آپ کی معلومات

Monday 27 January 2014

جامعۃ الامام محمد بن اسماعیل البخاری اہل حدیث گندھیاں اوتاڑ قصورکی نئی بلڈنگ کے افتتاح کے مبارک موقع پر تقریب سعید

0 comments

مرتب:
ابن بشیر الحسینوی الاثی
مدرس دارالحدیث راجووال
سابق مدرس جامعہ محمد بن اسماعیل البخاری گندیاں اوتاڑ قصور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۲۰۰۳
 میں ایک انتہائی محدود تہ خانہ میں اس جامعہ کی بنیاد رکھی گئی جس میں صرف ایک کمرہ اور ایک مسجد کا چھوٹا ساحال تھا اورایک انتہائی چھوٹا سا کمرہ جس میں بمشکل تین افراد بیٹھ سکتے ہیں بطور دفتر استعمال کیا جاتا رہا ۔کچہ صحن اور وہ بھی انتہائی مختصر اور چار لیٹرینیں اور دو غسل خانے اور چند ایک وضو کرنے کے لئے ٹوٹیاں تھیں ۔کام شروع کردیا ،تیرہ طلبا درس نظامی کی کلاس میں تھے اور پندرہ کے قریب طلبا شعبہ حفظ میں تھے درس نظامی کا پہلا استاد راقم (ابن بشیر الحسینوی الاثری اور آٹھ سال اسی جامعہ میں کام کیا پھر حافظ محمد شریف حفظہ اللہ نے رضا مندی تبادلہ دارالحدیث راجووال کر دیا۔)تھا اور شعبہ حفظ کا پہلا استاد محترم قاری ادریس ثاقب حفظہ اللہ خود تھے ۔۔۔۔۔جیسے جیسے ضرورت محسوس ہوتی گئی اللہ تعالی اور عمارت بھی دیتا رہا ۔۔۔۔۔عرصہ ساڑے آٹھ سال اسی محدود سی بلڈنگ(جو فی الحال چار منزلہ عمارت ،چھ کمرے اوتین کنال پر مشتمل کھیل کا میدان ہے ) میں گزارے اور تنگیوں میں ہی کلاسز چلتی رہیں اور اساتذہ نے بھی بھر پورساتھ دیااب موجودہ تعمیر میں پچیس افراد کا عملہ کام کررہاہے اور درس نظامی کے طلبا کی تعداد ۱۱۰ اورشعبہ حفظ کی تعداد ۱۵۰
ہے اوراب تک درس نظامی کی تین کلاسز فارغ ہو چکی ہیں اور وہ تیس سے زائد فارغ التحصیل علماء کرام کی ٹیم پاکستان کی معروف جامعات میں مصروف عمل ہے اور ۵۰ حفاظ کرام قرآن مجید مکمل کر چکے ہیں ۔
اور اس جامعہ کے شیخ الحدیث اور مدیر التعلیم فضیلۃ الشیخ محمد یوسف قصوری حفظہ اللہ ہیں ۔
اور اس جامعہ کے شعبہ نشرو اشاعت سے اب تک کئی ایک کتب بھی شایع کی جا چکی ہیں ۔جن میں خطبات ضیاء،گناہوں کو مٹانے والے اعمال ،استقامت دین بھی شامل ہیں اور اس جامعہ کے شیوخ میں سے بھی بعض تحقیق و تصنیف میں مگن ہیں مثلا راقم نے اسی جامعہ میں رہ کر پچاس کے قریب کتب تالیف کیں جن میں ،شرح صحیح مسلم ،تحقیق مسند احمد بن حنبل ،تحقیق بلوغ المرام،مراجعت الجامع الکامل فی الحدیث الشامل للدکتور ضیاء الرحمن ا لاعظمی ،وغیرہ اور شیخ الحدیث محمد یوسف قصوری حفظہ اللہ جو کہ نحو کے امام ہیں سے دارالسلام لاہور نے قواعد النحو ،قواعد الصرف اور ابواب الصرف پر کام کروایا ۔جو طبع ہو چکی ہیں ،اور اسی طرح شیخ نور اللہ اور حافظ احمد شاکر مدرس جامعہ ھذا بھی کئی ایک کتب لکھ چکے ہیں ۔
۔۔۔۔۔لیکن محترم قاری ادریس ثاقب حفظہ اللہ اللہ تعالی سے وسعت کا سوال کرتے رہے ۔۔۔۔اور چند ماہ پہلے راقم سے مشورہ کیا کہ میر ادل چاہتاہے کہ پانچ چھ ایکڑ جگہ جامعہ کی لیں اور بڑا جامعہ تعمیر کریں اس کے مختلف بلاک بنائیں ،تو راقم نے کہا کہ اللہ تعالی قادر ہے آپ ارادہ مصمم کرلیں اور کوشش شروع کر دیں ۔۔۔بس دعا اور کوشش موصوف نے شروع کر دی پھر چند ہی ماہ ایک کروڑ سے زائد روپے کی زمین بھوئے آصل بٹھہ سٹاپ کی مشرق جانب ،ماشاء اللہ آئل ملز سے متصل ساڑھے پانچ ایکڑ زمین خریدی والحمدللہ ۔
اور چوبیس جنوری ۱۰۱۴ بروز جمعہ کو شیخ حفیظ الرحمن لکھوی مدیر جامعہ ابن تیمہ لاہور کو بلایا گیا اور ان سے بروز جمعہ اذان مغرب سے تھوڑی دیر پہلے دعاکروائی گئی اور ان سے مسجد کی بنیادوں کا بنانا شروع کیا ۔کیونکہ استاد محترم لکھوی صاحب کا موقف ہے کہ جمعہ کے دن جو گھڑی قبولیت کی ہے وہ نماز مغرب سے تھوڑا وقت پہلے ہوتی ہے ،اسی مطابقت سے یہ دعابھی کروائی گئی ۔
اور پھر چھبیس جنوری ۲۰۱۴بروز اتوار کو اس کی بلڈنگ کا سنگ بنیاد رکھنا تھا اس موقع پر محترم قاری صاحب کی کوشش تھی کہ میں اس موقع پر پاکستان کے تمام شیوخ الحدیث اور قراء کرام کو دعوت دوں گا ان شاء اللہ۔
اور اس تاریخ کو اللہ تعالی کی توفیق خاص سے اس نئے جامعہ محمد بن اسماعیل البخاری اہل حدیث گندھیاں اوتاڑ قصور کی بلڈنگ کی بنیاد رکھی گئی تقریباگیارہ بجے تلاوت قرآن مجید سے پروگرام شروع ہوا اور تین بجے تک پروگرام جاری رہا ،جس میں پورے پاکستان سے اکثر شیوخ الحدیث نے شرکت کی مثلا ،فضیلۃ الشیخ عبیدالرحمن محسن ،مہتمم دارالحدیث راجووال ،شیخ الحدیث عبدالغفار روپڑی،شیخ الحدیث عبدالوہاب روپڑی ،شیخ قدرت اللہ فاضل ام القری ،شیخ الحدیث حافظ محمد شریف ،فیصل آباد ،ڈاکٹر حماد لکھوی ،شیخ الحدیث مسعود عالم فیصل آباد ،محدث العصر ارشاد الحق اثری ،فیصل آباد ،مفسر قرآن حافظ صلاح الدین یوسف لاہور،شیخ الحدیث قاری صہیب میر محمدی بونگہ بلوچا،فضیلۃ الشیخ عبدالعظیم اسد ،منیجنگ ڈرایکٹر دارالسلام لاہور،مولانا عتیق اللہ سلفی ،ستیانہ بنگلہ ،ستیانہ بنگلہ،شیخ الحدیث محمد حسین ظاہری،اوکاڑہ،شیخ الحدیث عبدالرحمن ضیاء آف جھنگ،شیخ الحدیث عبداللہ ناصر رحمانی آف کراچی،شیخ الحدیث عبدالغفار اعوان آف اوکاڑہ،شیخ شفیق الرحمن فرخ ،شیخ حسن محمود کمیر پوری،قاری ظفراللہ خان ،قاری محمد شریف ،قاری سیف اللہ عابد امیر مرکزی جمعیت خانیوال،قاری محمد اسماعیل میر محمدی خطیب ضیاء السنۃ راجہ جنگ ،قاری خبیب احمدمیرمحمدی،قاری محمد احمد راو خان والا قصور،قاری محمد اکرم شاہد قصور ،قاری محمد اکرم سالک قصور،قاری حبیب اللہ ساقی ،حافظ عبدالغفار حسن ،شیخ عطاء اللہ حنیف اور راقم الحروف۔وغیرہ تشریف لائے اور اکثر شیوخ الحدیث نے تقاریر بھی کیں اس میں دینی جامعات کی اہمیت پر بہت اہم دروس ہوئے اس میں انھوں نے محترم قاری ادریس ثاقب مدیر جامعہ ھذا کو مبارک پیش کی اور یہ پروگرام ہر لحاظ سے کامیاب رہا اور ہزاروں سامعین تشریف لائے اور خصوصا جامعہ سے فارغ التحصیل علماء کرام میں سے اکثر تشریف لائے ۔فجزاہم اللہ خیرا۔
جامعہ ھذا کی نئی بلڈنگ چار بلاک پر مشتمل ہو گی اور ان چاروں بلاک کے نام امام بخاری رحمہ اللہ کے شاگردوں کے ناموں پر رکھے گئے ہیں ۔ بلاک مسلم ،بلاک امام ابوعیسی محمد بن عیسی بن سورہ الترمذی،بلاک امام ابودود اود سلیمان بن اشعث السجستانی الباکستانی،بلاک امام ابوحاتم الرازی،بلاک امام محمد بن یوسف فربری۔
اور جامعہ میں منصوبہ جات درج ذیل بنائے جائیں گے ۔
جامع مسجد ،مدرسہ،شیوخ ہاسٹل ،طلباہاسٹل ،سکول، ہسپتال ،تفریحی پارک ،کھیل کا میدان۔
سب سے پہلے مسجد زیر تعمیر ہے جس کی اندرونی لمبائی ۱۰۳فٹ اور چوڑائی ۹۰ فٹ ہے ،اس میں بیس صفیں مکمل ہوں گی اور ایک ہزار افراد نماز پڑھ سے گا ان شا ء اللہ ۔
ان تمام منصوبوں کی تکمیل کے لئے کروڑوں روپے کی لاگت آئے گی اس کئے تمام احباب اس جامعہ کو اپنی خصوصی دعاوں میں یاد رکھیں اور اس کی تعمیر وترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں ۔
رابطہ: قاری محمد ادریس ثاقب مدیر جامعہ محمد بن اسماعیل البخاری گندھیاں اوتاڑ قصور۔03008014092
اس جامعہ کی تکمیل کے بعد محترم قاری ادریس ثاقب حفظہ اللہ ایک اور جامعہ تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جن میں چاربلاک ہوں گے ،بلاک امام ابوحنیفہ،بلاک امام مالک ،بلاک امام شافعی ،بلاک امام احمد بن حبنل۔
اللہ تعالی محترم قاری صاحب کے تمام نیک ارادے پورے فرمائے اور ان کی حفاظت فرمائے اورا ن کے معاونین کو جزائے خیر عطافرمائے ۔؂آمین

Sunday 19 January 2014

شیخ الحدیث محمد یوسف محدث راجووالوی رحمہ اللہ کا نماز جنازہ آنکھوں دیکھا حال

0 comments


مرتب :
ابن بشیر الحسینوی الاثری 
مدرس دارالحدیث راجووال 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باباجی رحمہ اللہ نے تقریبا قمری حساب سے ۹۸ سال عمر پائی اور ساری زندگی دین کی آبیاری کرتے گزر گئی۔
ان کی زندگی بے شمار خوبیوں سے مزین تھی وہ مفکر تھے وہ محدث تھے وہ ولی تھے وہ اتحاد چاہتے تھے وہ ساری زندگی دین کے لئے فکر مند رہے اپنی زندگی کا ہر ہر سانس دین کی خاطر صرف کیا اور اپنے پیچھے ایک جمع غفیر شاگردوں کا چھوڑا جو پوری دنیا میں قرآن وحدیث کی صدا بلند کر رہے ہیں اور اپنی یاد گار جھونپڑیوں کے سائے شروع کیا جانے والا ادارہ دارالحدیث ایک عظیم ترین مرکز کو آباد چھوڑا ۔
بابا جی کی زندگی بہت زیادہ پہلووں سے منفرد تھی ،وہ بہت بڑے سخی تھے ،وہ درد دل رکھنے والے انسان تھے ،وہ دکھی انسانیت کا ہاتھ تھامنے والے تھے ،وہ دین کے طلبا سے والہانہ محبت کرتے تھے ،وہ بہت مثالی مہمان نواز تھے ،اور بذات خود ایک تحریک تھے ،وہ وفا دار تھے جس سے چلے اس کے ساتھ زندگی گزار دی ،انھوں نے ہرہر شعبہ میں کام کیا،مثلا دعوت و تبلیغ ،نشرو اشاعت ،تحریکوں میں حصہ لینا ،قوم کی زمام قیادت کو سنبھالا،مساجد کو قائم کیا اور دینی جامعات عروج پہنچایا ،وہ ہر اچھے انسان کے قدر دان تھے ان کی دوستی اور دشمنی بنیاد قرآن و حدیث تھا ۔ہر ہر جگہ قرآن و حدیث کو دیکھا خواہ غمی ہو یا خوشی ۔
اگر میں کہوں کہ وہ اپنی ذات میں ایک تاریخ تھے ،وہ بذات خود ایک ادارہ تھے تو یگانہ روز گار تھے تو کوئی بے جا نہ ہوگا ،اس مختصر سے عریضے میں ان کی خدمات کا احاطہ نہ ممکن ہے بلکہ اس کے لئے تو سینکڑوں صفحات پر مشتمل ایک تاریخ رقم کی جا رہی ہے ان شاء اللہ ،جس میں ان کی زندگی کے ہرہر پہلو کو واضح کیا جائے گا ۔۔۔ان سے تعلق رکھنے والے احباب بھی اس پر توجہ دیں ۔
۱۴ جنوری کا دن انتہائی افسوس ناک دن تھا کہ اذان فجر سے پہلے راقم اپنے کمرے میں مطالعہ میں مصروف تھا اچانک دروازے پر دستک دی گئی دروازہ کھولا تو شیخ عدنان حفظہ اللہ نے کہا کہ محترم بابا جی وفات پاگئے ہیں انا للہ وانا الیہ راجعون ۔کہتے ہوئے،دعاوں کا سلسلہ شروع کر دیا ۔اور نماز فجر شیخ عبید الرحمن محسن حفظہ اللہ نے پڑھائی بڑی مشکل سے قرات کر رہے تھے اور مختصر سی سورتوں پر اکتفا کیا پھر دعاقنوت بھی کی پھر نماز کے بعد والد محترم کی چند نصیحتیں بیان کیں مثلا :مجھے نئی آبادی راجووال کے قبرستان میں دفنانا ،میرا جنازہ میر بڑا بیٹا حافظ عبدالرحمن پڑھائے ،اور میرے کفن کا اہتمام محمد علی جوہر کرے ۔میرے جنازے سے پہلے میری تعریف میں تقاریر نہ کرنے دینا اس موقع پر سب سے بڑی عبرت خود میت ہوتی ہے ۔میرے فوت ہونے کی وجہ سے مدرسہ کی کلاسز کو مسلسل جاری رکھنا ہے تاکہ طلباء کی تعلیم کا حرج نہ ہو ،بس چند گھنٹے پڑھائی کا تعطل کرلینا تاکہ تمام طلبا میرے جنازے میں شریک ہو سکیں ۔
ان تمام نصیحتوں پر عمل کیا گیا والحمدللہ۔
اور ملک پاکستان کے کونے کونے سے سر زمین راجووال میں اہل علم و علوم نبوت کے طلبا اور عام لوگ تشریف لائے جو کم و بیش بیس ہزار سے زیادہ ہوں گے ،اور نماز جنازہ محترم ڈاکٹر عبدالرحمن یوسف حفظہ اللہ پڑھائی دوسرا نماز جنازہ پروفیسر حافظ ثناء اللہ خان حفظہ اللہ نے پڑھایا اور جو حضرات اور لیٹ ہو گئے انھوں بابا جی قبر پر نماز جنازہ کا اہتمام کیا ۔
جامعہ سلفیہ فیصل آباد سے استاد محترم شیخ الحدیث عبدالعزیز علوی ،شیخ یونس بٹ ،شیخ عبدالحنان اور پروفیسر نجیب اللہ طارق ،پروفیسر یسین ظفر استاد محترم شیخ مسعود عالم حفظہم اللہ نماز جنازہ میں شامل ہوئے ۔جامعہ محمدیہ گوجرانوالا سے استاد محترم شیخ الحدیث عبدالحمید ہزاروی ،شیخ خالد بشیر مرجالوی وغیرہ آئے تھے اور جامعہ رحمانیہ لاہور سے استاد محترم شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی ،استاد محترم شیخ رمضان سلفی ،شیخ حسن مدنی ،شیخ شفیع طاہر حفظھم اللہ تشریف لائے تھے ۔
اور فیصل آباد ستیانہ بنگلہ مدرسہ سے استاد محترم شیخ الحدیث عبداللہ امجد چھتوی ،شیخ عتیق اللہ سلفی اور دیگر ساتھی دعا ء مغفرت میں شریک ہوئے ۔
مفسر قرآن جناب حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ بھی نماز جنازہ میں شریک ہوئے تھے ۔
ہفت روزہ الاعتصام کے ذمہ داران جناب حافظ احمد شاکر اور جناب مورخ اہل حدیث محمد اسحاق بھٹی اور محترم حماد شاکر وغٖیرہ تشریف لائے تھے ۔
اور مرکز ابن مسعود لاہور سے جناب استاد محترم شیخ شفیق مدنی اور شیخ محترم کے رفقاء نماز جنازہ میں شریک ہوئے تھے۔
اسی طرح اسلامک انسیٹیٹوٹ مہنتانوالا سے شیخ الحدیث ادریس اثری اور ان کے جامعہ کے دیگر احباب بھی شریک تھے ۔
اور میرے جامعہ محمدبن اسماعیل البخاری گندھیاں اوتاڑ قصور سے بھی مہتمم جامعہ قاری ادریس ثاقب اور شیخ الحدیث جناب محمد یوسف قصور ی اور تمام اساتذہ اور کافی طلبا نماز جنازہ میں شریک ہوئے ۔
اسی طرح کراچی سے حافظ عبدالقوی ،حافظ عبدالحفیظ روپڑی اور صھیب اللہ بھائی تشریف لائے تھے ۔اور شیخ نور آف کراچی بھی آئے تھے لیکن کراچی کے احباب جنازہ میں شریک نہ ہو سکے ۔
مرکزالتربیۃ الاسلامیۃ فیصل آباد سے شیوخ کرام استاد محترم شیخ ارشاد الحق اثری اور شیخ حافظ محمد شریف حفظھم اللہ بھی لیٹ پہنچے انھوں نے قبر پر نماز جنازہ ادا کی اس نماز جنازہ میں بابا جی کے داماد محترم شیخ عبدالمجید آف کراچی بھی شامل تھے ۔
اس طرح جم غفیر تھا جس سے ثابت ہوگیا تھاکہ باباجی کس قدر اہل علم کے ہاں محبوب تھے ،کہ جن کے نماز جنازہ میں پاکستان کے کونے کونے سے شیوخ الحدیث اور علوم نبوت کے طلبا تشریف لائے ہوئے تھے ۔
اور مرکز ادارۃ الاصلاح بونگہ بلوچاں سے بھی شیوخ کرام تشریف لائے تھے ۔
اس موقع پر جناب امیر محترم ساجد میر ،جناب عبدالکریم ،جناب ابتسام الہی ظہیر حفظھم اللہ تشریف نہیں لائے تھے شاید کسی اور مصروفیت کی وجہ سے وقت نہ مل سکا ہو گا ۔
اللہ تعالی بابا جی مرحوم کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات کو بلند فرمائے ۔اور ان کے ہاتھ سے لائے ہوئے ادارہ دارالحدیث راجووال کو تاقیامت ان کے لئے صدقہ جاریہ بنائے آمین ۔
قافلہ حدیث میں مورخ اہل حدیث جناب محمد اسحاق بھٹی حفظہ اللہ نے بابا جی کے حالات مفصل لکھے ہوئے ہیں ۔فجزاہ اللہ خیرا ۔
بابا جی کے حالات پر مفصل کتاب لکھنا شروع کر دی ہے جس میں مرحوم کی زندگی کے تمام پہلووں پر بحث کی جا رہی ہے ان شاء اللہ۔ اللہ تعالی آسانی فرمائے ۔آمین 
اگر کسی کے پاس بابا جی کے متعلق کوئی واقعہ یا کوئی ان کی زندگی کے پہو کے متعلق چیز ہو وہ ہمیں ضرور مطلع کرے تاکہ اسے بھی جمع کیا ج سکے ،
اور بابا جی کے شاگردوں کا حلقہ بہت وسیع تھا ان سے استفادہ کرنے والے احباب بھی ہم سے رابطہ کریں ،اور بابا جی خط و کتابت بھی بہت کیا کرتے تھے اگر کسی کے پاس بابا جی کا کوئی خط ہو تو وہ ہمیں ضرور ارسال کرے ۔
اڈریس :
دارالحدیث الجامعۃ الکمالیۃ راجووال تحصیل دیپالپور ضلع اوکاڑہ 
03024056187 — with IbneBashir AlHusainwi.