ضلع مٹیاری میں مشہور شہر نیو سعید آباد کے چھ کلو میڑ کے فاصلے پر یہ گاوں واقع ہے ۔
[پیر جھنڈا کروڑوں افراد پر مشتمل ایک شہر نہیں بلکہ بالکل چھوٹا سا گاؤں ہے جس میں بمشکل ساٹھ گھر اور تین سو افراد ہوں گے۔ سبحان اللہ ۔اتنا چھوٹا گاؤں اور اتنی بڑی تاریخ اور محدثین کی پیدائش گاہ۔ سبحان اللہ۔ شاید ایسی کوئی مثال پوری روئے زمین میں نہ ملے ۔۔آئیں ملاحظہ فرمائیں کہ اس بالکل چھوٹے سے گاوں کی طرف پوری دنیا سے بے شمار محدثین نے سفر کیا اور اپنی علمی پیاس بجھائی اور اس گاوں کی طرف راقم الحروف کو دو دفعہ سفر کا موقع ملا پہلے سفر کی روداد الگ لکھی ہے اس موقع پر اس دوسرے سفر کی کارگزاری لکھنا چاہتا ہوں کہ میں نے پیر جھنڈا میں کیا دیکھا ؟؟]
پہلے سفر میں میری ملاقات شیخ حیات لاشاری رحمہ اللہ سے ہوئی تھی اور چند دن ان کے ساتھ رہنے کا اتفاق ہوا اوردوسر سفر میں کئی راشدی خاندان کے اہل علم سے ملاقات کا موقع ملا
اس سفر میں جن شخصیات سے میری ملاقات ہوئی ۔
علامہ سید ابواحسان اللہ قاسم شاہ راشدی حفظہ اللہ
آپ محدث العصر شیخ محب اللہ رحمہ اللہ کے فرزند ارجمند ہیں اور اپنے والد ماجد کے تمام تصنیفی کاموں میں معاون رہے ۔اور پوری زندگی تن تنھا مدرسہ ۔مکتبہ اورتمام انتظامی ذمہ داریاں نبھاتے رہے ،ان کے کارناموں میں سب سے پہلا یہی کارنامہ ہے ۔پھر علوم وفنون خصوصا اصول حدیث اور رجال میں نہایت پختہ ہیں ساری زندگی مدرسے میں مدرس بھی رہے اور اپنے بزرگوں کی قیمتی کتب جو مخطوطات کی صورت موجود تھیں ان کی حفاظت میں بڑی محنت کی کہ ہر ہر کتاب کو خوداپنے قلم سے خوش خط لکھا اور ہر ہر صفحے کی سونے سے بڑھ کر قدر کی اور ان کی توجہ اور محنت کا ہی نتیجہ ہے کہ راشدی خاندان کا تمام علمی ورثہ(مکتبۃ العالیہ العلمیہ ،مدرسہ دارالرشاد ۔مخطوطات کی صورت میں) اب تک محفوظ ہے بلکہ مکتبہ میں نئی کتب کا بہت زیادہ اضافہ بھی کیااور مسلسل کر بھی رہے ہیں اور اپنے والد محترم کی بے شمار کتب کو اپنے بہترین خط میں بھی لکھا اور ان تعلیقات میں اضافہ جات بھی کئے ۔ان شاء اللہ جلد ہی راشدی خاندان کی تمام عربی کتب شایع بھی ہوں گی ۔
سندھ اور بیرون سندھ میں تبلیغ کی خاطر سفر بھی کئے ۔
شیخ محترم نے اپنے تین بیٹوں کو حافظ قرآن بنایا اور دو بیٹوں کو درس نظامی کی مکمل تعلیم بھی دلوائی اور اب وہ مدرسہ دارالارشاد اور مکتبہ وغیرہ کو احسن طریقے سے چلا رہے ہیں ۔
۔شیخ قاسم حفظہ اللہ ان دنوں فالج کی وجہ سے بیمار ہیں قارئین ان کے لئے خصوصی دعا بھی کریں کہ اللہ تعالی ان کو مکمل شفا عطافرمائے آمین۔
بے شمار ھندو ان کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے ۔
تصنیفی خدمات :
محترم نے کئی ایک مستقل کتب لکھیں مثلا
مرآۃ الشیعۃ
الرد علی التقلید
التحقیق المستحلی فی تحقیق ان عد الاذکار بالسبحۃ ھل ھو من المباحاۃام ھو من البدع السفلی
اورایک جی ایم سید سندھی شخص کے رد پر کتاب لکھی ہے۔
اور کچھ موضوعات مختلف رسائل میں شایع ہوئے
راشدی خاندان کے موجودہ محقق کی داستان!
علامہ سید انور شاہ راشدی بن علامہ قاسم بن محدث العصر محب اللہ شاہ راشدی
راشدی خاندان کے موجودہ محقق میری مراد علامہ ابوالمحبوب سید انور شاہ راشدی حفظہ اللہ ہیں ہمارے ممدوح اما م الجرح والتعدیل شیخ محب اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ کے پوتے ہیں ان کے متعلق چند گزارشات پیش خدمت ہیں ۔
تاریخ پیدائش :
محترم ۵ دسمبر ۱۹۸۵کو اپنے آبائی گاوں درگاہ شریف پیر جھنڈا میں پیدا ہوئے ۔
ابتدائی تعلیم :
عام معمول کے مطابق قرآن کریم اور ابتدائی تعلیم اپنے مدرسہ دارالرشاد پیر جھنڈا میں حاصل کی اور قرآن کریم حفظ بھی یہیں کیا ۔یہ وہی مدرسہ ہے جہاں سے کئی ایک محدثین نے تعلیم حاصل کی جن کے تذکرہ کے لئے ایک مستقل تاریخ کی ضرورت ہے ۔اللھم یسر لی ۔
زمانہ بچپن میں جو محترم نے دیکھا !
ہمارے ممدوح بیان کرتے ہیں کہ میں اس وقت بالکل چھوٹا سا بچہ تھا تقریبا پانچ یا چھ سال عمر تھی میرے دادا امجد رحمہ اللہ دن رات پڑھنے ،پڑھانے اور لکھنے میں مصروف رہتے تھے ایک دفعہ دیگر ممالک سے عربی طلباء کی ایک جماعت دادا جی کے پاس تشریف لائے اور کئی سال پڑہتے رہے دادا جی انھیں مختلف علوم وفنون کی کتب پڑھانے کے ساتھ ساتھ صحیح بخاری پڑھاتے تھے اور دادا جی ان کو عربی زبان میں پڑھاتے تھے اور بالکل آہستہ آہستہ بولتے تھے طلباء جتنے مرضی سوال کرتے دادا جی ان کے جواب بڑی خوشی سے دیتے تھے ،محترم ہمارے ممدوح کہتے ہیں کہ ایک دفعہ علامہ فیض الرحمن ثوری رحمہ اللہ تشریف لائے اور اس وقت دادا جی کے پاس کئی ایک طلباء موجود تھے تو ثوری رحمہ اللہ نے انھیں مخاطب کرکے فرمایا :تم نے شیخ محب اللہ شاہ راشدی کو ضایع کر دیا ہے اور ان سے جو کام لینا چاہئے تھا وہ تم نہیں لے سکے ۔اور ہمارے ممدوح کہتے ہیں کہ اگر داد ا جی سے کام لیا جاتا تو وہ شیخ البانی رحمہ اللہ کی طرح کے بڑے بڑے کے کام کرتے ۔دادا جی اکیلے ہوتے تھے یا ان کے ساتھ والد محترم سید قاسم شاہ راشدی حفظہ اللہ ہوتے تھے اور ذمہ داریاں بہت زیادہ تھیں ۔ابھی ہمارے ممدوح زمانہ بچپن میں ہی تھے کہ شیخ محب اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ وفات پاگئے اب سار ا بوجھ والد محترم پر ہی تھا مدرسہ کی ذمہ داریاں ،مکتبہ کی نگرانی اور جماعتی احباب کے دیگر کاموں میں شریک ہونا مدرسہ درالرشاد چلاتے رہے لیکن پھر بعض وجوہات کی بنا پر صرف شعبہ حفظ ہی رکھنا پڑا اور درس نظامی کا شعبہ ختم کردیا گیا ۔
درس نظامی کی تکمیل:
درس نظامی کی تکمیل کے لئے صادق آباد حافظ ثناء اللہ زاہدی حفظہ اللہ کے جامعہ میں داخلہ لیا اور اپنے مدرسہ دارالرشاد پیرجھنڈا سے سند فراغت حاصل کی ۔والحمدللہ ۔محترم بیان کرتے ہیں کہ زمانہ طالب علمی میں مجھے زیادہ پڑھنے کا شوق نہیں تھا بس تھوڑا بہتا درسی کتب تک ہی محدود مطالعہ رہتا تھا آگے نکلنے کا کوئی شوق نہیں تھا لیکن اتنا اللہ تعالی کا فضل تھا کہ عربی عبارت پڑھنے اور سمجھنے میں کافی مہارت تھی ۔
تحقیقی ذوق کیسے پیدا ہوا؟!
محترم بیان کرتے ہیں کہ جب میں درس نظامی سے فارغ ہو کر گاوں واپس آیا تو کوئی خاص مصروفیت نہیں تھی والد محترم نے میری شادی کر دی اور ایک دن مجھے مخاطب کرکے کہا کہ پڑھنا شروع کر دو اتنی لائبریری کس کام کی کیا دوسرے لوگ اس سے فائدہ اٹھائیں اور تم کچھ نہیں کروگے اگر تم نے لائبریری سے فائدہ نہیں اٹھانا تو میں یہ ساری لائبریری کسی کو دے دیتا ہوں !اور کافی سمجھایا کہ راشدی خاندان میں کوئی عالم دین رہا ہمارے بعد کھڑے ہو جاو اور محنت کرنا شروع کردو ۔!!
محترم کہتے ہیں اس ڈانٹ کے بعد میں نے عزم مصمم کرلیا کہ اب ایک منٹ بھی ضایع نہیں کرنا،اور اپنے والد محترم سے کہا کہ حکم دو میں کیا کروں ؟تو والد صاحب نے کہا نماز جنازہ میں سلام ایک طرف کہنا ہے یا دونوں طرف ان روایات کو تلاش کرو اور تحقیق کرو صحیح ہیں یا ضعیف ساری بحوث دیکھو! رواۃ پر بھی تحقیق کرو اسانید کو جمع کرواور جلدی مجھے دکھاو ؟؟
محترم کہتے ہیں :کہ میں اللہ تعالی کانام لے کر لائبریری میں داخل ہوا کئی دن لگا کر احادیث کو تلاش کیا پھر ایک رواۃ کی تحقیق کرنی تھی تو ایک راوی کو تلاش کرنے میں ایک مہینہ محنت کی پھر جا کر پہلا راوی تلاش ہوا ابو جی سے ساری مشکلات بیان کیں انھوں نے سمجھایا کہ اس طریقے سے راوی تلاش کرنا ہے وغیرہ وغیرہ ۔محترم کہتے ہیں کہ ایک ماہ کی محنت سے کافی کتب رجال اور کتب حدیث کا اچھا خاصہ تعارف ہوگیا اور اب رواۃ بھی ملنے لگے اور جو کام ایک ماہ میں نہ ہوا وہ چند گھنٹے میں ہونے لگا پھر میرا اوڑھنا بچھونا علم ہوگیا بس اس کے بعد اللہ تعالی ساری راہیں کھول دیں ۔تحقیقی مضامین لکھنے کا سلسلہ شروع کردیا جو اللہ کی توفیق سے جاری ہے ۔
محترم سے راقم کا تعارف اور ملاقات!
ہمارے جامعہ محمد بن اسماعیل البخاری گندھیاں اوتاڑ قصو میں ششماہی امتحان کے بعد چھٹیاں تھیں ان چھٹیوں کو غنیمت جانتے ہوئے علمی سفر کا پروگرام بنا اور راقم 8فروری 2013بروز جمعۃ المبارک کو جمعہ کے خطبہ دے کر پتوکی پہنچا اور علامہ اقبال ریل گاڑی کے ذریعے پورے دو بجے سفر شروع ہوا ۔اور سفر پر سکون اور آرام دہ تھا والحمدللہ علی ذلک اور ریل گاڑی چار بج کر تیس منٹ پر نواب شاہ اسٹیشن پر رکی ۔دوران سفر محترم سید انور شاہ راشدی حسینی حفظہ اللہ کا مجھ سے مسلسل را بطہ تھا چنانچہ وہ بھی پونے پانچ کے قریب تہجد کے وقت مجھے لینے کے لئے اپنی کار پر نواب شاہ پہنچ گئے فجزاہ اللہ خیرا ۔ان سے میری پہلی ملاقات تھی ویسے پانچ ماہ سے فون پر رابطہ تھا اور اکثر بیشترتحقیقی اور تصنیفی امور پر مشاورت جاری تھی(فون پر بے شمار علمی فوائد پر تبادلہ خیال ہواوہ ایک الگ داستان ہے کبھی وہ بھی لکھی جائے گی ان شاء اللہ ) ان کی باتوں سے لگتا تھا کہ علوم میں بہت پختہ اور وسیع المطالعہ اور محنتی ہیں اگرمیں نے کسی کتاب کی طرف اشارہ کیا اور ان کے پاس وہ نہیں تو اسی وقت خرید لیتے مثلا المرسل الخفی از شریف حاتم العونی ،الجامع فی الفوائد والعلل از ماہر یسین الفحل ،نثل النبال از ابواسحاق الحوینی اور معجم اسامی الرواۃ از شیخ البانی رحمہ اللہ وغیرہ ۔پھر خرید ی ہی نہیں بلکہ اس کو بالاستیعاب پڑھا بھی اور مطالعہ بھی عام نہیں کیا بلکہ تنقیدی نظر سے کیا اور اپنے حواشی بھی لگائے کیونکہ بعض لوگوں کو کرتب خریدنے کا تو شوق ہوتا ہے لیکن مطالعہ ان کی قسمت میں نہیں ہوتا ۔ہمارے موصوف اس وصف بد سے بری ہیں والحمدللہ۔
ابھی ان کی عمر اٹھائیس سال ہے کیونکہ ان کی تاریخ پیدائش ۵دسمبر۱۹۸۵ ہے اور جو گمان تھا اس سے کہیں زیادہ آگے پایا ۔میں اپنی بات کی تائید میں کچھ شہادتیں بھی پیش کرنا چاہتا ہوں مثلا پروفیسر مولا بخش محمدی حفظہ اللہ لکھتے ہیں : بالخصوص علامہ سید قاسم شاہ راشدی مد ظلہ تعالی اور اس کے اعلی علم حدیث و رجال کے ذوق کے مالک فرزند ارجمند محترم سید انور شاہ صاحب۔۔۔(مقدمہ فتاوی راشدیہ جلد۱صفحہ۱۳)استاد محترم شیخ زبیر علیزئی حفظہ اللہ نے محترم سے کہا کہ اسی طرح محنت کرتے رہو اللہ تعالی تمہیں راشدی خاندان کا جان نشین بنائے گا ان شاء اللہ ۔بلکہ شیخ انور حفظہ اللہ کے والد محترم فضیلۃ الشیخ علامہ قاسم شاہ راشدی حفظہ اللہ اپنے قابل فرزند ارجمند کے متعلق کہتے ہیں کہ میرے بیٹے کا انداز اس کے دادا جان کی مثل ہے لکھنے کا انداز محدثانہ ہے ۔
اسی طرح راقم نے سندھ میں بے شمار علماء سے ان کی تعریف سنی مثلا شیخ نصرا للہ حفظہ اللہ صدر مدرس مدرسہ دالرشاد پیر جھنڈانے مجھے کہا :محترم انور شاہ راشدی حفظہ اللہ ہر وقت پڑھتے رہتے ہیں اور علم رجال اور علم حدیث ان کا خاص موضوع ہے اور اس پر کافی لکھ بھی رہے ہیں ۔
محترم شیخ خبیب احمد حفظہ اللہ نے کہا کہ محترم انور شاہ صاحب انتہائی قابل تعریف آدمی ہیں اور فن حدیث اور رجال میں بہت پختہ اور صاحب رائے ہیں ۔
شیخ عبدالقادر رحمانی سندھی مدرس شمس العلوم بدین نے مجھے کہا کہ میں شیخ کے مضامین پڑھتا رہتا ہوں ماشاء اللہ محقق انسان ہیں اور کافی محنت سے لکھتے ہیں ۔
راقم نے بھی ان میں فن حدیث ،علوم حدیث اور فن رجال میں پختگی دیکھی اور کافی وسیع المطالعہ ہیں ایک راوی کی تحقیق میں تمام کتب رجال کو کھنگالتے ہیں اور بہت زیادہ محنت کرتے ہیں ۔اس پر بے شمار مثالیں موجود ہیں آپ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ محترم اب تک کئی ایک اہم کتب فن رجال پر تالیف کر چکے ہیں مثلاتراجم شیوخ ابی عوانہ ،اسی طرح وہ رواۃ جن کے متعلق شیخ البانی رحمہ اللہ نے کہا کہ مجھے نہیں ملا تو ان کو تلاش کیا ہے اور یہ بھی ایک مستقل کتاب ہے اسی طرح اسن کے دادا امجد شیخ محب اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ نے بھی کئی ایک تراجم کے متعلق لکھا ہے کہ وہ مجھے نہیں ملے ان پر بھی ایک قیمتی رسالہ مکمل کر چکے ہیں والحمدللہ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راقم نے ان کی بیٹھک کو کتب جرح وتعدیل سے بھرا ہوا پایا اگرچہ مکتبہ بھی بیٹھک سے متصل ہے لیکن رجال محترم کا خاص موضوع ہے وہ اس پر زیادہ مشغول رہتے ہیں ۔ان کی تحقیقی کاوشوں اور جذبات کو دیکھ کر مجھے یقین ہوگیا کہ وہ اپنے بزرگوں کے حقیقی جان نشین بنیں گے ان شاء اللہ ۔اور ان کے علاوہ بے شمار تحقیقی مضامین لکھ چکے ہیں والحمدللہ ۔البشارۃ کے نام سے انھوں نے تحریک سبابہ کے مسئلے پر کئی ایک تحقیقی مضامین لکھ رکھے ہیں گویا وہ اپنے موضوع پر ایک مستند کتاب ہے ۔اور ان کے تحقیقی مضامین دعوت اھل حدیث اور اعتصام وغیرہ میں شایع ہوتے رہتے ہیں ،اور وہ تمام تنقیدی قسم کے ہوتے ہیں بعض مضامین مجھے پڑھنے کا موقع بھی ملا ماشاء اللہ نہایت محنت اور تحقیق سے لکھے گئے ۔
راقم کو بھی ان کے کئی ایک مضامی پڑھنے کو ملے ماشاء اللہ جس موضوع کو بھی شروع کیا اس کی کوئی چیز نہیں چھوڑتے اور موضوع کا حق ادا کرتے ہیں ۔
محترم کی موجودہ مصروفیات:
اور اب انھوں نے اپنے تمام تحقیقی کام چھوڑ کر اپنے خاندان کے محدثین کی عربی کتب پر کام شروع کر رکھا ہے مثلا شیخ محب اللہ شاہ راشدی ،شیخ احسان اللہ شاہ راشدی ،شیخ رشداللہ شاہ راشدی اور شیخ راشد شاہ راشدی رحمھم اللہ کی عربی کتب جو رجال اور علوم حدیث پر مشتمل ہیں ان کی تحقیق کر رہے ہیں اور انھیں جلد ہی شایع کرنے کا عزم رکھتے ہیں ابھی فی الحال تعلیقات الراشدیۃ علی کتب الالبانیۃ پر کام شروع کیا ہے یعنی شیخ محب اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ نے جو تحقیقی تعلیقات شیخ البانی رحمہ اللہ کی کتب پر لکھ رکھی ہیں ان کو جمع کرنا شروع کیا ہے اور انھیں کمپوز بھی کروا رہے ہیں نیز ان پر اپنی تحقیقات اور اضافے بھی کر رہے ہیں
وہ ایک کامیاب مدرس بھی ہیں:
ان تمام تحقیقی کاموں کے ساتھ ساتھ وہ کامیاب مدرس بھی ہیں اور اپنے مدرسے دارالرشاد پیر جھنڈا میں تدریس بھی کر رہے ہیں ان کے ایک پریڈ میں بیٹھنے کا موقع ملا وہ طلباء کو بڑی محنت سے پڑھا رہے تھے اور نحو و صرف کے اجراء کو بہترین طریقے سے سمجھا رہے تھے ان کا کہنا تھا کہ ہم طلباء میں گرائمر میں پختگی دیکھنا چاہتے ہیں ۔جو کہ سندھ میں مفقود ہے ۔وہ انتھک محنتی شخص ہیں والحمدللہ علی ذلک ۔ان کاکہنا ہے کہ میں کبھی کسی سفر پر نہیں جاتا بس اپنے تحقیقی کاموں میں مصروف ہوتا ہوں ۔اللہ تعالی انھیں اپنے دین کے لئے زیادہ سے زیادہ استعمال فرمائے آمین ۔
وقت کے پابند:
ہمارے ممدوح وقت کے بہت پابند ہیں مثلا مدرسہ میں پورے وقت پر جا کر پڑھانا خواہ مہمان بھی آئے ہوں تو انھیں ادب سے کہ دیتے ہیں کہ ابھی میری کلاس کا ٹائم ہے میں اتنے بجے پڑھا کر فارغ ہوں گا تب تک کے لئے اجازت ۔اور کامیاب انسان کی علامت وقت کی پابندی ہے ۔
خوش اخلاق !
وہ بہت اچھے اخلاق کے مالک ہیں ان کے ساتھ بعض جمالی خاندان کے دیہاتوں کی طرف سفر کا موقع بھی ملا وہ عامیوں سے بھی بہت اچھے اخلاق سے ملتے تھے اور لوگ ان کی بہت قدر کرتے ہیں ۔
ان کے بعض شکوے:
محترم کے بعض شکوے سننے کا موقع ملا وہ حقیقت پر مبنی پائے مثلا
مقالات راشدیہ کے بارے میں کہا کہ اس میں کمپوزنگ کی بہت غلطیاں ہیں بس کتب کو ان کے مقام کے مطابق نہیں شایع کیا گیا ۔
شیخ محب اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ کے شاگردوں کے بارے میں کہا کہ کسی بھی اللہ کے بندے نے دادا امجد کی کتب کی طرف توجہ نہیں کی کہ کوئی ان کا شاگرد ان پر کام کرتا اور انھیں عام کرتا افسوس کہ سارا علمی ذخیرہ ویسے ہی پڑا ہوا ہے اب میں اس وقت تک دم نہیں لوں گا جب تک سارا علمی ورثہ عام نہ کرلوں خواہ عربی ہو یا اردو ۔انھوں نے شیخ افتخار ازھری حفظہ اللہ کی تعریف کی کہ انھوں نے بعض کتب کو شایع کرانے کی ذمہ داری لی لیکن ان میں کمپوزنگ کی بہت غلطیاں ہیں جس سے کتاب کا مقام گر جاتا ہے ۔
علماء سندھ کے متعلق کہا:سندھ میں کام کرنے والے افراد نہیں ہیں جو ہیں وہ انتہائی سست ہیں ،ہمیں افراد پیدا کرنے ہیں ۔
میری دعا:ابھی ہمارے ممدوح نوجوان ہیں اللہ تعالی ان سے اپنے دین کا زیادہ سے زیادہ کام لے اور انھیں اپنی مرضیات سے نوازے ۔آمین
مدرسہ دارالرشاد پیر جھنڈا اور اس میں مدرسین کی ٹیم
یہ وہ تاریخی مدرسہ ہے جس کی بنیاد شیخ رشد اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ نے1903 میں رکھی اور پہلے استاد امام انقلاب علامہ عبیداللہ سندھی رحمہ اللہ کو مقرر کیا اس مدرسے کی شہرت چہار سو پھیل گئی یہاں تک کہ اس جامعہ کی زیارت کے لئے دیوبند کے علماء اشرف علی تھانوی ،انور شاہ کشمیری ،وغیرہ بھی آیا کرتے تھے ۔سندھ میں اس مدرسہ کو ام المدارس کہا جاتا ہے کیونکہ موجودہ تمام مدارس اسی مدرسے سے شروع ہوئے اورتمام علماء سندھ اسی مدرسے سے فیض یافتہ ہیں ۔اور اس مدرسہ سے پوری دنیا(افریقہ ،عرب ،یمن، ھندوستان وغیرہ) کے علماء نے مختلف وقتوں میں فائدہ اٹھا یا ۔والحمدللہ ۔آج سے تیرہ سال پہلے اس جامعہ کو دیکھنے کا پہلی بار موقع ملا اس وقت صر ایک بپہت بڑی مسجد ہی تھی لیکن اب بہترین خوبصورت نئی مسجد تعمیر کے آخری مراحل میں ہے اور تقریبا دو ایکڑ پر مشتمل خوبصورت مدرسہ دارالرشاد کی تعمیر بھی مکمل ہو چکی ہے اور کچھ باقی ہے ۔
یہ مدرسہ اپنی ایک مستقل تاریخ رکھتا ہے اللہ کرے کہ اسپر مستقل کام ہو ،یہ وہی مدرسہ ہے جس نے شیخ العرب والعجم جیسے محدثین کو پید کیا جن کی دعوت پوری دنیا میں پھیلی والحمدللہ ۔۔اور درمیان میں نشیب وفراز آتے رہے لیکن اب دوبارہ نئے عزم سے اس میں علوم اسلامیہ کی تدریس شروع ہے درس نظامی سات سالہ کورس ،شعبہ حفظ ،شعبہ نشرواشاعت اور شعبہ دعوت و تبلیغ کام کر رہے ہیں آٹھ اساتذہ مدرسہ میں دن رات محنت کر رہے ہیں اور فتوی نویسی کاشعبہ الگ مستقل قائم کیا گیا ہے بلکہ لوگوں کے لئے اسلامی عدالت بھی قائم ہے جہاں مختلف علاقوں کے لوگ اپنے فیصلے قرآن وحدیث کے مطابق کرواتے ہیں ۔
اس جامعہ کے نگران شیخ رشداللہ پھر شیخ احسان اللہ پھر شیخ محب اللہ رحمھم اللہ پھر شیخ قاسم بن محب اللہ حفظہ اللہ ہیں اب شیخ قاسم شاہ راشدی حفظہ اللہ فالج کی وجہ سے بیمار ہیں اور ان کے بیٹے سارے نظام کو باحسن طریقے سے سرانجام دے رہے ہیں مثلا
مدیر اعلی شیخ احسان اللہ شاہ راشدی حفظہ اللہ بن قاسم شاہ بن محب اللہ شاہ راشدی
محترم قوی عالم دین ہیں اور مدرس بھی ہیں جامعہ کی تمام ذمہ داریاں ان پر ہیں بہت محنتی ہیں ان کی محنت کی وجہ سے مدرسہ اور مسجد کی نئی بلڈنگ آخری مراحل میں ہے والحمدللہ اور مدرسہ میں شعبہ درس نظامی میں تدریس کے فرائض بھی سرانجام دے رہے ہیں ۔انتہائی خوش اخلاق ہیں
اور نائب مدیر تعلیم شیخ انور شاہ راشدی حفظہ اللہ ہیں
اورشیخ نصر اللہ حفظہ اللہ مدرسہ کے مفتی ہیں اور قابل ترین شخصیت ہیں ۔لوگوں کے مسائل حل کرنے اور انھیں فتوی دیناان کی ذمہ داری ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ مدرس بھی ہیں
،شیخ فضل اللہ شاہ راشدی حفظہ اللہ بن قاسم بن محب اللہ شاہ راشدی یہ قاری ہیں اور مدرسہ میں استاد ہیں
اور شیخ بقا شاہ راشدی حفظھم اللہ قابل اور محنتی ساتھی ہیں جامعہ میں تدریس کے فرائض سر انجام دے رہے محنت سے پڑھاتے ہیں بہت ذہین ہیں ۔
کی خدمات بھی جامعہ کو حاصل ہیں ۔اس مدرسہ سے اہل سندھ کو مستفید ہونا چاہئے اور اپنے بچے اس میں داخل کروا کے انھیں دین کا داعی بنائیں ۔
اب اس مدرسہ میں ستر سے زائد طلبا زیر تعلیم ہیں اور مختلف کلاسز جاری ہیں ۔
المکتبۃ العلمیۃ العالیۃ
یہ ہے وہ مکتبہ جو راشدی خاندان کے محدثین نے جمع کیا اور ایک مثال قائم کر دی سبحان اللہ ۔
راقم نے اس میں جو دیکھا وہ یہ ہے کہ یہ مکتبہ ایک بہت بڑا کمرہ اور دو چھوٹے کمروں پر مشتمل ہے اور ہر طرف کتابوں کے انبار نظر آتے ہیں جس میں دینی تمام فنون کی بے شمار کتب موجود ہیں کتب رجال ،کتب حدیث ،کتب تفسیر وغیرہ پر ہزاروں کی تعداد میں کتب موجود ہیں جن میں جدید اور قدیم ہر طرح کی کتب موجود ہیں ۔اور اسی مکتبہ سے وقت کے بڑے بڑے محدثین نے فائدہ اٹھایا اور اس کے تذکرے کتب میں موجود ہیں بلکہ دنیا کے بے شمار محدثین نے اس سے فیض حاصل کیا ۔
مخطوطات :
اس مکتبہ کی شان میں یہ بھی بات شامل ہے کہ اصل قلمی مخطوطات تین سو موجود ہیں ہر ہر مخطوطہ نادر سے نادر ہے بلکہ بعض وہ بھی مخطوطے ہیں جو صرف اسی لائبریری میں ہیں ۔اور ان مخطوطات کو حاصل کرنے میں اپنا زر کثیر صرف کیا بلکہ دیگر ممالک میں اپنے کاتب بھیجے جو دیگر ممالک میں جا کر مخطوط لکھ کر لاتے ہیں تھے ۔سبحان اللہ ۔
مکتبہ کی اس قسم میں دو طرح کے مخطوطات ہیں
پہلی قسم :وہ مخطوطات جو دیگر محدثین کے ہیں جن میں متقدمین اور متاخرین کی قلمی کتب ہیں ۔
دوسری قسم :وہ مخطوطات جو راشدی خاندان کے محدثین نے ہی کتب لکھیں وہ قلمی موجود ہیں یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ اس علمی ورثے کو محفوظ کرنے میں ساری محنت فضیلۃ الشیخ علامہ قاسم شاہ راشدی حفظہ اللہ کی ہے کہ انھوں نے اپنی اولاد سے بھی زیادہ ان مخطوطات کی حفاظت کی سبحان اللہ ۔اپنے راشدی خاندان کے محدثین کی تمام کتب کو از سر نو اپنے قلم سے خوش خط کر کے لکھا اور پھر ان کی ہر لحاظ سے حفاظت کی ۔یہاں پر بطور افسوس کہنا چاہتا ہوں کہ کتنے علماء نے راشدی خاندان کے محدثین سے استفادہ کیا لیکن انھوں ان بزرگوں کی کتب کو شایع کرنے میں کوئی محنت نہ کی اور نہ ہی ان کی طرف توجہ دی ۔فانا للہ وانا الیہ راجعون ،ابھی تک تمام عربی وتحقیقی اور فنون حدیث کے متعلق کتب مخطوطات کی صورت میں پڑی ہیں!!!لیکن اسی خاندان کے چشم وچراغ فضیلۃ الشیخ علامہ انور شاہ راشدی حفظہ اللہ ان عربی کتب کو پر کام کررہے ہیں اور جلدی انھیں دیگر ممالک سے شایع کروائیں گے ۔ان شاء اللہ ۔
بعض لوگوں نے بعض مخطوطات چوری بھی کئے اور بعض نے کسی چیز کا بہانہ دے کر ان سے ناجائز فائدے حاصل کئے اور حرام مال اکٹھا کیا ۔۔۔۔اب تمام مخطوطات کو کسی اور جگہ بحفاظت اکٹھا رکھا گیا ہے تاکہ کوئی دھوکے باز دھوکہ نہ دے سکے ۔راقم کو تمام مخطوطات دیکھنے کا موقع ملا۔ والحمدللہ ۔جس میں بے شمار محدثین کے ان کے ہاتھ کی لکھائی دیکھ کر ایمان تازہ ہوا اور ان کے لیے دل سے دعائیں نکلیں ۔
تعلیقات علی الکتب :
مکتبہ میں موجود بے شمار کتب پر شیخ محب اللہ کی تعلیقات کودیکھنے کا اتفاق ہوا وہ تعلیقات تحقیقی فوائد پر مشتمل تھیں راقم نے شیخ انور صاحب کو توجہ دلائی کہ ان تمام تعلیقات کو یکجا کریں اور ان کی مزید تحقیق کریں اور جلدی انھیں کمپوزنگ کروائیں تاکہ انھیں شایع کیا جا سکے انھوں نے میری رائے کی قدر کی اور میں نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہاں پر ہی تعلیقات کو جمع کرنے کی غرض سے اور ان کی افادیت کی بنا پر لائپ ٹاپ منگوا کرشیخ کی تمام المنہ پر تعلیقات کو کمپوزنگ کرنا شروع کردیا تقریبا نوے صفحات کی تعلیقات کو جمع کیا اس سے شیخ انور صاحب نے مجھ سے وعدہ کیا کہ سب سے پہلے میں تمام کتب پر موجود تعلیقات پر کام کروں گا ۔ان شاء اللہ اور وہ اللہ تعالی کی توفیق سے کر بھی رہے ہیں۔والحمدللہ
راشدی خاندان کے محدثین کا قبرستان:
اسی گاوں میں اس خاندان کے محدثین کا قبروں پر مشتمل چھوٹا سا قبرستان تھا اس میں جانے کا کئی دفعہ اتفاق ہوا اور محدثین کے درجات کی بلندی کے لئے دعائیں کرتا رہا ۔
مدرسہ شمس الھدی بدین میں مختلف شیوخ سے ملاقات :
میرے فاضل دوست فضیلۃ الشیخ عبدالقادر رحمانی حفظہ اللہ کو جونہی میرے سندھ آنے کی اطلاع ملی انھوں نے اسی وقت کہہ دیا کہ آپ نے بدین میں مدرسہ شمس العلوم کی زیارت کئے بغیر پنجاب نہیں جانا ۔راقم نے محترم انور شاہ صاحب سے مشورہ کیا توانھوں نے کہا کہ ہاں میں اور میری گاڑی حاضر ہے تو بروز منگل بدین کی طرف سفر کیا بدین میں بعض عجیب و غریب عادات دیکھنے کا پہلی دفعہ اتفاق ہوا ۔۔۔۔بدین سٹاپ پر گاڑی روکی اور چند لمحوں بعد شیخ عبدالقادر رحمانی حفظہ اللہ سٹاپ پر پہنچ گئے اور سلام دعا کے بعد ہمیں مدرسہ شمس العلوم لے گئے وہ ماشاء اللہ کافی بڑا ادارہ ہے خوبصورت مسجد اور ایک مدرسہ کی خوبصورت بلڈنگ میں کئی ایک کمرے خوبصورت ترتیب کے ساتھ بنائے گئے تھے مدرسہ کی ایک جانب چاردیواری مکمل تھی لیکن دوسری جانب چاردیواری نہیں تھی ۔اس مدرسہ میں مدرسہ کے مھتمم اور شیخ الحدیث عبدالرزاق ابراہیمی حفظہ اللہ سے ملاقات ہوئی وہ ماشاء اللہ لمبے قد کے سادہ سے انسان تھے اور وہ نوجوانی کی حدود کراس کرنے کو تھے،شیخ عبدالحکیم حفظہ اللہ وغیرہ اساتذہ سے ملاقات ہوئی مختلف موضوعات پر گفتگو ہوئی اور شیخ الحدیث عبدالرزاق ابراہیمی حفظہ اللہ راقم کی ذاتی مصروفیات کے متعلق کافی سوالات کرتے رہے اور میں انھیں اختصار سے جوابات دیتا رہا ۔
شیخ انور صاحب بھی بدین میرے ساتھ تھے تو جب تمام ساتھیوں کو راقم نے بتایا کہ یہ محترم شیخ انورشاہ راشدی حفظہ اللہ ہیں تمام مشائخ بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ ہمیں آپ کے تحقیقی مضامین بہت پسند آتے ہیں اورمل کر بہت خوش ہوئے بعض اساتذہ نے کہا کہ ہم پیر جھنڈا کا صرف اس غرض سے سفرکرنا چاہتے تھے کہ آپ کی زیارت کی جائے لیکن آپ خود ہی ہمارے پاس تشریف لے آئے ۔
یہاں صرف چند گھنٹے ٹھہرے اور اجازت لی الوداعی ملاقات کے لئے شیخ الحدیث عبدالرزاق ابراہیمی حفظہ اللہ راقم سے ملے اور اسی دوران کہنے کہ شیخ آپ کو چھوڑنے کو دل نہیں کرتا آپ یہاں رہیں تاکہ آپ سے بہت زیادہ باتیں کر سکوں لیکن آپ ہم کو غمگین حالت میں چھوڑ کے جا رہے ہو !!ابھی کمرے سے باہر ہی نکلے تھے کی شیخ محترم نے ایک رجسٹر نکالا اور کہا کہ اس پر کچھ تاثرات لکھ دیں توراقم نے جو دیکھا وہ لکھ دیا اور بطور فائدہ عرض ہے کہ اس رجسٹر کے جس صفحے پر میں نے تاثرات لکھے اس کے ماقبل صفحے پر میرے استاد محترم شیخ حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کے قلم سے بھی تاثرات لکھے ہوئے تھے ،پوچھنے پر ساتھیوں نے بتایا کہ ابھی چند دن پہلے شیخ محترم جامعہ میں تشریف لائے تھے ۔
ریلوے اسٹیشن حید رآباد پر بعض اہل علم سے ملاقات !
محترم سید انور صاحب مجھے اپنی گاڑی پر حیدر آباد اسٹیشن پر چھوڑ گئے فجزاہ اللہ خیرا ۔حید رآباد سے بعض دوست مسلسل رابطے میں تھے کہ ہم آپ سے ملنا چاہتے ہیں تو راقم نے انھیں اطلاع کر دی کہ اب میں تین گھنٹے ریلوے اسٹیشن پر ہوں پھر سفر شروع ہو جائے گا تو بعض ساتھی ملاقات کی غرض سے اسٹیشن پر پہنچ گئے اس دوست کا نام محترم قاری شعیب حفظہ اللہ تھا ان سے میری پہلی ملاقات تھی ویسے سکائیپ اور فون پر پہلے بھی رابطہ رکھتے تھے انھوں نے مختلف شکوک و شبھات پیش کیے اور ان کی وضاحت طلب کی تو راقم نے ان کے مختصر جوابات دیئے اور بھائی کے ذہن میں جو سنی سنائی باتیں تھیں ان پر ساری صورت حال سامنے آگئی اور وہ مطمئن ہو گئے والحمدللہ ۔افسوس کہ اہل علم سنی سنائی بات کو پلے باندھ کر پھیلاتے رہتے ہیں حالانکہ جو بھی بات سنی ہو اس کی تحقیق کرنا فرض ہے اور بغیر تحقیق کے اسے آگے نشر کرنا کبیرہ گناہ ہے ۔
اسی دوران ٹرین آگئی میں اس پر سوار ہوگیا اور واپس اپنے گھر خیرو عافیت سے پہنچا والحمدللہ ۔
نوٹ:سندھ کا سفر کافی لمبا سفر ہے کافی تھکاوٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے آئندہ جب بھی گیا جہاز پر جاؤں گا ان شاء اللہ تاکہ وقت اور صحت کو نقصان نہ ہو۔
فائدہ:راشدی خاندان کی علمی تراث اب انٹر نیٹ پر بھی پیش کی جارہی ہے فی الحال ایک بلوگ پر کام شروع کر دیا گیا ہے جس کا نام :.PIRJHANDA.BLOGSPOT.comاس بلوگ کا وزٹ ضرور کیا کریں ۔
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔