آپ کی معلومات

Monday 9 December 2013

مکتبہ دارالحدیث راجووال میں نادر کتب کا وزٹ کریں یہاں سے ڈاولوڑ کریں

0 comments

مکتبہ دارالحدیث راجووال میں نادر کتب کا وزٹ کریں

0 comments
چند ہفتے پہلے ہمارے پاس ہمارے دوست فضیلۃ الشیخ حافظ شاہد محمود حفظہ اللہ مدیر ام القری پبلی کیشنز گوجرانوالا تشریف لائے اور ان کے لئے نادر کتب کی الماریاں کھولی گئیں تو اس دوران وڈیو بھی بنائی گئی تاکہ اس سے احباب مستفید ہو سکیں
وڈیو کا لنک 

Monday 25 November 2013

Wednesday 13 November 2013

اے میری قوم کے غیور طلبائ!

0 comments
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
اے میری قوم کے غیور طلبائ!
السلام علیکم 
ہم کہاں کھڑے ہیں ؟
ہمارے اسلاف کہاں تھے ؟
اور دشمن کہاں تک پہنچ چکا ہے ؟
اور اسلا م اور قرآن کی پکار کیا ہے ؟
صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین ،تابعین اور محدثین کے روحیں ہم سے کیا سوال کرتی ہیں ؟
کیا ان کی محنتیں اور ان کے مشن کو ضایع کرنا جرم عظیم نہیں ؟
کیا ان  کے مشن کو آگے پایا تکمیل تک پہنچانا وقت کی ضرور ت نہیں ؟
کیا انقلاب غفلت کی نیند سے ممکن ہے ؟
ہماری عقیدے ،فکر ،منھج اور تعلیم کی پختگی کہاں چلی گئے ؟
جامع المعقول و المنقول کب پیدا ہو ں گے ؟
مفسر ،محدث ،مفکر ،محقق،صحیح مبلغ اورغیور اہل علم کہا ں سے آئیں گے ؟
 ہم احساس کمتری کا شکا ر کیوں ؟
ہم اپنی تاریخ سے دور کیوں ؟
ہم نے اپنے سلفی ہیروز کو کیوں بھلایا ؟
ہمیں کتب سے محبت ،مطالعہ سے محبت ،تحقیق و جستجو سے اور اساتذہ سے محبت کیوں نہیں ؟
ہماری صفوں میں اتحاد کس نے چھینا ؟
درس نظامی کے ماہرین اساتذہ کہاں پیدا ہو رہے ؟
قرآن و حدیث میں مہارت تامہ  کہاں گئی ؟
ہماری لائبریریاں ویران کیوں ؟
ہم مشائخ سے دور کیوں ؟
ہماری علمی مجالس مفقود کیوں ؟
ہماری کامیابی کس میں ہے اور ہم کہاں تلاش کر رہے ہیں ؟
پندرھویں صدی کے وقت کا تقاضہ کیا ہے اور ہم کس صدی کے تقاضوں کے مطابق اپنے آپ کو تیار کررہے ہیں ؟
 ہم کفر کے مشن سے متاثر کیوں ؟
مدارس کو آباد کرنے والے کہاں سے آئیں گے ؟
ہم اپنے دشمن سے مقابلے کے لئے کیوں تیار نہیں ہو رہے ؟
ہم سے علمی اور ادبی ذوق کس نے چھینا ؟
مختلف کورسز کی تفصیل :
تصنیف و تحقیق
عقیدہ 
علوم قرآن 
علوم حدیث 
تخریج  و تحقیق
ترجمہ و لغت 
عربی گرائمر 
کتب حدیث اور کتب رجال کا منھج
نوٹ:ایک وقت میں تمام شرکاء صرف ایک ہی کورس کریں گے ۔اس کے بعد دوسرا شروع کیا جائے ۔ان شاء اللہ  
ہمارا مشن :
١:مختلف اعتقادی ،علمی و تحقیقی اور فکری و ادبی کورسز کا اجراء تمام سلفی مدارس  کے طلباء کے مابین شروع کرنا ۔
٢:طلباء میں فکر بیداری پیدا کرنا ۔
٣:احیاء فکر محدثین و سلف صالحین ۔
٤:علوم و فنون  میں مہارت تامہ کی طرف رہنمائی ۔
٥:جدید انداز سے عملی اورانقلابی کام کی طرف رغبت ۔
٦:امت مسلمہ کے اتحاد کی طرف والہانہ دعوت و فکر ۔
٧:جدید علمی پروجیکٹس سے واقفیت مثلا انٹر نیٹ میں تحقیقی و علمی ویب سائٹس اور مکتبہ شاملہ وغیرہ کا تعارف اور طریقہ کار ۔
٨:نشرو اشاعت کے فن سے واقفیت اور اس کے آسان طریقے ۔

کورس میں شامل ہونے کا طریق کار :
جو طلبا ء اور اہل علم ہمارے  مختلف کورسز میں شمولیت اختیار کرنا چاہتے ہیں وہ اس تحریک  کے دفتر میں اپنے مکمل کاغذات جمع کروائیں اور جلد سے جلد اپنے اپنے ادارے میں رہ کر اس علمی اور تحقیقی کورسز سے فائدہ اٹھائیں ۔
۔ایڈریس:
ابن بشیر الحسینوی 
محمد آصف سلفی 
دارالحدیث الجامعة الکمالیة راجووال اوکاڑہ  
یا اس نمبر پرکال یا میسج کے ذریعے اپنے نام اور ایڈریس کا انداراج کروائیں 03024056187:،03004303536
اگر کوئی دوست بذریعہ ای میل کورس میں شمولیت کرنا چاہتا ہے وہ اپنا ای میل مذکورہ نمبر پر سینڈ کر دیں۔
الداعی الی الخیر :
تحریک اے میری قوم کے غیور طلبائ!



Wednesday 6 November 2013

مرزا قادیانی کی زندگی کردار کیا ہے؟

0 comments
   ؟
  جمع و تدوین :
صدام حسین ظہیر بن محمد عارف
متعلم درجہ خامسہ دارالحدیث الجامعةالکمالیة راجووال(اوکاڑہ) 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
اما بعد فاعوذ با للہ من الشیطن الر جیم
بسم اللہ الرحمان الرحیم
یہ بات  روز روشن کی عیاں ہے۔ جس کو اللہ تعالی اپنا پیغام اپنے بندوں تک پہنچانے کے لیے چنتے ہیں۔ اس کی زندگی کو بچپن سے لے کر آخری دم تک پوری صاف شفاف بناتے ہیں۔اس کی زند گی میں کسی بھی  قسم کی کویٔ کج روی نہیں ہوتی ہے ۔ بلکہ ان کی زندگی اتنی اللہ کو پسند آتی ہے ان کی ہر ایک صفت کو اللہ تعالی اپنے قرآن میں بیان فرما دیتے ہیں۔اور وہ نبوت کا دعوی خود بخود نہیں کرتے ہیں بلکہ ان کو اللہ تعالی اپنی طرف سے نبوت عطا کرتے ہیں ۔ اور ادھر مرزا قایانی ہیں جس نے انگریز کاحکم ماتے  ہوے اور انگریز کو راضی کرنے کیلیے جھوٹی نبوت کا دعوی کیا اور اپنے ساتھ اور لوگوں کے ایمان کو  ضائع کیا اوربے شمار خرافات پیدا کی اس لعنتی کی زندگی ایسی تھی جو قران وحدیث کے بالکل خلاف ہے بلکہ آخرت میں جہنم کا ایندھن بنے گی آئندہ سطور میں ان خرافاکا جائزہ لیا جائے گا جو مرزا قادیانی کی زندگی میں پائی 
جاتی ہیں
مرزا قادیانی اورشراب
مرزا قادیانی شراب کا بہت عادی تھا۔ بلکہ شراب کا رسیا تھا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ وہ مشروب جو اس
کے آقا انگریز کا من پسند ہو انگریز نبی اسے چھوڑ دے مرزا اپنے ایک چہیتے مرید حکیم  محمد حسین کو ایک خط
   میںلکھتا ہے محبی اخوکم محمد حسین اس وقت میاں یار محمد بھیجا جاتا ہے آپ اشیأ خوردنی  خریدیں اور ایک بوتل ٹانک وائن کی پلومر کی دکان سے خریدیں مگر ٹانک وائن چا ہیئے اس کا لحاظ رہے باقی خریت ہے 
]خطوط امام بنام غلام ص٥[
سودائے مرزا کے حاشیہ پر حکیم محمد علی پرنسپل طیبہ کالج امرتسر لکھتے ہیں
ٹانک  وائن کی حقیقت لاہور میں پلومر کی دکان سے ڈاکٹر عزیز احمد صاحب کی معرفت ہوگی ڈاکڑصاحب جوابا تحریر فرماتے ہیں حسب ارشاد پلومر کی دکان سے دریافت کیا گیا۔جواب حسب ذیل ہے   ٹانک وائن ایک قسم کی طاقتور اور  نشہ دینے والی شراب ہے جو ولایت سے سر بند بوتلوں میں آتی ہے اس کی اس وقت ساڑھے پانچ روپے تھی
]١١دسمبر 1949،سودائے مرزا ،ص٣٩ حاشیہ[
مرزا قادیانی اور رشوت خور
رشوت کسی بھی معاشرے کیاایک بہت بری عادت اور لعنت ہے یہ ہر معاشریکے اخلاقی اقدار کو پامال کر دیتی ہے مرزا قادیانی بھی پکا خور تھا اور اس میں یہ برائی بہت پائی جاتی تھی مرزا احمد علی شیعہ اپنی کتاب دلیل العرفان میں لکھتے ہیں کہ منشی غلام احمد اامرتسری نے اپنے رسالہ نکاح آسمانی میں لکھا ہے کہ مرزا نے زمانہ محرری میں خوب رشوتیں لیں تھی یہ رسالہ مرزا کی وفات سے پہلے ١٩٠٠ء میں شائع ہو گیا تھا مگر مرزا نے اسکی تردید نہیں کی تھی۔
اسی طرح مولوی ابراہیم صاحب سیالکوٹی نے مناظرہ روپڑ میں جو ٢١،٢٢ مارچ  میں ہوا تھا۔ہزار ہا کے مجمع میں بیان کیا کہ مرزا صاحب نے سیالکوٹ کی نوکری میں رشوت ستانی سے خوب ہاتھ رنگے اوریہ سیالکوٹ ہی کی ناجائز کمائی تھی جس سے مرزا نے چار ہزار روپیہ کا زیور اپنی دوسری بیگم نواز کو بنوا کر دیا
]روداد مناظرہ روپڑ مطبوعہ کشن سٹیم پریس جالندھر ص٣٥[
مرزا قادیانی تھیڑ میں
مرزا قادیانی کا ایک نام نہاد ساتھی مفتی محمد صادق قادیانی بیان کرتا ہے کہ ایک شب رات دس بجے کے قریب میں تھیڑ میں چلا گیا جو مکان کے قریب ہی تھا  اور تماشہ ختم ہونے پر دو بجے رات کو واپس آیا ۔ صبح 
منشی ظفر احمد نے میری عدم موجودگی میں حضرت کے پاس میری شکایت کی کہ مفتی صاحب رات کو تھیڑ میں چلے گئے تھے حضرت نے فرمایا کوئی بات نہیں ہے ایک دفعہ ہم بھی گئے تھے 
]ذ کر حبیب ص ١٨ مصنفہ مفتی محمد صادق[
اس دین کے کیا  کہنے جس نبی بھی تھیڑ دیکھیں
مرزا  قادیانی اور افیم 
 حضرت مسیح نے تر یاق الہی (ایک مردانہ دوا کا نام ہے)
خدا تعالیٰ کی ہدایت کے ما تحت بنائی اور اس کا ایک بڑا جزء افیون کا تھا اور یہ دوا کسی قدر اور افیون کی زیادتی کے بعد حضرت خلیفہ (حکیم نور الدین)کو حضور (مرزا قادیانی) چھ ماہ سے زائد تک دیتے رہے اور خود بھی وقتا فوقتامختلف امراض کے دوروں کے وقت استعمال کرتے رہے تھے۔
]مضمون میاں محمود احمد ،اخبار الفضل جلد ١٧نمبر٤ مورخہ١٩ جولائی ١٩٢٩ئ[
مرزا قادیانی چندہ چور
لدھیانہ کا ایک شخص تھا جس نے ایک دفعہ مسجد میںمولوی محمد علی صاحب خواجہ کمال الدین صاحب اور شیخ رحمت اللہ کے سامنے کہا کہ ہم جماعت کے لیے مقروض ہوکر اور اپنے بیوی  بچوں کا پیٹ کاٹ کر چندہ میں روپیہ بھیجتے ہیں مگر یہاں بیوی صاحبہکے کپڑے  اور زیورات بن جاتے ہیں 
]خطبہ میاں محمود احمد خلیفہ قادیان اخبار الفضل جلد ٣٦،٢١اگست ١٩٣٨[
سچ ہی تو کہا دل جلے مرید تنگی کاٹ کے چندہ دیں اور مسز قادیانی مریدوں کے چندوں سے نت نئے زیورات بنا بنا کراپنی زیبائش اور نمائش میں مصروف رہتی تھی چندہ چور مرزا قادیانی نے اپنی لاڈلی اور چہیتی بیوی نصرت جہاں بیگم کو جو زیورات پہنائے تھے اس کی کل رقم ٣٥٠٥ روپے تھی 
]قادیانی نبوت،ص ٨٥ بوالہ فسانہ قادیان مصنفہ حافظ محمد ابراہیم کمیر پوری[
اس زمانہ میںسونا تقریبا بیس روپے تولہ تھا اس حساب سے اس زمانہ میں چندہ چور مرزا قادیانی نے اپنی بیوی کو تقریبا ٧٥ تولے(دو سیر تین چھٹانک) سونا پہنایا۔



Tuesday 5 November 2013

ترجمة وخدمات ا بن بشیر الحسینوی الأثری

0 comments
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
السیرة الذاتیة 
ترجمة  وخدمات بن بشیر الحسینوی الأثری
ولد فی (١٤٠٤)من الھجریة النبویة الموافق (١٩٨٣ء ) فی قریة حسین خانوالا ہتھار قریب من بلد قصور،بنجاب، باکستان 
تعلیم :متخصص فی علو م الحدیث والقرآن والفقہ والادب واللغة ۔ من مرکز التربیة السلامیہ بفیصل آباد بباکستان ۔
ومتخرج من جامعة محمدیہ جوجرانوالا باکستان و جامعة لاہور السلامیة بلاہور باکستان۔
شیوخ :قد تلمّذ عن مشایخ کثیرة جدا من أشھرھا وھی :
المام المحدث النقاد المسند الحافظ عبدالمنان نورفوری
والمحدث المعمّر محمد حیات لاشاری سندھی تلمیذ المحدث نزیر حسین المحدث الدہلوی والمحدث عبدالرحمان مبارکفوری 
و الشیخ عبدالرشید راشد معاون صاحب جائزالاحوذی  
رحمہم  اللہ
المحدث المسند المفتی الحافظ ثناء اللہ المدنی  ،صاحب جائزة الاحوذی ۔
المحدث المسند المحق الشہیر ارشاد الحق الاثری ،
المحدث المسند  الحافظ محمد شریف، 
المحدث  المسند الاصولی عبدالرحمن الضیائ ،
المحدث المسند المفسر الحافظ مسعود عالم ،
المحدث المسند عبداللہ امجد چھتوی،
المحدث حافظ زبیر علی زئی ،
المحدث المسند شیخ رمضان سلفی ،
الشیخ المفتی مبشر احمد ربانی 
الشیخ شفیق مدنی 
حفظھم اللہ ۔
واستفاد وجالس مدة مع  الشیوخ الکبار من أشھرھا :
المحدث وصی اللہ بن محمد عباس مدرس فی المسجد الحرام و أستاذ فی أم القری۔ 
المحدث أبوا الأشبال شاغف البہاری المکی
المحقق المشہور الشیخ عزیر شمس من مکة مکرمة 
المام المحدث ضیاء الرحمن الأعظمی قد ناقش معہ فی بیتہ فی المدینة المنورة حول کتابہ بعد مراجعتہ (الجامع الکامل فی الحدیث الشامل )فی ٢٥ مجلدا۔
  حفظھم اللہ
رحلات علمیة  
قد رحل رحلة کثیرة الی  الشیوخ الکرام و المکتبات العلمیة واستفاد منھا مثلا 
الرحلة لی الحرمین الشریفین :
قد رحل مرة لی الحرمین الشریفین قد لقی فی ھذا السفر المبارک المحدثین منھا :
المحدث وصی اللہ بن محمد عباس مدرس فی المسجد الحرام و أستاذ فی أم القری۔ 
المحدث أبی الأشبال شاغف البہاری المکی۔
المحقق المشہور الشیخ عزیر شمس ۔
المام المحدث ضیاء الرحمن الأعظمی بل ناقش معہ فی بیتہ فی المدینة المنورة حول کتابہ  (الجامع الکامل فی الحدیث الشامل )فی ٢٥ مجلدا بعد مراجعتہ ۔
  حفظھم اللہ۔

الرحلة الی السند:
رحل لی السند مرتین  وسکن فی المکتبة الراشدیة لصاحبھاالمحدث شیخ العرب والعجم بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ ۔
و المکتبة العلمیة لصاحبھا المحدث شیخ السلام محب اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ ۔واستفاد کثیرا من مکتباتھما و اخذ بعض المخطوطات منھما مصورا،والحمدللہ ۔
و لقی فی السند الشیخ المعمرالمحدث  محمد حیات لاشاری سندھی۔
الرحلة فی کل باکستان فی ای مکان یجد عالما جیداومحققا شہیرا یسافرالیہ ۔
والآن وھو یرید الرحلة الی دمشق وکویت ومصر واردن وشام و ھند ویمن  وغیرھا ۔لکن لیس عندہ طاقة ۔اللہ یقدر ان شاء اللہ۔
خدمات فی التدریس :
یدرس منذ تسع سنوات فی الجامعات السلفیة فی الفصول العلیا قددرّس مرات صحیح مسلم و موطا امام مالک وضوابط الجرح والتعدیل وکتبا فی ضوابط التخریج وکتبا فی علوم الحدیث ۔وفی النحو والصرف ۔
والآن یدرس صحیح البخاری (الجزء الاول )و الجامع الترمذی وسنن أبی داود و الھدایة وفقہ السنة فی دار الحدیث راجووال أوکارہ باکستان ۔ 

مھارت لغویة:
وھو ماہر فی العربیة والاردیة و ممتاز فیھما نطقا وکتابة و استماعا اما فی الانجلیزیة مقبول نطقا واستماعا وکتابة۔ 
لہ تحقیقات وتالیفات وھی کثیرة جدا من أشھرھا :
قد ألّف کتبا کثیرة فی العربیة و الأردیة 
أما فی العربیة فہی :
١: تنبیہ المحققین علی تدلیس المدلسین المعروف بموسوعة المدلسین
٢: الفتح الجلیل فی ضوابط الجرح والتعدیل
٣: التنبیھات  علی بعض المواقع من فتح الباری للعسقلانی  
٤: الاعلان فی معرفة من قیل فیہ لم یسمع عن فلان 
٥: التّبیین فی شرح اصل السنّة واعتقاد الدین 
٦: معجم الضعفاء والمجھولین (تحت الترتیب)
٧: موسوعة الأحادیث الشاذة
٨: الرد علی الھدایة للمرغینانی 
٩: علوم الحدیث عندالشیخ الالبانی
١٠: تعلیقات علی تیسر مصطلح الحدیث للدکتور  محمود طحان 
١١: موسوعة القواعد الفقہیة
١٢: زاہد الکوثری فی میزان الامام الالبانی رحمہ اللہ 
أما فی الأردیة :
١٣: شرح صحیح مسلم فی ٧ ،اجزاء تحت الطبع فی  باکستان
١٤: شرح مقدمہ صحیح مسلم ۔تحت الطبع۔
١٥: شرح الجامع الترمذی فی ٥،اجزائ۔ما طبع الی الآن۔
١٦: ضوابط التحقیق والتخریج۔ماطبع
١٧: الرد علی اشکالات حول حجیة حسن لغیرہ۔مطبوع علی انترنیت ۔   
١٨: سلسلہ احکام صحیحہ طبع الجزء الاول 
١٩: سلسلہ احکام ضعیفہ ۔ما طبع 
٢٠: تعاقب وردود فی اجزاء کثیرة۔طبع البعض فی الرسائل وانترنیت۔
٢١: احکام الشعر ۔مطبوع 
٢٢: احکام الحیوان۔ تحت الطبع 
٢٣: التقریب لعلوم الشیخ المحدث ارشاد الحق الاثری حفظہ اللہ۔ ما طبع ۔ 
٢٤: نصائح السلف ۔تحت البطع ۔
٢٥: رحلات علمیة  ۔ما طبع 
٢٦: نصاب دینی للبیوت تحت الطبع فی باکستان، تحت الطبع  
٢٧: أحکام المساجد۔ مطبوع
٢٨: الرد علی القدوری۔ ما طبع 
٢٩: الرد علی الھدایة للمرغینانی۔ما طبع   ۔
٣٠: الآن ہو یکتب شرح صحیح البخاری ویجمع الفوائد التی لا توجد فی فتح الباری ۔بتوفیق اللہ تعالی۔ 
وحقّق وخرج أیضا کتبا کثیرة من أشھرھا :
٣١: تحقیق وتخریج مسند المام احمد بمشارکة بعض الاخوة وہو تحت الطبع فی دارالسلام الریاض 
٣٢: تحقیق بلوغ المرام تحت الطبع فی باکستان۔تحت الطبع۔
٣٣: تحقیق وتخریج الصلاح (الجزاء الثانی)لمحمد الجوندلوی رحمہ اللہ۔مطبوع  
٣٤: تحقیق وتخریج کتاب الاذان لعبدالقادر الحصاری رحمہ اللہ ۔تحت الطبع۔
٣٥: تحقیق و تخریج الصحیحین لعبدہ الفلاح  رحمہ اللہ۔ماطبع ۔
٣٦: تحقیق و تخریج ادعیة الرسول لعطاء اللہ حنیف البھوجیانی رحمہ اللہ ۔ماطبع۔
٣٧: راجع تحقیق المعجم المختص للحافظ الذھبی رسالة دکتورة لشیخ محمد عبدالرحمن یوسف حفظہ اللہ۔تحت الطبع ۔
٣٨: وراجع وقابل علی النسخ المطبوعة من الکتب الحدیثیة ،الجامع الکامل فی الحدیث الشامل للمحدث ضیاء الرحمن الاعظمی المدنی فی ٢٥ مجلدا ۔بمشارکة بعض الاخوة وہو تحت الطبع فی دارالسلام الریاض۔ 
٣٩: و راجع ترجمة صحیح ابن حبان۔تحت الطبع ۔
٤٠: تحقیق و تخریج معلقات صحیح البخاری ۔ تحت الدراسة ۔
وغیرھم ۔
خدمات علی الانترنیت:
قد ینشر الرسائل العلمیة وا لردود االمنھجیة علی المواقع کثیرة من اشھرھا :
الملتقی لاھل الحدیث من مکة 
المنتدیات لکل السلفیین من اردن 
الموقع المحجة 
الملتقی محدث  
و الملتقی اردو مجلس 
و الملتقی صراط الھدی  
ولہ خاصة بعض المواقع مثلا :
مرکز التحقیقات الاثریہ 
حسینوی بلوج 
فائدہ:لہ مدرسة علی انترنیت:علی سکائب و بالتاک
یستفید منہ أکثر من الف رجل وامراة من ہند وامریکاواتلی وکویت والسعودیةویورب وباکستان وناروے و فلسطین،و دمشق و شام وغیرھا یلقی الدروس العلمیة و یدرّس الکتب المھمة المنھجیة ویفتی علی انتر نیت فی اللغة الاردیة  والعربیة والانجلیزیة۔

التحقیقات فی الرسائل و الجرائد 
تنشر تحقیقاتہ علی الرسائل والجرائد مثلا 
ٍ الاعتصام بلاہور باکستان
ضیاء حدیث بلاہور باکستان
الحدیث حضرو اتک باکستان
المکرم جوجرانوالا باکستان

لہ تعلق خاص ببعض المعاصرین المحققین ۔
مثلا الشیخ علی حسن الحلبی  من الاردن 
الدکتور المحدث ماہر یسین الفحل من العراق۔
الشیخ المحدث ضیاء الرحمن الاعظمی من مدینة منورة۔
الشیخ عزیر شمس من مکة مکرمة ۔
الشیخ المحدث ارشاد الحق الاثری من باکستان ۔
الشیخ الاصولی المسند الحافظ محمد شریف حفظہ اللہ
الشیخ المحدث عبدالروف بن عبدالحنان من کویت ۔
الدکتور المحدث محمد عبدالرحمن یوسف شیخ الحدیث دارالحدیث راجووال اوکارہ۔
الشیخ المسند المحدث عبدالرحمن الضیاء من باکستان
الشیخ محمد حسین ظاہری حفظہ اللہ شیخ الحدیث    
الشیخ محمد جمال من الاردن 
منھجہ العلمی والتحقیقی:
لہ منھج سلفی خالص علی وفق الکتاب والسنة الصحیحة وھوقائم علی منھج المحدثین علی وفق علوم الحدیث والجرح والتعدیل ،وھو یردعلی بعض المناھج الباطلة والمنحرفة۔
ربط مع الاخ ابن بشیر  الحسینوی الاثری:
مدرس درارالحدیث راجووال اوکارہ باکستان 
رقم الھاتف:00923024056187
عنوان السکائب:ibrahim.alhusainwy
عنوان فیس بک:
ibne bashir alhusainwyi



























Sunday 3 November 2013

تعاقب وردود منھجی بحوث پر مشتمل بے شمار مضامین

0 comments


http://altahqeeqat.blogspot.com/2013/10/blog-post_7133.html

http://altahqeeqat.blogspot.com/2013/10/blog-post.html

http://altahqeeqat.blogspot.com/2013/08/blog-post_31.html

http://altahqeeqat.blogspot.com/2013/08/blog-post_25.html

http://altahqeeqat.blogspot.com/2013/05/blog-post_22.html

http://altahqeeqat.blogspot.com/2013/05/blog-post_20.html

http://altahqeeqat.blogspot.com/2013/05/blog-post_18.html

http://altahqeeqat.blogspot.com/2013/05/blog-post_17.html

http://altahqeeqat.blogspot.com/2013/05/blog-post_2.html

http://altahqeeqat.blogspot.com/2013/05/blog-post.html

http://altahqeeqat.blogspot.com/2013/04/blog-post_637.html

http://altahqeeqat.blogspot.com/2013/04/blog-post_4191.html

http://altahqeeqat.blogspot.com/2013/04/blog-post_17.html

http://altahqeeqat.blogspot.com/2013/04/blog-post_8.html

http://altahqeeqat.blogspot.com/2013/04/4.html

http://altahqeeqat.blogspot.com/2013/04/2_7.html

http://altahqeeqat.blogspot.com/2013/04/blog-post_6.html

http://altahqeeqat.blogspot.com/2013/04/blog-post.html

http://altahqeeqat.blogspot.com/2013/03/blog-post_1031.html

http://altahqeeqat.blogspot.com/2013/03/blog-post_30.html

http://altahqeeqat.blogspot.com/2013/03/blog-post_29.html

http://altahqeeqat.blogspot.com/2013/03/blog-post_28.html

http://altahqeeqat.blogspot.com/2013/03/blog-post_9369.html

http://altahqeeqat.blogspot.com/2013/03/blog-post_169.html

http://altahqeeqat.blogspot.com/2013/03/blog-post_4648.html

http://altahqeeqat.blogspot.com/2013/03/blog-post_2531.html

http://altahqeeqat.blogspot.com/2013/03/blog-post_1299.html








Sunday 20 October 2013

امام زہری تدلیس سے بری ہیں از محقق العصر کفایت اللہ سنابلی حفظہ اللہ

0 comments
تدلیس سے متعلق ہمارا موقف یہی ہے کہ قلیل التدلیس اور کثیرالتدلیس میں فرق کیا جائے ۔
کثیر التدلیس مدلس رواۃ کا عنعنہ دیگر طرق میں عدم صراحت اور عدم شواہد ومتابعات کی صورت میں رد ہوگا۔
لیکن قلیل التدلیس مدلس کا عنعنہ عام حالات میں قبول ہوگا الا یہ کہ کسی خاص روایت میں عنعنہ کے ساتھ ساتھ تدلیس کا بھی ثبوت مل جائے یا تدلیس پرقرائن مل جائیں۔

یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ہم کثراالخطاء اور قلیل الخطاء راوی میں فرق کرتے ہیں اور یوں موقف اپناتے ہیں کہ:
کثیر الخطاء راوی کی مرویات عدم شواہد ومتابعات کی صورت میں رد ہوں گی ۔
اور قلیل الخطاء یعنی صدوق راوی کی روایات عام حالات میں مقبول و حسن ہوں گی الا یہ کسی خاص روایت میں اس کی غلطی صراحتا ثابت ہوجائے یا اس کی غلطی پر قرائن مل جائیں ۔

جہاں تک شیخ زبیرعلی زئی کی بات ہے تو شیخ کے پیش کردہ حوالہ جات کو اصل مراجع سے دیکھنے کے بعد میں اسی نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ قلیل وکثیر تدلیس میں عدم فرق والا موقف جمہور کا موقف ہرگز نہیں ہے ، شیخ صاحب کے پیش کردہ بیشتر حوالہ جات یا تو موضوع سے غیر متعلق ہیں مثلا امام احمد وغیرہ کی محض کتاب کی پسند سے یہ نتیجہ نکالنا کہ وہ کتاب کے تمام مندرجات سے بھی متفق ہیں۔
یا پھر اصل مدعاء پر دلالت ہی نہیں کرتے کیونکہ ابن حجر کے مطابق دوسرے طبقہ کے مدلس کے عنعنہ کو کسی نے رد کیا تو اس کا یہ لازمی مطلب نہیں کہ وہ طبقاتی تقسیم کا قائل نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس کے نزدیک یہ راوی یا تو کثیر التدلیس ہے یا خاص اس روایت میں اس کی تدلیس ثابت ہے یا تدلیس پر دیگرقرائن دلالت کرتے ہیں۔
یہ بہت عجلت میں انتہائی مختصر وضاحت ہے ظاہر ہے کہ اس مسئلہ پر ہم بھی مفصل رسالہ لکھنے کا عزم رکھتے ہیں ان شاء اللہ۔

امام زہری تدلیس سے بری ہیں

0 comments

آن لائن القرآن اکیڈمی

0 comments
مرکزالتحقیقات الاثریہ کے تحت آن لائن القرآن اکیڈمی کے تحت مختلف کلاسز کا اجرائ 
الحمدللہ عرصہ دراز سے مختلف علوم وفنون کی کلاسز جاری و ساری ہیں اب ہم نے اپنے قابل ترین شاگرد محترم جناب قاری ابوبکر عثمانی حفظہ اللہ کی خدمات حاصل کر لی ہیں جنھوں نے باقاعدہ تجوید و قرات محترم جناب امام القرائ قاری ابراھیم میرمحمدی حفظہ اللہ سے پڑھی ۔القرآن اکیڈمی کے تحت ناظرہ قرآن ،حفظ قرآن اور تجوید و ترجمہ قرآن کی کلاسز پڑھائیں گے دلچسپی رکھنے والے احباب رابطہ فرمائیں 
قاری ابوبکر عثمانی 03014128032
skype :abubakar .usmani2

Sunday 13 October 2013

چار دن قربانی کی مشروعیت اور حسن لغیرہ کی حجیت

0 comments
یہ کتاب شیخ کفایت اللہ سنابلی حفظہ اللہ کی ہے 
اور تحقیقی کتاب ہے اس میں قربانی کے چار دن ثابت کئے گئے ہیں اور راقم کی تحقیقی میں بھی چار دن ہی راجح ہیں ۔
اس کو ڈاون لوڑ کریں 

http://www.mediafire.com/download/gtde63eblt62in3/4+din+qurbani+.pdf
شیخ کفایت اللہ سنابلی حفظہ اللہ لکھتے ہیں :لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ موقف کہ ضعیف حدیث ضعیف سے مل کر کسی بھی صورت میں حسن لغیرہ یا مقبول و حجت نہیں ہوتی باطل و مردود ہے بلکہ عصر حاضر کی بدعت ہے چودہ سو سالہ دور میں کسی ایک بھی عالم نے ایسا موقف اختیار نہیں کیا ہے بلکہ معاصرین میں بھی حافظ زبیر علی زئی ”شفاہ اللہ از ناقل“کے علاوہ علم حدیث سے دلچسپی رکھنے والے کسی کسی بھی عالم کے بارے میں ہمیں معلوم نہیں کہ اس نے علی الاطلاق اس طرح کی بات کہی ہو دکتور خالدالدریس اور عمر و عبدالمنعم سلیم وغیرہ نے اس موضوع پر کتابیں لکھی ہیں مگر انھوں نے بھی یہ موقف نہیں اپنایا ہے کہ کسی بھی صورت میں ضعیف دوسری ضعیف سے مل کر تقویت نہیں پا سکتی یا مقبول و حجت نہیں یہو سکتی لہذا حسن لغیرہ کو علی الاطلاق رد کردینے والا نظریہ حافظ زبیر علی زئی ”شفاہ اللہ ا ز ناقل“کا تفرد ہے ۔(چار دن قربانی کی مروعیت ص:28۔29

Wednesday 18 September 2013

صحیح بخاری اور سنن الترمذی کی آن لائن کلاس !

0 comments

پاکستانی وقت

سنن الترمذی


7:50 am

صحیح بخاری 

 9:30am

مدرس:

ابن بشیر الحسینوی الاثری

مدرس :

دارالحدیث راجووال اوکارہ 

کلاس روم:

سکائیپ:ibrahim.alhusainwy

صرف جمعہ کو چھٹی ہوا کرے گی ۔

Wednesday 11 September 2013

پیغام ٹی وی دیکھیں

0 comments

<object id="SampleMediaPlayback" width="600" height="350" classid="clsid:d27cdb6e-ae6d-11cf-96b8-444553540000" type="application/x-shockwave-flash" name="SampleMediaPlayback"> <param value="http://www.paigham.tv/swfs/SampleMediaPlayback.swf" name="movie"></param><param value="high" name="quality"></param><param value="#000000" name="bgcolor"></param><param value="true" name="allowfullscreen"></param><param value="&src=rtmp://125.209.77.130/livepkgr/livestream1&autoHideControlBar=true&streamType=live&autoPlay=false&verbose=true" name="flashvars"></param> <embed id="SampleMediaPlayback" width="600" height="350" type="application/x-shockwave

Saturday 31 August 2013

الاصلاح ٹرسٹ کے تحت تربیتی ٹریننگ دینے کے لئے پروجیکٹر کی ضرورت ہے احباب توجہ فرمائیں

0 comments
مختلف تربیتی ٹریننگ کورسز کروانے کا پروگرام ہے جس کی خاطر پروجیکٹر کی ضرورت ہے اور اس کی لاگت تقریبا ایک لاکھ روپے ہے 
،تاکہ لوگوں میں دینی شعور پیدا کیا جائے اور باصلاحیت افراد پیدا کئے جائیں 
اس لئے اہل خیر توجہ فرمائیں ۔
بارک اللہ فیکم 
رابطہ:
ابن بشیر الحسینوی الاثری
00923024056187
ای میل:
ialhusainwy@gmail.com

شرح بخاری حدیث :1،انما الاعمال بالنیات

2 comments

امام ابن عسا کر نے اس حدیث کو اہمیت دیتے ہوئے اپنی کتاب اربعین میں اس باب کے تحت نقل کیا ہے :البلد الاول مکۃاولا التعریف بالبلد مکۃ حرسھا اللہ تعالی وھی البلد الامین ثانیا الحدیث راویہ (ص:۲۸)ابن عساکر نے اپنے شیخ عبداللہ بن محمد بن اسمعیل المکی سے یہ حدیث مکہ میں بیت اللہ کے سامنے باب ابراہیم خلیل کے طرف بیٹھ کر سنی ۔اورپھر اسی سند میں ہے کہ کریمہ بنت احمد نے یہ حدیث مکہ میں ہی بیان کی ۔
علامہ بغدادی نے اپنی سند سے بیان کیا ہے کہ ابو سلیمان بن اشعث نے کہا کہ فقہ کا دارومدار ہے اان میں ایک انما الاعمال بالنیات بھی ہے (الجامع لاخلاق الراوی :ج۵ص۱۷۴)
امام ابن االمنذر اس حدیث پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں :لایجزی التیمم ولا اداء شیء من الفرائض الا بنیۃ(الاوسط :ج۲ص۱۵۵)
خطیب بغدادی نے اپنی سند سے بیان کیا ہے کہ امام شافعی نے کہا :فقہ کے ستر ابواب میں یہ حدیث داخل ہوتی ہے (الجامع لاخلاق الراوی :ج۵ص۱۷۵)

نیت کی اہمیت:
ابن مبارک کے شیخ جعفر بن حیان نے کہا:ملاک ھذہ الاعمال النیات فان الرجل یبلغ بنیتہ مالا یبلغ بعملہ(الزہد للمروزی :ص۶۳)

تنبیہ :یہ حدیث صرف سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے عبدالمجید بن عبدالعزیز بن ابی رواد نے غلطی کرتے ہوئے اس کو ابو سعید خدر ی سے بیان کردیا ہے (الارشاد للخلیلی:ج۱ ص ۱۳۳۔۱۶۷،اعلام الحدیث للخطابی :ج۱ص۱۱۱،حلیۃ الاولیاء :ج۶ ص۳۴۲ )اور یہ بات باطل ہے اس کی کوئی اصل نہیں ۔جیسا کہ ابوحاتم (علل الحدیث ح:۳۶۲)نے اس کو باطل کہا ہے اور دیگر محدثین کے تبصرے پڑھنے کے لئے (الارشادات فی تقویۃ الاحادیث بالشواھد والمتابعات ص۲۰۹ )کا مطالعہ کریں ۔
تنبیہ:تمام طرق میں مرکزی راوی یحیی بن سعید ہے لیکن سھل بن صقیر نے اس کو ،دراوردی ،ابن عیینہ اور انس بن عیاض کے واسطے سے محمد بن عمر و بن علقمہ عن محمد بن ابراھیم سے روایت کیا ہے حالانکہ مذکورہ تینوں راوی اس حدیث کو یحیی بن سعید سے ہی بیان کرتے ہیں یہ سھل بن صقیر کی فحش غلطی ہے ۔(علل الدار قطنی:ج۲ص۱۹۲)
[COLOR="red"]فقہ السند:[/COLOR]
۱:محمد بن ابراہیم التیمی ثقہ مشہور راوی ہے اس کے باوجود امام احمد نے ان کے متعلق کہا:یروی احادیث منکرۃ،حالانکہ یہ انما الاعمال بالنیات کا مرکزی راوی ہے اس کا جواب یہ ہے امام احمد تفرد پر بھی منکر کا اطلاق کردیتے ہیں یعنی یہ راوی حدیث بیان کر نے میں اکیلا ہے ۔فافھم(الرفع والتکمیل :ص۱۳)
۲:یحیی بن سعید الانصاری سے بے شمار راوی اس حدیث کو بیان کرتے ہیں مثلا ابن عیینہ ،یزید بن ھارون ،مالک،سفیان ثور ی، حماد بن زید،عبدالوہاب ،لیث بن سعد ،ابوخالد الاحمر،حفص بن غیاث ،عبداللہ بن مبارک (المسند الجامع المعلل ج : ۳۳ص:۴۵)سفیان ثوری،حماد بن سلمہ ،شعبہ ،یحیی بن سعید القطان،ایک مخلوق جن کا شمار ناممکن ہے ،محمد بن علی الخشاب نے کہا :اس حدیث کو یحی بن سعید الانصاری سے دو سو پچاس راوی بیان کرتے ہیں ۔
امام ابوعبداللہ الانصاری کہتے ہیں : میں یہ حدیث یحیی بن سعید الانصاری کے سات سو شاگردوں سے لکھی ہے (البدر المنیر لابن المقن:ج۱ص۶۵۴۔۶۵۵)
اس پر حافظ ابن حجر تبصرہ کرتے ہیں کہ میں اس کو صحیح نہیں سمجھتا اور فرماتے ہیں کہ جب سے میں نے حدیث کو طلب کرنا شروع کیا ہے اس وقت سے لے کر اب تک میں جمع کرتا رہا ہوں میں سو بھی مکمل نہیں کر سکا ۔(فتح الباری ج۱ص۱۱)
ابن الملقن نے اس کی بہت عمدہ شرح بھی کی ہے (البدر المنیر لابن المقن:ج۱ص۶۵۴۔۶۶۵)
۳:سیدنا عمر سے صرف علقمہ بیان کرتے ہیں اور علقمہ سے صرف محمد بن ابراھیم اوران سے صرف یحی بن سعید الانصاری بیان کرتے ہیں ان سے آگے بے شمار لوگ بیان کرتے ہیں اسی کو بالجزم بیان کیا ہے ترمذی ،نسائی،بزار،ابن سکن ،اورالکنانی نے ۔(فتح الباری :ج۱ ص۱۱) علامہ خطابی نے کہا ہے یہ حدیث صرف اسی سند سے ہی پہچانی جاتی ہے اس لے علاوہ اس کی کوئی سند نہیں ہے ۔اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ابن حجر فرماتے ہیں :یہ بات اسی طرح ہے جس طرح انھوں نے کہی ہے مگر دو قیدوں کے ساتھ،پہلی قید :صحیح ہونا کیو نکہ یہ حدیث کئی معلول طرق سے بھی مروی ہے جن کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گا۔
دوسری قید:سیاق کے اعتبار سے اس کے معنی میں بے شمار روایات موجود ہیں جو مطلق کے متعلق ہیں مثلا من قاتل لتکون کلمۃ اللہ ہی العلیا فھو فی سبیل اللہ ۔اس طرح نیت کے متعلق بے شمار روایات صحیح ثابت ہیں ۔لیکن انما الاعمال بالنیات کے سیاق سے صرف ایک ہی ہے ۔(فتح الباری :ج۱ص۱۱)
ابن مندہ نے اس حدیث کو کئی ایک صحابہ کرام سے روایت ہونے کا دعوی کیا ہے (المعرفۃ لابن مندہ بحوالہ البدر المنیر لابن الملقن ج۱ص۶۵۶)جو کہ درست نہیں اسی طرح انھوں نے متابعات بھی ذکر کئے ہیں جو کہ ثابت نہیں واللہ اعلم بالصواب ۔ابن مندہ کی یہ تحقیق معتبر محدثین کے خلاف ہے ۔راجح بات یہی ہے کہ یحیی بن سعید الانصاری تک یہ سند منفرد ہی ہے ۔اور انماالاعمال باالنیات کے سیاق سے صرف سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے ۔علامہ فاکھانی لکھتے ہیں :قد روی من حدیث ابی سعید الخدری وابی ھریرۃ وابن عباس وابن عمر و معاویۃ وقالوا:لایصح مسندا الا من حدیث عمر بن الخطاب(ریاض الاحکام شرح عمدۃ الاحکام :ج۱ص۱۵)تحقیق یہ حدیث سیدنا ابو سعید الخدری ،سییدنا ابوھریرۃ ،سیدنا ابن عباس ،سیدنا ابن عمر اور سیدنا معاویۃ رضی اللہ عنھم سے روایت کی گئی ہے اور محدثین نے کہا ہے کہ مسند صرف سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی سے صحیح ثابت نہیں ۔
[COLOR="red"]اصول حدیث:
اس حدیث سے ثابت ہونے والے اصول :
[/COLOR]پہلا اصول :ابواسحاق الابناسی(المتوفی:۸۰۲) کہتے ہیں کہ امام ترمذی کے نزدیک حسن یہ ہے کہ وہ روایت کسی دوسری سند سے بھی مروی ہے یہ شرط صحیح حدیث میں نہیں ہے اس سے معلوم ہوا کہ جو حدیث صحیح ہوگی امام ترمذی کے نزدیک وہ حسن نہیں ہوگی جیسے انما الاعمال بالنیات ہے یہ صحیح ہے اس کی دوسری سند نہیں ہے اس لئے امام ترمذی کے نزدیک یہ حسن نہیں ہو گی ۔(الشذ الفیاح من مقدمہ ابن الصلاح ج:۱ص:۱۲۶)
دوسرا اصول:صحیح حدیث کے لئے دو سندوں کاہو نا شرط لگانا درست نہیں ہے بلکہ ایک سند بھی ہو لیکن وہ صحیح ہو تو اس حدیث کا قبول کرنا فرض ہے ۔
تیسرا اصول:خبر واحد جو صحیح ثابت ہو وہ یقین کا فائدہ دیتی ہے نہ کہ ظن کا جس طرح بعض نے باور کروایا ہے ۔یاد رہے جو بھی حدیث صحیح ثابت ہوجائے وہ یقین کا فائدہ دیتی ہے خصوصا صحیح بخاری و صحیح مسلم کی احادیث صحیح ہیں اور علم یقین کا فائدہ دیتی ہیں تفصیل کے لئے (احادیث الصحیحین بین الظن والیقین لحافظ ثناء اللہ الزاہدی )
چوتھا اصول:اما م ترمذی جس حدیث کو حسن صحیح کہیں اس کا مطلب راجح قول کے مطابق یہ بیان کیا جاتا ہے کہ اس حدیث کی دو سندیں ایک صحیح ہے اور دوسری حسن یا اس کو بعض محدثین نے صحیح کہا ہے اور بعض حسن۔لیکن حدیث انما الاعمال باالنیا ت کو بھی امام ترمذی نے حسن صحیح کہا ہے اور یہ خود اقرار بھی کیا ہے کہ لانعرفہ الا من حدیث یحیی بن سعید الانصاری ۔(سنن الترمذی :۱۶۴۷)راقم کی نظر میں اس کو کسی بھی محدث نے حسن نہیں کہا اور اس کی سند بھی ایک ہے اس کے باوجود امام ترمذی صاحب اس کو حسن صحیح فرما رہے ہیں !!!تو کہنا پڑے گا کہ یہ امام ترمذی کی اپنی خاص اصطلاح ہے۔
فائدہ: اس حدیث کا ذکر صحیح بخاری پر لکھے ہوئے مستدرکات  میں نہیں ملا ۔ 
فائدہ:امام بخاری نے یہ حدیث اپنے شیخ امام حمیدی سے بیان کی اور امام حمیدی اس حدیث کو اپنی مسند (۲۸)میں لائے ہیں یاد رہے کہ مسند حمیدی میں فمن کانت ہجرتہ الی اللہ ورسولہ فہجرتہ الی اللہ ورسولہ الفاظ موجود ہیں لیکن امام بخاری ان کو نہیں لائے ۔اور امام بخاری نے اس حدیث کو امام حمیدی ہی کی سند سے بیان کیا ہے ۔
علامہ خطابی کہتے ہیں :امام حمید ی کے بعض اثبات شاگردوں نے اس زیادتی کو بیان کیا ہے ،ابویحیی بن ابی میسرہ اور بشر بن موسی۔دیکھئے (اعلام الحدیث فی شرح صحیح البخاری للخطابی :ج۱ص۱۰۹)
اور بطور فائدہ عرض ہے کہ چونکہ امام بخاری اختصار کے قائل تھے اس لئے انھوں نے اختصار سے کام لیتے ہوئے امام حمیدی سے یہ لفظ چھوڑ دئیے ہیں اور اپنے استاد عبداللہ بن مسلمہ سے جب یہ روایت بیان کی ہے تب یہ الفاظ بھی بیان کر دئیے ہیں دیکھئے (صحیح البخاری:۵۴)
[COLOR="red"]باب کی حدیث سے مطابقت:[/COLOR]
وحی کے اہل اللہ تعالی اسی اپنے برگزیدہ بندے کو منتخب فرماتا تھا جس میں اخلاص اور حسن نیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہو تمام انبیاء کرام مخلص تھے اور ان کی نیتوں میں شک کرنا ان کی توہین ہے اسی لئے اللہ تعالی نے انھیں نبوت و رسالت کے عظیم منصب سے سرفراز فرمایا ۔
امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث کو وحی کے باب میں لاکر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وحی الہی برحق ہے اور جس پر وہ نازل ہوئی وہ بھی برحق شخصیات تھیں ،ان کی اطاعت فرض ہے ۔
اور یہ بھی بتانا مقصود ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی نیت بھی درست تھی اسی وجہ سے اللہ تعالی نے ان سے وحی الہی کو جمع کرنے کی توفیق عطافرمائی۔
اور یہ بھی سمجھانا تھا کہ اہل علم کو علم اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتا جب تک اس کی نیت درست نہ ہو گی ۔
[COLOR="red"]حدیث سے اخذ ہونے والا مسائل:[/COLOR]
یہ حدیث درج ذیل فوائد پر مشتمل ہے 
۱:تمام عبادات و معاملات کا دارو مدار نیتوں پر ہے ،نیت درست عمل بھی درست نیت خراب تو عمل بھی خراب اور بے فائدہ۔
۲:ہرہر عمل میں نیت کرنا ضروری ہے ۔
۳:ہجرت تب کارآمد ہے جب صحیح نیت سے کی جائے ۔
۴:شادی کروانا صاحب استطاعت پر فرض ہے لیکن اگر اس کی ہجرت کا مقصد صرف عورت سے شادی کرنا تھی تو اس کو ہجرت کا اجر نہیں ملے گا لیکن اس کی قرآن وحدیث کے مطابق کی ہوئی شادی درست ہے ۔
۵:ہر ہر انسان کی نیت ایک جیسی ناممکن ہے ،اچھی نیت میں خیر کثیر ہی نہیں بلکہ خیر ہی خیر ہے ۔اور اسے لئے لازم پکرنا چاہئے۔
۶:روایت بالمعنی بیان کرنا درست ہے جب معنی میں کوئی خرابی لازم نہ آئے ۔
۷:حدیث کا اختصار کرنا بھی جائز ہے جب کوئی خرابی لازم نہ آئے ۔
[COLOR="red"]حدیث کا صحیح مفہوم :[/COLOR]
استاد محترم المحدث النقاد حافظ عبدالمنان نورپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں :’’اس حدیث کی صحیح شرح میرے نزدیک یہ ہے کہ (انما الاعمال باالنیات )میں ذوات دینیہ کی نفی مراد ہے [یعنی نیتوں کے بغیر شرعی اعمال کا کوئی وجود نہیں]اور’’ بالنیات ‘‘میں شرعی نیتیں مراد ہیں اور اعمال ،اعمال صالحہ پر محمول ہیں اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی ﷺ نے (انما الاعمال باالنیات)میں جس چیز کو مجمل بیان کیا ہے اسی کی تفصیل (فمن کانت ھجرتہ ۔۔۔۔۔۔۔فھجرتہ الی ما ھاجر الیہ )میں بیان کی ہے ،پس ہجرت عمل صالح ہے اور پہلے مہاجر [اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف ہجرت کرنے والے کی ]کی نیت شرعی نیت ہے اور دوسرے مھاجر [دنیا یا عورت کی طرف ہجرت کرنے والے]کی نیت غیر شرعی ہے،پس پہلی ہجرت نیت شرعیہ کے ساتھ ملی تو شریعت کے ہاں اس کا وجود ثابت ہوگیا دوسری ہجرت نیت شرعیہ کے ساتھ نہ ملی تو اس کا وجود شرع میں ثابت نہ ہوا ،جس طرح نماز شرعی نیت کے ساتھ ثابت اور موجود ہوتی ہے اور اس کے بغیر موجود نہیں ہوتی ۔
پس جن اعمال میں نیت ہے اور جن میں نیت نہیں دونوں حدیث کے مدلول میں شامل اور داخل ہیں ،بغیر نیت والے اعمال کو حدیث کے مدلول سے نکالنا اور وضو باالنیۃ اور بغیر النیۃ کے صحیح ہونے کوقیاس کی طرف سونپنا بالکل ہی باطل ہے اور کئی دلائل سے غلط ہے ۔‘‘(ارشاد القاری الی نقد فیض الباری ج۱ص۱۲۷۔۱۲۸ مترجم)
[COLOR="Red"]نیت کے متعلق فقہی احکام و مسائل:[/COLOR]
اس پر راقم کا ایک تحقیقی رسالہ ہے جو شرعی احکام کا انسائیکلو پیڈیا مین مطبوع ہے 
حج میں نیت:
شیخ البانی رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ حج اور عمرہ میں نیت زبان سے کی جائے گی ؟
تو شیخ نے فرمایا کہ لبیک حجا او عمرۃ تو ذکر اور تلبیہ ہے نیت نہیں ہے اور جو نویت حجا او عمرۃ کہے اس کی کوئی اصل نہیں ہے ۔(دروس للشیخ )
فائدہ:امام ابن القیم رحمہ اللہ کی نیت کے متعلق تمام فقہی بحوث کو یکجا پڑھنے کے لئے (جامع الفقہ للیسری سید محمد ج۱ص۳۹تا۶۲)کا مطالعہ کریں ،راقم نے اس کتاب کو بہت مفید پایا ہے کیونکہ اس میں امام ابن القیم کی تمام منتشر بحوث فقہیہ کو ایک جگہ جمع کردیا گیا ہے اور یہ کتاب سات جلدوں میں ہے ۔اور دار الوفاء سے شایع ہوئی ہے ۔
فائدہ:(انور شاہ کشمیری دیوبندی نے صحیح بخاری کی پہلی حدیث انما الاعمال باالنیات کی تقریر میں بہت غلط استدلال کئے اور فقہ حنفی کے نیت کے باطل مسائل پر بحث کی تھی لیکن ان کا تفصیلی رد حافط محمد گوندلوی اور حافظ عبدالمنان محدث نورپوری رحمھما للہ نے کیا ہے فجزاھما اللہ خیرا ۔ارشاد القاری الی نقد فیض الباری ج:۱ ص: ۵۳تا۱۴۳مترجم)

شرح بخاری حدیث :1،انما الاعمال بالنیات

0 comments

امام ابن عسا کر نے اس حدیث کو اہمیت دیتے ہوئے اپنی کتاب اربعین میں اس باب کے تحت نقل کیا ہے :البلد الاول مکۃاولا التعریف بالبلد مکۃ حرسھا اللہ تعالی وھی البلد الامین ثانیا الحدیث راویہ (ص:۲۸)ابن عساکر نے اپنے شیخ عبداللہ بن محمد بن اسمعیل المکی سے یہ حدیث مکہ میں بیت اللہ کے سامنے باب ابراہیم خلیل کے طرف بیٹھ کر سنی ۔اورپھر اسی سند میں ہے کہ کریمہ بنت احمد نے یہ حدیث مکہ میں ہی بیان کی ۔
علامہ بغدادی نے اپنی سند سے بیان کیا ہے کہ ابو سلیمان بن اشعث نے کہا کہ فقہ کا دارومدار ہے اان میں ایک انما الاعمال بالنیات بھی ہے (الجامع لاخلاق الراوی :ج۵ص۱۷۴)
امام ابن االمنذر اس حدیث پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں :لایجزی التیمم ولا اداء شیء من الفرائض الا بنیۃ(الاوسط :ج۲ص۱۵۵)
خطیب بغدادی نے اپنی سند سے بیان کیا ہے کہ امام شافعی نے کہا :فقہ کے ستر ابواب میں یہ حدیث داخل ہوتی ہے (الجامع لاخلاق الراوی :ج۵ص۱۷۵)

نیت کی اہمیت:
ابن مبارک کے شیخ جعفر بن حیان نے کہا:ملاک ھذہ الاعمال النیات فان الرجل یبلغ بنیتہ مالا یبلغ بعملہ(الزہد للمروزی :ص۶۳)

تنبیہ :یہ حدیث صرف سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے عبدالمجید بن عبدالعزیز بن ابی رواد نے غلطی کرتے ہوئے اس کو ابو سعید خدر ی سے بیان کردیا ہے (الارشاد للخلیلی:ج۱ ص ۱۳۳۔۱۶۷،اعلام الحدیث للخطابی :ج۱ص۱۱۱،حلیۃ الاولیاء :ج۶ ص۳۴۲ )اور یہ بات باطل ہے اس کی کوئی اصل نہیں ۔جیسا کہ ابوحاتم (علل الحدیث ح:۳۶۲)نے اس کو باطل کہا ہے اور دیگر محدثین کے تبصرے پڑھنے کے لئے (الارشادات فی تقویۃ الاحادیث بالشواھد والمتابعات ص۲۰۹ )کا مطالعہ کریں ۔
تنبیہ:تمام طرق میں مرکزی راوی یحیی بن سعید ہے لیکن سھل بن صقیر نے اس کو ،دراوردی ،ابن عیینہ اور انس بن عیاض کے واسطے سے محمد بن عمر و بن علقمہ عن محمد بن ابراھیم سے روایت کیا ہے حالانکہ مذکورہ تینوں راوی اس حدیث کو یحیی بن سعید سے ہی بیان کرتے ہیں یہ سھل بن صقیر کی فحش غلطی ہے ۔(علل الدار قطنی:ج۲ص۱۹۲)
[COLOR="red"]فقہ السند:[/COLOR]
۱:محمد بن ابراہیم التیمی ثقہ مشہور راوی ہے اس کے باوجود امام احمد نے ان کے متعلق کہا:یروی احادیث منکرۃ،حالانکہ یہ انما الاعمال بالنیات کا مرکزی راوی ہے اس کا جواب یہ ہے امام احمد تفرد پر بھی منکر کا اطلاق کردیتے ہیں یعنی یہ راوی حدیث بیان کر نے میں اکیلا ہے ۔فافھم(الرفع والتکمیل :ص۱۳)
۲:یحیی بن سعید الانصاری سے بے شمار راوی اس حدیث کو بیان کرتے ہیں مثلا ابن عیینہ ،یزید بن ھارون ،مالک،سفیان ثور ی، حماد بن زید،عبدالوہاب ،لیث بن سعد ،ابوخالد الاحمر،حفص بن غیاث ،عبداللہ بن مبارک (المسند الجامع المعلل ج : ۳۳ص:۴۵)سفیان ثوری،حماد بن سلمہ ،شعبہ ،یحیی بن سعید القطان،ایک مخلوق جن کا شمار ناممکن ہے ،محمد بن علی الخشاب نے کہا :اس حدیث کو یحی بن سعید الانصاری سے دو سو پچاس راوی بیان کرتے ہیں ۔
امام ابوعبداللہ الانصاری کہتے ہیں : میں یہ حدیث یحیی بن سعید الانصاری کے سات سو شاگردوں سے لکھی ہے (البدر المنیر لابن المقن:ج۱ص۶۵۴۔۶۵۵)
اس پر حافظ ابن حجر تبصرہ کرتے ہیں کہ میں اس کو صحیح نہیں سمجھتا اور فرماتے ہیں کہ جب سے میں نے حدیث کو طلب کرنا شروع کیا ہے اس وقت سے لے کر اب تک میں جمع کرتا رہا ہوں میں سو بھی مکمل نہیں کر سکا ۔(فتح الباری ج۱ص۱۱)
ابن الملقن نے اس کی بہت عمدہ شرح بھی کی ہے (البدر المنیر لابن المقن:ج۱ص۶۵۴۔۶۶۵)
۳:سیدنا عمر سے صرف علقمہ بیان کرتے ہیں اور علقمہ سے صرف محمد بن ابراھیم اوران سے صرف یحی بن سعید الانصاری بیان کرتے ہیں ان سے آگے بے شمار لوگ بیان کرتے ہیں اسی کو بالجزم بیان کیا ہے ترمذی ،نسائی،بزار،ابن سکن ،اورالکنانی نے ۔(فتح الباری :ج۱ ص۱۱) علامہ خطابی نے کہا ہے یہ حدیث صرف اسی سند سے ہی پہچانی جاتی ہے اس لے علاوہ اس کی کوئی سند نہیں ہے ۔اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ابن حجر فرماتے ہیں :یہ بات اسی طرح ہے جس طرح انھوں نے کہی ہے مگر دو قیدوں کے ساتھ،پہلی قید :صحیح ہونا کیو نکہ یہ حدیث کئی معلول طرق سے بھی مروی ہے جن کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گا۔
دوسری قید:سیاق کے اعتبار سے اس کے معنی میں بے شمار روایات موجود ہیں جو مطلق کے متعلق ہیں مثلا من قاتل لتکون کلمۃ اللہ ہی العلیا فھو فی سبیل اللہ ۔اس طرح نیت کے متعلق بے شمار روایات صحیح ثابت ہیں ۔لیکن انما الاعمال بالنیات کے سیاق سے صرف ایک ہی ہے ۔(فتح الباری :ج۱ص۱۱)
ابن مندہ نے اس حدیث کو کئی ایک صحابہ کرام سے روایت ہونے کا دعوی کیا ہے (المعرفۃ لابن مندہ بحوالہ البدر المنیر لابن الملقن ج۱ص۶۵۶)جو کہ درست نہیں اسی طرح انھوں نے متابعات بھی ذکر کئے ہیں جو کہ ثابت نہیں واللہ اعلم بالصواب ۔ابن مندہ کی یہ تحقیق معتبر محدثین کے خلاف ہے ۔راجح بات یہی ہے کہ یحیی بن سعید الانصاری تک یہ سند منفرد ہی ہے ۔اور انماالاعمال باالنیات کے سیاق سے صرف سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے ۔علامہ فاکھانی لکھتے ہیں :قد روی من حدیث ابی سعید الخدری وابی ھریرۃ وابن عباس وابن عمر و معاویۃ وقالوا:لایصح مسندا الا من حدیث عمر بن الخطاب(ریاض الاحکام شرح عمدۃ الاحکام :ج۱ص۱۵)تحقیق یہ حدیث سیدنا ابو سعید الخدری ،سییدنا ابوھریرۃ ،سیدنا ابن عباس ،سیدنا ابن عمر اور سیدنا معاویۃ رضی اللہ عنھم سے روایت کی گئی ہے اور محدثین نے کہا ہے کہ مسند صرف سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی سے صحیح ثابت نہیں ۔
[COLOR="red"]اصول حدیث:
اس حدیث سے ثابت ہونے والے اصول :
[/COLOR]پہلا اصول :ابواسحاق الابناسی(المتوفی:۸۰۲) کہتے ہیں کہ امام ترمذی کے نزدیک حسن یہ ہے کہ وہ روایت کسی دوسری سند سے بھی مروی ہے یہ شرط صحیح حدیث میں نہیں ہے اس سے معلوم ہوا کہ جو حدیث صحیح ہوگی امام ترمذی کے نزدیک وہ حسن نہیں ہوگی جیسے انما الاعمال بالنیات ہے یہ صحیح ہے اس کی دوسری سند نہیں ہے اس لئے امام ترمذی کے نزدیک یہ حسن نہیں ہو گی ۔(الشذ الفیاح من مقدمہ ابن الصلاح ج:۱ص:۱۲۶)
دوسرا اصول:صحیح حدیث کے لئے دو سندوں کاہو نا شرط لگانا درست نہیں ہے بلکہ ایک سند بھی ہو لیکن وہ صحیح ہو تو اس حدیث کا قبول کرنا فرض ہے ۔
تیسرا اصول:خبر واحد جو صحیح ثابت ہو وہ یقین کا فائدہ دیتی ہے نہ کہ ظن کا جس طرح بعض نے باور کروایا ہے ۔یاد رہے جو بھی حدیث صحیح ثابت ہوجائے وہ یقین کا فائدہ دیتی ہے خصوصا صحیح بخاری و صحیح مسلم کی احادیث صحیح ہیں اور علم یقین کا فائدہ دیتی ہیں تفصیل کے لئے (احادیث الصحیحین بین الظن والیقین لحافظ ثناء اللہ الزاہدی )
چوتھا اصول:اما م ترمذی جس حدیث کو حسن صحیح کہیں اس کا مطلب راجح قول کے مطابق یہ بیان کیا جاتا ہے کہ اس حدیث کی دو سندیں ایک صحیح ہے اور دوسری حسن یا اس کو بعض محدثین نے صحیح کہا ہے اور بعض حسن۔لیکن حدیث انما الاعمال باالنیا ت کو بھی امام ترمذی نے حسن صحیح کہا ہے اور یہ خود اقرار بھی کیا ہے کہ لانعرفہ الا من حدیث یحیی بن سعید الانصاری ۔(سنن الترمذی :۱۶۴۷)راقم کی نظر میں اس کو کسی بھی محدث نے حسن نہیں کہا اور اس کی سند بھی ایک ہے اس کے باوجود امام ترمذی صاحب اس کو حسن صحیح فرما رہے ہیں !!!تو کہنا پڑے گا کہ یہ امام ترمذی کی اپنی خاص اصطلاح ہے۔
فائدہ: اس حدیث کا ذکر صحیح بخاری پر لکھے ہوئے مستدرکات  میں نہیں ملا ۔ 
فائدہ:امام بخاری نے یہ حدیث اپنے شیخ امام حمیدی سے بیان کی اور امام حمیدی اس حدیث کو اپنی مسند (۲۸)میں لائے ہیں یاد رہے کہ مسند حمیدی میں فمن کانت ہجرتہ الی اللہ ورسولہ فہجرتہ الی اللہ ورسولہ الفاظ موجود ہیں لیکن امام بخاری ان کو نہیں لائے ۔اور امام بخاری نے اس حدیث کو امام حمیدی ہی کی سند سے بیان کیا ہے ۔
علامہ خطابی کہتے ہیں :امام حمید ی کے بعض اثبات شاگردوں نے اس زیادتی کو بیان کیا ہے ،ابویحیی بن ابی میسرہ اور بشر بن موسی۔دیکھئے (اعلام الحدیث فی شرح صحیح البخاری للخطابی :ج۱ص۱۰۹)
اور بطور فائدہ عرض ہے کہ چونکہ امام بخاری اختصار کے قائل تھے اس لئے انھوں نے اختصار سے کام لیتے ہوئے امام حمیدی سے یہ لفظ چھوڑ دئیے ہیں اور اپنے استاد عبداللہ بن مسلمہ سے جب یہ روایت بیان کی ہے تب یہ الفاظ بھی بیان کر دئیے ہیں دیکھئے (صحیح البخاری:۵۴)
[COLOR="red"]باب کی حدیث سے مطابقت:[/COLOR]
وحی کے اہل اللہ تعالی اسی اپنے برگزیدہ بندے کو منتخب فرماتا تھا جس میں اخلاص اور حسن نیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہو تمام انبیاء کرام مخلص تھے اور ان کی نیتوں میں شک کرنا ان کی توہین ہے اسی لئے اللہ تعالی نے انھیں نبوت و رسالت کے عظیم منصب سے سرفراز فرمایا ۔
امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث کو وحی کے باب میں لاکر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وحی الہی برحق ہے اور جس پر وہ نازل ہوئی وہ بھی برحق شخصیات تھیں ،ان کی اطاعت فرض ہے ۔
اور یہ بھی بتانا مقصود ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی نیت بھی درست تھی اسی وجہ سے اللہ تعالی نے ان سے وحی الہی کو جمع کرنے کی توفیق عطافرمائی۔
اور یہ بھی سمجھانا تھا کہ اہل علم کو علم اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتا جب تک اس کی نیت درست نہ ہو گی ۔
[COLOR="red"]حدیث سے اخذ ہونے والا مسائل:[/COLOR]
یہ حدیث درج ذیل فوائد پر مشتمل ہے 
۱:تمام عبادات و معاملات کا دارو مدار نیتوں پر ہے ،نیت درست عمل بھی درست نیت خراب تو عمل بھی خراب اور بے فائدہ۔
۲:ہرہر عمل میں نیت کرنا ضروری ہے ۔
۳:ہجرت تب کارآمد ہے جب صحیح نیت سے کی جائے ۔
۴:شادی کروانا صاحب استطاعت پر فرض ہے لیکن اگر اس کی ہجرت کا مقصد صرف عورت سے شادی کرنا تھی تو اس کو ہجرت کا اجر نہیں ملے گا لیکن اس کی قرآن وحدیث کے مطابق کی ہوئی شادی درست ہے ۔
۵:ہر ہر انسان کی نیت ایک جیسی ناممکن ہے ،اچھی نیت میں خیر کثیر ہی نہیں بلکہ خیر ہی خیر ہے ۔اور اسے لئے لازم پکرنا چاہئے۔
۶:روایت بالمعنی بیان کرنا درست ہے جب معنی میں کوئی خرابی لازم نہ آئے ۔
۷:حدیث کا اختصار کرنا بھی جائز ہے جب کوئی خرابی لازم نہ آئے ۔
[COLOR="red"]حدیث کا صحیح مفہوم :[/COLOR]
استاد محترم المحدث النقاد حافظ عبدالمنان نورپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں :’’اس حدیث کی صحیح شرح میرے نزدیک یہ ہے کہ (انما الاعمال باالنیات )میں ذوات دینیہ کی نفی مراد ہے [یعنی نیتوں کے بغیر شرعی اعمال کا کوئی وجود نہیں]اور’’ بالنیات ‘‘میں شرعی نیتیں مراد ہیں اور اعمال ،اعمال صالحہ پر محمول ہیں اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی ﷺ نے (انما الاعمال باالنیات)میں جس چیز کو مجمل بیان کیا ہے اسی کی تفصیل (فمن کانت ھجرتہ ۔۔۔۔۔۔۔فھجرتہ الی ما ھاجر الیہ )میں بیان کی ہے ،پس ہجرت عمل صالح ہے اور پہلے مہاجر [اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف ہجرت کرنے والے کی ]کی نیت شرعی نیت ہے اور دوسرے مھاجر [دنیا یا عورت کی طرف ہجرت کرنے والے]کی نیت غیر شرعی ہے،پس پہلی ہجرت نیت شرعیہ کے ساتھ ملی تو شریعت کے ہاں اس کا وجود ثابت ہوگیا دوسری ہجرت نیت شرعیہ کے ساتھ نہ ملی تو اس کا وجود شرع میں ثابت نہ ہوا ،جس طرح نماز شرعی نیت کے ساتھ ثابت اور موجود ہوتی ہے اور اس کے بغیر موجود نہیں ہوتی ۔
پس جن اعمال میں نیت ہے اور جن میں نیت نہیں دونوں حدیث کے مدلول میں شامل اور داخل ہیں ،بغیر نیت والے اعمال کو حدیث کے مدلول سے نکالنا اور وضو باالنیۃ اور بغیر النیۃ کے صحیح ہونے کوقیاس کی طرف سونپنا بالکل ہی باطل ہے اور کئی دلائل سے غلط ہے ۔‘‘(ارشاد القاری الی نقد فیض الباری ج۱ص۱۲۷۔۱۲۸ مترجم)
[COLOR="Red"]نیت کے متعلق فقہی احکام و مسائل:[/COLOR]
اس پر راقم کا ایک تحقیقی رسالہ ہے جو شرعی احکام کا انسائیکلو پیڈیا مین مطبوع ہے 
حج میں نیت:
شیخ البانی رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ حج اور عمرہ میں نیت زبان سے کی جائے گی ؟
تو شیخ نے فرمایا کہ لبیک حجا او عمرۃ تو ذکر اور تلبیہ ہے نیت نہیں ہے اور جو نویت حجا او عمرۃ کہے اس کی کوئی اصل نہیں ہے ۔(دروس للشیخ )
فائدہ:امام ابن القیم رحمہ اللہ کی نیت کے متعلق تمام فقہی بحوث کو یکجا پڑھنے کے لئے (جامع الفقہ للیسری سید محمد ج۱ص۳۹تا۶۲)کا مطالعہ کریں ،راقم نے اس کتاب کو بہت مفید پایا ہے کیونکہ اس میں امام ابن القیم کی تمام منتشر بحوث فقہیہ کو ایک جگہ جمع کردیا گیا ہے اور یہ کتاب سات جلدوں میں ہے ۔اور دار الوفاء سے شایع ہوئی ہے ۔
فائدہ:(انور شاہ کشمیری دیوبندی نے صحیح بخاری کی پہلی حدیث انما الاعمال باالنیات کی تقریر میں بہت غلط استدلال کئے اور فقہ حنفی کے نیت کے باطل مسائل پر بحث کی تھی لیکن ان کا تفصیلی رد حافط محمد گوندلوی اور حافظ عبدالمنان محدث نورپوری رحمھما للہ نے کیا ہے فجزاھما اللہ خیرا ۔ارشاد القاری الی نقد فیض الباری ج:۱ ص: ۵۳تا۱۴۳مترجم)

حافظ زبیر علی زئی صاحب کی تحقیقات سے شیخ کفایت اللہ سنابلی کا رجوع

3 comments

شیخ کفایت اللہ حفظہ اللہ نے پہلے لکھا تھا:''الحمدللہ ہم حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کا بہت احترام کرتے ہیں اور ان کی تحریروں سے بکثرت استفادہ کرتے ہیں اور ان کے رسالہ الحدیث کو ممتاز رسالوں میں شمار کرتے ہیں اور عموما احادیث کے سلسلے میں ہم حافظ موصوف ہی کے فیصلہ کو ترجیح دیتے ہیں ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس عبارت پر حاشیہ لکھتے ہیں :زبیر علی زئی صاحب پر ہمارا یہ اعتماد قطعا باقی نہیں ہے،ہماری اس بات کو منسوخ سمجھا جائے جس طرح محدثین بعض رواۃ کی توثیق کردیتے ہیں اور بعد میں اصل حقائق سے آگاہی کے بعداسے مجروح قرار دیتے ہیں کچھ اسی طرح کا معاملہ ہمارے ساتھ پیش آیا ہے ۔دراصل ہم نے حسن ظن کی بنیاد پر یہ باور کیا تھا کہ زبیر علی زئی صاحب محدثین وائمہ کے حوالے سے جو کچھ نقل کرتے ہیں ان سب میں پوری امانت ودیانت کا ثبوت دیتے ہوں گے اسی طرح تحقیق حدیث میں جن قواعد و اصول کو بنیاد بناتے ہیں وہ بھی محدثین سے ثابت ہوں گے ۔
لیکن جب ہمارا ان سے مناقشہ ہوااور ہم نے ضرورت محسوس کی کہ ان کی پیش کردہ باتوں کو اصل مراجع سے دیکھا جائے تو اس مرحلہ میں یہ اوجھل حقیقت منکشف ہوئی کہ
زبیرعلی زئی صاحب اپنے اندر بہت ساری کمیاں رکھتے ہیں مثلا
۱:خود ساختہ اصولوں کو بلا جھجھک محدثین کا اصول بتاتے ہیں ۔
۲:بہت سارے مقامات پر محدثین کی باتیں اور عربی عبارتیں صحیح طرح سے سمجھ نہیں پاتے۔
۳:اور کہیں محدثین کی غلط ترجمانی کرتے ہیں ۔
۴:یابعض محدثین و اہل علم کی طرف ایسی باتیں منسوب کرتے ہیں جن سے وہ بری ہوتے ہیں ۔
۵:اور کسی سے بحث کے دوران مغالطہ بازی کی حد کر دیتے ہیں۔
۶:اور فرق مخالف کے حوالے سے ایسی ایسی باتیں نقل کرتے ہیں یا اس کی طرف ایسی باتیں منسوب کرتے ہیں جو اس کے خواب و خیال میں بھی نہیں ہوتیں ۔
ان تمام کوتاہیوں کے با وجود زبیر علی زئی صاحب کے اندرایک اہم خوبی یہ ہے کہ وہ جرح و تعدیل کے اقوال کی بھی چھان بین ضروری سمجھتے ہیں کہ آیا وہ ناقدین سے ثابت ہیں کہ نہیں یہ ایک اہم خوبی ہے اور محض اسی امتیاز نے راقم السطورکو ان کی تحریروں کی طرف راغب کیا لیکن افسوس کہ اس بابت بھی آنجناب کی تحقیقات پر اس لحاظ سے سوالیہ نشان لگ جاتا ہے کہ مبادا یہاں بھی موصوف نے وہی طرز عمل اختیار کیا ہوگا جس کی طرف سطور بالا میں اشارہ کیا گیا ہے ۔(زبیر علی زئی کے رد میں دوسری تحریر ص:۱وحاشیہ :۱)بحوالہ:https ://dl.dropboxusercontent.com/u/39094119/yazeed/zubair%20ali%20zai%20par%20rad/kiya%20yazeed%20sunnat%20ko%20badalne%2

0wale%202.pdf

Sunday 25 August 2013

شیخ کفایت اللہ سنابلی حفظہ اللہ کے شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کے رد پر مشتمل بلوگ

0 comments


علمی و منھجی اختلاف کی بہت زیادہ اہمیت ہوتی ہے اس پر اہل علم کو توجہ دینی چاہئے اسی خاطر شیخ کفایت اللہ حفظہ اللہ کے شیخ زبیر علی زئی صاحب کے رد میں مضامین پیش خدمت ہیں تاکہ قارئین پر حق واضح ہو سکے 

مقدمہ شرح صحیح بخاری لابن بشیر الحسینوی الاثری

0 comments



راقم اللہ تعالی کی توفیق خاص سے شرح مسلم سے فارغ ہو چکا ہے والحمدللہ 
اور اس سال سے دارالحدیث راجووال اوکاڑہ میں صحیح بخاری کی تدریس کر رہا ہے اور شرح پر کام بھی شروع کردیا ہے اللہ تعالی میر ی مدد فرمائے اور اس کو میرے لئے آسان فرمادے اور اس کی تکمیل کی توفیق بھی عطافرمائے آمیین ۔
دعا لینے کی غرض سے یہ شرح اور علمی فوائد انٹر نیٹ پر بھی شایع کرتا رہوں گا ان شاء اللہ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
۸ا اگست ۲۰۱۳بروز ہفتہ جامعہ دارالحدیث الجامعۃ الکمالیۃ راجووال اوکاڑہ کی پہلی میٹنگ میں راقم کو صحیح البخاری کی تدریس کی ذمہ داری سونپی گئی اس میٹنگ میں شیخ دکتور عبدالرحمن یوسف ،شیخ دکتور عبیدالرحمن محسن ،شیخ عنایت اللہ ،شیخ رفیق زاہد ،شیخ محمد فاروق ،شیخ آصف سلفی اور راقم الحروف(ابن بشیر الحسینوی )حفظھم اللہ موجود تھے ۔
اللہ تعالی مجھے اس کی تدریس پر کما حقہ محنت کرنے کی توفیق عطافرمائے آمین ،بیس اگست بروز سوموار کو صحیح بخاری کی تدریس کی ابتدا کی ہے ان شاء اللہ 
دوران مطالعہ جو فوائد ملیں گے انھیں ترتیب دیتا رہوں گا تاکہ بعد میں صحیح کی شرح ممکن ہو سکے ان شاء اللہ ۔
راقم پہلی مرتبہ صحیح بخاری کی تدریس کررہا ہے اس سے پہلے جامعہ محمد بن اسمعیل البخاری گندھیاں اوتاڑ قصور میں عرصہ آٹھ سال تدریس کی اس میں تین دفعہ صحیح مسلم اور تین دفعہ موطا امام مالک پڑھانے کی سعادت حاصل ہوئی صحیح مسلم کی تدریس کے دورا ن صحیح مسلم کی شرح بھی مکمل لکھی جو اب مکتبہ قدوسیہ لاہور سے شایع ہو رہی ہے والحمدللہ علی ذلک ۔
صحیح بخاری کا نام:
اس کا مشہور نام جو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے وہ یہ ہے :الجامع الصحیح المسند من حدیث رسول اللہ ﷺ وسننہ وایامہ ۔(ھدی الساری:ص۶)یہی نام طاہر الجزائری (توجیہ النظر ص۲۲۰)وغیرہ نے نقل کیا ہے جو کہ درست نہیں ۔
بلکہ اس کے برعکس حافظ نووی نے اس کا نام اس طرح لکھا ہے اور دلائل کی روشنی میں یہی صحیح ہے :(الجامع المسند الصحیح المختصر من امور رسول اللہ ﷺ وسننہ وایامہ (تھذیب الاسماء واللغات للنووی:ج۱ص۷۳)یہی نام ابن رشید السبتیی الاندلسی (افادۃ النصیح فی التعریف بسند الجامع الصحیح ص۱۶)اور علامہ عینی (عمدۃ القاری:ج۱ص۵)میں لیا ہے ۔دکتور نورالدین عتر نھے بھی اسی نام کو صحیح ثابت کیا ہے ۔(الامام الترمذی والموازنۃ بین جامعہ و بین الصحیحین لنور الدین عترص۴۱)اور یہی تحقیق ابوغدہ حنفی صاحب نے پیش کی ہے بلکہ انھوں نے تو قدیم دو قلمی نسخوں سے بھی یہی نام ثابت کیا ہے ۔دیکھئے((تحقیق اسمی الصحیحین واسم جامع الترمذ ی لابی غدہ)
تنبیہ:علامہ جمال الدین قاسمی نے بھی نام مین غلطی کی ہے مثلا :الجامع الصحیح المسند من حدیث رسول اللہ ﷺ وسننہ وایامہ ۔(حیاۃ البخاری ص۱۲)
صحیح بخاری کب لکھنی شروع کی اور کب مکمل ہوئی ؟
۲۳۲ ھ کو مکمل لکھ لی تھی اور ۲۱۶ھ کو لکھنی شروع کی تھی اس وقت آپ کی عمر ۲۲ سال تھی کیونکہ آپ ۱۹۴ ھ کو پیدا ہوئے تھے گویا آپ ابھی ۳۸ سال کے تھے کہ آپ نے صحیح بخاری مکمل لکھ لی تھی۔اور آپ ۶۵۲ ھ کو فوت ہوئے گویا آپ کتاب لکھنے کے ۲۴ سال بعد فوت ہوئے ۔
یہ تخمینہ ہے امام بخاری اور امام عقیلی کے ایک قول سے اخذ کیا گیا ہے ۔اور وہ قول یہ ہے :امام بخاری نے فرمایا کہ میں نے یہ کتاب سولہ سالوں میں لکھی اور امام عقیلی نے کہا کہ جب امام بخاری نے صحیح بخاری لکھ لی پھر امام احمد بن حنبل ،ابن معین،اور علی بن مدینی پر پیش کی انھوں نے اس کو بہت اچھا گردانا اور اس کے صحیح ہونے کی گواہی دی سوائے چار احادیث کے لیکن ان میں بھی امام بخاری کی تحقیق راجح ہے ۔(ہدی الساری ج ۲ ص۲۰۲)تنبیہ :یاد رہے یہ واقعہ صحیح ثابت نہیں ہے کیو نکہ اس کی سند میں من یقول مجھول ہیں لھذا یہ سارا تخمینہ درست نہ ہوا ۔یہ تحقیق نا سدید ابو غدہ حنفی صاحب تلمیذ کوثری جھمی نے کی ہے اور خود کہہ بھی دیا ہے کہ اس واقعے کی سند مجہول ہے ۔(تحقیق اسمی الصحیحین واسم جامع الترمذ ی لابی غدہ ص:۷۲۔۷۳)

Thursday 25 July 2013

مرکز امام بخاری گندھیاں اوتاڑ قصور کا میٹرک 2013کا شاندار رزلٹ

0 comments
اللہ کے توفیق سے ہمارے جامعہ میں دینی علوم کی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری علوم کی طرف بھی کافی محنت کروائ جارہی ہے اس سال بھی طلبائ نے علاقہ بھر میں اچھے نمبر حاصل کئے 
مبشر:864
عدیل:836
عبدالرحمان:778
امتیاز:690
وقاص652
امیر حمزہ :643
آصف سلفی:583
ابوبکر :578
عبدالرزاق:549
اعظم:565
اچھے رزلٹ پر ہم اللہ تعالی کے شکر گزار ہے والحمدللہ


دارالحدیث راجووال اوکاڑہ کا میٹرک 2013 میں بورڈ سے دوسری پوزیشن حاصل کی

0 comments

اس جامعہ کا رزلٹ ہمیشہ کی طرح اس بار انتہائی قابل تعریف رہا 
اب تو اایک طالب علم نے ساہیوال بورڈ سے دوسری پوزیشن حاصل کی والحمدللہ
حافظ عبداللہ سلیم ولد بارک اللہ 

909
نمبر لے کر بورڈ سے دوسری پوزیشن حاصل کی
باقی رزلٹ بھی جلد شیئر کردیا جائے گا

Monday 15 July 2013

دارالحدیث الجامعۃ الکمالیۃ راجووال اوکاڑہ مھتمم پروفیسر ڈاکٹر عبیدالرحمن محسن حفظہ اللہ

0 comments
جون ۲۰۱۳ سےمجھے میرے استاد محترم فضیلۃ الشیخ حافظ محمد شریف حفظہ اللہ نے اس جامعہ میں تدریس و ریسرچ کے لئے بھیج دیا ہے اللہ تعالی میری اس ہجرت کو دین کی اشاعت کے لئے خیر وبرکت کا سبب بنائے ٓ۔آمین
اس جامعہ کا تعارف:
دارالحدیث الجمامعۃ الکمالیۃ کی ۲۰۱۳ کی رپورٹ

Wednesday 12 June 2013

رمضان المبارک کی بابرکت ساعتوں میں آن لائن کلاس (دورہ علوم حدیث )میں شرکت فرمائیں

0 comments

آن لائن کلاسز کافی عرصے سے جاری ہیں والحمدللہ جن کی تفصیل اس لنک سے دیکھی جا سکتی ہے

رمضان میں راقم کو جامعہ سے چھٹی ہوتی ہے اس لئے بعض ساتھیوں کے توجہ دلانے سے رمضان میں آن لائن دورہ علوم حدیث کرایا جائے گا ان شاء اللہ


اس کلاس میں


اصول حدیث 
کتب حدیث کا منھج 
کتب رجال کا منھج 
تحقیق و تخریج 
اور فرق باطلہ کے احادیث سے باطل استدلال اور ان کی حقیقت 


جیسے اہم موضوعات زیر بحث لائیں گے ،
اپنے قیتمی وقت سے کچھ وقت علوم حدیث کلاس کو بھی دیں تاکہ ہمیں علوم حدیث سے کچھ تعارف ہو ۔
اس لئے اس کلا س مین شرکت فرمائیں 
ٹائم کلاس :پاکستانی ٹائم کے مطابق صبح دس بجے سے لے کر بارہ بجے تک 
یہ کلاس بیک وقت 
سکائیپ:Ibrahim.alhusainwy
پالٹالک:
Almahad alhusainwyia

دونوں پر نشر کی جائے گی ان شائ اللہ