بسم اللہ الرحمن الرحیم
۔۔۔۔۔۔۔
بچپن سے ہی حرمین شریفین کی زیارت کا شوق تھا بلکہ یاد کرکے رویا کرتا تھا جب بھی کوئی اہل علم دعا میں مکہ و مدینہ کی زیارت کے لئے دعاکرتا تو مجھے رونا آجاتا ،اگر کسی کے جانے کی اطلاع ملتی تو اور بے چینی ہوتی اور مسلسل دعائیں کرتا رہتا ۲۰۱۱میں ہمارے جامعہ کے شیخ الحدیث محمد یوسف قصوری حفظہ اللہ سفر حج کے لئے روانہ ہوئے انھیں الوداع کرنے کے لئے راقم ایئر پورٹ پر پہنچا تو ادھر کچھ اور ہی سماں نظر آیا کہ سینکڑوں کی تعداد میں لوگ حرمین شریفین جانے کے لئے ایئر پورٹ پر پہنچ چکے تھے تو اس وقت دل سے میری دعائیں کہ اے اللہ یہ سارے امیر لوگ ہیں اور میں غریب و مسکین ہوں ظاہر سفر حرمین ممکن نظر نہیں آتا لیکن تو ناممکن کو ممکن بنانے پر قادر ہے کافی دعائیں کیں اور اسی سال دارالسلام لاہور نے مجھ سے مسند احمد اور الجامع الکامل دونوں کتب پر کام کروایا اور اس کے عوض میں مجھے جو رقم دیتے رہے وہ میں جمع کرتا رہا ،ایک دن گھر میں بیٹھے ہوئے تھے اہلیہ محترمہ نے کمپیوٹر پر مسجد نبوی کی تعمیر والی سی ڈی لگادی اور ہم دیکھنے لگے تو اسی کے دوران اہلیہ نے مجھے کہا کہ میرا ایک مشورہ ہے میں نے کہا جی بتائیں ؟وہ کہنے لگیں اب اللہ تعالی نے پیسے بھی دے دیئے ہیں تم اللہ تعالی کاگھر دیکھ آؤیعنی عمرہ کر آو۔
یہ با ت سن کر میں نے سے کہا کہ تم مذاق تو نہیں کررہی ۔تو کہنے لگیں کہ نہیں میں حقیقت میں کہہ رہی ہوں ،تو میں نے کہا کہ میں اکیلا نہیں آپ بھی ساتھ جائیں گی تو کہنے لگیں کہ اس دفعہ تم والدہ محترمہ کو ساتھ لے جاؤ پھر آئندہ مجھے ساتھ لے جانا میں اس پر راضی ہوگیا والحمدللہ۔
اس ارادے کے بعدمیں نے والدہ محترمہ کو خبر دی کہ ماں جی تیاری کرو ہم دونوں نے عمرہ کے لئے جانا ہے والدہ محترمہ یہ بات سن کر بہت خوش ہوئیں اور کافی ساری دعائیں دیں ،او ر سب اہل و عیال کو بتادیا کہ میرا بیٹا محمدابراہیم مجھے عمرہ کروا رہا ہے اس طرح سب خاندان نے دعائیں کیں اور بغیر سوچے سمجھے اللہ تعالی نے ماں اور بیٹے کے تمام سازو سامان مکمل کر دئیے والحمدللہ ۔
ایک دن میں شیخ محترم شفیق الرحمن فرخ حفظہ اللہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا اور میں نے کہا کہ شیخ صاحب میرا ذاتی گھر بھی نہیں تھا وہ بنانے کا ارادہ تھا لیکن اب نیت عمرہ کی ہے دعا کرنا تو شیخ محترم نے انتہائی وزنی بات کی اور فرمایا کہ تم اللہ تعالی کے گھر کی فکر کرو اور زیارت کرو اللہ تعالی تمھارے گھر کی فکر کرے گا اور وہ تمھارا گھر بھی بنوا دے گا ۔ان شاء اللہ ۔سبحان للہ مجھے یہ بات بہت اچھی لگی ،اور اللہ تعالی کی مہر بانی سی اسی سال ہی اللہ تعالی نے ہمت عطافرمائی کہ اپنا ذاتی گھر بھی تعمیر کر لیا والحمدللہ ۔میں نے شیخ محترم کے قول کو سچا دیکھ لیا ۔
لاہور ایئر پورٹ پر :
جہاز کی ٹکٹ کی تاریخ کے مطابق ہم ایئر پورٹ لاہور پر پہنچے مجھے الوداع کرنے والوں میں سے میری بیٹی رمیثہ بھی ساتھ تھیں ،اس بے چاری کا ذہن تھا کہ ایئر پورٹ لاہور پر عمرہ ہوتا ہے اس سے پوچھا گیا کہ بیٹی تم نے کیا عمرہ کرلیا ہے کہنے لگی کہ ہاں کر لیا ہے ،ادھر ہم اسی لئے آئے ہیں ! بعد میں سے سمجھایا گیا کہ عمرہ مکہ مکرمہ میں ہوتا ہے ۔یہ ایک بچوں کا لطیفہ تھا اس لئے مناسب سمجھ کر ذکر کر دیا ۔
تھوڑی دیر بعد ایئر پورٹ کے اندر داخل ہوگئے ،پھر کچھ دیر بیٹھے رہے اور اعلان ہوا کہ حاجی حضرا ت احرام باندھ لیں فلاں وقت جہاز روانہ ہوگا۔راقم نے سوچا کہ جب دیگر لوگ احرام باندھنا شروع کریں میں بھی باندھ لوں گا تو دیکھتے ہی دیکھتے ایئر پورٹ میں ہر طرف احرام باندھ کر لوگ چل پھر رہے ہیں ۔تو میں نے بھی احرام باندھ لیا ۔
احرام کے موقع پر کچھ توجہ طلب باتیں:
میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ احرام باندھ کر دو رکعت کا اہتمام کررہے تھے حالانکہ احرام باندھنے کی وجہ سے دو رکعت نماز پرھنا ثابت نہیں ۔
اسی طرح بعض لوگ دوسروں کو سمجھا رہے تھے کہ اپنے جوتے تبدیل لکرو اور چپل جوتا پہن لو !حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں ،بلکہ ٹخنو ں کو ننگا رکھنا ہے جوتا جیسا مرضی پہنا ہو ،اس وقت راقم نے بعض ان پڑھ مفتیوں کو سمجھایا کہ اس طرح فتوے نہ دو ،کوئی حرج نہیں پھر وہ خاموش ہو گئے ۔
ایئر پورٹ پر ایک نابینا قاری صاحب سے ملاقات:
میں احرام باندھ چکا تھا بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک میں نے ایک قاری صاحب کو دیکھا کہ وہ میرے پیچھے کھڑے ہیں میں نے ان سے ملا ان کا نام پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ میں قاری اکبر اسد آف چونیاں سے ہوں میں یہ سن کر بہت خوش ہوا اور اپنا تعارف کروایا وہ کہنے لگے کہ تم ہو ابن بشیر ،پھر میں نے کہا کوئی حکم میرے لائق ہو میں حاضر ہوں ،تو انھوں نے کہا کہ مجھے احرام باندھنے کا طریقہ نہیں آتا مجھے طریقہ سمجھا دیں تاکہ احرام باندھ لوں ،پھر میں نے ان کو احرام سمجھا دیا بلکہ باندھنے میں ان کی مدد کی ۔والحمدللہ ۔
جہاز کے اندر:
چند لمحوں بعد لوگ قطار میں کھڑے ہونے شروع ہوگئے اور پھر آہستہ آہستہ جہاز میں داخل ہونے لگے ،افسوس کے ساتھ لکھ رہا ہوں کہ جہاز کے دروازے عمرہ کرنے والوں کو موسٹ ویلکم کہنے کے لئے چند نوجوان اور اکثر خوبصورت بے پردہ نوجوان لڑکیاں کھڑی ہوئی تھیں ،اور پھر سارے سفر میں وہی مسلمانوں کے ایمانوں سے کھیلتی رہیں ،اس طرح نہیں ہونا چاہئے بلکہ خدمت پر لڑکوں کی ہی ڈیوٹی لگائی جائے ۔تاکہ ایمان اور اسلام محفوظ رہ سکے نظر کی حفاظت ہو سکے ۔
سارا سفر پر سکون رہا بلکہ جب جہاز اوپر یا نیچے ہوتا تھا تو مجھے رونا بھی آجاتا تھا بلکہ ڈر لگتا تھا اللہ تعالی کی مہربانی سے سفر پر سکون رہا اور سفرمیں میرے پاس چند قیمتی کتب تھیں ان کا مطالعہ کرتا رہا ۔وقت ضایع نہ ہونے دیا ۔
الریاض ایئر پورٹ پر :
ایک گھنٹہ کے لئے جہاز یہاں اترا جہاز کے اندر بیٹھے ہی اس ایئر پورٹ کو دیکھنے کاموقع ملا بہت بڑا ایئر پورٹ تھا ۔
جدہ ایئر پورٹ پر:
الریا ض سے جدہ تقریبا ایک گھنٹہ کا سفر ہے جب جدہ جہاز اترا تو بہت زیادہ اللہ تعالی کی تعریف کی کہ ہم خیر وعافیت کے ساتھ جدہ پر پہنچ چکے ہیں ۔جدہ ایئر پورٹ بھی بہت بڑا تھا ،یہاں سے مکہ مکرمہ جانے کے لئے گاڑی پر بیٹھایا گیا تو ایک پاکستانی بزرگ بھی بیٹھے ان کے ساتھ اہل وعیال بھی تھے گاڑی سے اترے اور مجھے کہنے کہ میں نماز پرھ کے آتا ہوں گاڑی کو روکنا !؟میں نے کہا ٹھیک ہے ۔
وہ بزرگ ابھی گئے ہی تھے اسی وقت ڈرائیور صاحب نے گاڑی چلانی شروع کر دی تو میں ان سے بات کی کہ ایک بزرگ نماز پڑھنے گئے ہیں ان کا انتظار کرنا ہےَ وہ ڈرائیور عربی تھا اور بہت سخت مزاج تھا اس نے میری ایک نہ سنی اور گاڑی دوڑا دی !میں نے اس کو عربی میں بہت سمجھایا کہ وہ بزرگ ان پڑھ ہے اس کے پاس کاغذات بھی نہیں ہیں وہ تو پریشان ہو گا گاڑی واپس کریں اور اسے بیٹھا کر لائیں گاڑی میں تمام مسافروں نے میری تائید کی اور ڈرائیور کو ڈانٹا ،آخر کار ڈرائیور کے دل میں رحم آیا اور کافی آگے سے گاڑی کو واپس کیا اور جدہ ایئر پورٹ پر بزرگ کو بیٹھا کر مکہ مکرمہ کی طرف سفر شروع کیا ۔
جدہ سے مکہ مکرمہ کی طرف:
تہجد کے وقت ہمارا سفر جدہ سے مکہ مکرمہ کی طرف شروع ہوا جب گاڑی چلی تو دل کی کیفیت عجیب و غریب تھی زبان پر اللہ تعالی کی تعریف و تسبیح و تحمیدوتکبیر کے کلمات جاری تھے اور آنکھیں نم تھیں کہ جلدی ہی بیت اللہ کا دیدار ہونے والا ہے اورانبیاء کرام کی سرزمین ام القری مکہ مکرمہ کی زیارت ہونے والی ہے ،وہ سرزمین جس کی محبت امت مسلمہ کے دلوں میں ڈال دی گئی اور اس سے محبت کرنا ایمان کا حصہ بنا دیا گیا ہے ۔رستے میں ایک مقام پر گاڑی کھری ہوئی او رتمام مسافروں نے نماز فجر ادا کی ،پھر سفر شروع ہو گیا میں نے بعض ساتھیوں سے پوچھا کہ مکہ مکرمہ کتنی دور ہے انھوں نے کہا کہ صرف آدھے گھنٹے کاسفر باقی ہے دل اور بے چین ہوگیا ۔اسی اثناء تھکاوٹ کی وجہ سے مجھے نیند آگئی ۔۔۔
ام القری مکہ مکرمہ میں جب میں بیدار ہوا !
ایک جگہ پر گاڑی رکی والدہ محترمہ نے مجھے بیدار کیا اور کہا کہ بیٹا لگتا ہے کہ ہم مکہ مکرمہ آگئے ہیں ،میں بیدار ہوا اور باہر دیکھا تو اونچی اونچی عمارتیں نظر آئیں یہ سفر چونکہ پہلی مرتبہ تھا اس لئے یقین نہ ہوا قریبی ساتھی سے پوچھا تو انھوں نے کہا کہ ہاں ہم مکہ مکرمہ میں پہنچ گئے ہیں والحمدللہ
مکہ مکرمہ گاڑی سے اترے تو ایک حبشی نے کہا کہ میں آپ کے ہوٹل والے کو فون کرتاہوں وہ چند منٹوں تک آپ کو لے جائے گا انتظار میں چند منٹ چند گھنٹوں مین تبدیل ہو گئے تقریبا گیارہ بجے ہم اپنے ہوٹل می پہنچے یہ ہوٹل سوق الھجرۃ پر موجود مسفلی کبری کے متصل تھا ،ہوٹل میں پہنچ کر والدہ صاحبہ کو کافی بھوک لگ چکی تھی پہلے کھانا کھایا پھر والدہ صاحبہ نے کہا کہ تھوری دیر آرام کرنا ہے پھر جاتے ہیں بیت اللہ ۔
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔