آپ کی معلومات

Friday 26 April 2013

الجامع الکامل فی الحدیث الصحیح الشامل

0 comments


تالیف :
محدث العصر دکتور عبداللہ الاعظمی حفظہ اللہ المعروف بالضیائ
25 جلدوں پر مشتمل ہے 
زیر طبع :دارالسلام الریاض 
(راقم الحروف نے الجامع الکامل کی پانچ جلدوں کا بالاستعاب مطالعہ کیا ہے اپنے مطالعہ کی بنا پر خراج تحسین پیش کر رہا ہوں )
اللہ رب العزت کروڑوں رحمتیں نازل کرے ان لوگوں پر جن کا اوڑھنا بچھونا قرآن و حدیث ہے انھیں خوش قسمت لوگوں میں سے ہمارے ممدوح امت مسلمہ کے محسن الاستاذ المحقق المحدث الدکتور عبداللہ الاعظمی المعروف بالضیاء حفظہ اللہ بھی ہیں۔جنھوں نے پچیس جلدوں پر مشتمل کتاب (الجامع الکامل )تالیف فرما کر کتب حدیث میں بے مثال اضافہ فرما دیا یہ صرف کہنے کو حدیث پر ایک کتاب ہی نہیں بلکہ اسم با مسمی ہے ۔
(الجامع)تمام صحیح احادیث کو جمع کرنے والی والی ایسی مثال سلف و خلف میں نہیں ملتی منتشر صحیح احادیث ایک جگہ فقہی ترتیب سے صرف الجامع الکامل ہی میں مل سکتی ہیں ۔
(الکامل)دین اسلام کا ہر مسئلہ کے متعلق قرآن و حدیثکے تمام دلائل جمع کر دیئے ہیں اگر ایک مسئلہ میں ایک سو احادیث صحیح ہوں تو وہ تمام کی تمام اس کتاب میں جمع شدہ ملیں گی ۔ان شاء اللہ 
(الحدیث الصحیح )صرف مرفوع صحیح احادیث کا انتخاب کیا گیا ہے کسی ضعیف حدیث سے استدلال نہیں کیا گیا تمام دین قرآن و حدیث کی صورت میں ایک جگہ جمع کر دیا ہے ۔والحمد للہ ۔ 
(الشامل )مصنف حفظہ اللہ کا دعوی ہے کہ انھوں نے کسی صحیح حدیث کو چہوڑا نہیں ،ہر ہر صحیح حدیث کو اس میں جمع کیا گیا ہے خوہ وہ کہاں بھی ہو ۔والحمد للہ ۔
الجامع الکامل کے امتیازات :

١:احادیث کی تخریج و تحقیق بالاستعاب کی گئی جو حدیث بھی لائی گئی اس کی تخریج و تحقیق ضرور کی گئی محدثین کے اصولوں کی روشنی میں اور کوئی شاذ اصول استعمال نہیں کیا گیا اور ہر حدیث پر صحت کا حکم ضرور لگایا گیا ۔
٢:جابجا فقہی مسائل ،لغوی بحوث مشکل الحدیث کا بہترین حل کتاب میں بے نظیر حسن اور جامعیت پیدا کر دی ۔
٣:ہر مسئلہ میں احادیث صحیحہ کے تحت وارد ہونے والی ضعیف احادیث کی بھی نشان دہی کر دی گئی ،حقیقت میں یہ انداز بیمار اور کمزور شفا پہنچاتا ہے مخالف کی دلیل کا توڑ کرتا ہے اور غیر ثابت حدیث کی طرف رہنمائی کرتا ہے ۔
یہ کتاب اس دور میں لکھی گئی جب لوگوں نے حدیث رسول پر محنت کرنا چھوڑ دی تھی عامی تو عامی پوری زندگی پڑھنے پڑھانے والے بھی حدیث کی چند ایک محدود کتب کے مطالعہ سے تجاوز نہیں کرتے ۔مثلا اگر کوئی استاذ محترم حدیث پڑھا رہے ہیں احادیث پر وسعت نظر ،تمام کتب حدیث کا دقیق نظر سے مطالعہ ،حدیث کے تمام منتشر الفاظ پر نظر اور فنون حدیث پر کڑی نظر خال خال ملتی ہے ۔
الجامع الکامل حدیث کے اساتذہ کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی مثل ہے جو ابواب کسی حدیث کی کتاب کے پڑھائے جا رہے ہوں تو وہی ابواب الجامع الکامل سے بھی مطالعہ کیا جائے تو گویا استاد صاحب نے صرف نصابی کتاب کا ہی مطالعہ نہیں کیا بلکہ اس نے اسی مسئلہ کے متعلق تمام احادیث خواہ وہ صحیح ہوں یا ضعیف کا مطالعہ کر لیا ہے خواہ وہ صحیح بخاری ،مسلم میں ہوں ،یا کتب سنن میں یا مسانید میں یا معاجم میں یا اجزاء میں یا مصنفات یا غریب الحدیث میں یا کتب رجال میں یا دیگر کتب میں ہوں ۔اور پھر ہر حدیث کی تحقیق و تخریج سے آگاہی بھی کہ کونسی صحیح ہے اور کونسی ضعیف ،استدلال کس سے کرنا اور کس سے نہیں اگر صحیح ہے تو کیوں اور اگر کوئی حدیث ضعیف ہے تو کیوں؟والحمدللہ 
یہ کتاب فن حدیث میں ماہر رجال جنم دے گی اور موجودہ کمی کو پورا کرے گی ان شاء اللہ ۔
اللہ رب العزت اس کے جامع کی حفاظت فرمائے ان کی زندگی اور مال میں برکت فرمائے اور اسن کی دیگر کتب اور اس کتاب کو ان کے لئے ذریعہ نجات بنائے اور ان کی حدیث پر اس عظیم ترین خدمت کے روز قیامت حدیث کے خادموں میں ان کا شمار فرمائے ۔آمین

Thursday 25 April 2013

میں ڈاکٹر ذاکر نائیک بات کر رہا ہوں !

1 comments

میں ڈاکتر ذاکر نائیک بات کر رہا ہوں !
راقم22 اپریل 2013 کو  شام کے کھانے میں مصروف تھا فون آیا رسیو کیا تو مدینہ منورہ کے عظیم محدث شیخ ضیاء الرحمن اعظمی حفظہ اللہ نے سلام کہا اور فورا شیخ محترم کی آواز کو پہچان گیا اور بڑی خوشی میں ان سے ان کی صحت و عافیت دریافت کی ،انھوں نے فرمایا کہ میں بالکل ٹھیک ہوں ۔۔۔۔
شیخ محترم نے مجھ سے الجامع الکامل فی الحدیث الصحیح الشامل کے متعلق دریافت کیا کہ کب تک شایع ہو رہی ہے تو میں نے جواب دیا کہ ایک خبر کے مطابق وہ پریس میں جا چکی ہے لیکن کنفرم نہیں ۔۔۔۔۔۔
اتنے میں  شیخ محترم سے موبائل کسی اور شخصیت نے لیا اور مجھے سلام کہا اور یہ کہا کہ میں ڈاکٹر ذاکر نائیک بات کررہا ہوں !یہ نام سنتے ہآی مجھے بہت زیادہ خوشی ہوئی اور میں بہت زیادہ دعائیں دینے لگا اور اپنی محبت کا اظہار کیا اور میں نے بتایا کہ دو سال قبل میری آپ سے مکہ مکرمہ ملاقات بھی ہوئی تھی اس وقت بھی میں نےآپ کو کافی دعائیں دی تھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم ڈاکٹر ذاکر نائیک حفظہ اللہ نے 
مجھ سے پوچھا کہ آپ کا کیا حال ہے ؟
آپ ابن بشیر الحسینوی بات کر رہے ہیں ؟
میں نے آگے سے خیرو عافیت کے ساتھ جواب دیا کہ اللہ تعالی کا کرم ہے سب خیر ہے۔
پھر محترم ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب نے مجھ سے مختلف سوال کئے میں ان کے جوابات دیتا رہا کچھ کا تعلق میرے ذاتی معاملات سے ہے ،اللہ تعالی محترم کی زندگی ،علم اور دعوت و تبلیغ میں برکت فرمائے اور ان کی حفاظت فرمائے آمین انھوں نے ذاتی سوال میں ثابت کر دیا کہ انھیں متبع قرآن و حدیث اہل علم سے کس قدر محبت ہے فجزاہ اللہ خیرا ۔میری ذات کے متعلق جو سوال کئے یاجو باتیں ہوئیں وہ  لکھنے کی ضرورت نہیں لیکن کچھ سوالات کا تعلق عام ہےاور وہ درج ذیل ہیں 
سوال :الجامع الکامل کا کام کہاں تک مکمل ہوا ہے ؟
جواب:ابھی مجھے کنفرم نہیں ۔میں ابھی کنفرم کرکے آپ کو فون کرتا ہوں ان شاء اللہ
سوال:الجامع الکامل شایع ہونے سے پہلے ایک دفعہ شیخ اعظمی صاحب کو دی جائے تاکہ وہ ساری کو دیکھ سکیں ؟
جواب: جی میں یہ بات بھی دارالسلام لاہور تک پہچا دیتا ہوں ان شاء اللہ 
سوال:عبدالمالک مجاہد صاحب پاکستان آئے ہوئے ہیں ان سے میری بات نہیں ہورہی ورنہ میں خود انھیں یہ کہہ دوں ؟
جواب :آپ کا مشورہ اچھا ہے اس پر عمل ہونا چاہئے ۔

سوال:اگر کچھ جلدیں شایع ہو چکی ہیں تو وہ شیخ اعظمی صاحب کو بھیج دی جائیں تاکہ وہ دیکھ سکیں ۔
ان سوالوں کے علاوہ مزید کچھ باتیں ہوئیں والحمدللہ علی ذلک۔
سوال:کب تک اس کتاب کے متعلق آپ ہمیں کنفرم بتا سکتے ہیں ؟
جواب : جی میں صرف دس منٹ تک آپ کو بتاتا ہوں ۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب نے فرمایا جی میں آپ کا انتظار کررہاہوں السلام علیکم 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے چند منٹوں بعد دوبارہ کال آئی اور بہت بڑے محدث شیخ اعظمی حفظہ اللہ سلام کے بعد فرمانے لگے جی ابن بشیر بھائی بات ہوئی کتاب کے متعلق ؟
راقم نے جواب دیا کہ شیخ صاحب ابھی میں بیلینس ڈلوانے جارہا ہوں بس پانچ منٹ تک آپ کو اطلاع دیتا ہوں ان شاء اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور بھی باتیں ہوئیں 
الجامع الکامل پر مکمل کام لاہور سے ہوا ہے اب وہ دارالسلام الریاض میں پہنچ چکی ہے کچھ مزید کام وہاں ہوں گے تب یہ کتاب شایع ہوگی ان شاء اللہ 

Wednesday 17 April 2013

انوار الصحیفۃ فی الاحادیث الضعیفۃ پر تبصرہ ملتقی اہل الحدیث میں

0 comments
اس کتاب پر تبصرہ ملتقی اہل الحدیث میں جو کیا گیا وہ اس لنک سے مطالعہ کریں 

امام شافعی اور مسئلہ تدلیس میں وارد اشکالات اور ان کے جوابات

0 comments
اس مضمون کا مطالعہ کرنے کے لئے اس لنک پر کلک کریں اور اصل حقیقت سے واقفیت حاصل کریں 

کسی کتاب کو بغیر دیکھے اور بغیر پڑھے تبصرہ کرنا جھوٹ ہے !!اور مقالات اثریہ کا مقام اہل علم کے ہاں ۔

0 comments
بعض لوگ سنی سنائی باتوں پر بنیاد بنا کر اور کسی کتاب کو بغیر پڑھےاور بغیر دیکھے تبصرہ کرنا شروع کر دیتے ہیں اور لوگوں کو ایس ایم ایس کے ذریعے جھوٹ بولتے ہیں ایسے لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کر ہمیشہ مد نظر رکھنا چاہیے کہ آپنے فرمایا جس نے سنی سنائی بات کو آگے بیان کردیا وہ جھوٹوں میں سے ایک جھوٹ ہے ۔

آج سترہ اپریل2013 کی صبح کو ایک میسج موصول ہوا جس میں ایک قیمتی کتاب مقالات اثریہ از شیخ خبیب احمد حفظہ اللہ کے متعلق جھوٹ بولا گیا تو راقم نے اس بھائی کو فون کیا اورکہا کہ تم نے کیا اس کتاب کو پڑھا یا دیکھا بھی ہے تو انھوں نے کہا کہ نہ میں نے دیکھا ہے اور نہ ہی پڑھا ہے !!
تو راقم نے اس بھائی کو تنبیہ کی  کہ اللہ کے بندے بغیر دیکھے اور بغیر پڑھے تبصرہ کرنا درست نہیں بلکہ گناہ ہے ۔
اور خصوصا وہ مسائل جن کا تعلق منھج سے ہو اس میں تو پوری تحقیق تب ہی ہو گی جب دونوں طرف سے کی گئی بحث پڑھی جائےصرف ایک طرف کی بحث پڑھ کر اس کے گیت گائے جانا درست نہیں ہوتا، 
اللہ تعالی تمام مسلمانوں کو سنی سنائی بات کو آگے بیان کرنے سے بچنے کی توفیق عطافرمائے 
کیونکہ یہ جھوٹ ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بطور فائدہ عرض ہے کہ جس کتاب کو اس آدمی نے ایس ایم ایس کے ذریعے یاوا گوئی سے کام لیا ہے اس کتاب کے متعلق اہل علم کی آراء بھی ملاحظہ فرمائیں :
محدث العصر شیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ کی نظر میں 
Click to Enlarge Picture
علم دین اللہ تبارک وتعالیٰ کی دَین ہے، وہ جسے چاہتا ہے علم کے زیو ر سے آراستہ فرمادیتا ہے ، سمجھنے اور اس میں بصیرت حاصل کرنے کی توفیق بخشتا ہے۔
علم کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا معلوم کرکے اسے معمول بنانا ہے اور اللہ کے بندوں کو اس سے آگاہ کرنا ہے۔ اس سے ناموری، کسی کو نیچا دکھانا، ہر دل عزیز بننا اور اپنے علم وفضل کی برتری کو ثابت کرنا سراسر خسارے کا سودا ہے۔
علمی اورفنی مسائل میں علمائے کرام کی مختلف آرا ایک فطری عمل ہے۔ ان کے مابین باہمی مناقشات میں مقصد حقیقت کی تلاش اور راہ صواب کو پانا ہے۔ ایک دوسرے کو کمتر یا نیچا دکھانا قطعاً مراد نہیں ہوتا۔ حدیث کی تصحیح وتضعیف ہو یا کوئی فقہی یا اصولی مسئلہ ہو ان میں اختلاف نیا نہیں۔ زمانہ قدیم سے ہے۔ ہر دور میں علمائے کرام نے بساط بھر انہیں منقح کرنے اور اصل حقیقت کو اجاگر کرنے کی اپنی سی کوششیں کیں ہیں۔ اسی نوعیت کی ایک کوشش مولانا محمد خبیب احمد کی طرف سے’ مقالات اثریہ‘ کے نام سے  آپ سامنے ہے۔ جو تین ابواب پر مشتمل ہے۔
باب اول میں مصطلح الحدیث سے متعلقہ سوالات ہیں۔ دوسرے باب میں چھ احادیث پر بحیثیت صحت وضعف بحث ہے اور تیسرے باب میں انہوں نے تین متفرق عناوین پر خامہ فرسائی فرمائی ہے۔
یہ مقالات خالصی علمی اور فنی مباحث پر مشتمل ہیں، جن سے طلباء علم ہی نہیں ، علمائے کرام بھی مستفید ہونگے اور بہت سی نئی جہتیں ان کے سامنے آئیں گی اور ان شاءاللہ بہت سی بند گرہیں کھلیں گی۔ مولانا خبیب احمد میدان تحقیق کے شناور ہیں۔اللہ تعالیٰ انہیں اپنی مرضیات سے نوازیں اور دین حنیف کی خدمت کی مزید توفیق عطا فرمائیں۔آمین
محترم ابو محمد حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
ایک مدت سے بعض مسائل میں بہت اختلاف سننے کو ملتے تھے ان پر مدت سے امید آرزو لگائے بیٹھے تھے کہ اللہ کرے کہ کوئی ساتھی اٹھے اور ان بعضاختلا فی مسائل جو شروع کئے جا رہے ان کاجائزہ لیا جائے اب الحمدللہ مذکورہ مکمل کتاب انھیں مسائل کی توضیح پر مشتمل ہے کتاب کا مطالعہ کرنے سے فاضل مولف میں اصول حدیث اور جرح و تعدیل پر کامل عبور اور مہارت تامہ نظر آتی ہے
ایک اطلاع کے مطابق اس کتاب کی دوسری جلد بھی زیر ترتیب ہے ہے اور اصول حدیث کی ہی بے شمار بحوث پر فاضل مولف لکھ رہے ہیں ۔
یہ کتاب قارئین کے لئےان مسائل میں حق کو سمجھنے کے لئے کافی ہے
محترم ہاشم یزمانی صاحب فاضل مولف کے متعلق لکھتے ہیں:اللہ تعالی خبیب بھائی کو مزید کام کرنے کی توفیق بخشے ۔ کتاب پر سرسری نظر ڈالنے سے علم ھوا کہ ھمارے بھائی نے کافی محنت سے کام کیا ھے ۔ اور ایسا کیوں نہ ھوتا کہ اللہ کی رحمت اور محدثِ وقت، استاذِ گرامی شیخ ارشاد الحق اثری صاحب کی رفاقت انہیں دستیاب تھی ۔۔۔ طلبِ علم کے زمانے سے ھی خبیب بھائی کو علومِ حدیث سے کافی شغف رھا ھے جو بڑھتے بڑھتے ایک جنون کی شکل اختیار کر گیا، جس کا اظہار ان کی اس شاندار تالیف سے ھوتا ھے ۔

سید انور شاہ راشدی حفظہ اللہ کی نظر میں
محترم کا تبصرہ مختلف رسائل میں شایع ہوا ہے جلد ہی وہ یہاں لکھ دیا جائے گا 

Tuesday 16 April 2013

آن لائن کلاسز کی ٹائمنگ

0 comments
بعد نماز فجر 
اصول حدیث کی کلاس ہوتی ہے اس میں شرح نخبۃ پڑھائی جا رہی ہے 


4:15 pmبعد نماز عصر
ترجمہ وتفسیر قرآن مجید 

اس میں سنن ابی داود اور فن رجال 
پڑھایا جاتا ہے ۔
بعد نماز عشا
اس میں تربیتی کلاس ہوتی ہے جس میں اربعین نووی پڑھائی جارہی ہے 

یا درہے یہ تمام کلاسز پاکستانی ٹائم کے مطابق ہوتی ہیں ۔

  0 comments
اللہ تعالی کی توفیق خاص سے دین حنیف کی خدمت ہمارا شعار ہے اس کی خاطر مختلف کلاسز جاری ہیں اب سکائیپ
 ibrahim .alhusainwy
پالٹاک 
al mahad al husainwiya
دونوں پر بیک وقت کلاسز ہوا کریں گی 
ان شاء اللہ شائقین دینی تعلیم سے اپنے دلوں کو منور کرنے لئے تشریف لائیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Monday 15 April 2013

المعہد الحسینویہ پالٹاک روم میں بھی کلاسز شروع

0 comments
اللہ تعالی کی توفیق خاص سے دین حنیف کی خدمت ہمارا شعار ہے اس کی خاطر مختلف کلاسز جاری ہیں اب سکائیپ
 ibrahim .alhusainwy
پالٹاک 
al mahad al husainwiya
دونوں پر بیک وقت کلاسز ہوا کریں گی 
ان شاء اللہ شائقین دینی تعلیم سے اپنے دلوں کو منور کرنے لئے تشریف لائیں ۔

Friday 12 April 2013

سنن ابی داود اور منھج فی علم الرجال

0 comments

اکستانی وقت 5 پی ایم یہ کلاس ہوتی ہے اس میں سنن ابی داود پڑھائی جاتی ہے اور فن اسماء الرجال پر علمی منھج دیا جاتا ہے علم سے محبت رکھنے والے احباب اس کلاس میں شرکت کریں 
کلاس روم:
سکائیپ:
ibrahim.alhusainwy

Wednesday 10 April 2013

تحقیقی و علمی دورہ تفسیر القرآن العزیز کی کلاس

0 comments
انٹر نیٹ کو دین کے غلبے کے استعمال کرنا فرض ہے اسی غرض سے مختلف کلاسز کا اہتمام کیا گیا ہے ،بعض اصول حدیث بعض عربی گرائمر پر اور بعض حدیث پر اور بعض سوال وجواب کا سیکشن جاری ہیں والحمدللہ علی ذلک۔
اب تفسیرالقرآن العزیز کی کلاس بھی شروع کی جارہی ہے اس میں شامل ہو کر اپنے دلوں کو منور کریں ۔
یاد رہے کہ یہ تمام کلاسز فری ہوتی ہے مقصد صرف دینی کی سربلندی ہے 
کلاس روم:
سکائیپ :ibrahim.alhusainwy

Monday 8 April 2013

قربانی کے چار دن ہیں والحمدللہ

0 comments

Ss7003 قربانی کے کل کتنے دن ہیں ؟



کتنے دن تک قربانی کرنا جائز ہے ۔ کچھ لوگ چار دن قربانی کو ناجائز قرار دیتے ہیں اور انکا کہنا ہے کہ اس بارہ میں کوئی دلیل نہیں ہے اور ایام التشرق کلہا ذبح والی روایت ثابت نہیں ۔
تفصیل سے جواب عنایت فرمائیں ۔ شکریہ

جواب: قربانی کے کل کتنے دن ہیں ؟

اس روایت سے صرف نظر کریں تو بھی چار دن کی قربانی کرنا ثابت ہے !
کیونکہ اللہ تعالى نے قرآن مجید میں فرمایا ہے :
وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُودَاتٍ فَمَنْ تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ وَمَنْ تَأَخَّرَ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ (البقرۃ : 203)
اور (ایام تشریق کے) معلوم دنوں میں اللہ کا ذکر کرو ۔ تو جو شخص دو دنوں میں جلدی کر لے اس پر بھی کوئی گناہ نہیں اور جو تأخیر کر لے اس پر بھی کوئی گناہ نہیں ۔
نیز فرمایا :
وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ( الحج : 28)
اور وہ ایام تشریق کے) معلوم دنوں میں اللہ کے دیے ہوئے مخصوص چوپایوں پر اللہ کا نام ذکر کریں ۔
یعنی ایام معلومات اور ایام معدودات جو کہ باتفاق امت ایام تشریق ہی ہیں اور جن میں جلدی کے بارہ میں اللہ تعالى فرماتے ہیں وہ دو دن ہیں اور تیسرا دن بھی انہیں میں شامل ہے ‘ ان دنوں میں قربانی کے جانوروں پر اللہ کا نام لے کر ذبح ونحر کریں اور خود بھی کھائیں اور دوسروں کو بھی کھلائیں ۔
اور ایام تشریق ذوالحجہ کی گیارہ اور بارہ اور تیرہ تاریخ کا نام ہے ۔
اور ذوالحجہ کی دس تاریخ کو یوم نحر کہا جاتا ہے ۔
الغرض چار دن قربانی کرنا کتاب اللہ سے بھی ثابت ہے !
والحمد للہ رب العالمین .......
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جواب: قربانی کے کل کتنے دن ہیں ؟

میرے خیال سے ایام التشریق والی روایت بھی حسن درجہ تک پہنچتی ہے۔

اقتباس اصل پیغام ارسال کردہ از: کفایت اللہ پیغام دیکھیے
میرے خیال سے ایام التشریق والی روایت بھی حسن درجہ تک پہنچتی ہے۔
یہی بات مجھے شیخ رفیق طاہر حفظہ اللہ سے بھی پہنچی تھی ۔ پھر میں نے انکی کتاب الأضاحی کو دیکھا تو اس میں بھی انہوں نے اس روایت کو حسن قرار دیا ہوا ہے ۔ جبکہ شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ اسے ضعیف کہتے ہیں ۔ اسی لیے میں نے یہاں سوال کیا کہ شاید شیخ صاحب اس روایت کی تحسین پر دلائل پیش کریں گے ۔ لیکن انہوں نے تو کمال استنباط کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ مسئلہ قرآن حکیم سے ہی ثابت کر دیا ۔ میرے علم کے مطابق ان سے پہلے یہ استدلال کسی کا نہیں ہے ۔ اگر ہے تو میرے علم میں بہر حال نہیں ۔
لیکن اگر اسکے ساتھ ساتھ اس روایت کی تحسین کے دلائل بھی ذکر ہو جاتے تو بہت ہی عمدہ تھا ۔ شاید شیخ محترم نے وقت کی کمی وجہ سے ایسا نہیں کیا۔
میری اب بھی یہی آرزو ہے کہ آپ یا شیخ رفیق طاہر میں سے کوئی بھی اس روایت کی تحسین کے دلائل پیش کر دے ۔ تاکہ ہم ایسوں کو بھی فائدہ پہنچے ۔ 
 
والسلام
۔۔۔۔۔۔۔۔کفایت اللہ بھائی لکھتے ہیں:

جواب: قربانی کے کل کتنے دن ہیں ؟

شیخ رفیق طاہرحفظہ اللہ سے قبل علامہ محمدرئیس ندوی رحمہ اللہ قران مجیدسے چاردن ایام قربانی ثابت کیا ہے ملاحظہ ہو ان کی کتاب : قصہ ایام قربانی کا۔
یہ کتاب علامہ رحمہ اللہ نے غازی پوری کے رد میں لکھی تھی اورانڈیا میں مطبوع ہے۔
اورایام تشریق کی روایت کا جہاں تک تعلق ہے تو اس پربھی بھرپور تحقیق علامہ رئیس ندوی رحمہ اللہ نے اپنی دوسری کتاب : غایۃ التحقیق فی تضحیہ ایام التشریق : میں پیش کردی ہے۔
ان دونوں کتابوں کا مطالعہ بے حدمفیدہے۔
بحوالہ :یہاں  

Sunday 7 April 2013

دینی علوم وفنون کی تعلیم گھر بیٹھے فری حاصل کریں

1 comments
راقم نےعرصہ تین سال سے انٹرنیت پر کام کرنا شروع کیا ہے اوراللہ کی توفیق سے  فورمز ،بلوگز اور ویب سائٹس پر کام کرنے کے علاوہ مختلف کلاسز کوپڑھایا بھی ہے جس کا بہت زیادہ فائدہ محسوس ہوا ہے ،تو یہ کلاسز اب بھی جاری ہیں جس میں کسی قسم کی کوئی فیس نہیں لی جاتی بلکہ محض اللہ تعالی کی رضا کی خاطر پڑھایا جاتا ہے ۔
تو تمام قارئین سے گزارش ہے کہ وہ اپنے کمپیوٹر میں سکائیپ کا چلائیں اور میرے سکائیپ آئی دی 
ibrahim.alhusainwy
پر درخواست سینڈ کریں اور ٹائم فکس کرکے پڑھنا شروع کریں ۔
انٹر نیٹ کو دین کی سربلندی کے لئے استعمال کرنا فرض ہے اس پر ہم سب کو توجہ دینی چاہئے تاکہ دین عام ہو ۔

حسن لغیرہ کے متعلق اشکالات اور ان کے جوابات قسط نمبر:4

2 comments


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راقم نے اپنے پہلے مضمون (حدیث- حسن لغیرہ کی حجیت )میں محترم حافظ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ کے حسن لغیرہ کی عدم حجیت کے متعلق ابن حزم ،ابن قطان ،ابن حجر اورابن کثیر کی عبارتوں کی اصل حقیقت بیان کی تھی کہ ابن حزم کا قول بے سند ہے ،ابن قطان تو حسن لغیرہ کا حجت ہونا ثابت ہونا کر رہے ہیں ،اور ابن حجر بھی اسی کے قائل ہیں اور ابن کثیربھی حسن لغیرہ کی حجیت کے قائل ہیں ۔اب ایک شخص نے ماہنامہ السنۃ جہلم میں اپنے تئیں یہ ظاہر کیا کہ میں ضیائے حدیث کے مضمون (حدیث -حسن لغیرہ کی حجیت )کا جواب لکھ رہا ہوں اور ماہنامہ السنہ جہلم کی دو قسطوں میں چوبیس صفحات لکھے مگر افسوس کہ نہ ہی ہمارے مضمون کا جواب دیاکیونکہ محترم زبیر صاحب کے جن دلائل کا ہم نے توڑ پیش کیا تھا جواب تو دور کی بات ہے ان کی طرف اشارہ تک نہیں کیا اور نہ ہی حسن لغیرہ کی حجیت پر دلائل پیش کیے،اتنے صفحات میں پھر کیا لکھا اس کی ضروری تفصیل درج ذیل ہے ۔
(١)مقبل بن ھادی کی عبارتیں پیش کیں کہ متقدمین کی تحقیق معتبر ہے ۔
راقم نے جوابا عرض کیا کہ مقبل بن ہادی بذات خود حسن لغیرہ کی حجیت کے قائل ہیں ان کے شاگرد نے حسن لغیرہ کی حجیت پر ایک مفصل کتاب بھی تالیف کی ہے ۔
(٢)دکتور حاتم العونی کی عبارتیں پیش کی گئیں کہ متاخرین کو کئی غلطیاں لگی ہیں اور منطق وغیرہ سے متاثر ہو گئے ہیں اور اسی سے اس شخص نے نتیجہ نکالا کہ:'':''یہی ہماری دعوت ہے کہ متاخرین جس طرح عقیدے کے بعض معاملات علم کلام سے متاثر ہو کر متقدمین کے منھج سے ہٹ گئے ہیں ،اسی طرح کئی معاملات میں فقھی موشگافیوں ،علم منطق اور علم کلام سے متاثر ہو کر وہ علم حدیث اور اصول حدیث میں بھی غلطی کھا گئے ہیں ۔لہذا ضروری ہے کہ جیسے ہم دیگر معاملات میں دلیل طلب کرنے کی روش اپناتے ہیں اسی طرح علوم حدیث میں بھی دلیل کے طالب ہوں اور صرف متاخرین کی کتب اصطلاح سے مرعوب ہو کر علم حدیث میں متقدمین کے منھج کو نہ چھوڑیں ۔'' 
اس کے جواب میں ہم نے کہا تھا کہ اس عبارت سے درج ذیل بات سامنے آتی ہے ۔
١:متقدمین متاثر ہوئے مگر کس جگہ کیاکوئی کہہ سکتا ہے کہ متاخرین نے حسن لغیرہ کا حجت ہونا منطقیوں وغیرہ سے لیا ہے۔
(ب)علم منطق اور کلام میں کہاں بحث کی گئی ہے کہ حسن لغیرہ حجت نہیں ہے جہاں سے محدثین نے لیا ہے ؟!! یقینا اس کا جواب کوئی نہیں دے سکتا 
(ج)حاتم شریف العونی کی تحریر جو حسن لغیرہ کے متعلق نہیں بلکہ عام ہے اور منطقیوں سے متاثر کی مثال انھوں نے متواتر کی دی ہے ، اس کو حسن لغیرہ کی بحث میں فٹ کرنا درست نہیں 
حالانکہ حاتم شریف العونی بھی حسن لغیرہ کی حجیت کے قائل ہیں دیکھئے (تحقیق مشیخۃ ابی طاہر بن ابص الصقر ص:١٤٦ )
(د)کیا شریف حاتم العونی خود یہ کہ رہے ہیںکہ حسن لغیرہ متاخرین نے منطقیوں سے متاثر ہوکر اخذ کی ہے اور خود حاتم العونی کہیں کہ حسن لغیرہ حجت ہے ۔؟؟!!
(ر)پاکستان میں حافظ ثناء اللہ زاہدی حفظہ اللہ نے متواتر کی بحث میں کہا ہے کہ یہ بحث منطقیوں وغیرہ سے متاثر ہونے کا نتیجہ ہے لیکن حسن لغیرہ کو وہ بھی حجت سمجھتے ہیں وہ لکھتے ہیں :
''حسن لغیرہ وہ حدیث ہے جس کا راوی حفظ اور ضبط کی وجہ سے ضعیف قرار دیا گیا ہو، فسق یا جھوٹ کی وجہ سے نہ ہو، یا اس کی سند منقطع ہو مگر اس کا ضعف متابع یا شاہد سے دور ہوجاتا ہے۔''
الفصول في مصطلح الحدیث الرسول صلی اﷲ علیہ وسلم (ص: ٢٧) 
دکتور حمزہ ملیباری کے نزدیک حسن لغیرہ حجت ہے :
حالانکہ حمزہ ملیباری خود حسن لغیرہ کے قائل ہیں ۔دیکھئیے (الموازنۃ بین المتقدمین والمتاخرین ص:٩٧،١٢٢،١٢٣)والحمدللہ ۔
خلاصہ بحث :
علماء کے عمومی اقوال یا حسن لغیرہ کے علا وہ کسی اور بحث کے متعلق کہے گئے، ان اقوال کے قائلین حسن لغیرہ کو حجت تسلیم کرتے ہیں والحمد للہ ۔مثلا
١:محدث یمن مقبل بن ھادی 
٢:دکتور حمزہ ملیباری 
٣:دکتور حاتم شریف العونی 
٤:حافظ ابن کثیر 
ان کے اقوال باحوالہ گزر چکے ہیں 
اہل علم حضرات سے انصا ف کا تقاضہ ہے ۔
(٣)اور ا س شخص نے امام ترمذی کے نزدیک حسن لغیرہ ثابت نہیں پر بحث کی۔
ہم نے ماہنامہ السنہ جہلم کی دونوں قسطوں پر تبصرہ بنام(حسن لغیرہ کی حجیت کے متعلق اشکالات اور ان کے جوابات )کیا جس میں ہر ہر اعتراض کا جواب دیا ۔پھر اب اسی شخص نے بغیر سوچے سمجھے ہمارے مضمون پر تبصرہ بنام(ماہنامہ السنۃ اور حسن لغیرہ حدیث (خیانتوں کی حقیقت )
)لکھ مارا،آئیں ذرا اس کی حقیقت بھی ملاحظہ فرمائیں ۔

[١]منسوخ عبارتوں کا جواب لکھنا کہاں کی تحقیق ہے ؟
نظر ثانی شدہ مضمون میں ہم نے بالکل صاف لکھا تھا کہ:ہمارے اس مضمون کا خلاصہ یہ ہے جس میں بعض ترمیمات انتہائی ضروری تھیں وہ ہم نے کر دی ہیں اور اسی کو اصل سمجھا جائے اور پہلی تحریر سے راقم الحروف بری ہے۔۔''
اگر کوئی شخص ان عبارتوں کو پیش کرنے کی جسارت کرے جن سے راقم، نے برات کا اعلان کیا ہوا ہے تو منصف علماء ایسے شخص کے اس رویے کو کیا نام دیں گے ۔کیا ہے کوئی منصف جو اس شخص کو سمجھائے کہ لکھنے کے اصولوں میں سے ایک یہ بھی اصول ہے کہ جس عبارت سے کوئی برات کا اعلان کردے اس کو اچھالنا بری حرکت ہے اور دیانت داری نہیں ہوتی ۔
[٢]مضمون نگار ہمارے بارے میں لکھتے ہیں ''پھر وہ شیخ محب اللہ شاہ رحمہ اللہ کی کتاب سے متقدمین اور متاخرین میں فرق مٹانے کے لئے حوالے پیش کرتے ہیں ''
متقدمین کی افضلیت کو کوئی بھی منکر نہیں لیکن جس انداز سے آپ متقدمین کو پیش کر رہے ہیں وہ محل نظر ہے ۔جو کچھ ہم نے لکھا تھاوہ پیش خدمت ہے ۔اہل انصاف کریں کہ جو کچھ ہمارے مہر بان کشید کرنا چاہتے ہیں کیا وہ ہو رہا ہے ۔ہم نے لکھ تھا۔ 
١۔ یہ بات کئی وجوہات کی بنا پر درست نہیں ہے۔ اس کے متعلق محدث سندھ شیخ الاسلام محب اللہ شاہ راشدیa فرماتے ہیں:
''لیکن میرے محترم یہ کوئی کلیہ تو نہیں کہ متقدم جو بھی کہے وہ صحیح ہوتا ہے اور جو ان سے متاخر کہے وہ صحیح نہیں ہوتا۔'' (مقالات راشدیہ ص :٣٣٢)[کیا یہ قول متقدمین اور متاخرین کے درمیان فرق مٹا رہاہے؟!]
نیز فرماتے ہیں:
''کسی کا زمانے کے لحاظ سے متقدم ہونا یہ کوئی دلیل نہیں کہ جو ان سے زمناً متاخر ہو اس کی بات صحیح نہیں۔ اعتبار تو دلائل کو ہے نہ کہ شخصیات کو۔'' (ایضا: ٣٣٣)
نیز کہا:
''تو کیا آپ ایسے سب رواۃ (جن کی حافظ صاحب نے توثیق فرمائی اور ان کے بارے میں متقدمین میں سے کسی کی توثیق کی تصریح نہیں فرمائی) کے متعلق یہی فرمائیں گے کہ ان کی توثیق مقبول نہیں یہ ان کا اپنا خیال ہے؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو اس طرح آپ اس جلیل القدر حافظ حدیث اور نقد الرجال میں استقراء تام رکھنے والے کی ساری مساعی جمیلہ پر پانی پھیر دیں گے۔ آپ خود ہی سوچیں کہ جناب کے اس نہج پر سوچنے کی زد کہاں کہاں تک پہنچ کر رہے گی۔'' (ایضا: ٣٣٥)
٢۔ فضیلۃ الشیخ ابن ابی العینین فرماتے ہیں، جس کا خلاصہ درج ذیل ہے:
''بعض طلبا جنھوں نے ماہر شیوخ سے بھی نہیں پڑھا وہ بعض نظری اقوال لے کر اپنے اصول و قواعد بنا رہے ہیں اور وہ کبار علما سے اختلاف کرتے ہیں۔ انھوں نے باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ ہم متقدمین کے پیروکار ہیں اور انھوں نے متاخرین کے منہج کو غلط قرار دیا ہے...۔''
(القول الحسن، ص: ١٠٣) 
٣۔ متقدمین کی حسن لغیرہ کے متعلق کون سی بحثیں ہیں کن کے خلاف متاخرین نے اصول وضع کیے ہیں؟!
٤۔ متاخرین نے علم متقدمین سے ہی لیا ہے اور وہ انھیں کے انداز سے اصول متعین کرتے ہیں ۔

[]ہمارے متعلق یہ بھی لکھا گیا :''امام ترمذی اپنی اصطلاح حسن سے مراد اقابل حجت حدیث مراد نہیں لیتے تھے اس کا کوئی جواب مضمون نگار کی طرف سے نہیں آیا ۔''[معلوم ہوا باقی تمام مضمون کا جواب مکمل تھا صرف یہی بات رہتی تھی ]اس کا جواب بھی ہم نے اپنے اصل مضمون میں دیا تھا سیٹنگ کے وقت کلیم حیدر بھائی سے رہ گیا ہے تو کوئی حرج نہیں ۔
امام ترمذی ٢٧٩ھ کے نزدیک حسن لغیرہ حجت ہے ۔
فضیلۃ الشیخ حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ لکھتے ہیں کہ:امام ترمذی کے علاوہ عام محدثین سے ایسی''حسن لغیرہ ''روایت کا حجت ہونا ثابت نہیں ۔[علمی مقالات :١/٣٠٠]معلوم ہوا کہ امام ترمذی بھی حسن لغیرہ کو حجت سمجھتے ہیں جیسا کہ محترم حافظ زبیر صاحب نے کہا ہے ۔
یہ اعتراف ہی راجح ہے ۔کہ امام ترمذی کے نزدیک حسن لغیرہ حجت ہے ۔
محترم حافظ خبیب احمد الاثری حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
حسن لغیرہ کو متعارف کروانے والے موصوف (امام ترمذی)ہیں، وہ فرماتے ہیں:
''وما ذکرنا في ھذا الکتاب حدیث حسن، فإنما أردنا بہ حسن إسنادہ عندنا. کل حدیث یروي لا یکون في إسنادہ من یتھم بالکذب، ولا یکون الحدیث شاذاً، ویري من غیرہ وجہ نحو ذلک فھو عندنا حدیث حسن.''
''ہم نے اس کتاب ''حدیث حسن'' کی اصطلاح استعمال کی ہے، اس سے ہماری مراد یہ ہے کہ اس کی سند ہمارے نزدیک حسن ہے اور وہ حدیث جس کی سند میں ایسا راوی نہ ہو جس پر جھوٹ کا الزام ہو۔ حدیث شاذ نہ ہو۔ اور وہ اپنے جیسی دوسری سند سے مروی ہو، وہ ہمارے نزدیک حسن ہے۔''
العلل الصغیر للترمذي (ص: ٨٩٨، المطبوع بآخر جامع الترمذي)
اس تعریف کا مصداق کیا ہے؟ محدثین نے اس پر خوب خبر دادِ تحقیق پیش کی ہیں، مصطلح کی کتب ان سے معمور ہیں، ہم اس سے صرفِ نظر کرتے ہوئے صرف یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ امام ترمذیa ضعیف حدیث+ ضعیف حدیث کی تقویت اور حجت کے قائل ہیں، بشرط کہ قرائن ایسی حدیث کی صحت کے متقاضی ہوں۔
حافظ برہان الدین بقاعیa ٨٨٥ھ اپنے شیخ (حافظ ابن حجرa) سے نقل کرتے ہیں کہ امام ترمذیa نے حسن لغیرہ کو متعارف کروایا ہے۔
النکت الوفیۃ للبقاعي (١/ ٢٢٤)
امام ابن سید الناسa فرماتے ہیں کہ وہ جس حدیث کو متعدد اسانید کی بنا پر حسن قرار دیتے ہیں وہ حسن لغیرہ ہے۔ النکت الوفیۃ (١/ ٢٢٩)
حافظ بقاعیa نے اس موقف کی تائید کی ہے۔ النکت الوفیۃ (١/ ٢٣٤)
امام ترمذیa ایسی احادیث کو بھی حسن گردانتے ہیں جو حسن لغیرہ سے زیادہ مضبوط ہوتی ہیں، مثلاً اس کی ذاتی سند مضبوط ہوتی ہے یا کوئی قوی متابع موجود ہوتا ہے یا کوئی عمدہ شاہد ہوتا ہے جو ضعیف سے مستغنی کر دیتا ہے۔
اگر ضعیف حدیث کی تائید ضعیف حدیث یا احادیث کریں تو وہ بھی ان کے نزدیک حسن ہے، جسے عرف عام میں حسن لغیرہ سے موسوم کیا جاتا ہے۔
دکتور خالد بن منصور الدریس نے جامع ترمذی کے سب سے معتمد علیہ نسخے نسخۃ الکروخی (ھو أبو الفتح عبد الملک بن أبي القاسم الکروخی الھروی البزار ٥٤٨ھـ) کو پیش نظر رکھ کر امام ترمذیa کی حسن احادیث کا تتبع اور دراستہ کیا ہے اور نتیجہ نکالا ہے کہ ضعیف حدیث + ضعیف حدیث = حسن لغیرہ کی تعداد چالیس ہے، جن میں بارہ (١٢) احادیث احکام شرعیہ کے متعلق ہیں، جبکہ باقی (اٹھائیس) احادیث فضائل، ترغیب و ترہیب پر مشتمل ہیں۔
الحدیث الحسن للدکتور خالد: (٣/ ١١٨٢) نیز (٥/ ٢١٣٤)
پھر انھیں (٣/ ١٣٥٣۔١٣٩٣) پھر بعنوان ''المنزلۃ الثانیۃ: حدیث ضعیف و شواہھدہ ضعیفۃ'' کے تحت بیان کیا ہے، ذیل میں ترمذی کے رقم الحدیث درج ہیں: ٤٠٦، ٥١٤، ٦٥٠، ٧٢٥، ٨١٣، ٨٨١، ١٠٠٥، ١٠٢٨، ١٠٥٧، ١٢٠٠، ١٢٠٩، ١٢١٢، ١٣٣١، ١٥٦٥، ١٦٣٧، ١٧٦٧، ١٧٧٠، ١٩٣١، ١٩٣٩، ١٩٨٧، ١٩٩٣، ٢٠٤٨، ٢٠٦٥، ٢١٦٩، ٢٣٢٨، ٢٣٤٧، ٢٤٥٧، ٢٤٨١، ٢٦٩٧، ٢٧٢٨، ٢٧٩٥، ٢٧٩٨، ٣٢٩٩، ٣٤٤٨، ٣٤٥٥، ٣٥١٢، ٣٥٩٨، ٣٦٦٢، ٣٧٩٩، ٣٨٠١)(مقالات اثریہ از حافظ خبیب احمد الاثری)

حسن لغیرہ کی حجیت کے متعلق اشکالات اور ان کے جوابات قسط نمبر:2

0 comments
ساتواں اشکال :
بسا اوقات کسی ضعیف حدیث کی متعد د سندیں ہوتی ہیں یا اس کے ضعیف شواہد موجود ہوتے ہے، مگر اس کے باوجود محدثین اسے حسن لغیرہ کے درجے میں نہیں لاتے۔
جواب:
حسن لغیرہ کی عدمِ حجیت کے بارے میں سب سے بڑی دلیل یہی ہے اور اسی سے وہ لوگوں کو مغالطہ دیتے ہیں۔
اس کا جواب ہم محتر م حافظ خبیب احمد الاثری کی قیمتی کتاب ’’مقالات اثریہ ‘‘ سے نقل کرتے ہیں۔
کثرتِ طرق کے باوجود حدیث کو مقبول نہ ماننے کی وجوہات کا بیان۔
عدمِ تقویت کے اسباب:
ایسی حدیث کے حسن لغیرہ نہ ہونے میں پہلا سبب یہ ہے کہ ناقد سمجھتا ہے کہ اس حدیث کو بیان کرنے میں شاہد حدیث کے کسی راوی نے غلطی کی ہے، لہٰذا غلط متابع یا غلط شاہد ضعف کے احتمال کو رفع نہیں کر سکتے۔ اسے یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک حدیث کی دو سندیں ہیں، اس کی ایک سند کے راوی کے بارے میں راجح یہ ہے کہ اس نے سند یا متن میں غلطی کی ہے، یعنی وہ دوسروں کی مخالفت کرتا ہے، یا اس سے بیان کرتے ہوئے راویان مضطرب ہیں تو ایسی سند دوسری سند سے مل کر تقویت حاصل نہیں کر سکتی۔ اسے تطبیقی انداز میں یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ امام حاکم نے سفیان بن حسین عن الزہری ایک مرفوع حدیث بیان کی ہے، پھر اس کا مرسل شاہد (ابن المبارک عن الزہری) ذکر کیا، اس مرفوع حدیث میں جس ضعف کا شبہ تھا اسے مرسل حدیث سے دور کرنے کی کوشش کی۔ (المستدرک: ۱/ ۳۹۲۔ ۳۹۳)
مگر حافظ ابن حجر اس مرفوع حدیث کو اس مرسل روایت سے تقویت دینے کے قائل نہیں کیونکہ سفیان بن حسین، امام زہری سے بیان کرنے میں متکلم فیہ ہے، بنابریں اس نے یہ روایت امام ابن المبارک کے برعکس مرفوع بیان کی ہے، حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں:
’’قلت: بل ھو علتہ۔‘‘ تغلیق التعلیق لابن حجر (۳/ ۱۷)
کہ ابن المبارک کا اس حدیث کو زہری سے مرسل بیان کرنا سفیان کی غلطی کی دلیل ہے، لہٰذا یہ روایت مرسل ہی راجح ہے اور وہ مرفوع کو تقویت نہیں دیتی، کیونکہ اس کا مرفوع بیان کرنا غلط ہے۔
ذرا غور کیجیے کہ امام حاکم ایک حدیث کو متأخرین کی اصطلاح کے مطابق حسن لغیرہ قرار دے رہے ہیں، اسی حدیث کو حافظ ابن حجر مرسل ہونے کی بنا پر ضعیف قرار دے رہے ہیں، کیونکہ حافظ صاحب کے نزدیک مرفوع بیان کرنا غلطی ہے، جس کی وجہ مرسل روایت ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ محدثین کسی حدیث کو حسن لغیرہ قرار دینے کے لیے قرائن کو پیشِ نظر رکھتے ہیں جیسا کہ حافظ ابن حجر نے بھی تغلیق التعلیق میں ذکر کیا ہے، ضعیف+ ضعیف کو مطلق طور پر حسن لغیرہ قرار دینا محدثین کا منہج نہیں ہے۔
بسا اوقات کوئی محدث کسی حدیث کو تقویت دینے میں وہم کا شکار ہوجاتا ہے جوکہ استثنائی صورت ہے، اس سے حسن لغیرہ کے حجت ہونے میں قطعی طور پر زد نہیں پڑتی، کسی حدیث کے حسن لغیرہ ہونے یا نہ ہونے میں محدثین کا اختلاف ہوتا ہے، حقائق بھی اس کے مؤید ہیں، مگر ان سب کے باوجود محدثین حسن لغیرہ کے حجیت کے قائل ہیں۔
کسی حدیث کو حسن لغیرہ قرار دینا ایک اجتہادی امر ہے، جس میں صواب اور غلط دونوں کا امکان ہوتا ہے، جس طرح راویان کی توثیق و تجریح بھی اجتہادی امر ہے، اسی طرح غلط اور صحیح کا تعین بھی اجتہادی معاملہ ہے، جس کا فیصلہ قرائن کے پیش نظر ہوتا ہے، ملحوظ رہے کہ راوی کی غلط متعابعت سے دور نہیں ہوتی، خواہ وہ حافظ راوی کی ہو۔
دوسرا سبب: حدیث میں فرضیت یا حرمت ہو:
ایسی حدیث جس میں کسی چیز کی فرضیت (جس کا تارک گناہ گار ہو) یا حرمت (جس کا مرتکب گناہ گار ہو) ہو تو ایسی ضعیف حدیث کو محدثین حسن لغیرہ قرار دینے میں تأمل کا مظاہرہ کرتے ہیں، ان میں سے بعض کے نزدیک یہ دونوں چیزیں یا ایک چیز صحیح سند (صحیح لذاتہ، حسن لذاتہ، صحیح لغیرہ) سے ثابت ہونا ضروری ہے، جیسا کہ امام ابو حاتم اور امام ابو زرعہ نے فرمایا:
’’مراسیل سے حجت نہیں پکڑی جائے گی، حجت محض صحیح اور متصل سندوں سے پکڑی جائے گی۔‘‘
امام ابن ابی حاتم فرماتے ہیں: 
’’میرا بھی یہی موقف ہے۔‘‘ المراسیل لابن أبي حاتم (ص: ۷)
فضائل، رقائق بلکہ احکامِ شرعیہ میں محدثین حسن لغیرہ روایات قبول کرتے ہیں، بلکہ جن کا ضعف خفیف ہو اس سے بھی استدلال کرتے ہیں، جیسا کہ وضو سے پہلے تسمیہ کے بارے میں ہے۔ مگر جن مسائل کا تعلق عقائد سے ہوئے اس میں محدثین وہی احادیث قبول کرتے ہیں جو صحیح ہوں، وہ حسن لغیرہ سے استدلال نہیں کرتے۔
تیسرا: ضعیف راوی کا تفرد:
جس ضعیف حدیث کو بیان کرنے میں راوی اپنے شیخ سے منفرد ہو تو محدثین ایسے تفرد کو قابلِ تقویت نہیں سمجھتے، مثلاً وہ کسی مشہور سند سے کوئی ایسی منفرد حدیث بیان کرتا ہے جو اس شیخ کے مشہور شاگرد بیان نہیں کرتے یعنی وہ امام زہری یا امام سفیان ثوری جیسے شیخ سے روایت بیان کرنے میں منفرد ہے۔
ایسی صورت میں محدثین زیادۃ الثقہ کو مطلق طور پر قبول نہیں کرتے، چہ جائیکہ وہ زیادۃ الضعیف کو تقویت دیں۔
جب ضعیف راوی کسی مشہور سند سے حدیث بیان کرنے میں منفرد ہوگا تو اس کی غلطی کا قوی یقین ہوجائے گا یا یہ تصور کیا جائے گا کہ اسے کسی اور روایت کا شبہ ہے، یا اس کی حدیث میں دوسری حدیث داخل ہوگئی ہے یا اسے وہم ہوا کہ اس سند سے یہ متن مروی ہے یا اسے تلقین کی گئی تو اس نے قبول کر لی یا اس کی کتاب وغیرہ میں حدیث داخل کر دی گئی اور وہ اس سے بے خبر رہا۔
چوتھا سبب: جب ایک سے زائد سبب ضعف ہوں:
جب حدیث کی کسی سند میں ایک سے زائد ضعف ہوں مثلاً روایت میں انقطاع بھی ہے اور راوی بھی ضعیف ہے، یا اس میں دو راویان ضعیف ہیں تو بسا اوقات محدثین ایسی سند کو قبول نہیں کرتے کیونکہ اس میں شاہد بننے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔
حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں:
’’یہ حدیث غریب ہے، امام حاکم نے الإکلیل میں اسے اسی طرح بیان کیا ہے۔ علی بن قادم، اس کا استاذ (ابو العلاء خالد بن طہمان) اور اس کا استاد (عطیہ) کوفی اور شیعہ ہیں، ان میں کلام ہے، ان میں سب سے زیادہ ضعیف عطیہ ہے، اگر اس کی متابعت ہوتی تو میں اس حدیث کو حسن (لغیرہ) قرار دیتا۔‘‘ موافقۃ الخُبر الخَبر (۱/ ۲۴۵)
حافظ ابن حجر نے اس کے بعد اس کے شواہد بیان کیے ہیں مگر اس کے باوجود اس حدیث کو حسن لغیرہ قرار نہیں دیا، کیونکہ ان میں سے ہر ایک میں ایک سے زائد وجۂ ضعف ہے ۔ ملاحظہ ہو: موافقۃ الخُبر الخَبر (۱/ ۲۴۵۔ ۲۴۷) 
دیگر اسبابِ ضعف:
بعض ایسے ضعف کے اسباب ہوتے ہیں جن کی وجہ سے حدیث میں شاہد بننے کی صلاحیت نہیں ہوتی، اور یہ اسباب متعدد ہیں جن کا شمار مشکل ہے، تاہم ذیل میں چند اسباب بیان کیے جاتے ہیں:
۱۔ اگر سند میں مبہم راوی ہو، اس کا شاگرد اپنے اساتذہ سے بیان کرنے میں احتیاط نہ کرتا ہو تو ایسی روایت متابع یا شاہد نہیں بن سکتی۔
۲۔ سند میں راوی کی کنیت مذکور ہو اور معلوم نہ ہو کہ وہ کون ہے؟
۳۔ اس میں متروک اور انتہائی کمزور راویوں کی منقطع اور مرسل روایات بھی داخل ہیں۔
۴۔ جب ضعیف راوی کسی حدیث کو مرسل بیان کر دے، مثلاً امام دارقطنی فرماتے ہیں:
’’ابن بیلمانی ضعیف ہے، جب وہ موصول حدیث بیان کرے تو وہ حجت نہیں، جب وہ مرسل بیان کرے تو کیسے حجت ہوسکتا ہے؟‘‘ سنن الدارقطنی (۳/ ۱۳۵) (مقالات اثریہ ،از حافظ خبیب احمد )
 حسن لغیرہ کی حجیت اور علمائے اہلحدیث پاکستان:
ہم اس بحث میں ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ حسن لغیرہ کی حجیت موجودہ تمام اہلحدیث علما ء تسلیم کرتے ہیں سوائے استاد محترم شیخ زبیر حفظہ اللہ کے ۔ چنانچہ ذیل میں ان کے اسماء پیش خدمت ہیں:
۱۔ حافظ عبدالمنان نورپوری رحمہ  اللہ (شیخ الحدیث جامعہ محمدیہ گوجرانوالا )
۲۔ شیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ (مدیر ادارۃ علوم اثریہ فیصل آباد )
۳۔ شیخ رفیق اثری حفظہ اللہ (شیخ الحدیث جامعہ محمدیہ جلالپور )
۴۔ حافظ عبدالعزیز علوی حفظہ اللہ (شیخ الحدیث جامعہ سلفیہ فیصل آباد )
۵۔ حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ (شیخ الحدیث جامعہ رحمانیہ لاہور )
۶۔ شیخ عبداللہ امجد چھتوی حفظہ اللہ (شیخ الحدیث مرکز الدعوۃ السلفیہ ستیانہ بنگلہ )
۷۔ حافظ مسعود عالم حفظہ اللہ (شیخ الحدیث جامعہ سلفیہ فیصل آباد )
۸۔ شیخ عمر فاروق سعیدی حفظہ اللہ (شیخ الحدیث مدرسہ مرآۃ القرآن منڈی وار برٹن )
۹۔ شیخ الیاس اثری حفظہ اللہ (شیخ الحدیث )
۱۰۔ حافظ عبدالستار الحماد حفظہ اللہ (شیخ الحدیث مرکز الدراسات خانیوال )
۱۱۔ حافظ عبدالسلا م بھٹوی حفظہ اللہ (شیخ الحدیث مرکز طیبہ مرید کے )
۱۲۔ شیخ محمد یوسف قصوری حفظہ اللہ (شیخ الحدیث جامعہ محمد بن اسماعیل البخاری گندھیاں اوتاڑ قصور)
۱۳۔ شیخ عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ (شیخ الحدیث جامعہ معھد القرآن ،کراچی)
۱۴۔ حافظ ثناء اللہ الزاہدی حفظہ اللہ (شیخ الحدیث جامعہ امام بخاری )
۱۵۔ شیخ عبداللہ رفیق حفظہ اللہ (شیخ الحدیث جامعہ محمدیہ لوکو ورکشاپ لاہور )
۱۶۔ مفتی عبیداللہ عفیف حفظہ اللہ (شیخ الحدیث جامعہ قدس اہلحدیث لاہور )
۱۷۔ شیخ امین اﷲ پشاوری حفظہ اللہ (شیخ الحدیث پشاور)
۱۸۔ شیخ غلام اللہ رحمتی حفظہ اللہ (شیخ الحدیث پشاور)
۱۹۔ شیخ -عبدالسلام رستمی حفظہ اللہ (شیخ الحدیث پشاور )
۲۰۔ شیخ عبدالروف بن عبدالحنان بن حکیم محمد اشرف سندھو حفظہ اللہ 
۲۱۔ شیخ امین محمدی حفظہ اللہ (شیخ الحدیث گوجرانوالہ)
۲۲۔ شیخ ابو صہیب داود ارشد حفظہ اللہ 
۲۳۔ مفتی مبشر احمد ربانی حفظہ اللہ 
۲۴۔ مفتی عبدالحنان حفظہ اللہ (مفتی جامعہ سلفیہ فیصل آباد )وغیرہ
کسی اصول میں اختلاف ہوجانا کوئی بڑی بات نہیں جو کسی کو صحیح موقف لگتا ہے وہ اس کو اپنائے اور علماء کا احترام انتہائی ضروری ہے ۔
آٹھواں اشکال:
غلط، غلط کو تقویت نہیں پہنچا سکتا۔ متقدمین محدثین بعض احادیث کے متعلق کہہ دیتے ہیں کہ’’کلھا ضعیفۃ‘‘ یا ’’أسانیدھا کلھا معلولۃ‘‘ وغیرہ ،ان سے حسن لغیرہ کو حجت نہ سمجھنے والے استدلال کرتے ہیں حالانکہ ان روایات میں راویات میں راوی کی کئی اغلاط ہوتی ہیں۔
محترم حافظ خبیب الاثری لکھتے ہیں:
’’چنانچہ اسی حوالے سے امام البانی رقمطراز ہیں: 
’’أن الشاذ والمنکر مردود، لأنہ خطأ والخطأ لا یتقوی بہ۔‘‘
’’شاذ اور منکر قابلِ ردّ ہے کیونکہ وہ غلط ہے اور غلط سے تقویت حاصل نہیں کی جاسکتی۔‘‘ 
نیز فرمایا: 
’’وما ثبت خطؤہ فلا یعقل أن یقوی بہ روایۃ أخری في معناہا، فثبت أن الشاذ والمنکر مما لا یعتد بہ ولا یستشہد بہ، بل إن وجودہ وعدمہ سوائٌ۔‘‘
’’اور جس (سند یا متن) کا غلط ہونا ثابت ہوجائے تو یہ معقول نہیں کہ اس کے ہم معنی روایت اسے تقویت پہنچائے گی۔ اس سے ثابت ہوا کہ شاذ اور منکر حدیث کی وہ اقسام ہیں جو کسی قطار وشمار میں نہیں اور نہ انھیں بطورِ شاہد پیش کیا جاسکتا ہے بلکہ اس کا وجود اور عدمِ وجود دونوں برابر ہیں۔‘‘ (صلاۃ التراویح للألباني، ص: ۵۷)
اسی لیے تو امام احمدؒ نے فرمایا کہ ’’والمنکر أبدا منکر‘‘ کہ ’’منکر روایت ہمیشہ منکر ہی رہتی ہے۔‘‘
(العلل ومعرفۃ الرجال روایۃ المروذی، ص: ۱۶۷، رقم: ۲۸۷۔ ومسائل الإمام أحمد روایۃ ابن ہانئ، ج:۲، ص:۱۶۷، رقم: ۱۹۲۵)
اسی مفہوم کو شیخ طارق بن عوض اللہ نے اپنی کتاب ’’الإرشادات في تقویۃ الأحادیث بالشواہد والمتابعات‘‘ کے مقدمہ میں بڑے بسط سے بیان کیا ہے۔ (مقالات اثریہ، از حافظ خبیب احمد )