راقم جامعہ رحمانیہ کا چوتھی کلاس میں تھااس کلاس میں استاد محترم میرے محسن اور مربی شیخ عبدالرشید راشد رحمہ اللہ ہمیں سنن النسائی پرھاتے تھے تو راقم نے سنن النسائی کے ضعیف پر کام شروع کردیا روزانہ رحمانیہ لائبریری میں جاتا اور کتب رجال کی مدد سےسنن النسائی کے ضعیف راوی جمع کرنے شروع کئے تھے اسی دوران میں اکثر شیخ مبشر ربانی حفطہ اللہ کے پاس بھی جایاکرتا تھا جو سکیم موڑ ابوبکر صدیق مسجد میں ہوا کرتے تھے ایک دن میں ان سے سنن النسائی کے ضعیف رواۃ پر مشورہ کیا کہ کام کس طرح ہوناچاہئےتو شیخ ربانی صاحب شفاہ اللہ نے مجھے کہا کہ آپ شیخ زبیر علی زئی صاحب سے رابطہ کریں وہ دارالسلام لار ہور میں ہوتے ہیں ان سے رابطہ کریں اور مبشرصاحب نے مجھے شیخ محترم کا نمبر بھی دیا
پھر راقم نے شیخ محترم کو فون کیا اور مشورہ لیا توشیخ صاحب نے بتایا کہ یہ بہت اچھا کام ہے اس میں ایک اضافہ بھی کریں کہ ضعیف راوی کے استاد اور شاگر دکا نام بھی لکھ دیں یہ بھہ فائدہ مند رہے گا ۔
شیخ محترم کا پہلی مرتبہ نام سنا اورپہلی مرتبہ شیخ سے میری بات ہوئی اس کے بعد گاہے بگاہے فون پر رابطہ رہا ۔
اقم ہر اس شخص کو استاد محترم کہتا ہے جس سے تھوڑا استفادہ کیا ہو یا زیادہ
استاد محترم کے پاس حضرو اٹک میں میں 2003کوچار دن ٹھہرا تھا اور فون پر استفادہ کی انتہاء نہیں ہے والحمدللہ
راقم نے شیخ محترم سے بہت کچھ سیکھا اور انھوں نے اپنا قیمتی وقت نکال کر مجھے وقت دیا اور ہر طرح کی علمی استفادے کا موقع فراہم کیا
فجزاہ اللہ خیرا
میں اس وقت مرکز التربیۃ الاسلامیۃ فیصل آباد میں تخصص کی کلاس کے آخری سال میں تھا اور حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ کی کتاب الاصلاح کی تحقیق و تخریج کرکے مقالہ پیش کرنا تھا اس کی خاطر میں نے شیخ صاحب کے طرف سفر کیا کیوںکہ چند کتب مل نہیں رہی تھیں تو شیخ صاحب سے فون پر رابطہ ہوا تو شیخ محترم نے فرمایا کہ میرے وہ کتب ہیں اس لئے مجھے جانا پڑا۔
اس وقت شیخ صاحب کے پاس فضل اکبر کاشمیری صاحب بھی تھے ۔
اور شیخ محترم سے میری پہلی ملاقات تھی لیکن انھوں نے اس طرح محبت کی گویا کئی سالوں سے میرے ان سے تعلقات ہیں فجزاہ اللہ خیرا
۔۔۔
شیخ محترم کے وہ اوصاف و معمولات جو میں نے دیکھے
راقم نے دیکھا کہ شیخ محترم وقت کے بہت پابند ہیں وقت پر سوتے ہیں وقت پر لکھتے ہین اور وقت پر ہی مطالعہ کرتے ہیں ،میں دیکھا تھا کہ شیخ محترم تہجد کے وقت بیدار ہو جاتے تھے راقم تھجد کے وقت لائبریری میں آتا تو شیخ محترم مطالعہ میں مصروف ہوتے ایک دفعہ پوچھا کہ شیخ صاحب اب کیا کر رہے ہو تو فرمانے لگے کہ کوئی اچھی سی عربی کتاب تلاش کررہاہوں جس کا ترجمہ کیا جائے ۔
نماز فجر خود پڑھاتے تھے اور جمعہ بھی خود پڑھاتے تھے ،نماز فجر کے بعد لائبریری میں آجاتے تو مسلسل لکھتے رہتے اور کھانے کے وقت گھر تشریف لے جاتے پھر دوبارہ لائبریری میں آجاتے اور تقریبا گیارہ بجے تک لکھنے اور تحقیق کرنے میں مصروف رہتے پھر قیلولہ کرتے اور یہ قیلولہ بھی لائبریری سے متصل ایک چھوٹے سے حال میں کرتے ویسے شیخ محترم کا لائبریری کے چھسوٹے کمرتے میں بھی ایک چارپائی موجود تھی اور آپ وہاں بھی کبھی سوتے تھے۔
قیلولہ تقریبا آدھا گھنٹہ تک کرتے تھے ۔
پھر ظہر تک مسلسل تحقیق اور کتب لکھنے میں مصروف رہتے نماز ظہر سے فارغ ہوکر نماز عصر تک مسلسل لکھنے میں مصروف رہتے اور نماز عصر کے بعد بھی یہی مصروفیات ہوتیں لیکن نماز مغرب سے تقریبا آدھا گھنٹہ پہلے ہم اکٹھے بارہ چلتے مختصر سی سیرو تفریح کرتے اس میں علمی بحوث جاری رہتیں ۔
اسی طرح نماز مغرب کے شیخ محترم صرف مطالعہ کرتے اور وہ آج تک ترتیب سے کتب کا مطالہ کررہے ہیں اس میں شیخ محترم ہزاروں کتب بالاستیعاب مطالعہ کیا اور شیخ محترم فوائد جمعہ کرنے کی غرض سے مختلف رجسٹر بنائے تھے جن میں و فوائد لکھتے رہتے تھے۔
نماز عشاء کے بعد فورا سو جاتے تھے ۔
یعنی شیخ محترم کا اوڑھنا بچھونا علم اور لکھنا ہے والحمدللہ
۔۔۔۔
شیخ محترم کی خدمات پر ایک نظر
شیخ محترم نے فرقہ باطلہ دیوبند یت اور بریلویت و حنفیت اور انکار حدیث کے تعاقب بہت کچھ لکھا جواگر مستقل الگ جمع جائے تو کئی جلدوں پر محیط زبر دست کتاب تیار ہو جائے
ہر بات کی تحقیق کرنا شیخ محترم نے اس کی بنیاد ڈالی اگرچہ حدیث کی تحقیق کرنے والے تو بے شمار لوگ تھے لیکن رواۃ کی تحقیق میں بھی شیخ نے اسانید کی تحقیق کی ۔
بے شمار کتب کے ترجمے کئے اور انھیں قبول عام حاصل ہے
ماہنامہ الحدیث کا اجراء ایک قیمتی رسالہ جس میں مسلسل تحقیقی مضامین شایع ہورہے ہیں ۔
رہنمائی کرنا شیخ محترم میں یہ خوبی بھی اتم درجہ پائی جاتی ہے کہ وہ طلباء کی رہنمائی بہت زیادہ کرتے ہیں ۔
تحقیق حدیث و آثار شیخ محترم خاص مشغلہ ہے اور بے شمار قیمتی کتب کی تحقیق و تخریج کر چکے ہیں ۔
اللہ تعالی شیخ محترم کے علم اور عمر میں برکت فرمائےاور ان کی تمام دینی خدمات قبول فرمائے ۔آمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مختصر حالات
محققِ دوراں حافظ زبیر علی زئی ، 25۔جون 1957ء کو حضرو ، ضلع اٹک میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد محترم حاجی مجدد خان اپنے علاقے کی معروف مذہبی و سماجی شخصیت ہیں۔
شیخ زبیر نے ایف۔اے تک باقاعدہ تعلیم حاصل کی ، بعد ازاں پرائیویٹ طور پر بی۔اے اور 1983ء میں ایم۔اے (اسلامیات) اور 1994ء میں ایم۔اے (عربی) پاس کیا۔
1990ء میں جامعہ محمدیہ جی۔ٹی روڈ گجرانوالہ سے دورہ حدیث کیا اور بفضل تعالیٰ سارے جامعہ میں سر فہرست رہے۔ وفاق المدارس السلفیہ فیصل آباد کا امتحان بھی پاس کیا۔
1972ء میں صحیح بخاری کی پہلی جلد پڑھی تو اس وقت سے دل کی دنیا بدل گئی اور آپ عامل بالحدیث ہو گئے اور مقصد حیات تبلیغِ حدیث ٹھہرا لیا۔
آپ نے حدیث نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تعلیم کی خاطر دورِ حاضر کے نامور شیوخ الحدیث سے شرف تلمذ پایا ہے جن میں سے چند اسمائے گرامی یہ ہیں :
بدیع الدین شاہ راشدی (م:1996ء)
عطاءاللہ حنیف بھوجیانی (م:1987ء)
حافظ عبدالمنان نورپوری
حافظ عبدالسلام بھٹوی
مولانا اللہ دتہ سوہدروی
مولانا عبدالغفار حسن
وغیرہ۔
آپ کو پشتو ، ہندکو ، اردو ، انگریزی ، یونانی اور عربی میں لکھنے ، پڑھنے اور بولنے پر مکمل عبور حاصل ہے جبکہ فارسی صرف پڑھنے او سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
1982ء میں آپ کی شادی ہوئی جس سے اللہ تعالیٰ نے تین بیٹے اور چار بیٹیاں عطا فرمائی ہیں۔ ایک بیٹا عبداللہ ثاقب حافظ قرآن ہے اور دوسرا بیٹا معاذ حفظ کر رہا ہے۔
آپ کا ایک نمایاں کارنامہ ماہانہ مجلہ "الحدیث ، حضرو" کا اجراء ہے جس کے اب تک 47 شمارے منظر عام پر آ چکے ہیں۔
عربی اور اردو کے موقر رسائل و جرائد میں آپ کے بیشمار تحقیقی مقالات شائع ہو چکے ہیں اور آپ کی گرانقدر علمی و تحقیقی تصانیف سے ایک زمانہ متاثر ہے اور فیضیاب ہو رہا ہے۔
۔۔۔۔۔
شیخ محترم کا ایک قیمتی قول
شیخ محترم حافظ زبیر علی زئی کے کلام کا ایک اقتباس میش خدمت ہے۔ شیخ محترم لکھتے ہیں:
’’ہم جب کسی راوی کو ثقہ و صدوق یا حدیث کو صحیح و حسن لذاتہ قرار دیتے ہیں تو اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے، تناقض و تعارض سے بچتے ہوئے، غیر جانبداری سے اور صرف اللہ کو راضی کرنے کے لئے کسی راوی کو ثقہ و صدوق حسن الحدیث اور حدیث کو صحیح و حسن قرار دیتے ہیں۔ ایک دن مر کر اللہ کے دربار میں ضرور بالضرور اور یقینآ پیش ہونا ہے۔ یہ نہیں کہ اپنی مرضی کی روایت کو صحیح و ثابت کہہ دیں اور دوسری جگہ اسی کو ضعیف کہتے پھریں۔ یہ کام تو آلِ تقلید کا ہے!
اگر کوئی شخص میری کسی تحقیق یا عبارت سے تضاد و تعارض ثابت کر دے تو اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ علانیہ رجوع کروں گا، توبہ کروں گا اور جو بات حق ہے برملا اس کا اعلان کروں گا۔ لوگ ناراض ہوتے ہیں تو ہوتے رہیں، بس اگر اللہ تعالیٰ راضی ہو جائے تو اسی میں دونوں جہانوں کی کامیابی ہے ۔ اے اللہ! میری ساری خطائیں معاف کر دے۔آمین
صحیح بخاری و صحیح مسلم اور مسلکِ حق : مسلکِ اہلِ حدیث کے لئے میری جان بھی حاضر ہے۔ یہ باتیں جذباتی نہیں بلکہ میرے ایمان کا مسئلہ ہے۔‘‘ (تحقیقی، اصلاحی اور علمی مقالات: ج 2 ص 259۔260)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیخ محترم کی ساری زندگی کتب کی تالیف ،ترجمہ اور تحقیق میں صرف ہوئی ہے تمام کتب ہی قیمتی ہیں لیکن نور العینین بلا مبالغہ اپنے موضوع پر انسائیکلوپیڈیا ہے اسی طرح ماہنامہ الحدیث ایک جدید طرز کا خالصۃ تحقیقی رسالہ ہے جو شاید اپنے انداز میں بر صغیر میں پہلا رسالہ ہےاور شیخ محترم کی بے شمار کتب وتحقیقات پہلے اس رسالے میں شایع ہوئی ہیں لیکن بعد میں کتابی شکل میں بھی شایع کی گئی ہیں ،اور انوار الصحیفۃ بھی قیمتی کتاب ہے کہ مختصر انداز میں روایات کی تحقیق کردی گئی ہے فجزاہ اللہ خیرا ۔یاد رہے کہ شیخ محترم کے منھج پر آخر میں بات ہو گی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
استاد محترم شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کے دفاع میں
آل دیوبند کی یاوہ گوئی سے کون ناواقف ہے جو قرآن و حدیث اور صحابہ کرام کو بھی معافی نہیں دیتے بلکہ گالی گلوچ سے کام لیتے ہیں یہ عادت انھیں اپنے آباء سے ورثے میں ملی ہے دیوبندیوں کو جب اہل حق اہل حدیث کی کامیابی چہار سو نظر آتی ہے اور د؛ائل و براہین کے آگے بے بس ہو جاتے ہیں تو پھر ان کے پاس ایک ہی ہتھیار وہ ہے گالیاں دینا خواہ مدمقابل قرآن ہو یا حدیث صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین ہوں یا علماء حق اہلحدیث بس گالیوں کے سوا ان کے پاس ہے بھی کچھ نہیں
یہی صورت انھوں نے استاد محترم شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کے ساتھ اپنائی کسی میں یہ تو ہمت نہ رہی کہ محترم شیخ صاحب کی کتب کا دلائل کی روشنئ ردکریں بس اپنی طرف سے جھوٹ بنا کر گالیاں دینی شروع کر دیں ۔
اے آل دیوبند!تم کو گالیاں مبارک اور ہمیں قرآن و حدیث کادفاع مبارک ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آل دیبوبند کی تحریر کا نمونہ دیکھیں
زبیر علیزی کذاب کا امام ابوحنیفہ کو دو دفعہ ابو خبیثہ لکھنا
زبیر علیزی کی کچھ ویڈیوز غیر مقلدین نے انٹرنیٹ پر لگا رکھی ہیں ۔ اور واللہ اسکی شکل دیکھ کر پتا چلتا ہے کہ اسکے چہرے پر پھٹکار برس رہی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امت مسلمہ یہ دیکھ کر حیران تو ہوتی ہوگی کہ کیسے یہ دین کے دشمن آل دیوبند ، حدیث کے داعی اور بدعات کو رد کرنے والے پر کیسے بے ہودہ الفاظ استعمال کر رہے ہیں انھوں نے تو صحابہ کرام کو بھی معاف نہیں کیا ہم کون ہیں /
ہمارا ایمان ہے کہ قرآن و حدیث پر عمل کرنے والے اور اس کی طرف دعوت دینے والے کے چہرے پر رونق اور رحمت خدا وندی اترتی ہے رہی پھٹکار تو وہ ان لوگوں پر اترتی ہے جو قرآن وحدیث کی مخالفت میں کمر بستہ ہیں جھوٹ کو سفید بنانے میں اپنی زندگیاں وقف کئے ہوئے ہیں
قرآن وحدیث سے مذاق کرنے والے ہر جگہ مخالفت کرتے نظر آتے ہیں یہاں قرآن وحدیث کی مخالفت کی ہے کیونکہ کسی کی شکل و صورت پر عیب جوئی کرنا حرام ہے اصل معیار عمل ہیں مگر افسوس کہ آل دیوبند ایک احسن تقویم اور قرآن و حدیث کی خاطر اپنی زندگی وقف کرنے والے اور لوگوں کو بدعات و خرافات سے باخبر کرنے والے پر اس طرح کے الفاظ بولتے ہیں ۔یہ تو کل قیامت کو انصاف ہوگا کہ جو تقلید امام کی آڑ میں بے ہودہ مسائل کو دین بناتے تھےا ن کے چہروں پر پھٹکار پڑتی ہے یاقرآن وحدیث کو اپنا زندگی کا مقصد بنانے والے کے سر پر عزت کا تاج سجایا جایا جائے گا ۔ان شاء اللہ
اے آل دیوبند !ایسی حرکتوں سے رک جائیں ورنہ تمہارے اہل علم کی کرتوتوں سے ہم اچھی طرح واقف ہیں ۔
حلالہ کرنے والے آل تقلید کے چہرے کس طرح نورانی ہو سکتے ہیں !
کسی کی رنگت پر حکم لگانا تمہارا کام ہے اس کو امام بنا نا جس کی بیوی خوبصورت ہو اس طرح انسانیت کا احترم فقہ حنفی پامال کرتی ہے ۔ اور رنگت کا کوئی معیار نہیں اصل معیار عمل کا ہے کون قرآن و حدیث کا پابند ہے وہ سرخرو ہے خواہ وہ بلال حبشی رضی اللہ عنہ ہواورجو مخالفت کرتا ہے وہ خسارے میں ہے دونوں جہانوں میں۔ خواہ وہ ابو لہب ہی کیوں نہ ہو
تمہارے پاس کیا پیمانہ ہے جس سے تمہیں پھٹکاروں کا علم ہو جاتا ہے لگتا ہے پہلے اپنے چہرے دیکھوں ؟!
تقابل اور آخری بات
استاد محترم حافظ زبیر زئی حفظہ اللّہ نے تو الحدیث رسالے کی پشت پر (ہمارا عزم ) بالکل صاف لکھا ہے کہ قرآن و حدیث اور اجماع کی برتر ی سلف صالحین کے متّفقہ فہم کا پرچار۔ اتباع کتاب و سنّت کی طرف والہانہ دعوت ۔قرآن و حدیث کے ذریعے اتّحاد امّت کی طرف دعوت ۔
مزید تفصیل کے لیئے دیکھیں (فتاوی اہل حدیث ۱/۶۹ماہنامہ الحدیث ۱/۴)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اہل تقلید کے تینوں گروپ (،حنفی ،بریلوی و دیو بندی )مخصوص مقاصد کے لئے حدیث پر کام کرتے ہیں مثلا ترجمہ ،تشریح یا مدارس میں دورہ حدیث اس سے دفاع حدیث مقصد نہیں ہوتا بلکہ توہین حدیث کا فریٖضہ سر انجام دیتے ہیں اسی پر کچھ حوالے پیش خدمت ہیں ۔
مظہر نانوتوی ،رشید احمد گنگوہی کو کہا کرتے تھے :’’حدیث تو آپ کے سامنے آکر حنفی ہوجاتی ہے ۔(قصص الاکابر ص١٤٢،طبع المکتبۃ الاشرفیہ لاہور )
حسین احمد مدنی نے کہا :’’امام صاحب سے متون تو منقول ہئں دلائل منقول نہیں ہیں لہذا دلائل کا تسلیم کرنا ہم پر ضروری نہیں ہے ۔‘‘(تقریر ترمذی اردو ص ٧٢ طبع کتب خانہ مجیدیہ ملتان )
زکریہ کاندہلوی آپ بیتی میں لکھتے ہیں :قانون تعلیم یہ تھا کہ ہر حدیث کے بعد یہ بتانا ضرری تھا کہ یہ حدیث حنفیہ کے موافق ہے یا مخالف ۔اگر خلاف ہے تو حنفیہ کی دلیل اور حدیث پاک کا جواب ،یہ تمام گویا حدیث کا جزو لازم تھا ۔‘‘(آپ بیتی نمبر ١ص٣٠طبع مکتبہ رحمانیہ لاھور )
ابن ابی العز الحنفی فرماتے ہیں :فطائفۃ قد غلت فی تقلیدہ فلم تترک لہ قولا وانزلوہ منزلۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم وان اورد علیھم نص مخالفۃ قولہ تاولوہ علی غیر تاویلہ لیدفعوہ عنہ ۔(الاتباع :٣٠)
تحریف کرنی پڑی تو کی قرآن میں بھی اور حدیث میں
دیکھے
قرآن وحديث میں تحریف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قارئین فیصلہ کریں کہ حدیث کا دفاع کون کرتا ھے اور حدیث کی توھین کون کرتا ہے ؟
اور پھٹکار کا مستحق کون ہے ہر عقلمند کو علم ہے !
اللہ کی توفیق خاص سے راقم اپنیزندگی میں کسی فرق باطلہ کو قرآن و حدیث کے داعی کو بات نہیں کرنے دے گا ان شاء اللہ
علماء اہل حدیث کو گالی دینے والا قرآن و حدیث کے داعی کو گالی دیہتا ہے ۔!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علمی اختلاف برحق ہے :
راقم نے یہ منھج شیخ محترم سے ہی لیا ہے کہ کبھی کسی استاد کی تقلید نہیں کرنی بلکہ دلائل کی بنیا دپر اختلاف کرو اور الحمدللہ جو بات یا تحقیق کسی کی صحیح ہو وہ سر آنکھوں پر لیکن جس طرح ہمیں دیگر کئی ایک محققین و علماء کرام سے اختلاف ہے اسی طرح شیخ محترم سے بھی بعض تحقیقی و اصولی اور منھجی اختلاف ہے (شیخ محترم کی ہر ہر کتاب میں علمی و منھجی اختلاف کی گنجائش موجود ہے اور اہل علم اس پر کام کر رہے ہیں تاکہ غلط بات کی تردید کی جائے اور غلط کو حق نہ سمجھا جائے !!)ہم شیخ محترم یا کسی بھی عالم دین سے سو فیصد متفق نہیں ہیں بلکہ غلط کو غلط کہتے ہیں خواہ وہ غلطی کسی سے بھی ہو ۔اور یہ بات ہمارے ذہن میں ہے اور اسی منھج کو اپنے طلباء اور اپنی کتب و رسائل میں بھی عام کررہے ہیں اس سے کسی کو کوئی تکلیف نہیں ہونی چاہئے اور نہ ہی اسے کفر ،اسلام کی جنگ سمجھنا چاہئے جیسا کہ بعض طلباء باور کرانا شروع کر دیتے ہیں ہماری زندگی کا منھج سچ کی تائید اور غلط کی تردید ہے خواہ غلطی کرنے والا حقیقی باپ ہی کیوں نہ ہو ۔
راقم ہر اس شخص کے لئے دعا گو ہے جو مجھے میری غلطی پر احسن انداز مین تنبیہ کرے
shakeel7572628@gmail.com
alfaaz nahi hai