آپ کی معلومات

Friday, 15 March 2013

کیا اجماع حجت ہے ؟ازفضیلۃُ الشیخ رفیق طاہر حفظہ اللہ

1 comments

اقتباس:
اجماع کی تین اقسام ہیں:
۱: جو نصِ صریح سے ثابت ہو، مثلاً رسول اللہ ﷺ آخری نبی ہیں۔
۲: جو نص سے استنباط ہو، مثلاً ضعیف راوی کی منفرد روایت ضعیف و غیر مقبول ہے۔
یہ دنوں قسمیں اجماع نہیں ہیں ۔ بلکہ کتاب وسنت ہی ہیں ۔ اور ان کے حجت ہونے کی وجہ کتاب وسنت ہے نہ کہ اجماع !
کتنے ہی ایسے مسائل ہیں جو کتاب وسنت سے ثابت ہیں لیکن ان پر اجماع نہیں ۔ پھر بھی وہ حجت ہی ہیں ۔ 
یعنی
کتاب وسنت مین عبارۃ , دلالۃ , اشارۃ , اقضاء , التزاما , دلالۃ مذکور کوئی بھی مسئلہ کسی بھی قسم کے نام نہاد اجماع کا محتاج نہیں ہے ۔

اقتباس:
۳: جو علماء کے اجتہاد سے ثابت ہو ، مثلاً:
(۱)صحیح حدیث کی پانچ شرطیں ہیں اور ان میں ایک یہ ہے کہ شاذ نہ ہو۔
(۲)نماز میں اونچی آواز سے ہنسنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے۔
(۳)نومولود کے کان میں اذان دینا۔
(۴)امام کا جہری تکبیریں کہنا اور مقتدیوں کاسری تکبیریں کہنا، الا یہ کہ مکبّر ہو ۔ وغیر ذلک
موصوف کی ذکر کردہ تمام مثالیں دوسری قسم میں داخل ہیں جو کہ اجماع نہیں !
۱۔ عدم شذوذ کی شرط بھی کتاب اللہ سے ثابت ہے , اللہ تعالى کے فرمان " ان جاء کم فاسق بنبإ فتبینوا" میں کلمہ "فتبینوا" اس پر دلالت کرتا ہے ۔
۲۔ نماز میں قہقہ لگانے سے نماز کا ٹوٹنا و باطل ہونا کتاب اللہ سے ثابت ہے ۔ اللہ تعالى کے فرمان " وقوموا للہ قانتین" میں قانتین کا لفظ اس بات پر دلالت کرتا ہے ۔ اسی طرح کلام سے ممانعت والے تمام تر حدیثی دلائل بھی اس پر دلالت کرتے ہیں ۔ کیونکہ قہقہہ کلام ہی ہے ۔ یاد رہے کہ کلام ہر وہ چیز ہے جس سے مراد سمجھ آجائے اور قہقہہ ہنسے والے کی مراد یعنی خوشی پر دلالت کرتا ہے ۔
تنبیہ بلیغ :
قہقہ لگانے سے نماز کے باطل ہونے پر اجماع نہیں ہے !
کیونکہ 
احناف کے نزدیک فساد اور بطلان میں فرق ہے ۔ جبکہ جمہور کے نزدیک فساد اور بطلان ایک ہی چیز ہیں ۔
اور احناف کے نزدیک قہقہہ لگأنے سے نماز فاسد ہوتی ہے , باطل نہیں ہوتی !
۳۔ نومولود کے کان میں اذان دینا جامع ترمذی کی حسن روایت سے ثابت ہے ۔ کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے حسن رضی اللہ عنہ کے کان میں اذان دی تھی 
۴۔ امام کا جہری نمازوں جہرا تکبیرات کہنا ان نمام تر روایات سے ثابت ہے جن میں رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا طریقہ نماز اور امام کی اقتداء کے مسائل ذکر ہیں ۔ اور مقتدیوں کا سرا تکبیرات کہنا اللہ تعالى کے فرمان " واذکر ربک فی نفسک تضرعا وخیفۃ ودون الجہر من القول " سے ثابت ہے ۔

اسکے بعد موصوف نے اجماع کی حجیت کو ثابت کرنے کے لیے صرف اور صرف دو دلائل دیے ہیں ایک کتاب اللہ سے اور ایک سنت رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم جبکہ دونوں دلائل ہی اجماع کی حجیت کے خلاف ہیں !
ملاحظہ فرمائیں :
(وَمَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۘ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْھُدٰی وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَنُصْلِہٖ جَہَنَّمَؕ وَسَآءَتْ مَصِیْراً)
اورجو شخص ہدایت واضح ہو جانے کے بعد ، رسول کی مخالفت کرے اور مومنین کے راستے کو چھوڑ کر دوسرے راستے پر چلے تو جدھر وہ پھرتا ہے ہم اُسے اُسی طرف پھیر دیتے ہیں اور اسے جہنم میں داخل کریں گے اور وہ (جہنم) برا ٹھکانہ ہے۔( النسآء:۱۱۵)

یہاں سبیل مؤمنین سے موصوف اجماع مراد لے رہے ہیں جبکہ سبیل مؤمنین رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بھی موجود تھا اور اس وقت یہ نام نہاد اجماع یعنی کتاب وسنت کی کسی بھی نص سے مسئلہ استنباط کیے بغیر مجتہدین کا اجماع موجود نہ تھا ۔
یعنی یہ آیت کریمہ تو واضح کر رہی ہے کہ حجت وشریعت صرف اور صرف کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم ہے کیونکہ اس دور کے مؤمنین صرف اور صرف کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم سے ہی مسائل اخذ کرتے تھے ۔
دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ سبیل مؤمنین اجماع نہیں بلکہ کتاب وسنت سے استنباط واجتہاد ہے !
اور موصوف نے "سبیل المؤمنین" کا معنى "اجماع" ثابت کرنے کے لیے ایسے قیل وقال کا سہارا لیا ہے جو خود حجت نہیں ہیں ۔
جبکہ اسی لفظ کا معنى "رجوع إلى الکتاب والسنہ" اسی آیت کی دلالت میں موجود ہے ۔


پھر اسکے بعد موصوف اپنی دوسری دلیل کے طور پر لکھتے ہیں :
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:((لَا یَجْمَعُ اللّٰہُ اُمَّتِیْ عَلٰی ضَلَالَۃٍ اَبَداً،وَیَدُاللّٰہِ عَلَی الْجَمَاعَۃِ))اللہ میری اُمت کو کبھی گمراہی پر جمع نہیں کرے گا اور اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے ۔
(المستدرک الحاکم۱؍۱۱۶ح۳۹۹ وسندہ صحیح)
اور یہی حدیث تیسری دلیل کے طور پر دوسرے مصدر اور الفاظ کے فرق سے یوں بیان کرتے ہیں :
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((لَنْ تَجْتَمِعَ اُمَّتِیْ عَلَی الضَّلَا لَۃِ اَبَداً فَعَلَیْکُمْ بِالْجَمَاعَۃِ فَاِنَّ یَدَ اللہِ عَلَی الْجَمَاعَۃِ ))
میری اُمت کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہو گی ، لہٰذا تم جماعت (اجماع) کو لازم پکڑو، کیونکہ یقیناً اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے۔
(المعجم الکبیر للطبرانی ۱۲؍۴۴۷ح۱۳۶۲۳)
اس روایت سے کلمہ " لن تجتمع أمتى على ضلالۃ " یعنی میری امت گمراہی پر جمع نہیں ہوگی سے اجماع کو ثابت کرنا چاہ رہے ہیں ۔ جبکہ یہ حدیث تو اس بات دلالت کررہی ہے کہ امت جمع نہیں ہوگی ! یعنی اجماع ہوگا ہی نہیں !!!
اور آج تک اجماع اپنی شروط کے ساتھ کبھی ثابت نہیں ہوا ہے !
اور جن باتوں کو یہ اجماع کہہ کر اجماع کا وجود ثابت کرنا چاہتے ہیں وہ سب کتاب وسنت سے ثابت ہیں نہ کہ اجماع سے , جیسا کہ پہلے واضح کیا جا چکا ہے ۔

ان دو دلائل کے بعد موصوف کے پیش کردہ سارے دلائل ہی مردود ہیں کیونکہ وہ موقوفات , مقطوعات , اقوال ائمہ وغیرہ وغیرہ ہیں جو کہ خود حجت نہیں ہیں ۔ اور جو چیز خود ہی حجت نہ ہو اس سے کسی دوسری چیز کی حجیت کیسے ثابت ہوسکتی ہے ۔

چند لطائف :

آج تک اجماع کی تعریف پر بھی اجماع نہیں ہوسکا ! ,اسکی حجیت تو بہت دور کی بات ہے ۔

اسی طرح اجماع کی شروط پر بھی اجماع نہیں ہوسکا 

اسی طرح موصوف نے اجماع کی جو تین اقسام بیان کی ہیں ان پر بھی اجماع نہیں ہے 

اسی طرح موصوف کی ذکر کردہ پہلی دو قسموں کو اجماع مصطلح میں داخل کرنے پر بھی اجماع نہیں ۔

1 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔