آپ کی معلومات

Friday 26 December 2014

حدیث رسول ﷺ کا دفاع کیوں ضروری ہے ؟

0 comments
حدیث رسول ﷺ کا دفاع کیوں ضروری ہے ؟
ابن بشیر الحسینوی
حدیث رسول ﷺ کا دفاع کیوں ضروری ہے ؟
ابن بشیر الحسینوی
رئیس
المؤسسۃ الاثریۃ الخیریۃ پاکستان و جامعہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اہل حدیث سٹی قصور
قیامت تک کے انسان کے لئے مکمل ترین نمونہ رسول اللہ ﷺ کی ذات ہے تمام شعبہ ہائے زندگی کی مکمل رہنمائی قرآن مجید اور اس کی تفسیر و توضیح حدیث رسول ﷺ میں ہے ۔بعض لوگ بنی نوع انسان کو صراط مستقیم سے ہٹانے کے لئے اور انھیں بے راہ روی کا شکار کرنے کے لئے حدیث مصطفی ﷺ سے متنفر کرتے رہتے ہیں اور حدیث رسول کی اہمیت سب پر واضح ہے ،اور یہ بجا ہے کہ حدیث کا دفاع اصل میں دین اسلام کا دفاع ہے کیونکہ اسلام کی مکمل تفصیل قرآن مجید اور حدیث رسول ﷺ میں ہے جہاں قرآن کریم وحی ہے وہاں حدیث رسول ﷺ کو بھی وحی کہا گیا ہے ۔جو حدیث پر حملہ کرتا ہے وہ گویا اسلام پر حملہ کرتا ہے ۔جو حدیث کا دشمن ہے وہ گویا اسلام کا دشمن ہے !!اور جو اسلام کا دشمن ہے وہ اللہ تعالی اور رسول اللہ ﷺ کا دشمن ہے ۔
حدیث رسول ﷺ پر کئے گئے اعتراضات کی اجمالی صورتیں:
احادیث پر اعتراضات کرنے والوں کی مختلف صورتیں ہیں جن پر ضروری تبصرہ پیش خدمت ہے ۔
اسلام سے دشمنی :
منکرین حدیث اور مستشرقین اسلام سے دشمنی کی وجہ سے احادیث پر اعتراضات کرتے ہیں ان کے پیش نظر حدیث کی اہمیت کو کم کرنا ہوتا ہے اس لئے وہ دن رات احادیث رسول ﷺ پر بے جا تنقید کرتے ہیں حقیقت میں ان پر اللہ تعالی کی طرف سے لعنت پڑ چکی ہوتی ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کی شان مبارک میں گستاخی کرتے ہوئے اپنی زندگی گزار دیتے ہیں۔
تقلید :
تقلید کی وجہ سے کئی لوگ اپنے امام کے قول کو ثابت کرنے کے لئے احادیث کا انکار کر جاتے ہیں ۔احناف کی کتب ان کی مثالوں سے بھری ہوئی ہیں ۔تفصیل کے لئے دیکھیں شیخ الحدیث اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کی کتاب(نگارشات)
معنوی تحریف:
بعض لوگ ظاہر میں حدیث کا دفاع کرتے ہیں لیکن اپنے مسلک کے مسئلے کو ثابت کرنے کے لئے وہ معنوی تحریف سے کام لیتے ہیں ۔معنوی تحریف کا حکم وہی ہے جولفظی تحریف کا حکم ہے یعنی حرام اور کبیرہ گناہ ہے ۔بریلویوں کے شیخ الحدیث غلام رسول سعیدی بریلوی کی شرح صحیح مسلم اور شرح صحیح بخاری ،معنوی تحریف سے بھری پڑی ہیں ۔
لفظی تحریف :
بعض لوگ احادیث میں الفاظ کا اپنی طرف سے اضافہ کر کے یا کمی کرکے یہودو نصاری کی روش بد پر چلتے ہیں مولانا جابر دامانوی حفظہ اللہ کی کتاب تحریف النصوص میں بے شمار مثالیں دیکھی جا سکتی ہیں ۔
باطل تاویلیں:
بعض لوگ صحیح احادیث کی باطل تاویل کر جاتے ہیں جس سے حدیث کا صحیح مفہوم ہی بدل جاتا ہے اور وہ اس سے اپنی مرضی کا مفہوم نکالتے ہیں ۔کتب احناف میں اس کی مثالیں بکثرت ملتی ہیں ۔ہمارے فاضل دوست ارشد کمال حفظہ اللہ کی کتاب (عذاب قبر )اس ضمن میں اچھی کاوش ہے کہ منکرین عذاب قبر باطل تایلوں کا زبردست رد کیا ہے ۔
ثقہ راویوں کو ضعیف ثابت کرنا :
بعض لوگوں نے اپنے مذھب کو بچانے کی خاطر ایک نیا حیلہ نکالا ہو ا ہے کہ ثقہ راویوں کو ضعیف ثابت کرکے اپنے پیروکاروں کو خوش کرلیتے ہیں اس کی بے شمار مثالیں دیکھنے کے لئے استاد محترم محدث العصر ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ کی کتب (مولانا سرفراز صفدر اپنی کتب کے آئینے میں اور اعلاء السنن فی المیزان )قابل تعریف ہیں ۔شیخ محترم نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیا ہے ۔اور راقم نے اس پر اپنی قیمتی کتاب (دفاع اسلام)میں بے شمار مثالیں جمع کر لی ہیں اور مزید اس پر کام باقی ہے ۔
ذوق کے خلاف :
بعض لوگوں نے حدیث مصطفی ﷺ کو اپنے ذوق پر پرکھا !!!کس قدر دین کے خیر خواہ تھے یہ لوگ کہ وہ برملا کہتے ہیں کہ یہ حدیث ہمارے ذوق کے خلاف ہے !!!اس باطل نظریے کی مثالیں تفہیم القرآن میں ملتی ہیں ان کا زبر دست ردعبداللہ محدث روپڑی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب(احادیث اور مودودیت )میں کیا ہے
مذھبی تعصب: اپنے مذھبی تعصب کی وجہ سے احادیث رسول ﷺ کو نشانہ تنقید بنایا گیااس پر بے مثال تبصرہ پڑھنے کے لئے کوثری حنفی کے مذھبی تعصب پر علامہ معلمی یمانی کی لاجواب کتاب(التنکیل اور الکاشف )کا مطالعہ کافی ہے
جھوٹی روایات سے سہارا لینا:
صحیح احادیث کو چھوڑ کر جھوٹی،منکر اور ضعیف روایات سے سہارا لینا بھی حدیث دشمنی کی واضح مثال ہے ،ابوالمؤید خوارزمی نے (مسانید امام ابی حنیفہ )کے نام سے ایک کتاب جمع کی ہے اس کے متعلق ولی اللہ شاہ محدث دہلوی فرماتے ہیں:’’خوارزمی کی جمع کردہ مسانید امام ابی حنفیہ کا درجہ چوتھے طبقے کی ضعیف ،موضوع اور منکر احادیث پر مشتمل کتابوں کے قریب قریب ہے ،جن سے بدعتی حضرات اپنے مذہب کی تائید کے لئے دلیلیں اکٹھا کرتے ہیں ‘‘(حجۃ اللہ البالغۃ :ج ۱ ص ۱۳۵)کتب احناف جھوٹی اور غیر ثابت روایات سے بھری پڑی ہیں اور انھیں روایات سے اپنے مسائل کی بنیاد رکھتے ہیں ۔
وضعی علوم حدیث :
بعض لوگوں نے انکار حدیث کے لئے علوم حدیث پر تنقید کی مثلا امین احسن اصلاحی ، ان کا تفصیلی رد مولانا محمد عزیر مبارکپوری نے اپنی کتاب(انکار حدیث کا نیا روپ )میں لیا ہے اور بعض منکرین نے فضول اصول حدیث وضع کرلئے مثلا جاوید احمد غامدی ،ان کے باطل اصول حدیث کی خبر شیخ محمد حسین میمن اور ابوالحسن علوی حفظہما اللہ نے لی ہے ۔
اور احناف نے بھی ایسے اصول حدیث لکھے جن سے صحیح احادیث کا انکار لازم آتا ہے مثلا قواعدعلوم الحدیث از ظفر احمد عثمانی دیوبندی ،اس کتاب میں حنفی اصول حدیث جمع کئے گئے ہیں ان کی خوب خبر شیخ العرب والعجم محمد بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب(نقض قواعد علوم الحدیث )میں لی ہے ۔اور استاد محترم محدث العصر ارشادالحق اثری حفظہ اللہ نے اپنی کتب(توضیح الکلام ،اعلاء السنن فی المیزان وغیرہ )میں ان کے باطل اور وضعی اصول حدیث کا خوب رد کیا ہے ۔راقم نے(علوم حدیث اور احناف استاد محترم محدث العصر شیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ کی نظر میں )مفصل کتاب لکھ رکھی ہے ۔جو کراچی میں زیر طبع ہے ۔
وضع حدیث: بعض لوگوں نے صحیح احادیث سے دشمنی کرنے کی خاطر ایک نئی راہ نکالی کہ ان احادیث صحیحہ کے خلاف اپنی طرف سے جھوٹی روایات بنا ڈالیں اور عوام کاالانعام کو دھوکہ دینے کی ناکام کوشش کی ۔کتب احناف اور کتب دیوبندیہ اور کتب بریلویہ میں اس طرح کی کافی مثالیں ملتی ہیں اور فتنہ وضع حدیث بھی حدیث دشمنی میں آتا ہے کہ گمراہ لوگوں نے صحیح احادیث کے خلاف جھوٹی روایات بنانا شروع کر دیں اور دین اسلام کو نقصان پہنچایا ۔۔
منکرین حدیث کی ہم نوائی :
بعض لوگوں نے منکرین کا ساتھ دیتے ہوئے صحیح احادیث پر اس قدر حملے کئے ہیں کہ اگر مصنف کا نام معلوم نہ ہو تو پڑھنے ولا کہہ اٹھے گا کہ یہ کسی منکرین حدیث کی کتاب ہے ۔اوراس طرح کے حملے کرنے والے احناف سے تھے ان کے بے ہودہ حملوں کی تفصیل اور ان کے دفاع کی حقیقت کو جاننے کے لئے علامہ ابوالقاسم بنارسی رحمہ اللہ کی قیمتی سات کتابوں کامجموعہ(دفاع صحیح بخاری )کا مطالعہ کافی ہے ۔یوسف بن موسی المطلی الحنفی (ت:۸۰۳ھ)اکثر کہا کرتا تھا :’’من رای فی کتاب البخاری تزندق‘‘جس نے صحیح بخاری میں دیکھا وہ زندیق ہو گیا ۔(الضوء اللامع :ج ۱۰ص۳۳۵)
عقل پرستی:
بعض لوگوں محض عقل کی بنیاد پر انکار حدیث کیا اور ان لوگوں کی نے کتنی جرات کی وحی الہی پر اپنی ناقص عقل کے گھوڑے دوڑائے اور محدثین کی محنتوں اور علم حدیث کو ضایع کرنے کی بھر پور کوشش کی ۔۔۔اس پر علامہ عبدالرحمن کیلانی رحمہ اللہ کی کتاب’’عقل پرستی اور انکار معجزات ‘‘قابل دید ہے ۔
شبیر احمد میٹھی صاحب عقل کے ذریعے انکار حدیث کرتے ہوئے لکھتا ہے :’’کیا یہ ممکن ہے ؟اگر کوئی کہے کہ یہ ممکن ہے تو محال و ناممکن ،بے معنی بات ہے ۔۔۔ظاہر ہے کہ یہ بات بالکل عقل میں آنے والی نہیں ہے ۔۔۔ہرگز سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے ‘‘(صحیح بخاری کا مطالعہ:ج۱ص۱۴۸۔۱۵۱)
نوٹ:مذکورہ تمام صورتوں پر بے شمار مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں جو ایک طویل ترین کتاب کی محتاج ہیں بس اس مختصر مضمون میں انھیں گزارشات پر اکتفا کرتا ہوں زندگی نے وفا کی اور اللہ تعالی کو منظور ہوا تو ’’دفاع اسلام ‘‘کے موضوع پر ایک طویل کتاب لکھوں گا ان شاء اللہ اور اس پر کافی کام مکمل ہے اور کافی باقی ہے ۔ان تما م صورتوں کو ذکر کرنے سے یہ مقصد تھا کہ قارئین کو معلوم ہو کہ دفاع حدیث کی کتنی ضرورت ہے اور کس طرح مختلف لوگ مختلف روپ دھار کر احادیث مصطفی ﷺ سے اپنی دشمنیاں رکھے ہوئے ہیں ۔۔جہاں اس میں منکرین حدیث ملوث ہیں وہاں دیگر رہنمائے امت بھی مقلدین کے روپ میں ملوث نظر آتے ہیں کوئی صریحا انکار کررہاہے تو کوئی خفیہ طریقے سے اپنے ترکش چلا رہا ہے ،کوئی تقلید کی وجہ سے انکاری ہے تو کوئی مذھبی تعصب کی بنا پر ،کوئی الفاظ میں تحریف کی وجہ سے مجرم ہے تو کوئی معنوی تحریف کی ضد میں آتا ہے ۔ان تمام کا نوٹس لینا اہم ذمہ داری ہے ۔۔۔یہود ونصاری ،مستشرقین تو اعتراضات کرتے لیکن افسوس ان بعض نام نہاد مسلمانوں پر ہے جنھوں نے اپنی کم فہمی اور کج روی کا اظہار عداوت حدیث کی صورت میں کیا اوربعض نے تقلید کو آڑ بناکر اسلام کو نقصان پہنچانے کی ناکام کوشش کی ۔۔۔الحمدللہ دین اسلام محفوظ تھا محفوظ ہے اور قیامت تک محفوظ رہے گا جب بھی کسی نے اسلام پر اعتراضات کئے اسی وقت اللہ کے بندے قلم و قرطاس لے کر میدان میں اترتے ہیں اور دفاع اسلام کا حق ادا کرتے ہیں یہ ایک مستقل تاریخ ہے کہ کس صدی میں کس نے اعتراضات کئے اور اسی صدی میں کس نے ا س کا جواب لکھا ۔۔۔۔راقم نے اپنے( موسسۃالاثریۃ الخیریۃ) کے تحت ’’دفاع اسلام فورم‘‘قائم کر رکھا ہے اس کے تحت اسلام پر مستشرقین کے جوابات انگلش میں لکھے جا رہے ہیں اور حدیث سے مذاق کرنے والوں کے تعاقب میں اردو زبان میں بہت کچھ لکھا گیا ہے اور مزید سلسلہ جاری ہے ۔
فائدہ:
بعض اہل علم کا شمار محدثین کی صف میں ہوتا ہے اور خدمت حدیث پر ان کی زندگی وقف تھی لیکن اصول اور جرح وتعدیل میں انھیں بعض اجتھادی غلطیاں لگی ہوئی تھیں جس کی وجہ سے انھوں نے کئی ایک صحیح احادیث کو ضعیف قرا دیااور اس کے برعکس ،ایسی غلطیوں کو اجتھادی غلطی سے تابیر کرنا چاہئے اس کی ضروری تفصیل کے لئے دیکھئے (مقالات اثریہ از شیخ خبیب احمد حفظہ اللہ)

Sunday 30 November 2014

قرات سبعہ عشرہ كا علم آن لائن سىكھىں

0 comments
فضيلة الشىخ قارى عمير حفظہ اللہ
contact: Skype: Qariumair11@gmail.com
0302-5206047

Tuesday 25 November 2014

علوم تفسير ، علوم حديث و تجوير القرآن كے شائقىن كے خوشخبرى

0 comments
Abdul Basit Abid
Skype: Abdul.basit3288
Facebooke: Mian Abdul Basit Abid
+92321-6283511-+923344592900


Address: Nan Sukh Nyer Sagyan By pass Lahore.
Cell# 0092-334-4592900, 0321-6283511
Email: danyalhadibasit@gmail.com
CNIC#35401-0695929-9

Born on May 7th , 1987Married…Energetic & keen. Able to understand and justify situations intelligently and effectively and skilled to express ideas clearly and precisely. Confident and quick strong interpersonal skills… Being a punctual man I am able to meet deadlines. Like to be assigned challenging job involving important results regarding imaginative solutions. Able to work in multi-cultural environment.

Career Objectives

To work in an organization that offers challenges and professional growth. It will enhance my abilities to work with the dynamic organization. Using the knowledge acquired academically coupled with interest and hard work, to the entire satisfaction of my employer.

Academic Profile

Degree Name
Year
Major Subjects
Institution
M.Phil. Islamic Study  Continue
2014-2016
Islamyat
University of Central Punjab
M.A.
2007
Islamyat
Wifaqul Madaris Aslafiya. Pakistan
Darse - Nizami
2006
Oloom-e- Islamia
Jammia Mohammdia Gujranwala. Pakistan
M.A
2007
Arbi
Wifaqul Madaris Aslafiya. Pakistan
B.A.
2005
Arts
Wifaqul Madaris Aslafiya. Pakistan
F.A
2003
Arts
BISE Lahore
Matriculation
2002
Arts
BISE Lahore
Fazil-e- Arabic
2005
Arbi
BISE Lahore

Professional History

·         Two year experience in a Private School from 2004 to 2006

·         5 year experience as Marketing Manger Darussalam Lahore Pakistan. 2006-2010

  • I have been holding accounts and Administrative affairs 
  • 5 year experience as Composer in Urdu, Arabic & inglish Darussalam Publisher Lahore Pakistan. And IT skils mangment.

OTHERS

ü  Certificate of Tajveed-o-Qirat. And Hifz-e- Quran
ü  One year course of Asoole-fiqa From International Islamic University Islamabad.
TRAINING  & RESEARCH WORK

I have attachd One Year Reserch Fallow Darussalam International Lahore. 

Sunday 21 September 2014

جامعہ امام احمد ابن حنبل میسج سروس قصور

0 comments

الحمدللہ ادارے کی طرف سے پاکستان بھر میں دس نمائندے مقرر کئے گئے جو روزانہ دو اسلامی میسج عام کررہے ہیں۔
جو بھی ساتھی ہماری تحریک کے میسج پڑھمنا چاہتا ہے وہ ان نمبروں ہر اسلامی لکھ کر میسج کرے اس کو بھی ہمارے اسلامی میسج آنا شروع ہو جائیں گے ان شائ اللہ
03004303536
03057915937


قرآن و حدیث فہمی کا سنہری موقع

0 comments

الحمدللہ 
راقم کی سوچ ہے کہ دین گھر گھر عام کرنا ہے 
اسی کی خاطر اپنے ادارے جامعہ امام احمد ابن حنبل قصور میں ایک شعبہ دینی مدارس سے فارغ التحصیل اہل علم کے لیے ایک شعبہ تیکنالو جی کے متعلقہ ہے 
تاکہ علمائے کرام انٹرنیٹ کی دنیا میں اآکر پوری دنیا میں  دین کو عام کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب تک کئی اپنے تلامذہ کو انٹرنیٹ کی دنیا میں لا چکا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی شعنبہ کے تحت ہمارے فاضل شاگرد 
 فضیلۃ الشیخ حافظ  عطا الرحمن طالب حفظہ اللہ 
کو انٹرنیٹ میں لانے کی سعی کی گئی ہے 
لہذا قرآن و حدیث کی کلاسز کا اجرا عنقریب کریں گے خواہشمند حضرات ان سے رابطہ کر سکتے ہیں ۔
فیس بک:ataurehman talib
موبائل:00923004223054


0 comments


قربانی کے کھالیں جامعہ امام احمد بن حنبل قصور پاکستان کے طلبا کے نام

0 comments

الحمدللہ ادارے میں کل طلبا پندرہ ہیں اور پانچ شیوخ کرام کی خدمات حاصل ہیں لہذا اس ادارے کو اپنی دعاوں میں یاد رکھیں اورہر موقع پر خصوصی توجہ دیں
التماس:ایک جامعہ جو حقیقت میں ایک تحریک ہے بڑے بڑے عزائم اپنے اندر لئے ہوئے ہے۔ فی الحال بیس افرادکا کھانا اور ان کا علاج و معالجہ و رہائش اور چار اساتذہ کرام کے لوازمات ادارے کے ذمہ ہیں ۔ان تمام عزائم کو مسلسل قائم رکھنے کے لئے اللہ تعالی کی توفیق پھر آپ جیسے مخیر حضرات کی خصوصی توجہ کی ضرورت ہے لہذا صدقات و عطیات و عشر اور قربانی کی کھالوں میں ادارے کو ضرور یاد رکھیں۔ادارہ فی الحال اپنی ذاتی بلڈنگ نہیں رکھتا ادارے کو اپنی ذاتی بلڈنگ کی فوری ضرورت ہے احباب اس پر بھی توجہ دیں ۔
اکاؤنٹ نمبر: h.b.l kasur 10667900380103
الداعی الی الخیر:ابن بشیر الحسینوی ۔0302.0323:4056187.....0300.0334:4303530

Monday 8 September 2014

نیٹ وغیرہ پر مجھول نام سے کام کرنا؟

0 comments

انسان کی پہچان معروف نام ہی ہوتا ہے اور اسے اپنا معروف نام ہی استعمال کرنا چاہئے ۔خواہ دینی معاملہ ہو یا دنیاوی ۔کفار کے مقابلے میں استعمال کرنا ہو یا بدعتیوں کے مقابلے میں ۔
مجہول آئی ڈی سے بات کرنے والے کی بات قرآن و حدیث کے موافق ہے تو موافقت کی وجہ سے لی جائے گی مجہول آئی ڈی کی وجہ سے نہیں ۔اگر کسی کی بھی قرآن و حدیث کے مخالف ہے تو رد کر دی جائے گی خواہ معروف آئی ڈی سے کرے یا مجھول سے !!!
مجھول آئی ڈی میں بے شمار دھوکے اور جھوٹ ہیں ۔۔۔۔۔۔
معروف نام ہی اصل ہے مجہول نام اصل نہیں ہے ہر ہر جگہ اصل نام ہی استعمال کرنا چاہئے ۔
لکھنا ایک عمل ہے جو کوئی بھی لکھتا ہے قیامت کو اپنا عمل دیکھ لے گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔قرآن و حدیث میں اصل نام استعمال کرنے کے بے شمار دلائل ہیں ۔
مجھول نام استعمال کرنے کی مذمت کی جائے گی ۔
انسان کو صاف گو ہونا چاہئے ،نہ کہ اس کے الٹ۔

Sunday 7 September 2014

فضیلۃ الشیخ حکیم محمد شریف حفظہ اللہ تجربہ کار ماہر حکیم

0 comments

 اللہ تعالی نے شیخ محترم کو دینی علوم میں رسوخ کے ساتھ ساتھ حکمت میں بھی بہترین ماہر
بنایا ہے اور 2003 سے ضلع قصور میں مایا ناز حکمت کررہے ہیں سب سے بڑی بات کہ وہ سلفی ہیں والحمدللہ
امراض گردہ 
امراض معدہ 
امراض جگر 
اعصابی امراض
اور خواتین کے پچیدہ امراض کے سپیشلسٹ ہیں 
اسی طرح اولاد نرینہ کے لیے تسلی بخش علاج کیا جاتا ہے ۔
شیخ محترم کی اجازت سے نیٹ کی دنیا میں ان کا اشتہار لگایا جارہا ہے 
تاکہ ان کا فیض عام ہو اور دکھی دنیا ان کے تجربات سے فائدہ اٹھائے ۔
فون نمبر :
0092۔3016834597

جامعہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اہل حدیث سٹی قصورایک تعارف

0 comments


السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔محترم یہ جان کر آپ کو خوشی ہوگی کہ 14اگست 2014ء کو قصور شہر میں پاکستان کے عظیم محدثین کے زیر سرپرستی اور مرکزی جمعیت اہل حدیث سٹی قصور کے زیر اہتمام جامعہ کی ابتدا کی گئی اللہ تعالی نے اس ادارے کو کافی ترقی عطافرمائی اس پر ہم اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے ہیں ۔یہ شعبہ جات کام کررہے ہیں ۔
۱: شعبہ درس نظامی:درجہ اعدادی ،درجہ اولی اور درجہ رابعہ ۔میں تیرہ بیرونی طلبہ داخل ہیں اور ابھی داخلہ جاری ہے ۔


۲: شعبہ تخصص:اس شعبہ میں پانچ علماء کرام داخل ہیں اور مختلف فنون میں ماہر بن رہے ہیں اور ابھی داخلہ جاری ہے۔

۳: شعبہ سپیشلائزیشن:اس شعبہ میں مختلف یونیورسٹیزسے دس افراد ہر اتوار شرکت کررہے ہیں اور ابھی داخلہ جاری ہے ۔
۴: شعبہ صحیح بخاری:روزانہ بعد نماز عصر صحیح بخاری کی کلاس میں تقریبا تیس افراد شریک ہورہے ہیں اور مزید اضافہ ہو رہا .
۵: شعبہ نشرو اشاعت: ہر پندرہ دن کے بعد مختلف مسائل پر مشتمل ہزاروں کی تعداد میں لٹریچر فری تقسیم کیا جاتا ہے ۔
۶: شعبہ تربیتی و فکری ورکشاپ(داعیہ جوال):منھج نبوی کے مطابق بستی بستی جا کر امت مسلمہ کو بیدار کیا جاتا ہے اور اس میں سوال و جواب کی کھلی نشست کا اہتمام کیا جاتا ہے ہمارے ادارے کے اہل علم بے لوث علم کی شمع روشن کرنے کے لئے مختلف ملک بھر میں جارہے ہیں اس ماہ تقریبا بیس سے زیاد ہ پروگرام ہو چکے ہیں ۔ 
۷:شعبہ تحقیق وتصنیف: بعض کتب کی تالیف وتخریج وتحقیق مکمل ہو چکی ہے ،اور مسند حمیدی اورصحیح بخاری کی شرح پر کام جاری ہے ۔ ۸: شعبہ آن لائن کلاسز:اس شعبہ کے تحت پوری دنیا کے مختلف ممالک میں علوم قرآ ن و حدیث کی کلاسز جاری ہیں 
۹: شعبہ دفاع اسلام فورم:اس کے تحت مستشرقین ،منکرین حدیث اور عیسائیت وغیرہ کے اعتراضات کے جوابات دئیے جا رہے ہیں۔۱۰: شعبہ آن لائن فتاوی:چوبیس گھنٹے جامعہ کے شیوخ موبائل ،سکائپ ،پالٹاک وغیرہ پر ہزاروں افراد کے مسائل قرآن و حدیث کی رو شنی میں حل کرتے ہیں۔
۱۱: شعبہ خلافت اسلامیہ کا قیام ۔اس پر بھی کام جاری ہے اور امت مسلمہ میں خلافت کے نظام کو متعارف کروایا جارہاہے ۔عنقریب اس پر لٹریچرشایع کیا جائے گا اور ملک بھر میں پروگرام کا بھی انعقاد کیا جائے گا ان شاء اللہ ۔
التماس:ایک جامعہ جو حقیقت میں ایک تحریک ہے بڑے بڑے عزائم اپنے اندر لئے ہوئے ہے۔ فی الحال بیس افرادکا کھانا اور ان کا علاج و معالجہ و رہائش اور چار اساتذہ کرام کے لوازمات ادارے کے ذمہ ہیں ۔ان تمام عزائم کو مسلسل قائم رکھنے کے لئے اللہ تعالی کی توفیق پھر آپ جیسے مخیر حضرات کی خصوصی توجہ کی ضرورت ہے لہذا صدقات و عطیات و عشر اور قربانی کی کھالوں میں ادارے کو ضرور یاد رکھیں۔ادارہ فی الحال اپنی ذاتی بلڈنگ نہیں رکھتا ادارے کو اپنی ذاتی بلڈنگ کی فوری ضرورت ہے احباب اس پر بھی توجہ دیں ۔
اکاؤنٹ نمبر: h.b.l kasur 10667900380103
الداعی الی الخیر:انتظامیہ جامعہ ھذا ۔0302.0323:4056187.....0300.0334:4303530
بمقام مسجد سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ عبدالرشید گارڈنز ۔چوک اسٹیل باغ قصور

Friday 5 September 2014

جامعہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ قصور پاکستان کا ٹائم ٹیبل

0 comments
جامعہ امام احمد بن حنبل قصور پاکستان کا ٹائم ٹیبل 
6:20 سے نماز ظہر تک درس نظامی ۔اعدادی ۔درجہ اولی ۔درجہ رابعہ تین کلاسیں جاری ہیں 
نماز ظہر سے نماز عصر تک درس نظامی کے طلبا کی عصری تعلیم کی کلاسیں
اور فارغ التحصیل اہل علم کے لئے علوم حدیث و تصنیف و تحقیق کی کلاس
نماز عصر کے بعد صحیح بخآری کی کلاس ہوتی ہے جس میں تمام طلبہ اور قصور اور کے قرب جوار سے  لوگ شریک ہوتے ہیں ۔
نماز مغرب سے رات دس بجے تک مطالعہ اور مذاکرہ ہوتا ہے 
چار اساتذہ تدریس کررہے ہیں اور اب تک بیرونی پندرہ طلبا داخل ہیں اور داخلہ ابھی جاری ہے اس ادارے کو اپنی دعاوں میں یاد رکھیں آپ کی توجہ کی خصوصی ضرورت ہے ۔

Tuesday 12 August 2014

قصورشہر میں جامعۃ امام أہل السنۃ والجماعۃ أحمد بن حنبل رحمہ اللہ للتربیۃ الاسلامیۃ

0 comments

انٹرنیشنل اسلامک ریسرچ سنٹر الہ آبادبعض وجوہات کی بنا پر اس ایڈریس پر منتقل ہوگیا ہے :

تشنگان علوم اسلامیہ کے لیے عظیم خوشخبری 
قصورشہر میں
جامعۃ امام أہل السنۃ والجماعۃ أحمد بن حنبل رحمہ اللہ للتربیۃ الاسلامیۃ
بمقام مسجد سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ عبدالرشید گارڈنز ۔چوک اسٹیل باغ قصور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ر)
(۱)ڈپلومہ سپلائزیشن 
دینی مدارس سے فارغ التحصیل اور یونیورسٹیز کے کوالیفائیڈ اہل علم کے لئے مختلف ڈپلومے
۱:ڈپلومہ علوم قرآن و حدیث 
۲:ڈپلومہ خطابت و مناظرہ وتاریخ وسیر 
۳:ڈپلومہ تحقیق و تصنیف 
۴: ڈپلومہ دفاع اسلام
۵:ڈپلومہ ٹیکنالوجی 
دورانیہ ڈپلومہ:ایک سال نیز جو اہل علم جس فن میں ماہر بننا چاہے اس کو اسی فن میں ماہر بنایا جائے گا ان شاء اللہ 
(۲)ڈپلومہ درس نظامی 
مدت کورس :چھ سال
اس شعبہ میں شرائط داخلہ
مڈل پاس یا حفظ 228پرائمری ہو
اپنا ہونہار مڈل پاس بچہ دیں اور دینی علوم میں ماہر اور بی اے پاس لیں
عربی و انگلش بول چال اور ٹیکنالوجی میں خصوصی توجہ ان شاء اللہ
جدید منھج تدریس کے مطابق ۔
(۳)ڈپلومہ صحیح بخاری 
مدت کورس :دوسال وقت کلاس: بعد نماز عصر 
ہر عام اور خاص اس ڈپلومہ میں شریک ہو سکتا ہے ۔خصوصا ٹیچر ز،وکلاء ،تاجر،پروفیسرزاور سکول ،کالجز اوریونیورسٹیوں کے طلبا کیلئے سنہری موقع ہے کہ وہ بھر پور اس کلاس میں شرکت کریں
خصوصیات:پوری دنیا کے عظیم محدثین سے آن لائن استفادہ کا موقع دیا جائے گا ۔
منھج ڈاکٹر ذاکر نائیک پر قائم ،فن جرح و تعدیل اور علوم اسلامیہ کے ماہرکئی کتب کے مصنف و محقق اورتجربہ کار اساتذہ ۔ 
تمام نظام تعلیم اور زیر تعلیم اہل علم کے لئے کھانا ،علاج معالجہ اور ہاسٹل بالکل فری اور جدید ٹیکنالو جی میں ماہر بنایا جائے گا
ڈپلومہ سپلائزیشن میں داخلہ کی شرائط:دینی مدارس سے فارغ ہو یا مساوی صلاحیت کا حامل ہو یا یونیورسٹیز سے ہائی تعلیم یافتہ ہو 
داخلے کے وقت اپنے علاقے کے دو مستند اہل علم کے تزکئے پاس ہوں ۔
داخلہ انٹرویو کی بنیاد پر ہو گا اور انٹرویو تحریری اور تقریری دونوں طرح ہوگا ۔
پندرہ شوال سے داخلہ شروع ہو کر مختصر مدت تک جاری رہے گا 
اہم اعلان!.1تمام شعبہ جات میں داخلہ محدود نشستوں پر جاری ہے ۔
.2تمام نظام تعلیم فری ہے آئیں اور اس انقلابی پروجیکٹ میں خود بھی شرکت کریں اور اپنے دوست احباب کو بھی دعوت دیں ۔
مدرسین
استاذ الحدیث فضیلۃ الشیخ ابن بشیر الحسینوی حفظہ اللہ (متخصص علوم اسلامیہ مرکز التربیۃ الاسلامیۃ فیصل آباد) محقق و مصنف کتب کثیرہ 
فضیلۃ الشیخ محمد آصف سلفی حفظہ اللہ فاضل جامعہ سلفیہ فیصل آباد
ڈاکٹر ذاکر نائیک حفظہ اللہ کے منھج پر فضیلۃ الشیخ محمد عمر گل حفظہ اللہ تقابل ادیان و مسالک کے عظیم محقق
زیرسرپرستی
شیخ الحدیث عبدالعزیز علوی حفظہ اللہ۔محدث العصر ارشادالحق اثری حفظہ اللہ۔شیخ الحدیث عبداللہ امجد چھتوی حفظہ اللہ۔فضیلۃ الشیخ محقق العصر عبدالروف بن عبدالحنان حفظہ اللہ۔شیخ الحدیث حافظ مسعود عالم حفظہ اللہ۔شیخ الحدیث دکتور عبدالرحمن یوسف حفظہ اللہ۔شیخ الحدیث محمد امین یعقوب حفظہ اللہ ۔فضیلۃ الشیخ مفتی عبدالحنان زاہد حفظہ اللہ۔شیخ الحدیث فضیلۃ الشیخ محمد یوسف قصوری حفظہ اللہ
مجلس شوری
فضیلۃ الشیخ عبدالرحمن ضیاء حفظہ اللہ 
فضیلۃ الشیخ حافظ محمد شریف حفظہ اللہ 
فضیلۃ الشیخ محمد یسین ظفر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ نجیب اللہ طارق حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبیدالرحمن محسن حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ھارون الرشید حفظہ اللہ
خصوصی کاوش
فضیلۃ الشیخ مفتی قاری بلال احمد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ محمد ابراہیم کاظم حفظہ اللہ
پروفیسر زاہد احمد شیخ حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ قاری محمد اکرم سالک حفظہ اللہ
محمد اکرم مجاہد حفظہ اللہ 
فکری و تربیتی ورکشاپ:
منھج نبوی کے مطابق بستی بستی جا کر امت مسلمہ کو بیدار کرنا اور ان کی تربیت کرنا ۔جو بھی ہمارے پروگرام کروانا چاہے وہ ہمارے اس شعبے کے مدیر سے رابطہ کرے ہماری ٹیم بے لوث آپ کے پاس پہنچے گی ۔رابطہ نمبر:0300.0334:4303536
التماس:
اس بین الاقوامی ادارے کو کامیاب بنانے کے لئے آپ کی خصوصی دعاؤں اور توجہ کی اشد ضرورت ہےْ جزاکم اللہ خیرا
اکاؤنٹ نمبر: h.b.l kasur 10667900380103
آن لائن کلاسز:altahqeeqat.blogspot.com ,paltalk:institute of islamic studies
,skype:iirc87 web site:
 qasurانتظامیہ:جامعۃ امام اہل السنۃ والجماعۃ أحمد بن حنبل رحمہ اللہ أہل حدیث للتربیۃ الاسلامیۃ بمقام مسجد عثمان غنی رضی اللہ عنہ کھارا روڑ نزد بھٹی انٹرنیشنل سکول سٹی قصور0302.0323:4056187 .ialhusainwy@gmail.com

Tuesday 15 July 2014

Sunday 25 May 2014

کالجز اور یونیورسٹیوں کے کوالیفاءیڈ اہل علم کے لیے عظیم دانشگاہ

0 comments
ادارے میں ایک شعبہ کالجز و یونیورسٹیوں کے کوالیفائیڈ اہل علم کے لئے بھی مختلف دینی کورسز کا اہتمام کیا گیا ہے جس میں کئی ایک اہل علم داخل ہو چکے ہیں گزشتہ کل ایک ایسے ہونہار پروفیسر و ڈاکٹر نے ہمارے ادارے میں داخلہ لیا ہے جنھوں نے پاکستان میں سب سے تھوڑی عمر میں پی ایچ ڈی مکمل کرنے کا اعزاز حاصل ہوا ہے ان کی اب عمر 23 سال ہے اور علامہ احسان الہی ظہیر شہید رحمہ اللہ نے ان کے دادا جی سے کہا تھا کہ اگر اللہ تعالی آپ کو پوتا دے تو اس کا نام میرے نام پر رکھنا ہے اور اس کہا کہ اس کو عالم دین بنانا لیکن اس بچے کو موقع میسر ناآیا نہ ہی کسی نے رہنمائی کی لیکن اب پی ایچ ڈی مکمل ہو چکی ہے دو تیس سال پہلے ۔اب وہ دینی تعلیم میں عبور حاصل کرنا چاہتے ہیں اور انھوں نے ہمارے ادارے کا انتخاب کیا ہے ۔
اس بھائی کا نام پروفیسر ڈاکٹر احسان الہی ظہیر ہے اور گورنمنٹ ڈگری کالج پتو کی اور ایک دوسرے کالج میں حاضر سروس ہیں ۔وہ ہمارے ادارے میں ہا ہفتہ دو سے تین دن مکمل گزارہ کریں گے ۔
علوم قرآن ،خطاب اور تاریخ کا فن شیخ آصف سلفی حفظہ اللہ پڑھا رہے ہیں ،علوم حدیث اور تحقیق و تصنیف راقم الحروف کےذمے ہے اور تقابل ادیان اور ٹیکنالوجی شیخ محمد عمر گل ثانی ذاکر نائیک پڑ ھا رہے ہیں ۔
ہم اپنے بھائی کو ادارے میں داخلہ لینے اور علوم وفنون میں عبور حاصل کرنے کی خاطر ہمارے ادارے میں آنے پر خوش آمدید کہتے ہیں ۔اور دعا گو ہیں اللہ تعالی انھیں کامیاب فرمائے اور دین کا بہت بڑا سکالر بنائے آمین۔

Monday 19 May 2014

انٹرنیشنل اسلامک ریسرچ سنٹر .دینی مدارس سے فارغ التحصیل اہل علم کے لیے تخصص کی درسگاہ

0 comments

انٹرنیشنل اسلامک ریسرچ سنٹر
(بالمقابل گورنمنٹ بوائز ہائی سکول الہ آباد،قصور)
آپ بخوبی جانتے ہیں کہ علوم اسلامیہ میں مہارت وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ہم نے آپ کی بہتری کے لئے ایک اہم منصوبہ تیار کیا ہے امید ہے کہ آپ اس سے بھر پور فائدہ اٹھائیں گے۔ مکمل کورس کی مدت ایک سال ہے لیکن آپ جتنا آسانی سے وقت دے سکتے ہیں اتنا ہی نکالیں تاکہ کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے، پر عمل ہو سکے ۔نیز جس شعبے میں آپ داخلہ لینا چاہتے ہیں اسی میں داخل کیا 
جا ئے گا ۔
عامۃ الناس اور دینی مدارس سے فارغ التحصیل اہل علم کے لئے مختلف کورسز کااجراء۔
شعبہ جات :
۱: علوم القرآن (قرآن کریم کے تمام علوم میں مہارت)
۲: علوم الحدیث (حدیث کے تمام علوم میں مہارت )
۳: علوم تقابل الادیان (عیسائیت ،یہودیت ہندوازم ،منکرین حدیث وغیرہ کے رد میں مہارت)
۴: اللغۃ (اردو،عربی اور انگلش میں مہارت)
۵: تیکنالوجی(کمپیوٹر اور انٹرنیٹ میں مہارت )
۶: التصنیف و التحقیق(فن تصنیف و تحقیق میں مہارت)
۷: الخطابۃ(خطاب کرنے میں مہارت)
مدت کورس :ا یک سال
شرائط داخلہ:درس نظامی سے فار ہو یا مساوی صلاحیت کا حامل ہو ،نیز داخلہ انٹرویو کی بنیا دپر ہو گا
نیز رمضان المبارک میں علوم حدیث علوم حدیث اور علوم تقابل ادیان کا دورہ کروایاجائے گا ان شاء اللہ خواہشمند حضرات تشریف لائیں
مدرسین:
(۱) فضلیۃ الشیخ ابن بشیر الحسینوی حفظہ اللہ مدرس دارالحدیث راجووال 
(۲)فضیلۃ الشیخ محمد عمر گل حفظہ اللہ(تقابل ادیان میں ذاکر نائیک ثانی ،سکھ ازم ،ہندوازم،پارسیزم،یہودیت اور عیسائیت اور کئی زبانوں کے ماہر )
(۳)مفکر اسلام فضیلۃ الشیخ محمد آصف سلفی حفظہ اللہ مدرس دارالحدیث راجووال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیز تمام کلاسز آن لائن بھی نشر کی جائیں گی۔
سکائیپ:iirc87 
پالٹاک:institute of islamic studies 
۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر آپ ہماری فکر سے متفق ہیں۔
تو ہر طرح ہمارا ساتھ دیں ،تاکہ قحط الرجال کے دور میں بین الاقوامی سطح کے ماہر افرادپیدا کر سکیں 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الداعی:الموسسۃ الاثریۃ الخیریۃ، قصور،پاکستان
فون نمبر:03024056187۔03004303536
ای میل: ialhusainwy@gmail.com *ویب:altahqeeqat.blogspot.com

Wednesday 23 April 2014

فضیلۃ الشیخ عمر فاروق امین پوری حفظہ اللہ

0 comments
ہمارے موصوف فاضل درس نظامی ،فاضل تجوید اور قاری قراآن ہیں
راقم کے شاگرد رشید ہیں ان كي خدمات حاصل كر لي هين آن لاین کلاسز كي خاطر
گرایمرصرف ،نحو،تجوید،حفظ قرآن اور درس نظآمی کی ابتداي کتب کی کلاسز جاری ہیں شوق رکحنے والے اھباب رابطہ کریں
skype:          shaikhumarfarooq
mubile:    009663054070105

Monday 17 February 2014

شیخ الحدیث محمد یوسف راجوالوی رحمہ اللہ اپنی صفات کے آئینے میں

0 comments

:مضمون نگار:  ابن بشیر الحسینوی الاثری

باباجی رحمہ اللہ نے تقریبا قمری حساب سے ۹۸ سال عمر پائی اور ساری زندگی دین کی آبیاری کرتے گزر گئی۔
ان کی زندگی بے شمار خوبیوں سے مزین تھی وہ مفکر تھے وہ محدث تھے وہ ولی تھے وہ اتحاد چاہتے تھے وہ ساری زندگی دین کے لئے فکر مند رہے اپنی زندگی کا ہر ہر سانس دین کی خاطر صرف کیا اور اپنے پیچھے ایک جمع غفیر شاگردوں کو چھوڑا جو پوری دنیا میں قرآن وحدیث کی صدا بلند کر رہے ہیں اور اپنی یاد گار جھونپڑیوں کے سائے شروع کیا جانے والا ادارہ دارالحدیث ایک عظیم ترین مرکز کو آباد چھوڑا ۔
بابا جی کی زندگی بہت زیادہ پہلووں سے منفرد تھی ،وہ بہت بڑے سخی تھے ،وہ درد دل رکھنے والے انسان تھے ،وہ دکھی انسانیت کا ہاتھ تھامنے والے تھے ،وہ دین کے طلبا سے والہانہ محبت کرتے تھے ،وہ بہت مثالی مہمان نواز تھے ،اور بذات خود ایک تحریک تھے ،وہ وفا دار تھے جس سے چلے اس کے ساتھ زندگی گزار دی ،انھوں نے ہرہر شعبہ میں کام کیا،مثلا دعوت و تبلیغ ،نشرو اشاعت ،تحریکوں میں حصہ لینا ،قوم کی زمام قیادت کو سنبھالا،مساجد کو قائم کیا اور دینی جامعات کو عروج پہنچایا، وہ ہر اچھے انسان کے قدر دان تھے ان کی دوستی اور دشمنی بنیاد قرآن و حدیث تھا۔ ہر ہر جگہ قرآن و حدیث کو دیکھا خواہ غمی ہو یا خوشی ۔
اگر میں کہوں کہ وہ اپنی ذات میں ایک تاریخ تھے ،وہ بذات خود ایک ادارہ تھے تو یگانہ روز گار تھے تو کوئی بے جا نہ ہوگا ،اس مختصر سے عریضے میں ان کی خدمات کا احاطہ نہ ممکن ہے بلکہ اس کے لئے تو سینکڑوں صفحات پر مشتمل ایک تاریخ رقم کی جا رہی ہے ان شاء اللہ ،جس میں ان کی زندگی کے ہرہر پہلو کو واضح کیا جائے گا ۔۔۔ان سے تعلق رکھنے والے احباب بھی اس پر توجہ دیں ۔
باباجی کی خدمات کا اجمالی خاکہ:
۱ـ:دارالحدیث الجامعۃ الکمالیۃ راجووال کا قیام
بابا جی اپنی زندگی میں اپنے ادارے کاتمام اہتمام اپنے ہونہار بیٹے پروفیسر ڈاکٹر عبیدالرحمن محسن حفظہ اللہ کے سپرد کرگئے تھے ۔جو پوری ذمہ داری سے اس ادارے کو چلا رہے ہیں اور اس کی مستقل تاریخ ہے جو الگ سے ترتیب دی جا رہی ہے ۔
۲:مکتبہ دارلحدیث راجووال
ادارہ میں قیمتی قدیم و جدید کتب پر مشتمل بہت بڑا مکتبہ جہاں علمی و تحقیقی کتب لکھی جا رہی ہے اور علاقے کے اہل علم اور طلبا جامعہ سے بھر پور فائدہ اٹھاتے ہیں۔
۳:بے شمار مساجد کو تعمیر کیا ۔
۴:سینکڑوں طلبا کو دینی علوم کا علم دیا۔
بابا جی میں اللہ تعالی نے بے شمار خوبیاں پیدا فرمائی تھیں ان کا ذکر کیا جاتا ہے ۔
شیخ الحدیث محمد یوسف محدث راجووالوی رحمہ اللہ عاجزی پسند تھے ۔
علم ،عمل کے ساتھ ساتھ عاجز بھی تھے اپنے آپ کو کچھ بھی نہیں سمجھتے تھے نہ القاب کو پسند کرتے تھے بس کہتے تھے کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اپنے نام کے ساتھ سلفی ،وغیرہ القاب سے بہت نفرت کرتے تھے ۔
ہمیں فضیلۃ الشیخ محمد آصف سلفی حفظہ اللہ مدرس دارالحدیث راجووال نے بیان کیا کہ میں دارالحدیث میں نیا نیا استاد متعین ہوا ایک دن بابا جی نے مجھے بلایا اور کہا آپ کون ہیں میں نے کہا محمد آصف سلفی توا س پر بابا جی سخت ناراض ہوئے اور مجھے اچھا خاصہ ڈانٹا۔
شیخ غلام رسول آف موڑ کھنڈا بیان کرتے ہیں کہ دارالقدس لاہور میں جلسہ تھا اس کے اختتام پر ہم مسجد میں نیچے صفوں پر سوگئے ابھی لیٹے باتیں کر رہے تھے کہ ہمارے پاس ہی مولانا محمد یوسف راجووالوی رحمہ اللہ بھی لیٹ گئے مجھے میرا دوست کہنے لگا کہ یہ بہت بڑے محدث ہیں اور نیک انسان ہیں ۔میں ان کی سادگی اور عاجزی سے بہت زیادہ متاثر ہوااور میں نے یہ واقعہ بہت زیادہ لوگوں کو بیان کیا ‘‘۔
قاری محمد مصطفی آف شیخ سعد کالو والا بیان کرتے ہیں کہ ہمیں حاجی احمد دین آف شیخ سعد مدرسہ دارالحدیث راجووال میں داخل کروانے آئے تھے سخت سردی کے دن تھے ہم کل چھ ساتھی تھے ان میں ایک چھوٹا سا بچہ تھا بابا جی نے اپنے رومال سے اس کی ناک صاف کی۔ ان ہی 6لڑکوں میں ایک لڑکا ویسے ہمارے ساتھ آیا تھا۔ وہ پڑھنے کا بالکل ارادہ نہیں رکھتا تھا۔ اس نے جب یہ منظر دیکھا کہ اس قدر عاجزی محبت کرنے والا استاد ہے، اسی وجہ سے وہ بھی داخل ہو گیا اور مدرسہ میں پڑھتا رہا ،بابا جی نے ہماری جھوٹی چائے بھی پی تھی ۔‘‘
شیخ الحدیث رحمہ اللہ اہل علم سے محبت کرتے اورنیکی کے کاموں میں ان کی حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے ۔
یہ وصف بہت کم لوگوں میں دیکھنے کو ملتا ہے کہ وہ اچھا کام کرنے والے کی حوصلہ افزائی کریں ،لیکن یہ وصف ہمارے موصوف میں بہت زیادہ پایا جاتا تھا،اس سے اہل علم مزید ہمت کرتے اور آگے نکلتے ہیں ۔
مجھے شیخ نظام الدین متخرج دارالحدیث راجووال نے بیان کیا کہ زمانہ طالب علمی ہم میں ،بھائی عبداللہ سلیم ،بھائی محمد زکریااور کچھ اور طلبا تہجد کے وقت قرآن مجید یاد کررہے تھے بابا جی مسجد میں آئے ہمیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور جلدی جلدی سب بچوں کو ایک ایک سو روپے دیا اور جلدی سے گھر واپس چلے گئے ،اس رات بارہ سو روپے بابا جی نے بچوں کو انعام دیا ۔‘‘
پروفیسر سیف اللہ ساجد حفظہ اللہ،جامعہ دارالاسلام السلفیہ کھڈیاں نے بیان کیا کہ جب میں نے شعبہ نشرو اشاعت شروع کیا اور پہلی کتاب صفات المومنین کو بابا جی کے پاس لے کر حاضر ہوا۔ وہ دیکھ کر بہت خوش ہوئے، اس پر بابا جی نے میری بہت زیادہ حوصلہ افزائی کی اور شاید کچھ نقدی انعام بھی دیا اور تحریری مقدمہ بھی لکھااور وہ مقدمہ تنظیم اہل حدیث میں شائع ہوا ہے ۔‘‘
راقم (ابن بشیر الحسینوی )ابھی دارالحدیث راجووال میں نیا نیا آیا تھا بابا جی کو بعض طلبا نے راقم کا تعارف کروایا اور انداز تدریس سے آگاہ کیا تو بابا جی بہت زیادہ خوش ہوئے اور ایک گھنٹہ مسلسل دعائیں کیں اور اگلے دن تین سو روپے انعام بھیجا ۔
فضیلۃ الشیخ محمد حسین ظاہری حفظہ اللہ،شیخ الحدیث جامعہ اسلامیہ ڈلن بنگلہ بیان کرتے ہیں کہ اہل علم کے ساتھ نہایت محبت کرتے تھے اس سلسلہ میں کئی دفعہ راقم کے پاس اوکاڑہ تشریف لائے کہ میں شیخ العرب والعجم علامہ سید بدیع الدین شاہ صاحب راشدی رحمہ اللہ کو اپنے جامعہ میں تقریب بخاری پر مدعو کرنا چاہتا ہوں آپ مجھے وقت لے کر دیں لیکن ان دنوں میں کویت جانے کی تیاری میں تھا ملاقات نہ ہو سکی رقعہ بھی چھوڑ کر گئے لیکن ایسا نہ ہو سکا بہر حال ان کو ضلع اوکاڑہ کی جمعیت اہل حدیث کا سرپرست بنانے اور جمعیت اہل حدیث ضلع اوکاڑہ کو منظم کرنے میں اور راقم اور بزرگوں کا بہت بڑا ہاتھ تھا ۔‘‘
محمد علی اسد آف لاہور بیان کرتے ہیں کہ بندہ ۱۹۷۸ء کے دھارے میں نوجوان آدمی تھا ،جب کبھی راجووال سے گزرتا تو مشفقی مربی مولانا محمد یوسف راجووال رحمہ اللہ کے ساتھ ملاقات کی غرض سے آنا جانا ہوتا تو ان کی میرے ساتھ بے پناہ محبت یہاں تک کہ میری داڑھی کا بوسہ لیتے اور فرماتے کہ اسد صاحب جب یہاں سے گزریں تو حلفا نہ بھولئے یقین جانئے ان کے مسکراہٹ بھرے الفاظ آج زندہ ہوگئے ہیں اوراتنی محبت ،مہمان نوازی کا تصور ،اتنا خلوص محبت یقینی طور پر ایک باپ سے بڑھ کر محسوس ہوتے تھے اللہ تعالی نے آج ان کی وفات کا وقت لایا تو ایک خالص محب رسول کی قسمت ۱۲ربیع الاول کا دن مختص ہوا یہ ہے محبت رسول کا سچا ثبوت‘‘
مولانا محمد ابراھیم عابد منڈی کنگن پور بیان کرتے ہیں کہ ہمارے پیارے استاد آج دنیا فانی سے رخصت ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
مدرسہ میں پڑھنے کے لئے آیا ،تو نہایت شفقت کی ،ایک دفعہ نہیں کئی بار کنگن پور تشریف لائے جلسہ میں خطاب فرمایا تو کہا میرے ہاتھ میں قرآن مجید ہے اس کو کہو کہ بولے آپ چند لمحات کے لئے خاموش ہو گئے ،بعد میں فرمایا :علماء قرآن مجید پڑھتے ہیں ترجمہ تفسیر کرتے ہیں اس لئے علما کی خوب خدمت کیا کریں ۔الحمدللہ چھ سال علم یہاں سے حاصل کیا اور رابطہ اور تعلق میں ذرہ بھی فرق نہ آیا ۔‘‘
شیخ احسن عظیم حفظہ اللہ (فاضل دارالحدیث راجووال) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن میں مختار کل کے موضوع پر چند منٹ تقریر کی تو بابا جی بہت خوش ہوئے اور اسی وقت مجھے ایک ہزار روپے اور خطبات ضیاء کتاب انعام میں دی ۔ ایک دفعہ مجھے اپنی لاٹھی انعام میں دی اور کہاکہ اس کے سہارے آپ نے جمعہ کا خطبہ دینا ہو گا بعض دفعہ سر سے اپنا رومال اتار کر دے دیتے ،اور آخر میں فرماتے آہستہ سے بیٹا دعاکرنا کہ اللہ تعالی میرا خاتمہ ایمان پر کرے۔
اور ادارہ میں پڑھنے والے طلبا سے کہتے کہ بیٹو !تم سب اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر آئے ہو میں تمھاری ماں بھی ہوں اور باپ بھی، یہاں آئے ہو تو تعلیم کو ادھورا نہیں چھوڑنا بلکہ مکمل کرکے جانا ہے۔
حافظ اسداللہ سبحانی متعلم دارالحدیث بیان کرتے ہیں کہ بابا جی مختلف طلبا کو اپنے پاس بلاتے اور ان سے مختلف سوالات کرتے جو جواب صحیح دیتا اس کو انعام دیتے ۔
بابا جی اہل علم اور طالب علموں کا بہت احترام کرتے تھے :
بابا جی صرف اللہ تعالی کی رضا کے لئے اہل علم سے محبت کرتے تھے اور ان سے ہر طرح کا تعاون کرتے آپ اس واقعہ سے اندازہ لگائیں کہ محقق العصر عبدالقادر حصاروی رحمہ اللہ سے بابا جی کو لوجہ اللہ محبت تھی ،اور ان کے بہت بڑے معاون تھے ،ان کی زندگی میں بھی ان کی کئی ایک کتب شائع کیں اور ان کی وفات کے بعد ان کے فتاوی اور مقالات کو مختلف رسالوں سے جمع کروایا اس پر اپنے ہونہار شاگرد مولانا ابراھیم خلیل آف حجرہ شاہ مقیم کی ڈیوٹی لگائی انھوں نے اس کام کی خاطر دور دور کے سفر کئے اور تمام چیزوں کو فوٹو کاپی کروائے۔ دوسال کی مسلسل محنت سے ان تمام علمی چیزوں کو جمع کیا اور اس پر تمام اخراجات بابا جی نے برداشت کئے اور پھر اس کو کمپوزنگ بھی خود اپنے خرچے پر کروایا ،سبحان اللہ ۔۔اس قدر اہل علم کا احترام اور وہ بھی مادہ پرستی کے دور میں شاید اس طرح کی مثال دور دور نہ ملے ۔۔۔پھر اس کو مکمل سیٹنگ کرواکے مکتبہ اصحاب الحدیث کو دے دیا اور بے لوث انھیں کہا کہ اس کو شائع کریں انھوں نے شائع کردیا اور وہی قیمتی کتاب سات ضخیم جلدوں میں فتاوی حصاریہ ،مقالات علمیہ کے نام سے مطبوع ہے ۔
محمد زبیر گورداسپوری بن بہاؤ الدین بن عبداللہ گورداسپوری حفظہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے داد ا جی کے ساتھ دارالحدیث میں گیا۔ بابا جی سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے دادا جی کا بہت زیادہ احترام کیا اور کہا کہ مجھے اجازت دیں میں آپ کے ہاتھ کا بوسہ لینا چاہتا ہوا اور انھوں نے دادا جی کا بوسہ لیا۔
مجھے شیخ عنایت اللہ امین مدرس دارالحدیث راجووال نے بیان کیا کہ جب ہم نے سنن الترمذی مکمل بابا جی سے پڑھی تو ہمیں کہا کہ اب تم محدث گوندلوی رحمہ اللہ سے جا کر پڑھو اور خوب محنت کرکے پڑھو۔
مجھے شیخ عبدالرشید جیتی والے نے بیان کیا کہ ہم بابا جی کے پاس کئی سال پڑھتے رہے اچانک بیمار ہوگئے تو ہمیں کہا بیٹا اب تم صحیح بخاری شیخ الحدیث عبدالجبار محدث کھنڈیلوی رحمہ اللہ کے پاس جا کر پڑھیں کیونکہ وہ بہت بڑے محدث ہیں ۔اس وقت بابا جی کی بخاری کی کلاس میں دو طالب علم تھے ۔۱:عبدالرشید جیتی والے ۲:شیخ صدیق سلیم آف ببر کھائی مہتمم مدرسہ ضیاء الاسلام گہلن ہٹھاڑ ،ان دونوں بزرگوں نے مکمل صحیح بخاری کھنڈیلوی رحمہ اللہ سے دارالحدیث اوکاڑہ میں جا کر پڑھی ۔
حکیم ثناء اللہ المدنی آف محلہ تالاب والا بیان کرتے ہیں کہ بابا جی کے ساتھ میری رفاقت ۱۹۵۹سے لے کر ۱۹۶۴ تک حضرو سفر میں رہی میں نے بابا جی کو عقیدہ و منھج میں مضبوط پایا سفر میں آپ ذکرواذکار میں مصروف رہتے تھے مجھے وہ پیار سے نمبر دار کہتے تھے ،انھوں نے مجھے وصیت کی کہ آپ نے مجھ سے صحیح بخاری پڑھ کر جانا ہو گا ،پھر انھوں نے مجھے دورہ تفسیر کے لئے ۱۹۶۲ء میں جامعہ قدس لاہور حضر ت حافظ عبداللہ محدث روپڑی رحمہ اللہ کے پاس بھیجا اور اس کے بعد دورہ تفسیر کے لئے ۱۹۶۳ میں راولپنڈی مولانا غلام اللہ صاحب کے پاس بھیجا، اور میرے زمانہ طالب علمی سے لے کر راولپنڈی کے دورہ تفسیر تک مولانا ابراھیم خلیل آف حجرہ شاہ مقیم میرے ساتھ رہے ۔
میاں محمد صادق گل ناظم مدرسہ مرکز التوحید چک نمبر 408 لاں دیپالپور بیان کرتے ہیں کہ میں نے بابا جی کے پاس چار سال پڑھا مشکوۃ اول بابا جی سے پڑھی۔بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ کوئی ساتھی مدرسہ کے ساتھ گندم کا تعاون کرنے آیا اس نے کسی طالب علم کو ڈانٹا اس کا بابا جی کو علم ہوا تو انھوں نے تعاون لینے سے انکار کر دیا بلکہ کہا کہ پہلے طالب علم کو راضی کریں اور اس سے معافی مانگیں پھر آپ کا تعاون قبول کروں گا ،اس نے طالب علم سے معافی مانگی بابا جی نے پھر تعاون قبول کیا ۔
اور بیان کرتے ہیں کہ بابا جی رات کو سونے سے پہلے مدرسہ میں آتے اور طالب علموں سے پوچھتے کہ سب نے کھانا کھایا ہے ؟سب کے پاس بستر ہیں ؟کوئی مہمان تو نہیں آیا ؟
اگر کھانے وغیرہ کی ضرورت ہوتی تو بابا جی سونے سے پہلے گھر سے کھانا پکوا کر اس کو کھلاتے پھر سوتے ۔
اور بیان کرتے ہیں کہ ایک دن ایک طالب علم کو معمولی سزادی اگلے دن کہا کہ آپ کو سزا دینے کی وجہ سے ساری رات مجھے نیند نہیں آئی اس لئے آپ مجھے معاف کر دیں
بابا جی ناشر بھی تھے :
بابا جی نے پوری زندگی اہم دینی کتب بھی نشر کیں ،جن کی تعداد چالیس ہے ان میں قیمتی اور ضخیم کتب بھی شامل ہیں، کہ فتاوی حصاریہ سات جلدوں میں شائع ہوئی یہ بابا جی کی محنت شاقہ کا نتیجہ ہے۔ فجزاہ اللہ خیرا
بابا جی باذوق اہل علم تھے ۔
بابا جی صاحب ذوق انسان تھے ساری زندگی پڑھنے اور پڑھانے سے تعلق رہا ،ان کا حافظہ آخر عمر تک بالکل صحیح سلامت رہا اور آنے والے اہل علم سے سوال پوچھا کرتے تھے ،راقم نے اپنے بیٹے محمد ناصرا لدین الحسینوی حفظہ اللہ کی پیدائش کی خوشی میں اپنے مرکز امام بخاری گندھیاں اوتاڑ قصور کے تمام شیوخ کرام اور دارالحدیث راجووال کے تمام شیوخ کرام کی چڑوں کی دعوت دارالحدیث میں کی تمام میں تمام دونوں جامعات کے شیوخ کو اکٹھا دیکھنا چاہتا تھا وہ ارادہ اللہ تعالی نے میری اس دعوت پر پورا کر دیا ۔دعوت کھانے کے بعد بابا جی کی زیارت کے لئے ان کے گھر گئے راقم نے بابا جی کو تعارف کروایا کہ مرکز امام بخاری کے شیخ الحدیث محمدیوسف قصوری حفظہ اللہ ہیں تو انھوں نے مصافحہ کیا اور ساتھ پوچھا کہ صحیح بخاری کا مکمل نام کیا ہے ؟شیخ محمد یوسف قصوری حفظہ اللہ نے مکمل جواب دیا اور پھر سوال پوچھا کہ امام بخاری اپنی صحیح بخاری میں پہلے راوی مکی سے روایت لائے اور کتاب کی آخری حدیث مدنی راوی سے کیوں روایت لائے ہیں ؟
اور یہ واقعہ بابا جی کی وفات سے صرف تین ہفتے پہلے کا ہے ۔
مذکورہ واقعہ سے چند دن پہلے دارالحدیث راجووال میں شیخ محمد حسین ظاہری حفظہ اللہ تشریف لائے جب بابا جی سے ملنے گئے، واپسی پر شیخ محمد عدنان حفظہ اللہ مدیر التعلیم دارالحدیث راجووال ملے بابا جی نام پوچھا اور پھر سوال کیا کہ عدنان کیا صیغہ ہے اس کا کیا معنی ہے ؟
بابا جی جب زیادہ کمزور ہو گئے تو اپنے دوست بزرگ محمد علی جوہر حفظہ اللہ سے کہا کہ داود راز رحمہ اللہ والی شرح صحیح بخاری مکمل مجھے لفظ بلفظ سناو میں سننا چاہتا ہوں ،تو محمد علی جوہر حفظہ اللہ نے لفظ بلفظ ساری شرح صحیح بخاری باباجی کو پڑھ کر سنائی۔سبحان اللہ ،علم کی پیاس آخر دم تک بجھاتے رہے اور اس سے تعلق رکھا ۔
بابا جی کی وفات سے تین ہفتے پہلے ہمیں فضیلۃ الشیخ عبیدالرحمن محسن حفظہ اللہ کہنے لگے کہ آج والد محترم فرمارہے کہ بیٹا فلاں شعروں کی کتاب کو اب جلدی شائع کریں وہ میں نے عورتوں کو کتاب پڑھانی ہے ۔سبحان اللہ ۔
شیخ الحدیث محمد یوسف محدث راجووالوی رحمہ اللہ اپنے لئے بخشش کی دعائیں بہت کروایا کرتے تھے
انسان غلطی کا پتلا ہے اسے خود بھی اپنے گناہوں کی معافی مانگتے رہنا چاہیئے اور ساتھیوں سے بھی گزارشت کرتے رہنا چاہئے کہ دعا کردیں اللہ تعالی میرے گناہ معاف کرے ۔سبحان اللہ یہ ایک اہم وصف ہے اس میں عاجزی ہے اور اپنے آپ کو تکبر سے بچانا ہے ،انسان کو کبھی اپنی آخرت سے غافل نہیں ہونا چاہیے ۔
محمد عارف آف راجووال بیان کرتے ہیں کہ بابا جی نے مجھے کہا کہ بیٹا میرے فوت ہونے کے بعد اور جنازہ پڑھنے سے پہلے دو رکعت پڑھ کرمیری بخشش کی دعا کرنا ۔‘‘
بابا جی وفات سے چند ہفتے پہلے دارالحدیث راجووال فضیلۃا لشیخ محمد حسین ظاہر ی حفظہ اللہ تشریف لائے کھانے سے فارغ ہو کر ہم بابا جی سے ملاقات کرنے کے لئے گئے تو بابا جی سے بات چیت ہوئی اس میں بابا جی نے راقم (ابن بشیر الحسینوی )سے کہا کہ آپ کے والد محترم زندہ ہیں ،راقم نے کہا جی زندہ ہیں تو انھوں نے کہا کہ اپنے والد سے کہنا کہ میرے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالی مجھے معاف کریں اور ساتھ شعر پڑھنے لگے کہ
جے دیکھیں میرے عملاں ولے کجھ نہیں میرے پلے
اور سب ساتھیوں سے کہا کہ دعا کریں میرا خاتمہ ایمان پر ہو ۔سبحان اللہ ۔اللہ تعالی کے ولیوں کی یہی فکر ہوتی ہے ۔
محمد اقبال عابد بیا ن کرتے ہیں :کہ میں ایک ادنی سا آپ کا شاگرد ہوں میں نے آپ سے مشکوۃ المصابیح مکمل پڑھی تھی آپ بڑے شفیق اور محبت کرنے والے استاد تھے اور آپ ہم کو سبق پڑھاتے پڑھاتے کئی دفعہ پریشان ہو جاتے تھے اور ہم سب کلاس والوں سے یہ وعدہ لیتے تھے کہ آپ میرے ساتھ یہ وعدہ کریں میر ا جنازہ ضرور پڑھنا ہے میں بہت گناہ گار ہوں اور ہم نے الحمدللہ یہ وعدہ پورا کیا ہے اور اس شفیق اور محبت کرنے والے استاد کے شاگرد ہونے کا حق ادا کیا ہے ۔‘‘
شیخ الحدیث رحمہ اللہ کا اپنے ہم عصروں کے ہاں مقام :
راقم نے بابا جی کی بہت زیادہ تعریف سنی اور پڑھی ہے اس سے چند حوالاجات پیش خدمت ہیں ۔
خطیب اہل حدیث عبداللہ گورداسپوری لکھتے ہیں :’’آپ بہت بڑے عالم دین ،محدث اور تقوی و زہد میں عظیم مقام رکھتے ہیں ۔(مرحوم دوست عبداللہ سلیم کی یاد میں صـ۶۹)
بابا جی کامل آہل میں
محمد وسیم قصوری متعلم مرکز امام بخاری گندھیاں اوتاڑ قصور بیان کرتے ہیں کہ بابا جی تقسیم پاکستان کے وقت ہمارے گاوں کامل آہل منڈی عثمان تشریف لائے میرے دادا جی نے ان کو جگہ دی وہاں بابا جی نے دین کا کام شروع کر دیا اس گاوں کے نوجوانوں کو فارسی کی کتب پڑھائیں اس کے بعد وہاں ہی آپ نے بڑے بزرگوں کر پڑھانے کا کام بھی شروع کیا ،پھر کچھ عرصہ بعد آپ مستقل راجووال آگئے
باباجی کی نصیحتیں
بابا جی اپنے تلامذہ ،احباب کو اچھی اچھی نصیحتیں کیا کرتے تھے ،تاکہ وہ ان پر چل کر کامیابی حاصل کریں انھیں نصیحتیں میں چند جو ہمیں ملی ہیں درج ذیل ہیں ۔
عبدالمجید حفظہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن ہم چند ساتھی بابا جی کو چھت پر لے کر گئے تو باباجی نے ہم سے پوچھا کہ کس جگہ سے ہو ہم نے کہا کہ اوکاڑہ سے ہیں بابا جی بہت خوش ہوئے تو ہم نے پوچھا بابا جی دعا کیسے کرنی چاہئے تو بابا جی نے فرمایا بیٹا:ہمیشہ اللہ تعالی کے ناموں سے دعا کرنی چاہئے ۔‘‘
حافظ حمزہ بیان کرتے ہیں کہ بابا جی فوت ہونے سے تین ماہ پہلے ایک دن ہم بابا جی کو چھت سے نیچے اتارنے کے لئے گئے تو بابا جی کی طبیعت بہت زیادہ خراب تھی ان کو اپنی خبر نہیں تھی جب نیچے لا رہے تھے تو میرے ساتھی نے سر پر ٹوپی نہیں لی تھی توبابا جی کی نظر جب اس بچے پر پڑھی تو فورا اس کو نصیحت کی کہ بیٹا سر ننگے نہیں رکھنا چاہئے ہر وقت سر کو ڈھانک کر رکھو ۔ ظہور احمد خان حفظہ اللہ بیان کرتے ہیں :
میں دارالحدیث میں پڑھتا تھا اور ساتھ انٹر کی تیاری بھی کررہا تھا ایک دن بابا جی نے مجھے دیکھ لیا کہ میں سکول کی کتب پڑھ رہاہوں مجھے اپنے پاس بلایا اور پوچھا کہ بیٹا کس چیز کی تیاری کررہے ہو ؟ میں نے کہا کہ انٹر کی ۔تو بابا جی نے مجھے نصیحت کی کہ بیٹا اس دنیا کے پیپروں کی تیار تو تم کررہے ہو لیکن کبھی اس دنیا کی جو کہ دائمی زندگی ہے اس کی تیاری بھی کی ہے بابا جی نے کہا بیٹا اصل تیاری تو آخرت کی ہے اس کے لئے بھی تیاری کرو ۔‘‘
مجھے شیخ رفیق زاہد حفظہ اللہ مدرس دارالحدیث راجووال نے بیان کیا ہے کہ بابا جی نے مجھے تین نصیحتیں کی اور وعدے کئے اور میں نے دو پر تو عمل کرلیا ہے لیکن تیسرے کا علم نہیں پورا ہوتا ہے ہے کہ نہیں ۔۔
۱:اگر گوجرانوالہ سے ادارہ کو چھوڑنے کاارادہ ہو تو واپس میرے ادارے میں ہی آنا ہے ۔
۲:میرا جنازہ پڑھنا ہے ۔
۳:میرے اور میری اولاد کے ساتھ وفا کرنی ہے ۔
مجھے مولانا سلیم عبداللہ آف کھڈیاں نے بیان کیا کہ بابا جی نے مجھے نصیحت کی کہ جمعہ ضرور پڑھایا کرو اگر کوئی تعاون کر دے تو ٹھیک ورنہ اس کا اجر آپ کو اللہ تعالی دے گا ،ان شاء اللہ اور جب بھی جمعہ پڑھاو پوری تیاری کرکے پڑھاو ،میرا شاگرد محمد ابراھیم خلیل آف حجرہ شاہ مقیم پوری تیاری کرکے جمعہ پڑھاتا ہے اس لئے وہ مجھے بہت اچھا لگتا ہے ۔
احمد حسن متعلم دارالحدیث راجووال بیان کرتے ہیں کہ میں بابا جی کی خدمت میں حاضر ہوا اور سلام بلایا لیکن بابا جی کو سنائی نہ دیا تو انھوں نے پوچھا کہ مجھے سلام کہا ہے تو نے میں نے کہا جی ۔تو انھوں نے کہا دوبارہ کمرہ سے باہر جاؤ پھر اونچی آواز میں سلام بلا کر داخل ہو ،اور میں نے اسی طرح کیا پھر بابا جی نے مجھے نصیحت کی کہ بیٹا جب بھی کسی سے ملاقات کرو تو سب سے پہلے السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہو ۔اور میرے لئے دعا کرنا کہ جب میں فوت ہونے کے بعد اللہ تعالی کے دربار میں حاضر ہوں تو اللہ تعالی مجھے کہے کہ اے یوسف تو میرے دین کا کام کرتا رہا ہے جا میں نے تجھے معاف کر دیا ،اور یہ بھی نصیحت کی کہ بیٹا بڑو ں اور اساتذہ کا احترام کرنا ہے ،اس میں تمہاری کامیابی ہے اور السلام علیکم کہنے میں پہل کرو نماز قائم کرو اور میرے لئے خاتمہ بالایمان کی دعا کرو،یہ سب باتیں کیں اور ساتھ رونے لگے ۔
حافظ محمد بلال حسین فاضل دارالحدیث راجووال، لائبریرین جامعہ ہذا نے بیان کیا کہ بابا جی نے مجھے دو نصیحتیں کیں :
۱:طالب علم کو اپنی تعلیم مکمل کرنی چاہئے نا مکمل تعلیم انسان کو پریشان کرتی ہے ۔
۲:خطیب کو جمعہ پڑھاتے وقت پرچیوں کا سہارا نہیں لینا چاہئے خطبہ زبانی دینا چاہئے
شیخ الحدیث محمد یوسف محدث راجووالوی رحمہ اللہ کے قیمتی اقوال
بابا جی رحمہ اللہ جب بھی کلام کرتے تو انتہائی باوزن باتیں کرتے جن میں دانائی اور حکمت نظر آتی ،اس باب میں انھیں باتوں کو جمع کیا جا رہا ہے ۔
محمد سہیل متعلم دارالحدیث راجووال بیان کرتے ہیں کہ بابا جی فرماتے تھے :’’اگر آپ کسی کے اندر کوئی خوبی دیکھیں تو اس کو اپنے دل کے اندر جگہ دیں اور اگر کسی کے اندر کوئی خامی دیکھیں تو اس کو لوگوں کے اندر مشہور نہ کریں۔‘‘
حافظ محمد سلیم عابد یزدانی خطیب پاکپتن حفظہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ باباب جی ایک دفعہ میری مسجد پاکپتن میں تشریف لائے وہاں بابا جی نے مجھے بہت زیادہ باتیں سمجھائیں ان میں یہ بھی کہا کہ بیٹا شہر دیہاتوں سے بہتر ہوتے ہیں آپ شہر کی مسجد میں ہیں یہاں ٹک کر کام کرنا ہے ،پتھر ایک ہی جگہ پڑا رہے تو اس کا وزن ہوتا ہے ۔
بابا جی لاوارثوں اور محتاجوں کی خود پرورش کرتے اور ن کی شادیاں بھی خود کرتے۔
بابا جی ایک نہایت رحم دل انسان تھے ساری زندگی لاوارثوں کو اپنے گھر میں پالتے تھے خواہ بچیاں ہوں یا بچے اور خود ان کی شادی کرتے تھے ،شیخ غلام اللہ رحمہ اللہ اور ان کی بہن لاوارث تھے والدین فوت ہو چکے تھے دونوں کو اپنے گھر میں رکھا اور خوب پرورش کی اسی طرح مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ آف ڈھنگ شاہ بھی لاوارث تھے ان کو بھی اپنے گھر میں پالا جب یہ تینوں افراد جوان ہوئے تو مولانا غلام اللہ کی شادی مولانا عبدالعزیز رحمہ اللہ آف اوکاڑہ کی بیٹی سے کی اور اپنے گھر سے بارات لے کر گئے سبحان اللہ اسی طرح انھوں نے ان کی بہن کی شادی مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ سے کی ۔سبحان اللہ ۔
اللہ تعالی نے بابا جی کو انتہائی مہربان دل دیا تھا ،اسی طرح مولانا محمد صدیق سلیم مہتمم ضیاء السنۃ گہلن ہٹھاڑ کی بارات بھی اپنے گھر سے لے کر گئے اورانھیں شادی کی پہلی رات سے ہی اپنے پاس مکان دیا،اور ساری عمر ان سے وفا کی ۔
ابھی چند سال پہلے بابا جی نے ایک غریب بچی کو گھر میں پالا تھا پھر اس کی شادی کی ،اور مجھے شیخ عتیق اللہ فاضل دارالحدیث راجووال نے بتایا کہ بابا جی شیخ عبیدالرحمن محسن حفظہ اللہ کو کہا ہوا ہے کہ آپ نے ماہانہ مخصوص رقم الگ رکھنی ہے تاکہ آپ اپنے خرچے پر عتیق اللہ کی شادی کر سکیں ۔یاد رہے عتیق اللہ بھائی بابا جی کی آخری عمر کا خادم خاص تھا ۔
بابا جی مہمان نواز تھے ۔
اللہ تعالی نے بابا جی کو مہمان نوازی کی عظیم صفت سے نوازا تھا جب بھی کوئی مہمان آتا اس کو خدمت کئے بغیر اس کو نہ جانے دیتے اور مہمان نوازی میں کھانا وغیرہ گھر سے خود لاتے تھے ،اور کہتے کہ میں نیکی لینے کی خاطر یہ خود کام کرتا ہوں اور کبھی فرماتے کہ یہ مہمان میرا ہے میں ہی اس کی خدمت کروں گا۔
شیخ الحدیث رحمہ اللہ لوگوں سے معافی مانگا کرتے تھے کہ شاید کسی سے میں نے زیادتی کی ہو ۔
بڑے لوگوں کی یہ صفت ہوتی ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں سے معافی مانگ لیتے ہیں کہ شاید کہیں غفلت میں کسی کی دل آزاری نہ کی ہو ،اور اگر انسان ہونے کے ناطے غصہ میں کسی کو جھڑک دیا تو فورا اس سے معافی مانگی اور معافی مانگے کا انداز بھی اس قدر عجیب ہوتا کہ خود بھی روتے اور اگلے کو بھی رلاتے ۔
قیصر شریف بن حاجی شریف آف راجووال بیان کرتے ہیں کہ ایک دن بابا جی نے اپنی سخت بیماری کی حالت میں والد محترم کو پیغام بھیجا کہ میری بات سنیں ہم آئے میںا بو جی کے ساتھ تھا بابا جی نے دو کرسیاں منگوائیں ہم ان پر بیٹھ گئے اور کہا کہ شریف صاحب مجھے معاف کر دیں ،اس پر والد محترم نے کہا کہ بابا جی آپ نے مجھ سے کوئی زیادتی نہیں کی جس کی وجہ سے میں آپ کو معاف کردوں، اس پر بابا جی اصرار کرنے لگے کہ میں نے غلطی کی یا نہیں کی پھر بھی آپ مجھے معاف کر دیں اور یہ کہہ کر بابا جی مسلسل رونے لگے اتنا روئے کہ میں اور میرے والد محترم بھی زارو قطار رونے لگے ،اورآخر میرے والد محترم نے کہا کہ بابا جی میں نے آپ کو معاف کیا ۔سبحان اللہ ۔
راقم کو شیخ عنایت اللہ امین حفظہ اللہ نے بتایا کہ بابا جی نے کسی وجہ سے عبدالوحید بھائی جو کہ اس وقت مدرسہ میں خادم تھے صفائی میں کمی کی وجہ سے ڈنڈا ما ردیا پھر کچھ منٹوں بعد بابا جی نے مجھے کہا کہ جاو اور عبدالوحید کو لاو میں بڑی مشکل سے اسے لایا اور بابا جی نے اس کو اپنا ڈنڈا دیا اور کہا کہ جس طرح میں نے تجھے مارا اسی طرح مجھے مار لے اور اپنا بدلہ لے لے اس پر بڑا اصرار کیا جب عبدالوحید نے ڈنڈا نہ پکڑا تو بابا جی نے کہا کہ اگر بدلہ نہیں لینا چاہتا تو مجھے معاف کر دے اس نے کہا کہ بابا جی میں نے آپ کو معاف کر دیا اس پر بابا جی بہت زیادہ روئے اور ساتھ عبدالوحید بھی روتا رہا ۔‘‘
صدام حسین متعلم دارالحدیث راجووال بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ بابا جی آخری عمر میں مسجد میں کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھتے تھے ایک دن ان کی کرسی کے ساتھ باباصدیق بیٹھے ہوئے تھے ان کو اپنی لاٹھی مار دی پھر پریشان ہوئے اور حاجی جوہر محمد کو اپنے ساتھ لے کر ان کے گھر گئے اور ان سے معافی مانگی۔
بابا جی ادارے کے معاونین کو اپنی دعاوں میں یاد رکھتے تھے ۔
عبدالمنعم حفظہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک دفعہ بابا جی سے ملنے آیا انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ کہاں سے آئے ہو تو میں نے کہا کہ ڈاہر سے ،بابا جی فرمانے لگے کہ میں جب آپ کے گاوں میں گیا وہاں کے لوگ میرے ادارے کے ساتھ دل کھول کر تعاون کیا تھا، میں آپ کے گاوں کے لوگوں کے لئے بہت زیادہ دعائیں کرتا ہوں ۔
شیخ الحدیث محمد یوسف محدث راجووالوی رحمہ اللہ مستجاب الدعوات تھے
اس باب میں باباجی کے متعلق وہ واقعات بیان کئے جائیں گے جن سے بابا جی کا مستجاب الدعوات ہونا ثابت ہوتا ہے ،سبحان اللہ واقعی نیک لوگوں کا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس قدر گہرا ہوتا ہے کہ جب بھی انھیں کوئی ضروری کام ہوتا ہے تو وہ فورا اللہ تعالی سے دعا کرتے ہیں اللہ تعالی اپنے ولی بندوں کی دعا کو رد نہیں کرتے ۔
ماسٹر عبدالرزاق بن محمد سلطان آف راجووال بیان کرتے ہیں کہ :ایک دفعہ دارالحدیث کی سالانہ کانفرنس تھی بادل بہت زیادہ بن گیا لوگ ڈر گئے کہ اب پروگرام ناکام ہو جائے گا بابا جی کمرے میں داخل ہوئے اور دو رکعت نماز پڑھی اور اللہ تعالی سے گڑ گڑا کر دعا کی فورا بادل ختم ہوگیا اور بڑا کامیاب پروگرام ہوا ۔
مجھے شیخ عنایت اللہ امین مدرس دارالحدیث راجووال نے بیان کہ کہ میں باباجی سے پڑھنے کے دوران ایک دفعہ ادارہ چھوڑ گیا تھا ،جب گھر پہنچا تو والد محترم نے کہا کہ میں نے تجھے بابا جی کے مدرسہ سے ہی پڑھانا ہے اور مجھے واپس ادارہ میں چھوڑنے کے لئے آگئے ،جب بابا جی سے ملاقات ہوئی تو بابا جی نے میری پیشانی کابوسہ لیا اور کچھ پڑھا اس کے بعد میرا دل کبھی بھی مدرسہ میں پڑھنے سے پریشان نہیں ہوا ۔
شیخ الحدیث محمد یوسف محدث راجووالوی رحمہ اللہ قرآن و حدیث پر سختی سے پابند تھے ۔
اللہ تعالی کے برگزیدہ بندوں کی اول صفت یہی ہوتی ہے کہ وہ قرآن و حدیث کے پابند ہوتے ہیں اور ولی حقیقت میں وہی ہوتا ہے جس کی زندگی کا ہرہر کام قرآن وحدیث کے مطابق ہو ،افسوس کے بعض لوگوں نے ننگے اور عقل سے عاری لوگوں کو اور بدعات و خرافات سے محبت کرنے والوں کو ولی سمجھ رکھا ہے ،اللہ تعالی ان لوگوں کو ہدایت عطافرمائے آمین ۔
مبشر ارشد حفظہ اللہ بیان کرتے ہیں :’’ایک دن بابا جی کے پاس کچھ لوگ آئے سب نے دونوں ہاتھوں سے سلام لینے کی کوشش کی لیکن بابا جی نے ان کے ہاتھوں کو پیچھے کر دیا اور ان میںا یک آدمی نے ایک ہاتھ سے سلام لیا بابا جی اس سے سلام لیا بلکہ اس کے ہاتھ کو چوما بھی ۔‘‘
بابا جی الاعتصام ہفت روزہ لاہور کے معاون خاص تھے۔
حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ لکھتے ہیں :الاعتصام پر جب بھی بحران آیا حضرت مولانا حفظہ اللہ بساط بھر اس کے تعاون میں پیش پیش رہے۔(مرحوم دوست عبداللہ سلیم کی یاد میں ص:۷۸)
اور محتر م حافظ احمد شاکر حفظہ اللہ ہفت روزالاعتصام (۲۴تا۳۰جنوری ۲۰۱۴)کے اداریے میں لکھتے ہیں: الاعتصام سے ان کا تعلق شروع دن سے تھا اور اب تک ہے الاعتصام سے ان کی غایت محبت یہ تھی کہ وہ الاعتصام پر تعاون کی برکھا بھی برساتے رہے ۔
بابا جی تہجد گزار تھے ۔
مجھے مولانا عبدالرشید جیتی والے حفظہ اللہ نے بیان کیا کہ میں بابا جی کا پہلا شاگرد ہوں، جب دارالحدیث کی عمارت کچی اینٹوں کی ہوتی تھی مسجد کچی تھی اور ایک کمرہ کچاتھا ،اس وقت بابا جی نوجوان تھے لیکن اس وقت بھی تہجد گزار تھے ،اور ہمیں روزانہ خود بیدار کرتے تھے جو طالب علم تہجد نہ پڑھتا اس کو ڈانتے تھے ۔
محمد نصیر احمد خان پہرے دار دارالحدیث راجووال بیان کرتا ہے کہ آدھی رات کے وقت جب بھی میں دارالحدیث میں آتا کسی حاجت کے لئے تو بابا جی کو تہجد پڑھتے ہوئے دیکھتا اگر بابا جی کے قریب جاتا تو بابا جی مجھے کہتے بیٹا میں بہت گناہ گار انسان ہوں میرے لئے دعا کیا کریں اللہ تعالی مجھے معاف فرمائے ۔
شیخ الحدیث رحمہ اللہ طلبا کے متعلق بہت زیادہ فکر مند رہتے تھے ۔
بابا جی کا اصل سرمایہ علوم نبوت کے طلبا ہی تھے ان کی خاطر زندگی وقف کر رکھی تھی یہی وجہ ہے کہ ان کے تمام طلبا ان سے خاص تعلق رکھتے ہیں ۔
حافظ محمد امین آف جمشیر کلاں بیان کرتے ہیں کہ بابا جی طلبا سے بہت زیادہ پیار کرتے تھے اور ان سے نہایت خوش طبعی سے ملتے تھے ۔‘‘        
راقم کے شاگرد رشید شیخ عبدالخالق سیف مدرس مرکز امام بخاری گندھیاں اوتاڑ قصور نے بیان کیا کہ مولانا صاحب نے مجموعۃ الرسائل میں معلمین کو نصیحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ معلمین کو چاہئے کہ وہ ہر وقت باوضو رہا کریں او ر طلبا کو اتنا نہ ماریں جس سے ان کو سخت نقصان ہو جائے ،اگر زیادہ مارا جائے توقیامت کے دن پوچھ ہو گی ،اور فرمایا کرتے تھے کہ طلبا کو پڑھاتے ہوئے ان کو اجراء زیادہ سے زیادہ کروایا جائے ۔‘‘
بابا جی کی وصیتوں میں سے ایک یہ تھی میری وفات کی وجہ سے طلبا کی پڑھائی کا حرج نہیں ہو نا چاہیے بس چند گھنٹے کلاسز نہ لگیں تاکہ میرے نماز جنازہ میں شریک ہو سکیں اور پھر اسی طرح پڑھائی اپنے شڈول سے ہو،اور الحمدللہ دارالحدیث میں اسی طرح ہوا ،وفات والے دن صبح دس بجے تک تمام شعبوں کی کلاسز جاری رہیں پھر نماز مغرب کے بعد بھی شڈول کے مطابق تمام کلاسز لگیں ۔سبحان اللہ اس سے بھی بابا جی کی طلبا کے متعلق فکر عیاں ہوتی ہے ۔
حافظ عتیق الرحمن آف منڈی واربرٹن بیان کرتے ہیں کہ میں نے سنا تھا کہ بابا جی کے جب بھی کوئی طالب علم آتا اس کو کھانا ضرور کھلاتے تھے اور اگر اس کے پاس پیسے نہ ہوتے تو اس کو پیسے بھی دیتے ۔‘‘
مولانا سعید حامد ساجد حفظہ اللہ لکھتے ہیں:۹۹۷ا کی بات ہے جب حضرت بابا جی رحمہ اللہ ہمیں بخاری شریف پڑھاتے تھے فجر کی نماز سے سلام پھیرتے ہی مجھے آواز دی ،مولوی سعید بخاری بخاری والے ساتھیوں کو کمرے میں لے چلو پھر اسی وقت کمرے میں خود بھی تشریف لائے اور پوچھا رات نوافل کس کس نے پڑھے ہیں۔ سب سے پوچھتے ،اسی طرح مسواک کا پوچھتے اور فرمایا کہ تمام طلبا قرآن مجید سے ایک ایک پارہ تلاوت کرلیں پھر صحیح بخاری پڑھتے ہیں ،ہم سب نے ایک ایک پارہ پڑھا اور بابا جی نے بھی مکمل ایک پارہ پڑھا ۔
شیخ الحدیث محمد یوسف محدث راجووالوی رحمہ اللہ ولی اور متقی انسان تھے ۔
اس علم کا کیا فائدہ جو انسان کو متقی نہ بنائے ،بعض لوگ علم ہونے کے باوجود بھی عمل سے عاری ہوتے ہیں حقیقت میںا ن کے پاس علم نہیں ہوتا ،بابا جی علم اور عمل سے مزین شخصیت تھی وہ وقت کے ولی تھے اور اللہ تعالی سے ڈرنے والے تھے ۔
عبیداللہ انور ناظم تبلیغ مرکزی جمعیت اہل حدیث ضلع خانیوال بیان کرتے ہیں کہ علامہ احسان الہی ظہیر رحمہ اللہ نے بابا جی کے مدرسے میں ایک کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا :لوگو تم کہتے ہو کہ اہل حدیثوں میں ولی کوئی نہیں ۔میں کہتا ہوں مولانا محمد یوسف راجووالوی زندہ ولی ہیں ۔‘‘
فضیلۃ الشیخ محمد حسین ظاہری حفظہ اللہ بیان کرتے ہیں: ’’علامہ صاحب رحمہ اللہ ان سے ان کے اخلاص کی بدولت بہت محبت کرتے اور اپنا پیر کہتے تھے۔‘‘
شیخ الحدیث رحمہ اللہ بہت زیادہ ذکر و اذکار اور تلاوت قرآن مجید کرنے والے تھے ۔
ذکر اور تلاوت قرآن مجید کی فضیلت سے کون بے خبر ہے، بابا جی نے ساری زندگی ان دونوں چیزوں کا مضبوطی سے لازم پکڑے رکھا ۔
بابا جی کے بعض شاگردوں نے کہا کہ بابا جی روزانہ دس پارے قرآن مجید کی تلاوت کیا کرتے تھے
اور بعض نے کہا کہ روازانہ پانچ پارے تلاوت کرتے تھے ۔
اور بعض نے کہا کہ روزانہ تین پارے تلاوت کرتے تھے۔
یہ تمام باتیں صحیح ہیں جس نے جو دیکھا وہ بیان کر دیا ،
اور شیخ عنایت اللہ امین حفظہ اللہ نے بتایا کہ بابا جی کسی وجہ سے اگر تلاوت نہ کرتے تو اگلے دن تلاوت کی قضائی دیتے تھے ۔سبحان اللہ ۔
مجھے مولانا ہارون الرشید آف بھوئے آصل خادم خاص بابا جی نے بتایا کہ جب بابا جی کا بیٹا عبداللہ سلیم رحمہ اللہ وفات پاگئے تو اس کے بعد کثر ت سے السلام علینا وعلی عباداللہ الصالحین پڑھا کرتے تھے ایک دن میں نے پوچھا کہ بابا جی آپ اس کا اس قدر ذکر کیوں کرتے ہیں فرمانے لگے کہ میں اپنے بیٹے عبداللہ سلیم کو سلام بھیجتا ہوں ۔
شیخ الحدیث رحمہ اللہ کے تلامذہ ۔
بابا جی کے تلامذہ کی فہرست بہت طویل ہے۔۔۱۹۴۹ سے لے کر جنوری ۲۰۱۴تک کے عرصے میں مسلسل طلبا باباجی سے استفادہ کرتے رہے ،بابا جی کے شاگردوں میں سے چند ایک جو ابھی مستحضر ہیں ۔
ڈاکٹر عبدالرحمن یوسف ،شیخ الحدیث دارالحدیث راجووال
ڈاکٹر عبیدالرحمن محسن مہتمم دارالحدیث راجووال
شیخ الحدیث محمد علی جانباز رحمہ اللہ مولف انجاز الحاجۃ شرح سنن ابن ماجہ ۔
شیخ عنایت اللہ امین مدرس دارالحدیث راجووال
شیخ محمد یحی محمدی مدرس دارالحدیث راجووال
شیخ حکیم ثناء اللہ مدنی آف محلہ تالاب والا۔
شیخ عبدالرشید جیتی والے مقیم حال نئی آبادی راجووال کافی عمر رسیدہ ہیں ساری زندگی تدریس و امامت و خطابت کرتے رہے اب گھر میں ہوتے ہیں ۔
شیخ الحدیث محمد صدیق سلیم ،مہتمم ضیاء السنۃ گہلن ہٹھاڑ
فضیلۃ الشیخ عبدالرحمن عزیز الہ آبادی آف حسین خانوالا، پتوکی رئیس ادارہ امر بالمعروف والنہی عن المنکر۔ (مشہور و معروف مصنف وناشر)
شیخ الحدیث حافظ عبدالخالق سلفی مہتمم جامعہ دارالاسلام السلفیۃ کھڈیاں خاص
محمد عمر ربانی آف سریسر ہٹھاڑ الہ آباد               
حافظ بلال حسین ،لائبریرین دارالحدیث راجووال
حافظ نظام الدین ،معاون ابن بشیر الحسینوی ۔
حافظ اکرام اللہ ،آف پل دھول ۔
ماسٹر محمد حسن بلوچ رسولنگری
فضیلۃ الشیخ القاری محمد ادریس العاصم حفظہ اللہ (دارالحدیث میں دورہ تفسیر کیا)
فضیلۃ الشیخ استاد محترم عبدالرشید راشد رحمہ اللہ آف پسرور (راقم کے مربی اور بہت بڑے محسن یہ وہی شخصیت ہیں جنھوں نے مجھے تحقیق و تصنیف کا فن سکھایا ،کئی سال جامعہ رحمانہ لاہور میں حدیث کے استاد رہے ۔انھوں نے بھی دارالحدیث میں دورہ تفسیر کیا ۔)
شیخ احسن عظیم حفظہ اللہ
محمد اسماعیل قریشی آف راجووال
محمد عبداللہ بن محمد اسماعیل قریشی آف راجووال
قاری محمد صدیق انجم بن محمد اسماعیل قریشی آف راجووال
ثناء اللہ بن محمد اسماعیل قریشی آف راجووال
محمد یونس بن محمد اسماعیل قریشی آف راجووال
مولانا سعید حامد ساجد خطیب شیر نگر اوکاڑہ
شیخ الحدیث رحمہ اللہ دینی کتب شائع کرتے اور پھر سارا ایڈیشن فری تقسیم کردیتے
اپنی زندگی میں بابا جی نے بذات خود چالیس قیمتی کتب شائع کی ہیں اور ہر ہر کتاب فری تقسیم کرتے تھے ،سبحان اللہ۔یہ مثال بھی شاید مادہ پرستی کے دور میں دور دور تک نہ ملے ۔
حافظ سلیم عبداللہ یزدانی آف کھڈیاں بیان کرتے ہیں کہ میں بابا جی کی خدمت میں حاضر ہوا تو انھوں نے مجھے المتجر الرابح دو جلدوں میں اپنے بیٹے ڈاکٹر عبدالرحمن یوسف حفظہ اللہ کے ترجمہ والی تحفہ دی ۔اور نماز محمدی بھی دی اور ساتھ فرمایا کہ بیٹا یہ کتاب بڑی پڑھنے والی ہے ۔
تقریبا ۲۰۰۶ میں بابا جی ہمارے ادارے مرکز امام بخاری گندھیاں اوتاڑ قصور میں مسجد کے سنگ بنیاد کے موقع پر گئے تو اپنے ساتھ المتجر الرابح کتاب لے کر گئے اور ہمارے ادارے کو تحفہ دیا ۔
شیخ عنایت اللہ امین حفظہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ بابا جی لوگوں کو کتب تحفے میں بہت زیادہ دیتے تھے ۔
محدث راجووالوی اور ۱۴ جنوری ۲۰۱۴ کا دن
۱۴ جنوری کا دن انتہائی افسوس ناک دن تھا کہ اذان فجر سے پہلے راقم اپنے کمرے میں مطالعہ میں مصروف تھا اچانک دروازے پر دستک دی گئی دروازہ کھولا تو شیخ عدنان حفظہ اللہ نے کہا کہ محترم بابا جی وفات پاگئے ہیں انا للہ وانا الیہ راجعون ۔کہتے ہوئے،دعاوں کا سلسلہ شروع کر دیا ۔اور نماز فجر شیخ عبید الرحمن محسن حفظہ اللہ نے پڑھائی بڑی مشکل سے قرات کر رہے تھے اور مختصر سی سورتوں پر اکتفا کیا پھر دعاقنوت بھی کی پھر نماز کے بعد والد محترم کی چند نصیحتیں بیان کیں مثلا :مجھے نئی آبادی راجووال کے قبرستان میں دفنانا ،میرا جنازہ میر بڑا بیٹا حافظ عبدالرحمن پڑھائے ،اور میرے کفن کا اہتمام محمد علی جوہر کرے ۔میرے جنازے سے پہلے میری تعریف میں تقاریر نہ کرنے دینا اس موقع پر سب سے بڑی عبرت خود میت ہوتی ہے ۔میرے فوت ہونے کی وجہ سے مدرسہ کی کلاسز کو مسلسل جاری رکھنا ہے تاکہ طلباء کی تعلیم کا حرج نہ ہو ،بس چند گھنٹے پڑھائی کا تعطل کرلینا تاکہ تمام طلبا میرے جنازے میں شریک ہو سکیں ۔
ان تمام نصیحتوں پر عمل کیا گیا والحمدللہ۔
اور ملک پاکستان کے کونے کونے سے سر زمین راجووال میں اہل علم و علوم نبوت کے طلبا اور عام لوگ تشریف لائے جو کم و بیش بیس ہزار سے زیادہ ہوں گے ،اور نماز جنازہ محترم ڈاکٹر عبدالرحمن یوسف حفظہ اللہ پڑھائی دوسرا نماز جنازہ پروفیسر حافظ ثناء اللہ خان حفظہ اللہ نے پڑھائی اور جو حضرات اور لیٹ ہو گئے ان کے لیے بابا جی کی قبر پر نماز جنازہ کا اہتمام کیا گیا۔
جامعہ سلفیہ فیصل آباد سے استاد محترم شیخ الحدیث عبدالعزیز علوی، شیخ یونس بٹ، شیخ عبدالحنان اور پروفیسر نجیب اللہ طارق، پروفیسر یسین ظفر استاد محترم شیخ مسعود عالم حفظہم اللہ نماز جنازہ میں شامل ہوئے۔ جامعہ محمدیہ گوجرانوالا سے استاد محترم شیخ الحدیث عبدالحمید ہزاروی، شیخ خالد بشیر مرجالوی وغیرہ آئے تھے اور جامعہ رحمانیہ لاہور سے استاد محترم شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی، استاد محترم شیخ رمضان سلفی، شیخ حسن مدنی، شیخ شفیع طاہر حفظھم اللہ تشریف لائے تھے ۔
اور فیصل آباد ستیانہ بنگلہ مدرسہ سے استاد محترم شیخ الحدیث عبداللہ امجد چھتوی، شیخ عتیق اللہ سلفی، شیخ ابو نعمان بشیر احمد اور دیگر ساتھی دعا ء مغفرت میں شریک ہوئے ۔
مفسر قرآن جناب حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ بھی نماز جنازہ میں شریک ہوئے تھے ۔
ماموں کانجن سے بھی شیوخ کرام تشریف لائے ۔
جماعۃ الدعوہ کے مرکزی رہنما فضیلۃالشیخ حافظ عبدالسلام بھٹوی ،حافظ عبدالغفار مدنی ،ابواحسان ،ابومعاذ محمد ،شیخ عبدالرحمن حفظہم اللہ بھی بابا جی کے نماز جنازہ میں تشریف لائے ۔
ہفت روزہ الاعتصام کے ذمہ داران جناب حافظ احمد شاکر اور جناب مورخ اہل حدیث محمد اسحاق بھٹی اور محترم حماد شاکر وغٖیرہ تشریف لائے تھے ۔
اور مرکز ابن مسعود لاہور سے جناب استاد محترم شیخ شفیق مدنی اور شیخ محترم کے رفقاء نماز جنازہ میں شریک ہوئے تھے۔
اسی طرح اسلامک انسیٹیٹوٹ مہنتانوالا سے شیخ الحدیث ادریس اثری اور ان کے جامعہ کے دیگر احباب بھی شریک تھے ۔
اور میرے جامعہ محمدبن اسماعیل البخاری گندھیاں اوتاڑ قصور سے بھی مہتمم جامعہ قاری ادریس ثاقب اور شیخ الحدیث جناب محمد یوسف قصور ی اور تمام اساتذہ اور کافی طلبا نماز جنازہ میں شریک ہوئے ۔
اسی طرح کراچی سے حافظ عبدالقوی ،حافظ عبدالحفیظ روپڑی اور صہیب اللہ بھائی تشریف لائے تھے ۔اور جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی سے شیخ نور محمدحفظہ اللہ بھی آئے تھے لیکن کراچی کے احباب جنازہ میں شریک نہ ہو سکے ۔
اس طرح جم غفیر تھا جس سے ثابت ہوگیا تھاکہ باباجی کس قدر اہل علم کے ہاں محبوب تھے ،کہ جن کے نماز جنازہ میں پاکستان کے کونے کونے سے شیوخ الحدیث اور علوم نبوت کے طلبا تشریف لائے ہوئے تھے ۔
اس موقع پر جناب امیر محترم ساجد میر، جناب عبدالکریم، جناب ابتسام الہی ظہیرj تشریف نہیں لائے تھے شاید کسی اور مصروفیت کی وجہ سے وقت نہ مل سکا ہو گا ۔
اور بابا جی کی وفات کے بعد روزانہ بابا جی سے محبت کرنے والے مسلسل دارالحدیث راجووال میں آرہے فجزاہم اللہ خیرا ۔
اللہ تعالی بابا جی مرحوم کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات کو بلند فرمائے ۔اور ان کے ہاتھ سے لائے ہوئے ادارہ دارالحدیث راجووال کو تاقیامت ان کے لئے صدقہ جاریہ بنائے آمین ۔
قافلہ حدیث میں مورخ اہل حدیث جناب محمد اسحاق بھٹی حفظہ اللہ نے بابا جی کے حالات مفصل لکھے ہوئے ہیں ۔ فجزاہ اللہ خیرا ۔
بابا جی کے حالات پر مفصل کتاب لکھنا شروع کر دی ہے جس میں مرحوم کی زندگی کے تمام پہلووں پر بحث کی جا رہی ہے ان شاء اللہ۔ اللہ تعالی آسانی فرمائے ۔آمین
اگر کسی کے پاس بابا جی کے متعلق کوئی واقعہ یا کوئی ان کی زندگی کے پہو کے متعلق چیز ہو وہ ہمیں ضرور مطلع کرے تاکہ اسے بھی جمع کیا جا سکے۔
اور بابا جی کے شاگردوں کا حلقہ بہت وسیع تھا ان سے استفادہ کرنے والے احباب بھی ہم سے رابطہ کریں ،اور بابا جی خط و کتابت بھی بہت کیا کرتے تھے اگر کسی کے پاس بابا جی کا کوئی خط ہو تو وہ ہمیں ضرور ارسال کرے ۔