کوئی نہیں ۔میں
کہتا ہوں مولانا محمد یوسف راجووالوی زندہ ولی ہیں ۔‘‘
فضیلۃ
الشیخ محمد حسین ظاہری حفظہ اللہ بیان کرتے ہیں: ’’علامہ صاحب رحمہ اللہ
ان سے ان کے اخلاص کی بدولت بہت محبت کرتے اور اپنا پیر کہتے تھے۔‘‘
شیخ الحدیث رحمہ اللہ بہت زیادہ ذکر و اذکار اور تلاوت قرآن مجید کرنے والے تھے ۔
ذکر اور تلاوت قرآن مجید کی فضیلت سے کون بے خبر ہے، بابا جی نے ساری زندگی ان دونوں چیزوں کا مضبوطی سے لازم پکڑے رکھا ۔
بابا جی کے بعض شاگردوں نے کہا کہ بابا جی روزانہ دس پارے قرآن مجید کی تلاوت کیا کرتے تھے
اور بعض نے کہا کہ روازانہ پانچ پارے تلاوت کرتے تھے ۔
اور بعض نے کہا کہ روزانہ تین پارے تلاوت کرتے تھے۔
یہ تمام باتیں صحیح ہیں جس نے جو دیکھا وہ بیان کر دیا ،
اور
شیخ عنایت اللہ امین حفظہ اللہ نے بتایا کہ بابا جی کسی وجہ سے اگر تلاوت
نہ کرتے تو اگلے دن تلاوت کی قضائی دیتے تھے ۔سبحان اللہ ۔
مجھے
مولانا ہارون الرشید آف بھوئے آصل خادم خاص بابا جی نے بتایا کہ جب بابا
جی کا بیٹا عبداللہ سلیم رحمہ اللہ وفات پاگئے تو اس کے بعد کثر ت سے السلام علینا وعلی عباداللہ الصالحین
پڑھا کرتے تھے ایک دن میں نے پوچھا کہ بابا جی آپ اس کا اس قدر ذکر کیوں
کرتے ہیں فرمانے لگے کہ میں اپنے بیٹے عبداللہ سلیم کو سلام بھیجتا ہوں ۔
شیخ الحدیث رحمہ اللہ کے تلامذہ ۔
بابا جی کے تلامذہ کی فہرست بہت طویل ہے۔۔۱۹۴۹ سے لے کر جنوری ۲۰۱۴تک کے عرصے میں مسلسل طلبا باباجی سے استفادہ کرتے رہے ،بابا جی کے شاگردوں میں سے چند ایک جو ابھی مستحضر ہیں ۔
ڈاکٹر عبدالرحمن یوسف ،شیخ الحدیث دارالحدیث راجووال
ڈاکٹر عبیدالرحمن محسن مہتمم دارالحدیث راجووال
شیخ الحدیث محمد علی جانباز رحمہ اللہ مولف انجاز الحاجۃ شرح سنن ابن ماجہ ۔
شیخ عنایت اللہ امین مدرس دارالحدیث راجووال
شیخ محمد یحی محمدی مدرس دارالحدیث راجووال
شیخ حکیم ثناء اللہ مدنی آف محلہ تالاب والا۔
شیخ
عبدالرشید جیتی والے مقیم حال نئی آبادی راجووال کافی عمر رسیدہ ہیں ساری
زندگی تدریس و امامت و خطابت کرتے رہے اب گھر میں ہوتے ہیں ۔
شیخ الحدیث محمد صدیق سلیم ،مہتمم ضیاء السنۃ گہلن ہٹھاڑ
فضیلۃ
الشیخ عبدالرحمن عزیز الہ آبادی آف حسین خانوالا، پتوکی رئیس ادارہ امر
بالمعروف والنہی عن المنکر۔ (مشہور و معروف مصنف وناشر)
شیخ الحدیث حافظ عبدالخالق سلفی مہتمم جامعہ دارالاسلام السلفیۃ کھڈیاں خاص
محمد عمر ربانی آف سریسر ہٹھاڑ الہ آباد
حافظ بلال حسین ،لائبریرین دارالحدیث راجووال
حافظ نظام الدین ،معاون ابن بشیر الحسینوی ۔
حافظ اکرام اللہ ،آف پل دھول ۔
ماسٹر محمد حسن بلوچ رسولنگری
فضیلۃ الشیخ القاری محمد ادریس العاصم حفظہ اللہ (دارالحدیث میں دورہ تفسیر کیا)
فضیلۃ
الشیخ استاد محترم عبدالرشید راشد رحمہ اللہ آف پسرور (راقم کے مربی اور
بہت بڑے محسن یہ وہی شخصیت ہیں جنھوں نے مجھے تحقیق و تصنیف کا فن سکھایا
،کئی سال جامعہ رحمانہ لاہور میں حدیث کے استاد رہے ۔انھوں نے بھی
دارالحدیث میں دورہ تفسیر کیا ۔)
شیخ احسن عظیم حفظہ اللہ
محمد اسماعیل قریشی آف راجووال
محمد عبداللہ بن محمد اسماعیل قریشی آف راجووال
قاری محمد صدیق انجم بن محمد اسماعیل قریشی آف راجووال
ثناء اللہ بن محمد اسماعیل قریشی آف راجووال
محمد یونس بن محمد اسماعیل قریشی آف راجووال
مولانا سعید حامد ساجد خطیب شیر نگر اوکاڑہ
شیخ الحدیث رحمہ اللہ دینی کتب شائع کرتے اور پھر سارا ایڈیشن فری تقسیم کردیتے
اپنی
زندگی میں بابا جی نے بذات خود چالیس قیمتی کتب شائع کی ہیں اور ہر ہر
کتاب فری تقسیم کرتے تھے ،سبحان اللہ۔یہ مثال بھی شاید مادہ پرستی کے دور
میں دور دور تک نہ ملے ۔
حافظ
سلیم عبداللہ یزدانی آف کھڈیاں بیان کرتے ہیں کہ میں بابا جی کی خدمت میں
حاضر ہوا تو انھوں نے مجھے المتجر الرابح دو جلدوں میں اپنے بیٹے ڈاکٹر
عبدالرحمن یوسف حفظہ اللہ کے ترجمہ والی تحفہ دی ۔اور نماز محمدی بھی دی
اور ساتھ فرمایا کہ بیٹا یہ کتاب بڑی پڑھنے والی ہے ۔
تقریبا ۲۰۰۶ میں
بابا جی ہمارے ادارے مرکز امام بخاری گندھیاں اوتاڑ قصور میں مسجد کے سنگ
بنیاد کے موقع پر گئے تو اپنے ساتھ المتجر الرابح کتاب لے کر گئے اور ہمارے
ادارے کو تحفہ دیا ۔
شیخ عنایت اللہ امین حفظہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ بابا جی لوگوں کو کتب تحفے میں بہت زیادہ دیتے تھے ۔
محدث راجووالوی اور ۱۴ جنوری ۲۰۱۴ کا دن
۱۴
جنوری کا دن انتہائی افسوس ناک دن تھا کہ اذان فجر سے پہلے راقم اپنے کمرے
میں مطالعہ میں مصروف تھا اچانک دروازے پر دستک دی گئی دروازہ کھولا تو
شیخ عدنان حفظہ اللہ نے کہا کہ محترم بابا جی وفات پاگئے ہیں انا للہ وانا
الیہ راجعون ۔کہتے ہوئے،دعاوں کا سلسلہ شروع کر دیا ۔اور نماز فجر شیخ عبید
الرحمن محسن حفظہ اللہ نے پڑھائی بڑی مشکل سے قرات کر رہے تھے اور مختصر
سی سورتوں پر اکتفا کیا پھر دعاقنوت بھی کی پھر نماز کے بعد والد محترم کی
چند نصیحتیں بیان کیں مثلا :مجھے نئی آبادی راجووال کے قبرستان میں دفنانا
،میرا جنازہ میر بڑا بیٹا حافظ عبدالرحمن پڑھائے ،اور میرے کفن کا اہتمام
محمد علی جوہر کرے ۔میرے جنازے سے پہلے میری تعریف میں تقاریر نہ کرنے دینا
اس موقع پر سب سے بڑی عبرت خود میت ہوتی ہے ۔میرے فوت ہونے کی وجہ سے
مدرسہ کی کلاسز کو مسلسل جاری رکھنا ہے تاکہ طلباء کی تعلیم کا حرج نہ ہو
،بس چند گھنٹے پڑھائی کا تعطل کرلینا تاکہ تمام طلبا میرے جنازے میں شریک
ہو سکیں ۔
ان تمام نصیحتوں پر عمل کیا گیا والحمدللہ۔
اور
ملک پاکستان کے کونے کونے سے سر زمین راجووال میں اہل علم و علوم نبوت کے
طلبا اور عام لوگ تشریف لائے جو کم و بیش بیس ہزار سے زیادہ ہوں گے ،اور
نماز جنازہ محترم ڈاکٹر عبدالرحمن یوسف حفظہ اللہ پڑھائی دوسرا نماز جنازہ
پروفیسر حافظ ثناء اللہ خان حفظہ اللہ نے پڑھائی اور جو حضرات اور لیٹ ہو
گئے ان کے لیے بابا جی کی قبر پر نماز جنازہ کا اہتمام کیا گیا۔
جامعہ
سلفیہ فیصل آباد سے استاد محترم شیخ الحدیث عبدالعزیز علوی، شیخ یونس بٹ،
شیخ عبدالحنان اور پروفیسر نجیب اللہ طارق، پروفیسر یسین ظفر استاد محترم
شیخ مسعود عالم حفظہم اللہ نماز جنازہ میں شامل ہوئے۔ جامعہ محمدیہ
گوجرانوالا سے استاد محترم شیخ الحدیث عبدالحمید ہزاروی، شیخ خالد بشیر
مرجالوی وغیرہ آئے تھے اور جامعہ رحمانیہ لاہور سے استاد محترم شیخ الحدیث
حافظ ثناء اللہ مدنی، استاد محترم شیخ رمضان سلفی، شیخ حسن مدنی، شیخ شفیع
طاہر حفظھم اللہ تشریف لائے تھے ۔
اور
فیصل آباد ستیانہ بنگلہ مدرسہ سے استاد محترم شیخ الحدیث عبداللہ امجد
چھتوی، شیخ عتیق اللہ سلفی، شیخ ابو نعمان بشیر احمد اور دیگر ساتھی دعا ء
مغفرت میں شریک ہوئے ۔
مفسر قرآن جناب حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ بھی نماز جنازہ میں شریک ہوئے تھے ۔
ماموں کانجن سے بھی شیوخ کرام تشریف لائے ۔
جماعۃ
الدعوہ کے مرکزی رہنما فضیلۃالشیخ حافظ عبدالسلام بھٹوی ،حافظ عبدالغفار
مدنی ،ابواحسان ،ابومعاذ محمد ،شیخ عبدالرحمن حفظہم اللہ بھی بابا جی کے
نماز جنازہ میں تشریف لائے ۔
ہفت
روزہ الاعتصام کے ذمہ داران جناب حافظ احمد شاکر اور جناب مورخ اہل حدیث
محمد اسحاق بھٹی اور محترم حماد شاکر وغٖیرہ تشریف لائے تھے ۔
اور مرکز ابن مسعود لاہور سے جناب استاد محترم شیخ شفیق مدنی اور شیخ محترم کے رفقاء نماز جنازہ میں شریک ہوئے تھے۔
اسی طرح اسلامک انسیٹیٹوٹ مہنتانوالا سے شیخ الحدیث ادریس اثری اور ان کے جامعہ کے دیگر احباب بھی شریک تھے ۔
اور
میرے جامعہ محمدبن اسماعیل البخاری گندھیاں اوتاڑ قصور سے بھی مہتمم جامعہ
قاری ادریس ثاقب اور شیخ الحدیث جناب محمد یوسف قصور ی اور تمام اساتذہ
اور کافی طلبا نماز جنازہ میں شریک ہوئے ۔
اسی
طرح کراچی سے حافظ عبدالقوی ،حافظ عبدالحفیظ روپڑی اور صہیب اللہ بھائی
تشریف لائے تھے ۔اور جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی سے شیخ نور محمدحفظہ
اللہ بھی آئے تھے لیکن کراچی کے احباب جنازہ میں شریک نہ ہو سکے ۔
اس
طرح جم غفیر تھا جس سے ثابت ہوگیا تھاکہ باباجی کس قدر اہل علم کے ہاں
محبوب تھے ،کہ جن کے نماز جنازہ میں پاکستان کے کونے کونے سے شیوخ الحدیث
اور علوم نبوت کے طلبا تشریف لائے ہوئے تھے ۔
اس موقع پر جناب امیر محترم ساجد میر، جناب عبدالکریم، جناب ابتسام الہی ظہیرj تشریف نہیں لائے تھے شاید کسی اور مصروفیت کی وجہ سے وقت نہ مل سکا ہو گا ۔
اور بابا جی کی وفات کے بعد روزانہ بابا جی سے محبت کرنے والے مسلسل دارالحدیث راجووال میں آرہے فجزاہم اللہ خیرا ۔
اللہ
تعالی بابا جی مرحوم کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات کو بلند فرمائے ۔اور
ان کے ہاتھ سے لائے ہوئے ادارہ دارالحدیث راجووال کو تاقیامت ان کے لئے
صدقہ جاریہ بنائے آمین ۔
قافلہ حدیث میں مورخ اہل حدیث جناب محمد اسحاق بھٹی حفظہ اللہ نے بابا جی کے حالات مفصل لکھے ہوئے ہیں ۔ فجزاہ اللہ خیرا ۔
بابا
جی کے حالات پر مفصل کتاب لکھنا شروع کر دی ہے جس میں مرحوم کی زندگی کے
تمام پہلووں پر بحث کی جا رہی ہے ان شاء اللہ۔ اللہ تعالی آسانی فرمائے
۔آمین
اگر
کسی کے پاس بابا جی کے متعلق کوئی واقعہ یا کوئی ان کی زندگی کے پہو کے
متعلق چیز ہو وہ ہمیں ضرور مطلع کرے تاکہ اسے بھی جمع کیا جا سکے۔
اور
بابا جی کے شاگردوں کا حلقہ بہت وسیع تھا ان سے استفادہ کرنے والے احباب
بھی ہم سے رابطہ کریں ،اور بابا جی خط و کتابت بھی بہت کیا کرتے تھے اگر
کسی کے پاس بابا جی کا کوئی خط ہو تو وہ ہمیں ضرور ارسال کرے ۔
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔