السلام علیکم
محترم میرے سامنے ماہنامہ الحدیث شمارہ :۱۰۱ ہے اس میں جناب حافظ زبیر علی زئی صاحب نے اجماع سے ثابت کیا ہے کہ صرف موٹی جرابوں پر مسح جائز ہے ؟؟؟
اس کے متعلق چند سوالات جنم لیتے ہیں ان پر تفصیلی جواب عنایت فرمائیں
سوال ۱:یہ اجماع کہاں ہوا اور کب ہوا کتنے لوگوں اس اجماع میں شریک تھے ؟؟
سوال ۲:موٹی اور بریک کا فرق کیا قرآن وحدیث میں موجود ہے ؟جس کے لئے اجماع کو دلیل بنایا گیا ؟
سوال ۳:کسی کے لفظ اجماع لکھ دینے سے وہ اجماع حقیقت میں ہو جاتا ہے خواہ وہ قرآن و حدیث کے خلاف ہی ہو ؟
سوال ۴؟ہم کس کو بریک کہیں گے ؟؟؟کتنی مقدار میں بریک ؟اس کی حد بھی اجماع نے مقرر کی ہے ؟؟!!
سوال ۵:راجح مسئلہ کیا ہے موٹی اور بریک جرابوں کے بارے میں قرآن و حدیث سے جواب دیں ؟
سوال۶:جو اہل علم اجماع کو حجت مانتے ہیں ان کے بارے میں کوئی علمی رد دستیاب کریں ؟
جواب: موٹی جرابوں پر مسح کرنے پر اجماع کس تاریخ کو ہوا ؟!!
۱۔ اس اجماع کے بارہ میں فضیلۃ الشیخ مولانا حافظ زبیر علی زئی صاحب حفظہ اللہ فرماتے ہیں :
ابن حزم الاندلسی (متوفى ۴۵۶ھ) نے صحابہ کرام کے بارہ میں لکھا ہے " لا مخالف لهم من الصحابة ممن يجيز المسح " جو صحابہ (جرابوں پر) مسح کو جائز سمجھتے تھے , صحابہ میں انکا کوئی مخالف نہیں ۔ (المحلى ۸۷/۲ مسئلہ ۲۱۲)
ابن قدامہ الحنبلی نے لکھا ہے : اور چونکہ صحابہ نے جرابوں پر مسح کیا ہے اور ان کے زمانے میں ان کا کوئی مخالف ظاہر نہیں ہوا , لہذا اس پر اجماع ہے کہ جرابوں پر مسح کرنا صحیح ہے ۔ (المغنی ۱۸۱/۱ مسئلہ : ۴۲۶)
انتہى ۔ (مجلہ الحدیث شمارہ ۱۰۱ ص ۴۳)
انکی اس عبارت میں آپکے سوال کا جواب موجود ہے کہ اجماع کب ہوا ؟ یعنی انکے زعم میں اجماع صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانہ ہوا تھا !!!
لیکن اجماع کی یہ دلیل دعوى سے اعم ہے , یعنی دعوى اخص ہے اور دلیل اعم , دعوى ہے کہ "موٹی جرابوں" پر مسح.... الخ جبکہ دلیل ہے "جرابوں" پر مسح ....الخ ۔ فتدبر !
گویا دلیل موٹی اور باریک دونوں قسم کی جرابوں کو شامل ہے , جبکہ دعوى صرف موٹی جرابوں کے بارہ میں ہے ۔
اور پھر موصوف اس دلیل سے باریک جرابوں کو خارج کرنے کے لیے ایک اور دلیل پیش کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :
ابن القطان الفاسی (المتوفى ۶۲۸ھ) نے بحوالہ کتاب النیر للقاضی ابی العباس احمد بن محمد بن صالح المنصوری(المتوفى ۳۵۰ھ تقریبا) بطور جزم لکھا ہے " وأجمع الجميع أن الجوربين إذا لم يكونا كثيفين لم يجز المسح عليهما" اور سب کا اس پر اجماع ہے کہ اگر جرابیں موٹی نہ ہوں تو ان پر مسح جائز نہیں ۔
الاقناع فی مسائل الاجماع ج ۱ ص۲۲۷ فقرہ :۳۵۱
انتہی ۔ (مجلہ الحدیث شمارہ ۱۰۱ ص ۴۳)
لیکن یہ بھی محض دعوى ہی ہے اور بلا دلیل ہے !!!
کیونکہ اجماع کے دعوى سے اجماع ثابت نہیں ہوتا ! ۔ اور پھر یہ اجماع سابقہ اجماع کے ایک گونہ مخالف بھی ہے ! لہذا سابقہ اجماع یعنی اجماع صحابہ کے مخالف ہونے کی وجہ سے یہ اجماع مردود ہے !
(یاد رہے کہ ہمارے نزدیک اجماع حجت ہی نہیں ہے اور نہی اسکی حجیت پر کتاب وسنت کی کوئی دلیل ہے !)
پھر موصوف لکھتے ہیں :
اگر کوئی کہے کہ امام ابن المنذر نے لکھا ہے "ایک گروہ نے جرابوں پر مسح کا انکار کیا ہے اور اسے ناپسند کیا ہے ۔ ان میں مالک بن انس , اوزاعی , شافعی اور نعمان (ابو حنیفہ) ہیں اور عطاء (بن ابی رباح) کا یہی مذہب اور آخری قول ہے ۔ مجاہد , عمرو بن دینار اور حسن بن مسلم اسی کے قائل ہیں ۔
الاوسط لابن المنذر ۴۶۵/۱ , دوسرا نسخہ۱۱۹/۲
ان آثار میں امام مالک , اوزاعی ,ابو حنیفہ نعمان ,عطاء بن ابی رباح , مجاہد , عمرو بن دینار اور حسن بن مسلم سے جرابوں کا انکار صحیح متصل سند کے ساتھ ثابت نہ ہونے کی وجہ سے مردود کے حکم میں ہیں ۔ انتہی (مجلہ الحدیث شمارہ ۱۰۱ ص ۴۳,۴۴)
تو عرض ہے کہ جس طرح مذکورہ بالا محدثین عظام و فقہائے کرام سے سے جرابوں کا انکار صحیح متصل سند کے ساتھ ثابت نہ ہونے کی وجہ سے مردود کے حکم میں ہے تو اجماع ثانی کے دعوى میں "جمیع" سے باریک جرابوں کا انکار بھی صحیح متصل سند کے ساتھ ثابت نہ ہونے کی وجہ سے مردود کے حکم میں ہے۔ فتدبر !
۲۔ موٹی اور باریک کا فرق نہ کتاب وسنت میں ہے اور نہ ہی مزعومہ اجماع میں ہے ! کما بینا۔
۳۔ کسی کے اجماع کا دعوى کر لینے سے اجماع نہیں ہوتا ! ۔ بلکہ اجماع کے اکثر دعویداران "لا اعلم خلافا " کہنے کے بجائے اجماع کا دعوى کر بیٹھتے ہیں جیسا کہ موصوف کے پیش کردہ اجماع صحابہ کی حالت ہے کہ ابن حزم نے تو صحابہ کرام کے بارہ میں لکھا ہے " لا مخالف لهم من الصحابة ممن يجيز المسح " جو صحابہ (جرابوں پر) مسح کو جائز سمجھتے تھے , صحابہ میں انکا کوئی مخالف نہیں ۔ (المحلى ۸۷/۲ مسئلہ ۲۱۲)
اس پر ابن قدامہ الحنبلی نے اجماع کا دعوى داغ دیا اور کہہ دیا : اور چونکہ صحابہ نے جرابوں پر مسح کیا ہے اور ان کے زمانے میں ان کا کوئی مخالف ظاہر نہیں ہوا , لہذا اس پر اجماع ہے کہ جرابوں پر مسح کرنا صحیح ہے ۔ (المغنی ۱۸۱/۱ مسئلہ : ۴۲۶)
یعنی اختلاف کا علم نہ ہونے کا نام اس طبقہ کے ہاں اجماع بن گیا ہے !!! فاللہ المستعان۔
۴۔ جب اجماع ہوا ہی نہیں تو اس فرق پر اجماع کیسا ؟؟؟
۵۔ راجح مسئلہ یہی ہے کہ جس چیز پر لفظ جراب صادق آتا ہے اس پر مسح کرنا جائز ہے ۔ خواہ وہ باریک ہوں یا موٹی صحیح وسالم ہوں یا پھٹی ہوئی ۔
اور اجماع کسی بھی چیز کے لیے دلیل نہیں بنتا اور بقول ابن رشد :
وَأَمَّا الْإِجْمَاعُ فَهُوَ مُسْتَنِدٌ إِلَى أَحَدِ هَذِهِ الطُّرُقِ الْأَرْبَعَةِ، إِلَّا أَنَّهُ إِذَا وَقَعَ فِي وَاحِدٍ مِنْهَا، وَلَمْ يَكُنْ قَطْعِيًّا، نَقَلَ الْحُكْمَ مِنْ غَلَبَةِ الظَّنِّ إِلَى الْقَطْعِ. وَلَيْسَ الْإِجْمَاعُ أَصْلًا مُسْتَقِلًّا بِذَاتِهِ مِنْ غَيْرِ إِسْنَادٍ إِلَى وَاحِدٍ مِنْ هَذِهِ الطُّرُقِ، لِأَنَّهُ لَوْ كَانَ كَذَلِكَ لَكَانَ يَقْتَضِي إِثْبَاتَ شَرْعٍ زَائِدٍ بَعْدَ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - إِذَا كَانَ لَا يَرْجِعُ إِلَى أَصْلٍ مِنَ الْأُصُولِ الشَّرْعِيَّةِ.
بدایۃ المجتہد ونہایۃ المقتصد ص ۱۱
۶۔ اس کا رد سابقہ مراسلہ میں آپ نے خود ہی نقل فرما دیا ہے ۔
مزید تفصیل یہاں دیکھ لیں
السلام علیکم
بحوالہ
http://www.ahlulhdeeth.com/vb/showthread.php?t=398#.UUZcv_n-B1s
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔