آپ کی معلومات

Tuesday, 19 March 2013

علماء کرام کے دینی مکتبوں کی طرف علمی سفر!ایک پیغام!

0 comments

تالیف:ابن بشیر الحسینوی الاثری
اللہ تعالی کی توفیق سے راقم نے 1999کو دینی علم کی تعلیم کی ابتداء جامعہ لاہور الاسلامیہ سے کی غالباً 2001 کی ابتداء میں دینی مکتبوں کی طرف سفر شروع کر دیا اس سفر کی تفصیل اس نیت سے لکھ رہاہوں شاید کسی بھائی اس سے کوئی نصیحت حاصل اور کوئی خیرکی بات ملے ۔ 
راقم نے اپنے کزن مولانا آصف محمود بن محمد حسین سے ایک دن پوچھاکہ محترم !
قریب کوئی دینی کتب کامکتبہ ہے میں مطالعہ کرنا چاہتاہوں ،انھوں نے کہاکہ کچھ دور ہے ۔میں نے کہا کہ مجھے دکھا دیں ایک دفعہ پھر میں خودچلاجایاکروں گا۔تو وہ مجھے ایک دن عصر کے بعدجامعہ لاہور الاسلامیہ کے مکتبے مکتبہ رحمانیہ میں لے کر گئے ! دکھایا اورواپس لے آئے ۔ فجزاہ اللہ خیرا ۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جس ترتیب سے راقم نے مختلف مکتبوں کی طرف سفر کیا اسی ترتیب سےلکھنے کی کوشش کی جائے گی ان شاءاللہ ۔یہ سب کچھ محض اللہ تعالی کی رضا کے لئے اور طلباء علوم نبوت کو فکر دینے کے لئے کہ علماءکرام کےدینی مکتبوں کی طرف سفر ہم کیوں نہیں کرتے ۔ایک نصیحت اور خیر خواہی کےجزبے سے لکھ رہا ہوں اور کوئی مقصد نہیں ۔جس چیزسے مجھے فائدہ پہنچا شایداسی کواپنا کر کسی دوسرے بھائی کوبھی فائدہ پہنچ جائے ۔ان شاء اللہ
مکتبہ رحمانیہ 
91 بابر بلاک جے ماڈل ٹاون لاہور 
یہ وہ مکتبہ ہے جس میں راقم نے زمانہ طالب علمی کا کافی وقت گزارا ۔ روزانہ نماز ظہر کے بعد جامعہ لاہورالاسلامیہ کی کلاس سے چھٹی ہو جاتی تھی۔تو نماز کے فوراً بعد اپنی کاپی لے کر مکتبہ کی طرف سفر کرتا اور تقریباً نماز مغرب تک رہتا بسا اوقات تو نماز عشاء بھی مکتبہ کی چھوٹی مسجد میں ہی ادا کرتا۔اس مکتبہ سے راقم نے بہت زیادہ فائدہ اٹھایا اس زمانے میں مکتبہ میں استاد محترم شیخ آصف اریب اور ان کے ساتھ ایک اور افغانی شیخ موسوعۃ القضائیۃ پر کام کر رہے تھے استاد محترم شیخ رمضان سلفی شیخ الحدیث جامعہ لاہور الاسلامیہ کا بھی کافی آنا جاناہوتاتھا اور ادھر آکر لکھتے تھے ۔حضرت مولانا عبدالجبار سلفی آف رینالہ خورد بھی مکتبہ میں ہی اپنی ذمہ داریاں سر انجام دہتے تھے اسی طرح شیخ اختر جو اب پروفیسر ہیں وہ بھی مختلف کتب کے تراجم کرتے تھے جو بات سمجھ نہ آتی میں مذکورہ شیوخ سے پوچھ لیتا اور وہ مجھ سےبہت پیار کرتے۔بسا اوقات کھانا بھی اپنےساتھ بٹھا کرکھلا دیتے ۔فجزاہم اللہ خیرا ۔
ان کی شفقت نے مزید مطالعہ کی تڑپ پیدا کی انھیں دنوں میں نے اردو بازارسے ایک کتاب ( متاع وقت اور کاروان علم) خریدی اور اس کا مطالعہ بھی کیاتو اس کتاب کے مطالعے کے بعدنیندیں اڑ گئیں بس مطالعہ کی فکر دامن گیر رہتی۔والحمد للہ علی ذلک 
اس مکتبہ میں مختلف سیکشنوں میں کتب تقسیم تھیں تو راقم نےدن مقرر کیے ہوتے تھےکہ ایک ہفتہ کتب رجال کا مطالعہ کرنا تو اگلے ہفتے کتب حدیث کا پھر کتب فقہ کا پھر کتب احناف کا وغیرہ کا۔اس مکتبہ میں تمام رسالوں کی الگ لائبریری بھی تھی بلکہ ادارہ نےتمام رسالوں کے تمام شمارے بھی جمع کئے ہوئے تھے ان سے بھی خوب فائدہ اٹھاتا۔
اس مکتبہ کےدوران دوباتیں خاص قابل ذکر ہیں۔
نمبر1:
کئی دفعہ جب میں نماز عشاء کے بعد جامعہ لاہورالاسلامیہ میں پہنچتا تومیرےساتھی میراکھانا نہ رکھتے اور مجھے بھوک بھی ستاتی تو میں باورچی خانہ جا کر بچوں کے کھانے سے بچنےوالے ٹکڑےکھاکر گزارہ کرتا اور مجھے ان باقی ماندہ ٹکڑوں کے کھانے سے بہت لذت آتی ۔ 
2نمبر:
اس مکتبہ میں مجھے شیخ ارشادالحق اثری حفظہ اللہ کی بعض کتب کا مطالعہ کرنے کا موقع بھی ملا اس کی وجہ سے میرےدل میں شیخ سے محبت ہو گئی اوران سےملاقات کی دعائیں کرنےلگا ۔
ایک دن میں مکتبہ میں بیٹھ کرمطالعہ کر رہاتھا کہ شیخ عبدالرحمن مدنی حفظہ اللہ منتظم و بانی جامعہ لاہور الاسلامیہ اپنے ساتھ ایک سفید داڑھی والےایک بزرگ کو ساتھ لائے اور ان کو کرسی پر بٹھاکر خود کھڑے رہے اور اپنے تمام منصوبوں کا تعارف کروانےلگے کہ ہم موسوعہ قضائیہ تیار کروارہےہیں وغیرہ وغیرہ،اسی دن استاد محترم شیخ حسن مدنی حفظہ اللہ کے گھر بیٹی پیدا ہوئی تھی تو اس کی خوشی میں مٹھائی وغیرہ بھی کھلائی گئی میں اس دورن اپنےمطالعہ میں مصروف رہا مٹھائی بھی کھائی۔پھر وہ بزرگ چلے گئے تو کچھ وقت گزرنے کے بعدمیں نےبھائی اصغر لائبریرین سےپوچھا کہ محترم !یہ بزرگ کون تھے ؟ 
انھوں نے کہا:کہ یہ فیصل آبادکے بہت بڑے عالم دین شیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ تھے ۔ سبحان اللہ 
میں بہت خوش ہوا ،کہ آج جس شخصیت سے میں محبت کرتا تھاوہ خود تشریف لے آئے ہیں والحمدللہ ۔ 
لیکن پریشانی بھی ہوئی کہ ان سے سلام دعا نہ ہو سکی بس زیارت ہی ہوئی ان کی زیارت سے محبت میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا ۔ شاید یہی تڑپ تھی کہ اللہ تعالی نے ان سے تین سال مسلسل پڑھنے کامرکز التربیۃ الاسلامیہ فیصل آباد میں موقع عطافرمادیا ۔سبحان اللہ
اس مکتبہ میں رہ کر پہلے تمام کتب کا تعارف کیاجب چند مہینےتعارف میں گزر گئے تب علمی کام کی ابتداء کی ۔ چند کتب زمانہ طالب علمی میں اس لائبریری میں بیٹھ کرلکھنےکی توفیق ملی۔مثلا
1: سب سے پہلےپیارے رسولﷺ کی پیاری دعائیں کی تخریج و تحقیق شروع کی اور اس کام کی ڈیوٹی مجھے استاد محترم شیخ عبدالرشید راشدرحمہ اللہ نےسونپی چند ماہ میں اس کتاب کی تخریج و تحقیق مکمل کی۔جس پر استادمحترم نے کافی داد دی اور اپنےگھر میں میری دعوت کی اورانعام سے نوازا۔ 
2: اسی دوران درجہ رابعہ میں سنن نسائی کی پڑھائی جاری تھی۔پھر جن راویوں کو امام نسائی رحمہ اللہ نے ضعیف کہا خواہ سنن النسائی میں ہوں یا انکی کسی اور کتاب میں ان پر کام کیا اور کافی رواۃ جمع کیے۔ 
3: پھر شیخ البانی رحمہ اللہ کی کتاب ’’ خبر الآحاد حجۃ بنفسی فی العقائد والاحکام‘‘ کی تلخیص کی۔یہ کام استاد محترم قاری حمزہ مدنی حفظہ اللہ کے حکم پر کیا۔
اسی دوران کئی اور بھی کام کئے لیکن فی الحال مجھے تین یاد ہیں اساتذہ اورجامعہ کے طلباء کئی باتوں کی تحقیق و تخریج میں میری طرف رجوع کرتے راقم پھر انکی تحقیق وغیرہ کرکےبتلاتا۔
جس سے مجھے مزیدکتب بینی کاشوق ہوا ۔والحمدللہ علی ذلک ۔ 
نوٹ:
درسی کتب کا مطالعہ میں نماز عشاء کے بعد شروع کردیتا جب تک سبق یاد نہ کر لیتااور آگے مطالعہ نہ کرلیتا تب تک نہ سوتا ،اور بے شمار راتیں ایسی گزری ہیں کہ زمانہ طالب علمی کمر بستر پرنہیں لگائی۔ویسے بھی جامعہ کے پہلے سال میرا بستر گم ہوگیا پھر بستر کی نوبت ہی ختم کر دی،تھوڑا بہت سونا ہوتا تھا یا تو پھٹی پرسر رکھ کر سو جاتا یا پھر دیوار کے ساتھ ٹیک لگا لیتا اور نیند پور کر لیتا ۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مکتبہ قاری محمد ابراہیم میر محمدی حفظہ اللہ
مذکورہ جامعہ سے متصل محترم قاری صاحب کی رہائش تھی اور ان کی بیٹھک میں ان مکتبہ تھا ادھر بھی اکثر جاتا رہتا۔محترم قاری صاحب شفقت فرماتےاورمختلف قرات کی کتب کا تعارف کرواتے ۔ان کے پاس زیادہ کتب قرات پرہی تھیں ۔ مجھے اپنی زمانہ طالب علمی کی لکھی ہوئی کاپیاں بھی دکھاتے ،مجھے اس مکتبہ سے بھی کافی فائدہ پہنچا ۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مکتبہ رشد 
یہ مکتبہ بھی جامعہ کی بیسمنٹ میں تھا اسمیں زیادہ تر درسی کتب تھیں لیکن بعض دیگر کتب بھی تھیں ان سےبھی فائدہ اٹھانےکاموقع ملا۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مکتبہ ربانیہ 
شیخ مبشراحمدربانی حفظہ اللہ کا مکتبہ جو زمانہ طالب علمی میں سکیم موڑ مسجد ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ میں ہوا کرتا تھا کئی مرتبہ جمعہ کا خطبہ شیخ مبشر صاحب کے پیچھےپڑھنا نماز جمعہ کے بعد ان کے مکتبہ میں بیٹھنا مطالعہ وغیرہ کرنا۔اس مکتبہ سے بھی کافی فائدہ اٹھایا اب یہی مکتبہ شیخ کی اپنی رہائش گاہ سبزہ زار میں موجود ہے ،ماشاء اللہ بہت قیمتی مکتبہ ہے شاید اتنا قیمتی کسی اور اہل علم کے پاس نہیں ہے ،اب بھی جب ضرورت مراجع و مصادر کی پڑتی ہے تو مکتبہ ربانیہ کی طرف ہی رجوع کرتا ہوں ۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مکتبہ شیخ عبدالرشیدراشد رحمہ اللہ 
استاد محترم کا یہ چھوٹا سا مکتبہ بھی قابل تعریف تھا اس سے بھی فائدہ اٹھانے کا موقع ملتا رہتا کیونکہ شیخ صاحب گاہے بگاہے اپنے دولت خانہ میں آنے کی دعوت دیتے رہتے تو ان کی بیٹھک میں گئے رات تک علمی مجلس لگتی بسا اوقات تو دو بج جاتے،جب راقم مرکز التربیۃ الاسلامیہ پڑھتا تھا تو استاد محترم کی ہدایت تھی کہ جب چھٹیوں کے لئے تم نے اپنے گھر جاناہے تو ایک رات میرے پاس ضرور قیام کرنا ہے ،اس دوران مجھے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا، راقم نے استاد محترم کے حالات پر ایک رسالہ لکھا ہے اس میں تمام تفصیلات کا ذکر کیا ہے فرصت ملتے ہی اسے بھی شائع کیا جائے گا ان شاء اللہ جس میں طلباء علوم نبوت کے لئے بہت زیادہ رہنمائی کی گئی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مکتبہ راشدیہ نیو سعیدہ آباد سندھ 
یہ مکتبہ شیخ العرب والعجم حضرت الامام بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ کاہے زمانہ طالب علمی جامعہ لاہورالاسلامیہ کے دوران ہی اس میں تقریباً چار دن رہنےکا موقع ملا۔اور اس سے بہت فائدہ اٹھایا کیونکہ اس میں نادر مخطوطات کےانبارتھے ،اور حدیث اور اصول حدیث پر کیا کمال کتب دیکھنے کا موقع ملا اس طرح ایک عظیم محدث اور امام کا وہ مکتبہ جہاں ہزاروں علم کے پیاسوں نے اپنی پیاس بجھائی اس کو غورسے دیکھااور کافی فوائد ملے اور اس مکتبے کافیض آج بھی جاری ہے ۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مکتبہ سعیدیہ،پیر آف جھنڈا ،سندھ 
یہ مکتبہ شیخ محب اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ کا تھا اس میں بھی چند گھنٹے ٹھہرنے کا موقع ملا یہ بھی قابل تعریف ہےلیکن شاہبدیع الدین رحمہ اللہ کے مکتبہ کا مقابلہ کون کرے 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مکتبہ مرکز الدعوۃ السفیہ ستیانہ بنگلہ 
جامعہ لاہور الاسلامیہ میں دوران تعلیم کےدوران ایک رمضان شیخ الحدیث والتفسیر عبداللہ امجد چھتوی حفظہ اللہ کے پاس سے دورہ تفسیر کرنے کا موقع ملا اس دورے کی تفصیلات موضوع سے خارج ہیں ،اس جامعہ میں ایک چھوٹا سامکتبہ بھی تھاصرف عصر کے بعد اوپن ہوتا تھا وہ بھی بہت تھوڑا وقت اس میں جایا کرتا اور کچھ پڑھنے کا موقع ملتا ۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مکتبہ بیت الحکمت لاہور 
یہ مکتبہ پروفیسر عبدالجبار شاکر رحمہ اللہ کا تھا اس کی بلڈنگ تین منزلوں پر محیط تھی ،ایک منزل میں توصرف علامہ اقبال اور دیگر موضوعات پرکتب تھیں اور دوسری منزل میں سیرت النبیﷺ پر کتب اورتیسری منز ل میں مخطوطات اور قرآن کریم کے متعلقہ کتب تھیں اگر کہا جائے کہ سیرت النبیﷺ پر برصغیر میں سب سےزیادہ کتب اسی مکتبہ میں ہیں تو یہ سچ ہو گا۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مکتبہ مرکز التربیۃ الاسلامیۃ گلستان کالونی ،فیصل آباد 
جب اللہ تعالی کی توفیق سے مجھے تخصص کے لئے اس مرکزمیں داخلہ ملا تو ایک بہت بڑی لائبریری میں ہی تین سال رہے کلاس، مطالعہ اور اضافی ٹائم بھی اسی لائبریری میں گزرتا۔یہاں مجھے مزید مطالعہ کا موقع ملا اور کوئی لمحہ بھی ضائع نہ جانے دیا بلکہ نماز ظہر کے دیگر طلباء سوتے تھے تو راقم مکتبہ میں ہی ہوتا تھا۔اسی طرح نماز عصر کے بعد طلباء کھیلنے کے لئے باہر جاتے تو اکثر و بیشترمکتبہ میں رہتا،نماز عشاء کے بعد مطالعہ کے وقت کے ختم ہونے کے بعد مزید وقت مکتبہ میں ہی گزارتا۔اس مکتبہ کے دروازےچوبیس گھنٹے طلباء کے لئے کھلے رہتے تھے یہ مثال کسی بھی جامعہ میں دیکھنے کو نہیں ملی،استاد محترم حافظ محمد شریف حفظہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ ہم نے علماء کرام کی ذہنی اور علمی وسعت کے لئے کتب جمع کی ہیں اور لائبریری کادروازہ کھلا رکھتے ہیں تاکہ وہ فائدہ اٹھائیں اور اپنی صلاحیتوں کاجلا بخشیں ۔ 
اس مکتبہ میں بیٹھ زمانہ طالب علمی میں ہی کافی علمی و تحقیقی کتب لکھنے کا موقع ملا۔ مثلاًً
1:موسوعۃالمدلسین 
2:بالوں کےاحکام 
3:سترہ کے احکام 
4:التبیین فی شرح اصل اہل السنۃ و اعتقادالدین 
5:البرہان فی تناقضات ابن حبان 
6:اصول المحدثین فی فہم المحدث الالبانی 
7:علوم حدیث اور شیخ ارشاد الحق اثری 
8:علوم حدیث اور شیخ زبیر علی زئی 
9:معجم المجہولین 
10:الاعلان فی معرفۃ من قیل فیہ لم یسمع من فلان 
11:تحقیق و تخریج الاصلاح حصہ دوم
ابھی مجھےان کتابوں کے نام یاد ہیں اس کے علاوہ بھی کئی کتب لکھنے کی سعادت حاصل ہوئی ،سب سے زیادہ قابل ذکر یہ بات تھی کہ اساتذہ کرام شیخ ارشاد الحق، شیخ مسعود عالم، شیخ حافظ محمد شریف حفظہم اللہ دوران تدریس جب بھی کوئی مسئلہ یا اصول وغیرہ کا ذکر کرتے تو اصل کتب سے دکھاتے اور ہمیں کہتے کہ فلاں کتاب پکڑو یہ انداز ہی تدریس میں ہونا چاہئے۔صرف زبانی پڑھاتے جانا اس انداز میں فوائد کم ہیں اور دوران کلاس اساتذہ کرام ہمیں کچھ حوالہ جات قیمتی بحوث کے لکھوا دیتے کہ تم نے خودپڑھ کے آنے ہیں۔کاش یہی انداز تمام مدارس وجامعات میں ہوجائے ۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مکتبہ ادارہ علوم اثریہ منٹگمری بازار فیصل آباد 
یہ وہ مکتبہ ہے جہاں محدث العصر شیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ سارا دن ہوتے ہیں تحقیقی و بے مثال علمی کتب لکھتے ہیں ۔اس مکتبہ میں بھی مجھےکافی وقت گزارنے کا موقع ملا مثلاً
جب مرکزسے چھٹیاں ہوتیں گرمی یا رمضان کی تو راقم گھر جانے کی بجائے شیخ اثری حفظہ اللہ کے پاس ہی جاتا اور انکے اسی مکتبہ میں ٹھہرتا۔ جس سے بہت کچھ ملا اور خصوصاً شیخ اثری حفظہ اللہ شفقت اور علمی رہنمائی قابل دید ہے ۔ اس مکتبےمیں شیخ صاحب پہلےتو میری خاص کتب پڑھنےکی لگاتے رہے مثلا الوہم والایھام وغیرہ ، پھر مختلف موضوعات لکھواتےکہ فلاں پر کام کرو ،اس فتویٰ کاجواب لکھو ،وغیرہ وغیرہ ۔فلاں راوی پر حکم دیکھو کیا ہے ،فلاں اصول کے متعلق تحقیق کرو ۔ اس سے مجھے بہت فائدہ ہوا الحمدللہ ۔ اس دوران مجھے کچھ لکھنے کو موقع ملا مثلاً
1:صحیح و ضیعیف صیام 
2:تحقیق الثقات الذین ضعفوا فی بعض شیوخہم
اور بھی کام کئے لیکن ابھی مجھے یہی دو یاد ہیں پہلا مکمل ہے اور دوسرا کام نا مکمل ہے ۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مکتبہ اسحاق جھالوی فیصل آباد 
مشہور گمراہ شخص اسحاق جھالوی کے متعلق جب کچھ سنا تو میں نے ان کی مکتبہ کی طرف سفر کیا تاکہ اپنی آنکھوں سے صورت حال دیکھوں۔جب ان کے پاس حاضر ہوا تو وہ اپنے مکتبے میں ہی بیٹھے ہوئے تھے۔تو اور مختلف کتب کے ساتھ ساتھ کتب شیعہ بہت زیادہ تھیں۔اس مکتبہ سے بھی مجھے کتب شیعہ کو بغور دیکھنےکا موقع ملا اور ایک رافضی شخص سے تبادلہ خیال کا بھی موقع ملا جس سے مجھے عین الیقین ہوگیا کہ اس کے گمراہ ہونےمیں کوئی شک نہیں ۔اس میں دو دن قیام کیا ۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مکتبہ شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری،اٹک 
دوران طالب علمی مرکز التربیۃ میری ملاقات مرکزا لدعوۃ السلفیہ ستیانہ بنگلہ میں شیخ امن پوری صاحب سے ہوئی کچھ سوال و جواب ہوئے تو خوشی اور میں نے ان سےاستفادے کا ٹائم مانگا تو شیخ صاحب فرمانے لگے: رمضان میں کوئی حساب لگائیں گے۔پھراسی رمضان میں شیخ نے مجھے اطلاع دی کہ میرے گاؤں امن پور اٹک میں آجاؤ رمضان اکٹھے گزاریں گے۔ تو میں حسب وعدہ کافی لمبا اور عجیب و غریب سفرکرکے وہاں پہنچا جو بیک ورڈ دیہات تھااور اس میں کافی پرانی رسم و رواج کو قریب سےدیکھنےکا موقع ملا۔ ان ذکرکا موضوع سےخارج ہے ۔شیخ صاحب سےآثارالسنن پڑھی اسی طرح القواعد المثلی بھی مکمل پڑھنے کا موقع ملا ۔ 
یہ رمضان مسجد میں میں ہی گزارا اور مسجد میں شیخ نے اپنی کتب رکھی ہوئی تھیں ،کتب اگرچہ تھوڑی تھیں لیکن قیمتی تھیں خصوصا فرق باطلہ کی کچھ نادرکتب بھی تھیں فارغ وقت میں اس مکتبہ سے فائد اٹھا یا ۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مکتبہ زبیریہ حضرو اٹک 
دوران تعلیم مرکز التربیۃ الاسلامیہ فیصل آباد شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کی طرف سفر کیا اور تقریباً چار دن ان کے مکتبہ میں ٹھہرا اور کافی سیکھنےکا موقع ملا اور ان کا مکتبہ بھی کافی وسیع پایا۔بہت فوائد ملے اور کافی مطالعہ کابھی وقت میسر آیا۔فجزاہ اللہ خیرا ۔اور کچھ بحوث میں شیخ صاحب سے تبادلہ خیال کرنے کا موقع ملا۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مکتبہ شیخ غلام اللہ رحمتی پشاور 
اس مکتبہ کی طرف سفر کیا لیکن شیخ رحمتی حفظہ اللہ سعودی عرب دورے پر گئے ہوئے تھے اس لئے مکتبہ کی زیارت نہ ہو سکی ۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مکتبہ شیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ پشاور 
شیخ صاحب سے ملاقات ہوئی ان کے منہج پر گفتگو کی اور اس دوران مکتبہ دیکھنےکا موقع بھی ملایہ چھوٹےسےکمرےمیں مکتبہ تھا اور کتب بھی اتنی زیادہ نہ تھیں ۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مکتبہ شمسیہ پشاور 
یہ مکتبہ شیخ شمس الحق افغانی رحمہ اللہ کاتھا ، سبحان اللہ بہت بڑا مکتبہ اور کافی وسیع و عریض بلڈنگ میں تھا ہرسیکشن الگ الگ بنایا ہواتھا میرےاندازے میں دو کنال زمین پر محیط پریہ مکتبہ ہوگا ،اور اس کے ساتھ ہی شخ کاجامعہ اثریہ پشاور بہت ہی وسیع و عریض تھا جہاں ہزاروں طلباء پڑھے ہیں میں نےاس مکتبہ میں طلباء کی کثیر تعداد مطالعہ کرتے ہوئے دیکھی اور کچھ فائدہ اٹھایا ۔۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مکتبہ شیخ عبدالسلام رستمی حفظہ اللہ پشاور 
اس مکتبہ کی طرف سفرکا پکا پروگرام تھالیکن شیخ شمس الحق رحمہ اللہ کے بیٹوں نے کہاکہ تم اکیلے سفر نہ کرو کافی لمبا سفر ہے اور خطرناک بھی جس وجہ سے میں وہاں نہ پہنچ سکا۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مکتبہ محدث نورپوری رحمہ اللہ گوجرانوالا 
یہ مکتبہ استاد محترم محدث عبدالمنان نورپوری رحمہ اللہ کا تھا ان کی بیٹھک مکتبہ ہی تھی۔ مہمانوں کو اس میں ہی بٹھاتے تھے ،مختصر مگر جامع مکتبہ تھا سبحان اللہ یہیں بیٹھ حضرت الامام نورپوری رحمہ اللہ نے بے شمار قیمتی اور نادر کتب تالیف فرمائیں ۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مکتبہ مدرسہ ماموں کانجن 
یہ بھی بہت بڑا مکتبہ ہے لیکن دیکھ کر پریشانی ہوئی کہ کتب پڑھنے والا کوئی بھی نہیں بلکہ کتب گردو غبارسے لت پت تھیں ۔فاناللہ واناالیہ راجعون ۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مکتبہ حسینویہ 
یہ مکتبہ شیخ ابونعیم عبدالرحیم حسینوی رحمہ اللہ آف حسین خانوالا ہٹھاڑقصور کا تھاجوکہ دہلی سے فارغ تھے اور اپنے وقت کے بڑے شیوخ سے تھے ۔ ماشاء اللہ انتہائی مختصرمکتبہ لیکن بہت ہی قیمتی کتب مگر افسوس کہ اکثر کتب دیمک لگی ہوئی تھی اور جوبچی تھیں وہ اس قدر بوسیدہ کہ ورق کوہاتھ لگاتے ہی ورق پھٹ جاتا ۔جب سےمیں اس مکتبہ کو دیکھ رہا ہوں تو اس وقت سےیہ مکتبہ الماریوںمیں پڑا ھے ۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ چند مکتبے زمانہ طالب علمی میں دیکھے اور جو مکتبے تدریس کے زمانہ سے لے کراب تک دیکھے وہ درج ذیل ہیں : 
مکتبہ جامعہ محمد بن اسماعیل البخاری گندھیاں اوتاڑقصور 
یہ وہ ادارہ جہاں راقم سات سال سے تدریس کر رہا ہے اس ادارے میں بھی ایک مکتبہ قائم کیا گیا ہے ہم ہر سال ایک لاکھ کی قیمتی کتب خریدتے ہیں اب ماشاء اللہ کافی کتب جمع ہو چکی ہیں اور ابھی کافی لمبا پروگرام ہے ۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔