آپ کی معلومات

Friday 29 March 2013

تمام حضرات بالخصوص اسماء الرجال میں دلچسپی رکھنے والے حضرات کی خدمت میں

0 comments
تالیف:
شیخ کفایت اللہ سنابلی حفظہ اللہ

محترم حافظ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ نے میری تحریر سے ایک خاص ٹکڑا نقل کیا اورپھر اس کا رد کیا ہے ملاحظہ ہو:

اقتباس اصل پیغام ارسال کردہ از: محمد اسد حبیب پیغام دیکھیے
۶)محترم کفایت اللہ سنابلی حفظہ اللہ نے لکھا ہے:
’’ اور ابو ذر رضی اللہ عنہ سے ابو مسلم کے سماع کا کوئی ثبوت قطعاً نہیں ‘‘
عرض ہے کہ ثبوت تو حسن لذاتہ سند کے ساتھ مسند احمد (۵/ ۱۷۹) اور مختصر قیام اللیل للمروزی (ص ۷۸) وغیرہما میں موجود ہے اور امام بخاری نے بھی فرمایا ہے کہ ابو مسلم نے ابو ذر (رضی اللہ عنہ) سے سنا ہے۔ (کتاب الکنیٰ ص ۶۸)
لہٰذا سماع کے انکار کا دعویٰ باطل ہے اور امام بخاری کے ارشاد سے یہی ظاہر ہے کہ امام بخاری بھی اسے ثابت سمجھتے تھے۔

پوری تحریر کا جواب تو متعلقہ تھریڈ میں ارسال کروں گا لیکن یہاں میں تمام حضرات خصوصا اسماء الرجال میں دلچسپی رکھنے والے حضرات کی خدمت میں ایک درخواست پیش کرنا چاہتاہوں وہ یہ کہ میری اس ادھوری عبارت سے آگے پیچھے پوری بات پڑھیں اور بتلائیں کہ کیاواقعی میرا یہی موقف و دعوی ہے کہ ابوذر رضی اللہ عنہ سے ابومسلم کے سماع کا کوئی ثبوت نہیں ہے ؟؟؟

مذکورہ ٹکڑے سے آگے پیچھے کی پوری بات قارئین آگے ملاحظہ فرمائیں:



نیز شیخ البانی نے بھی اس متن کی اایک روایت کو صحیح قرار دیا ہے:
۔ " أول من يغير سنتي رجل من بني أمية ".
أخرجه ابن أبي عاصم في " الأوائل " (٧ / ٢) : حدثنا عبيد الله بن معاذ حدثنا أبي حدثنا عوف عن المهاجر أبي مخلد عن أبي العالية عن أبي ذر أنه قال ليزيد ابن أبي سفيان: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فذكره. قلت: وهذا إسناد حسن، رجاله ثقات رجال الشيخين غير المهاجر وهو ابن مخلد أبو مخلد، قال ابن معين: " صالح ". وذكره ابن حبان في " الثقات ". وقال الساجي: " صدوق ". وقال أبو حاتم: " لين الحديث ليس بذاك وليس بالمتقن، يكتب حديثه ".
قلت: فمثله لا ينزل حديثه عن مرتبة الحسن. والله أعلم. ولعل المراد بالحديث تغيير نظام اختيار الخليفة، وجعله وراثة. والله أعلم. ( سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ ح:۱۷۴۹) ۲۔ "أول من يبدل سنتي رجل من بني أمية". "حسن". "ع" عن أبي ذر. الصحيحة 1749: ابن أبي عاصم. (صحیح الجامع:۲۵۲۸)

اولا:
شیخ البانی رحمہ اللہ عصرحاضر کے محدث ہیں اور ان کے فیصلہ کے برخلاف متقدمین محدثین نے بالاتفاق اس روایت کومردود قرار دیاہے، متقدمین کے متفقہ فیصلہ کے ہوتے ہوئے متاخرین کی بات کون سنے گا؟؟

ثانیا:
  • شیخ البانی رحمہ اللہ نے جس روایت کو صحیح کہا ہے اس کا متن زیربحث روایت سے بہت مختلف ہے۔
  • شیخ البانی کی تصحیح کردہ روایت میں یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ پر گھناؤنا الزام نہیں ہے۔
  • شیخ البانی رحمہ اللہ کی تصحیح کردہ روایت میں سنت بدلنے والے شخص کا نام مذکور نہیں ۔

اتنے فرق ہونے کے باوجود بھی یہ کہنا محل نظرہے کہ :
نیز شیخ البانی نے بھی اس متن کی اایک روایت کو صحیح قرار دیا ہے

ثالثا:
شیخ البانی رحمہ اللہ کی تصحیح کردہ سند عبدالوھاب والی نہیں ہے ، یہ سند صریحا منقطع ہے کیونکہ اس میں ابومسلم اور ابوذر رضی اللہ عنہ کے مابین کسی واسطے کاذکر نہیں ،اور ابوذر رضی اللہ عنہ سے ابومسلم کے سماع کا کوئی ثبوت قطعا نہیں ، ناقدین محدثین نے واضح طور پر یہاں انقطاع کی صراحت کی ہے ۔


رابعا:
یہ روایت ابن ابی عاصم میں مختصر ہے اور ابن عساکر میں مفصل ہے اور اس کی روشنی میں یہ روایت ابوذر رضی اللہ عنہ نے اسی جگہ بیان کی ہے جہاں امام بخاری کے کے بقول ابوذر رضی اللہ عنہ بیان ہی نہیں کرسکتے لہٰذا یہ روایت موضوع ومن گھڑت ہے ۔


آگے پیچھے کی مکمل بات جیسے اصل مقام پر تھی میں نے اوپر جوں کا توں نقل کردیا ہے ۔

اب اسی پوسٹ کو آگے دوبارہ نقل کرتاہوں اور کچھ مقامات پر الفاظ کے نیچے خط کھینچتا ہوں، اسی طرح کچھ الفاظ کو ہائی لائٹ کرتاہوں ۔

قارئین سے گذارش ہے کہ خط کشیدہ الفاظ کو سامنے رکھ کر پورے سیاق سے اسے جوڑیں اسی طرح ہائی لائٹ کردہ الفاظ کو ایک ساتھ سامنے رکھ کر پورے سیاق سے اسے جوڑیں ، اور پھرنتیجہ نکالیں کہ اصل معاملہ کیاہے؟؟



نیز شیخ البانی نے بھی اس متن کی اایک روایت کو صحیح قرار دیا ہے:
۔ " أول من يغير سنتي رجل من بني أمية ".
أخرجه ابن أبي عاصم في " الأوائل " (٧ / ٢) : حدثنا عبيد الله بن معاذ حدثنا أبي حدثنا عوف عن المهاجر أبي مخلد عن أبي العالية عن أبي ذر أنه قال ليزيد ابن أبي سفيان: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فذكره. قلت: وهذا إسناد حسن، رجاله ثقات رجال الشيخين غير المهاجر وهو ابن مخلد أبو مخلد، قال ابن معين: " صالح ". وذكره ابن حبان في " الثقات ". وقال الساجي: " صدوق ". وقال أبو حاتم: " لين الحديث ليس بذاك وليس بالمتقن، يكتب حديثه ".
قلت: فمثله لا ينزل حديثه عن مرتبة الحسن. والله أعلم. ولعل المراد بالحديث تغيير نظام اختيار الخليفة، وجعله وراثة. والله أعلم. ( سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ ح:۱۷۴۹) ۲۔ "أول من يبدل سنتي رجل من بني أمية". "حسن". "ع" عن أبي ذر. الصحيحة 1749: ابن أبي عاصم. (صحیح الجامع:۲۵۲۸)

اولا:
شیخ البانی رحمہ اللہ عصرحاضر کے محدث ہیں اور ان کے فیصلہ کے برخلاف متقدمین محدثین نے بالاتفاق اس روایت کومردود قرار دیاہے، متقدمین کے متفقہ فیصلہ کے ہوتے ہوئے متاخرین کی بات کون سنے گا؟؟

ثانیا:
  • شیخ البانی رحمہ اللہ نے جس روایت کو صحیح کہا ہے اس کا متن زیربحث روایت سے بہت مختلف ہے۔
  • شیخ البانی کی تصحیح کردہ روایت میں یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ پر گھناؤنا الزام نہیں ہے۔
  • شیخ البانی رحمہ اللہ کی تصحیح کردہ روایت میں سنت بدلنے والے شخص کا نام مذکور نہیں ۔

اتنے فرق ہونے کے باوجود بھی یہ کہنا محل نظرہے کہ :
نیز شیخ البانی نے بھی اس متن کی اایک روایت کو صحیح قرار دیا ہے

ثالثا:
شیخ البانی رحمہ اللہ کی تصحیح کردہ سند عبدالوھاب والی نہیں ہے ، یہ سند صریحا منقطع ہے کیونکہ اس میں ابومسلم اور ابوذر رضی اللہ عنہ کے مابین کسی واسطے کاذکر نہیں ،اور ابوذر رضی اللہ عنہ سے ابومسلم کے سماع کا کوئی ثبوت قطعا نہیں ، ناقدین محدثین نے واضح طور پر یہاں انقطاع کی صراحت کی ہے ۔


میرے خیال سے کوئی بھی شخص مکمل توجہ سے ہماری پوری بات پڑھے گا تو وہ خود بخود سمجھ جائے گا کہ یہاں سبقت قلم کے نتیجے میں ’’ابوالعالیہ ‘‘ کی جگہ ’’ابومسلم‘‘ کا نام درج ہوگیا ۔

یعنی صحیح عبارت یوں ہونی چاہئے :

’’ اور ابو ذر رضی اللہ عنہ سے ابو العالیہ کے سماع کا کوئی ثبوت قطعاً نہیں ‘‘ 

سبقت قلم کی یہ غلطی ایسے مقام پر نہیں ہے کہ قاری بغور پڑھنے کے باوجود بھی خود بخود نہ سمجھ سکے ، اور میری وضاحت کی ضرورت پڑے۔
کیونکہ یہاں سیاق وسباق میں کئی ایسے دلائل موجود ہیں جو اس سبقت قلمی پر دلالت کرتے ہیں ملاحظہ ہوں:

یوں تو سیاق وسباق کی بہت ساری دلیلیں ہیں لیکن ہم پہلے ان دلائل کو ذکر کرتے ہیں جو میری تحریر سے لئے گے اقتباس سے بالکل آگے پیچھے جڑے ہیں ، چنانچہ دیکھیں میرے مقتبس الفاظ اپنے آگے پیچھے کی عبارت کے ساتھ :

شیخ البانی رحمہ اللہ کی تصحیح کردہ سند عبدالوھاب والی نہیں ہے ، یہ سند صریحا منقطع ہے کیونکہ اس میں ابومسلم اور ابوذر رضی اللہ عنہ کے مابین کسی واسطے کاذکر نہیں ،اور ابوذر رضی اللہ عنہ سے ابومسلم کے سماع کا کوئی ثبوت قطعا نہیں ، ناقدین محدثین نے واضح طور پر یہاں انقطاع کی صراحت کی ہے ۔

سیاق کی پہلی دلیل:
میرے جن ادھورے الفاظ کا اقتباس لیا گیا ہے اس سے متصل پہلے لکھا ہوا ہے:
’’شیخ البانی رحمہ اللہ کی تصحیح کردہ سند عبدالوھاب والی نہیں ہے‘‘

یعنی عدم سماع کی بات کا تعلق اسی سند سے ہے جسے شیخ البانی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے اور اس سند میں ابومسلم ہے ہی نہیں بلکہ اس جگہ ابوالعالیہ ہیں جو ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت کررہے ہیں ۔
غورکریں کہ جب میں نے یہ کہہ دیا کہ ’’ یہ سند عبدالوھاب والی نہیں ہے‘‘ تو بھلا یہ سند ابومسلم والی میں کیسے مان سکتاہوں ؟ 

سیاق کی دوسری دلیل:
میرے جن ادھورے الفاظ کا اقتباس لیا گیا ہے اس سے متصل پہلے لکھا ہوا ہے:
’’یہ سند صریحا منقطع ہے ‘‘

اب ظاہر ہے کہ جس سند کو صراحۃ منقطع بتلایا جارہا ہے ، دعوائے عدم سماع کا تعلق بھی ان ہی رواۃ سے متعلق ہوگا جو اس سند میں موجود ہوں گے اور ابوذرضی اللہ عنہ سے روایت کرنے کی جگہ پر ابومسلم نہیں بلکہ ابوالعالیہ ہیں ، لہٰذا عدم سماع کا دعوی ابوالعالیہ و ابوذر رضی اللہ عنہ کے مابین ہی ہے ۔

سیاق کی تیسری دلیل:
میرے جن ادھورے الفاظ کا اقتباس لیا گیا ہے اس کے معا بعد لکھا ہوا ہے:
’’کیونکہ اس میں ابومسلم اور ابوذر رضی اللہ عنہ کے مابین کسی واسطے کاذکر نہیں‘‘ 

صاف کہا جارہا ہے کہ ’’اس میں ‘‘ یعنی علامہ البانی رحمہ اللہ کی پیش کردہ سند میں ، اور اس سند میں ابو ذر رضی اللہ عنہ سے قبل ابومسلم نہیں بلکہ ابوالعالیہ ہیں ، یہ سیاق اس بات کی دلیل ہے کہ عدم سماع کا دعوی ابوذررضی اللہ عنہ اور ابوالعالیہ ہی کے مابین ہے۔

سیاق کی چوتھی دلیل:
میرے جن ادھورے الفاظ کا اقتباس لیا گیا ہے اس کے معا بعد لکھا ہوا ہے:
’’ناقدین محدثین نے واضح طور پر یہاں انقطاع کی صراحت کی ہے ‘‘

صاف کہا جارہا ہے کہ ’’یہاں انقطاع کی صراحت کی ہے ‘‘ یعنی اس سند میں جسے علامہ البانی رحمہ اللہ نے پیش کیا ہے اور یہاں پر محدثین کی صراحت ابوذر رضی اللہ عنہ اور ابوالعالیہ ہی کے مابین ہے نہ کہ ابوذر رضی اللہ عنہ اور ابومسلم کے مابین ۔

ویسے مجھے حیرت ہے کہ حافظ موصوف نے میرے ان الفاظ ’’ناقدین محدثین نے واضح طور پر یہاں انقطاع کی صراحت کی ہے ‘‘ کو کیوں نظر انداز کردیا ؟ 
موصوف کو تو ان الفاظ کا بھی اقتباس لے کر پوچھنا چاہئے کہ کون کون سے محدثین ہیں جنہوں نے یہاں انقطاع کی صراحت کی ہے۔

سیاق کی یہ چار دلیلیں تو لیے گئے اقتباس سے متصل آگے پیچھے ہی ہیں ، علاوہ ازیں:

سیاق کی پانچویں دلیل:
متعلقہ مقام پر سب سے پہلے علامہ البانی رحمہ اللہ کی صحیح قرار دی گئی ایک سند کو پیش کیا گیا ہے اس کے بعد اسی کا جواب دیا جارہا ہے اور اس پیش کردہ سند میں ابومسلم کا نام ونشان ہی نہیں ہے بلکہ یہاں ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت کرنے والے ابوالعالیہ ہیں ۔
لہٰذا جواب دینے والا ایسی سند میں جب انقطاع کی بات کرے گا تو انہیں رواۃ کے مابین انقطاع بتلائے گا جو اس سند میں موجود ہوں گے اورابو مسلم تو اس سند میں موجود ہی نہیں۔

سیاق کی چھٹی دلیل:
اگرہم متعلقہ مقام پر ابومسلم ہٹا کر ابوالعالیہ رکھ دیں ، اور اس کے بعد اسی تحریر کو کسی عالم کے سامنے پیش کریں تو وہ ہرگز یہ اعتراض نہیں کرگے کہ یہاں ابوالعالیہ کا ذکربے محل ہے اس کے برعکس اگر ہم یہ تحریر کسی عالم کو نظر ثانی کرنے کے لئے دیں (اعتراض کرنے کے لئے نہیں ) تو وہ ضرور بتلائے گا کہ کتابت کی یہ غلطی صحیح کرلو ۔
اگر’’ابوالعالیہ‘‘ کی جگہ ’’ابومسلم ‘‘ لکھا جانا سبقت قلم والی غلطی نہ ہوتی تو تصحیح کرنے کے بعد یعنی ’’ابومسلم‘‘ کی جگہ ’’ابوالعالیہ‘‘ رکھنے کے بعدیہ جملہ سیاق وسباق سے کٹ جاتا لیکن تصحیح کے بعد ایسا کوئی بات ظاہر نہ ہونا بلکہ عین سیاق وسباق کے موافق معلوم ہونا اس بات کی قوی دلیل ہے کہ یہاں سبقت قلم کی غلطی ہے۔

سیاق کی ساتویں اور زبردست دلیل:
سب سے اہم بات یہ ہے کہ حافظ موصوف پر رد کرتے ہوئے ہم نے جو پہلی تحریر پیش کی تھی اس میں زیربحث روایت کی سند میں جو کمزوری بتلائی تھی وہاں ہم نے ابومسلم اورابوذر رضی اللہ عنہ کے مابین عدم سماع والی بات قطعا نہیں کی ہے اگر ہمارا یہ دعوی ہوتا کہ ابومسلم کا سماع ابوذر رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں تو ہم اپنی پہلی تحریر ہی میں اسے پیش کرتے ۔
ہمارا یہ طرزعمل بھی شاہد ہے کہ دکھایا گیا موقف ہمارا موقف قطعا نہیں بلکہ علامہ البانی رحمہ اللہ کی پیش کردہ سند پر بات کرتے ہوئے سبقت قلم سے ابوالعالیہ کی جگہ ابومسلم تحریر ہوگیا۔


ان شاء اللہ جو کوئی بھی انصاف کی نظر سے اور پوری توجہ سے اورسیاق وسباق کو سامنے رکھتے ہوئے ہماری تحریر پڑے گا وہ خود بخود سمجھ جائے گا کہ یہاں سبقت قلم کی غلطی ہے، اور مضمون نگار یہ کہنا چاہتاہے۔


اور سبقت قلم کی یہ غلطی مجھ سے کوئی پہلی بار نہیں ہوئی بلکہ اسے قبل بھی اس طرح کی چوک ہوچکی ہے چنانچہ گذشتہ رمضان میں ہم نے اپنے رسالہ ’’اہل السنہ ‘‘ میں لکھا :

’’یہ رویات منقطع ہے کیونکہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا دور نہیں پایاہے‘‘[دیکھئے مجلہ اہل السنہ،خصوصی شمارہ، رمضان نمبر 1433 ھ : ص 14 ]۔

حالانکہ متعلقہ سند میں عمرفاروق رضی اللہ عنہ نہیں بلکہ اس جگہ امام اعمش رحمہ اللہ ہیں اور انہوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا دور نہیں پایا۔

اب سیاق وسباق کو پیش نظر رکھنے والے ازخود سمجھ جائیں گے کہ سبقت قلم کی غلطی ہے ، لیکن کچھ لوگ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ دیکھو اس بے چارے کو ، یہ دو ہم عصر صحابہ کی ملاقات کا انکار کررہا ہے۔

واضح رہے کہ ہم نے مجلہ اہل السنہ کے اگلے شمارہ میں اعلان کردیا تھا کہ رمضان کے خصوصی شمارہ میں یہ غلطی ہے ۔

ایک اشکال:
ایک بات سمجھ میں نہیں آئی کہ ہم نے جب شیخ البانی رحمہ اللہ کی پیش کردہ ایسی سند جس میں ’’ابومسلم‘‘ نہیں ہے اس پر بات کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’ اور ابو ذر رضی اللہ عنہ سے ابو مسلم کے سماع کا کوئی ثبوت قطعاً نہیں ‘‘ 
توپھرحافظ موصوف نے ہماری اس بنیادی تحریر پر تنقید کیوں نہیں کی کہ جس سند پر بحث کرتے ہوئے ابوذر رضی اللہ عنہ سے ابومسلم کے عدم سماع کا دعوی کیا گیا اس میں تو ابومسلم موجود ہی نہیں ؟؟
اصل تنقیدتو اسی پر ہونی چاہئے کیونکہ یہ اصل بنیاد ہے ۔
اسی طرح یہ بھی سوال اٹھانا چاہئے کہ اگر مضمون نگار کا یہ دعوی ہے کہ ’’ اور ابو ذر رضی اللہ عنہ سے ابو مسلم کے سماع کا کوئی ثبوت قطعاً نہیں ‘‘ تو مضمون نگار نے جہان ابن عساکر کی ابومسلم والی سند پر بحث کی ہے وہاں اس علت کو بنیاد بناکر ابن عساکر کی سند پر جرح کیوں نہیں کی ؟؟
کاش حافظ موصف ہمارے ادھورے الفاظ کو کم ازکم آگے پیچھے کے الفاظ کے ساتھ ہی نقل کردیتے تو گرچہ حافظ موصوف کچھ بھی سمجھیں لیکن دنیا میں اور بھی اہل علم ہیں اور ہمیں سب سے یہ امید نہیں کہ وہ ہماری مراد کے خلاف ہماری سبقت قلم کی غلطی کو بنیاد بناکر تنقید کریں گے اور ایسا جواب دیں گے جو سرے سے ہمیں مطلوب ہی نہیں ۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔