بعض ساتھیوں کو کتب پڑھنے کی بجائے سننے کاشوق ہوتا ہے ۔
اپنے اس شوق کو قرآن و سنت پر مشتمل کتب کی آواز سننے سے پورا کریں
اس لنک سے کتب ڈاون لوڑ کرین اور سنیں :
میرے خیال سے کوئی بھی شخص مکمل توجہ سے ہماری پوری بات پڑھے گا تو وہ خود بخود سمجھ جائے گا کہ یہاں سبقت قلم کے نتیجے میں ’’ابوالعالیہ ‘‘ کی جگہ ’’ابومسلم‘‘ کا نام درج ہوگیا ۔یعنی صحیح عبارت یوں ہونی چاہئے :’’ اور ابو ذر رضی اللہ عنہ سے ابو العالیہ کے سماع کا کوئی ثبوت قطعاً نہیں ‘‘سبقت قلم کی یہ غلطی ایسے مقام پر نہیں ہے کہ قاری بغور پڑھنے کے باوجود بھی خود بخود نہ سمجھ سکے ، اور میری وضاحت کی ضرورت پڑے۔کیونکہ یہاں سیاق وسباق میں کئی ایسے دلائل موجود ہیں جو اس سبقت قلمی پر دلالت کرتے ہیں ملاحظہ ہوں:یوں تو سیاق وسباق کی بہت ساری دلیلیں ہیں لیکن ہم پہلے ان دلائل کو ذکر کرتے ہیں جو میری تحریر سے لئے گے اقتباس سے بالکل آگے پیچھے جڑے ہیں ، چنانچہ دیکھیں میرے مقتبس الفاظ اپنے آگے پیچھے کی عبارت کے ساتھ :شیخ البانی رحمہ اللہ کی تصحیح کردہ سند عبدالوھاب والی نہیں ہے ، یہ سند صریحا منقطع ہے کیونکہ اس میں ابومسلم اور ابوذر رضی اللہ عنہ کے مابین کسی واسطے کاذکر نہیں ،اور ابوذر رضی اللہ عنہ سے ابومسلم کے سماع کا کوئی ثبوت قطعا نہیں ، ناقدین محدثین نے واضح طور پر یہاں انقطاع کی صراحت کی ہے ۔سیاق کی پہلی دلیل:میرے جن ادھورے الفاظ کا اقتباس لیا گیا ہے اس سے متصل پہلے لکھا ہوا ہے:’’شیخ البانی رحمہ اللہ کی تصحیح کردہ سند عبدالوھاب والی نہیں ہے‘‘یعنی عدم سماع کی بات کا تعلق اسی سند سے ہے جسے شیخ البانی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے اور اس سند میں ابومسلم ہے ہی نہیں بلکہ اس جگہ ابوالعالیہ ہیں جو ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت کررہے ہیں ۔غورکریں کہ جب میں نے یہ کہہ دیا کہ ’’ یہ سند عبدالوھاب والی نہیں ہے‘‘ تو بھلا یہ سند ابومسلم والی میں کیسے مان سکتاہوں ؟سیاق کی دوسری دلیل:میرے جن ادھورے الفاظ کا اقتباس لیا گیا ہے اس سے متصل پہلے لکھا ہوا ہے:’’یہ سند صریحا منقطع ہے ‘‘اب ظاہر ہے کہ جس سند کو صراحۃ منقطع بتلایا جارہا ہے ، دعوائے عدم سماع کا تعلق بھی ان ہی رواۃ سے متعلق ہوگا جو اس سند میں موجود ہوں گے اور ابوذرضی اللہ عنہ سے روایت کرنے کی جگہ پر ابومسلم نہیں بلکہ ابوالعالیہ ہیں ، لہٰذا عدم سماع کا دعوی ابوالعالیہ و ابوذر رضی اللہ عنہ کے مابین ہی ہے ۔سیاق کی تیسری دلیل:میرے جن ادھورے الفاظ کا اقتباس لیا گیا ہے اس کے معا بعد لکھا ہوا ہے:’’کیونکہ اس میں ابومسلم اور ابوذر رضی اللہ عنہ کے مابین کسی واسطے کاذکر نہیں‘‘صاف کہا جارہا ہے کہ ’’اس میں ‘‘ یعنی علامہ البانی رحمہ اللہ کی پیش کردہ سند میں ، اور اس سند میں ابو ذر رضی اللہ عنہ سے قبل ابومسلم نہیں بلکہ ابوالعالیہ ہیں ، یہ سیاق اس بات کی دلیل ہے کہ عدم سماع کا دعوی ابوذررضی اللہ عنہ اور ابوالعالیہ ہی کے مابین ہے۔سیاق کی چوتھی دلیل:میرے جن ادھورے الفاظ کا اقتباس لیا گیا ہے اس کے معا بعد لکھا ہوا ہے:’’ناقدین محدثین نے واضح طور پر یہاں انقطاع کی صراحت کی ہے ‘‘صاف کہا جارہا ہے کہ ’’یہاں انقطاع کی صراحت کی ہے ‘‘ یعنی اس سند میں جسے علامہ البانی رحمہ اللہ نے پیش کیا ہے اور یہاں پر محدثین کی صراحت ابوذر رضی اللہ عنہ اور ابوالعالیہ ہی کے مابین ہے نہ کہ ابوذر رضی اللہ عنہ اور ابومسلم کے مابین ۔ویسے مجھے حیرت ہے کہ حافظ موصوف نے میرے ان الفاظ ’’ناقدین محدثین نے واضح طور پر یہاں انقطاع کی صراحت کی ہے ‘‘ کو کیوں نظر انداز کردیا ؟موصوف کو تو ان الفاظ کا بھی اقتباس لے کر پوچھنا چاہئے کہ کون کون سے محدثین ہیں جنہوں نے یہاں انقطاع کی صراحت کی ہے۔سیاق کی یہ چار دلیلیں تو لیے گئے اقتباس سے متصل آگے پیچھے ہی ہیں ، علاوہ ازیں:سیاق کی پانچویں دلیل:متعلقہ مقام پر سب سے پہلے علامہ البانی رحمہ اللہ کی صحیح قرار دی گئی ایک سند کو پیش کیا گیا ہے اس کے بعد اسی کا جواب دیا جارہا ہے اور اس پیش کردہ سند میں ابومسلم کا نام ونشان ہی نہیں ہے بلکہ یہاں ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت کرنے والے ابوالعالیہ ہیں ۔لہٰذا جواب دینے والا ایسی سند میں جب انقطاع کی بات کرے گا تو انہیں رواۃ کے مابین انقطاع بتلائے گا جو اس سند میں موجود ہوں گے اورابو مسلم تو اس سند میں موجود ہی نہیں۔سیاق کی چھٹی دلیل:اگرہم متعلقہ مقام پر ابومسلم ہٹا کر ابوالعالیہ رکھ دیں ، اور اس کے بعد اسی تحریر کو کسی عالم کے سامنے پیش کریں تو وہ ہرگز یہ اعتراض نہیں کرگے کہ یہاں ابوالعالیہ کا ذکربے محل ہے اس کے برعکس اگر ہم یہ تحریر کسی عالم کو نظر ثانی کرنے کے لئے دیں (اعتراض کرنے کے لئے نہیں ) تو وہ ضرور بتلائے گا کہ کتابت کی یہ غلطی صحیح کرلو ۔اگر’’ابوالعالیہ‘‘ کی جگہ ’’ابومسلم ‘‘ لکھا جانا سبقت قلم والی غلطی نہ ہوتی تو تصحیح کرنے کے بعد یعنی ’’ابومسلم‘‘ کی جگہ ’’ابوالعالیہ‘‘ رکھنے کے بعدیہ جملہ سیاق وسباق سے کٹ جاتا لیکن تصحیح کے بعد ایسا کوئی بات ظاہر نہ ہونا بلکہ عین سیاق وسباق کے موافق معلوم ہونا اس بات کی قوی دلیل ہے کہ یہاں سبقت قلم کی غلطی ہے۔سیاق کی ساتویں اور زبردست دلیل:سب سے اہم بات یہ ہے کہ حافظ موصوف پر رد کرتے ہوئے ہم نے جو پہلی تحریر پیش کی تھی اس میں زیربحث روایت کی سند میں جو کمزوری بتلائی تھی وہاں ہم نے ابومسلم اورابوذر رضی اللہ عنہ کے مابین عدم سماع والی بات قطعا نہیں کی ہے اگر ہمارا یہ دعوی ہوتا کہ ابومسلم کا سماع ابوذر رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں تو ہم اپنی پہلی تحریر ہی میں اسے پیش کرتے ۔ہمارا یہ طرزعمل بھی شاہد ہے کہ دکھایا گیا موقف ہمارا موقف قطعا نہیں بلکہ علامہ البانی رحمہ اللہ کی پیش کردہ سند پر بات کرتے ہوئے سبقت قلم سے ابوالعالیہ کی جگہ ابومسلم تحریر ہوگیا۔ان شاء اللہ جو کوئی بھی انصاف کی نظر سے اور پوری توجہ سے اورسیاق وسباق کو سامنے رکھتے ہوئے ہماری تحریر پڑے گا وہ خود بخود سمجھ جائے گا کہ یہاں سبقت قلم کی غلطی ہے، اور مضمون نگار یہ کہنا چاہتاہے۔اور سبقت قلم کی یہ غلطی مجھ سے کوئی پہلی بار نہیں ہوئی بلکہ اسے قبل بھی اس طرح کی چوک ہوچکی ہے چنانچہ گذشتہ رمضان میں ہم نے اپنے رسالہ ’’اہل السنہ ‘‘ میں لکھا :’’یہ رویات منقطع ہے کیونکہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا دور نہیں پایاہے‘‘[دیکھئے مجلہ اہل السنہ،خصوصی شمارہ، رمضان نمبر 1433 ھ : ص 14 ]۔حالانکہ متعلقہ سند میں عمرفاروق رضی اللہ عنہ نہیں بلکہ اس جگہ امام اعمش رحمہ اللہ ہیں اور انہوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا دور نہیں پایا۔اب سیاق وسباق کو پیش نظر رکھنے والے ازخود سمجھ جائیں گے کہ سبقت قلم کی غلطی ہے ، لیکن کچھ لوگ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ دیکھو اس بے چارے کو ، یہ دو ہم عصر صحابہ کی ملاقات کا انکار کررہا ہے۔واضح رہے کہ ہم نے مجلہ اہل السنہ کے اگلے شمارہ میں اعلان کردیا تھا کہ رمضان کے خصوصی شمارہ میں یہ غلطی ہے ۔ایک اشکال:ایک بات سمجھ میں نہیں آئی کہ ہم نے جب شیخ البانی رحمہ اللہ کی پیش کردہ ایسی سند جس میں ’’ابومسلم‘‘ نہیں ہے اس پر بات کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’ اور ابو ذر رضی اللہ عنہ سے ابو مسلم کے سماع کا کوئی ثبوت قطعاً نہیں ‘‘توپھرحافظ موصوف نے ہماری اس بنیادی تحریر پر تنقید کیوں نہیں کی کہ جس سند پر بحث کرتے ہوئے ابوذر رضی اللہ عنہ سے ابومسلم کے عدم سماع کا دعوی کیا گیا اس میں تو ابومسلم موجود ہی نہیں ؟؟اصل تنقیدتو اسی پر ہونی چاہئے کیونکہ یہ اصل بنیاد ہے ۔اسی طرح یہ بھی سوال اٹھانا چاہئے کہ اگر مضمون نگار کا یہ دعوی ہے کہ ’’ اور ابو ذر رضی اللہ عنہ سے ابو مسلم کے سماع کا کوئی ثبوت قطعاً نہیں ‘‘ تو مضمون نگار نے جہان ابن عساکر کی ابومسلم والی سند پر بحث کی ہے وہاں اس علت کو بنیاد بناکر ابن عساکر کی سند پر جرح کیوں نہیں کی ؟؟کاش حافظ موصف ہمارے ادھورے الفاظ کو کم ازکم آگے پیچھے کے الفاظ کے ساتھ ہی نقل کردیتے تو گرچہ حافظ موصوف کچھ بھی سمجھیں لیکن دنیا میں اور بھی اہل علم ہیں اور ہمیں سب سے یہ امید نہیں کہ وہ ہماری مراد کے خلاف ہماری سبقت قلم کی غلطی کو بنیاد بناکر تنقید کریں گے اور ایسا جواب دیں گے جو سرے سے ہمیں مطلوب ہی نہیں ۔
ہم تمام قارئین بالخصوص اسماء الرجال سے دلچسپی رکھنے والے حضرات سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ بتلائیں کہ جو دعوی ہماری طرف منسوب کیا گیا ہے کیا فی الحقیقت یہ دعوی ہماری مجموعی تحریر سے مطابقت رکھتا ہے ؟؟سبقت قلم کی غلطی سے ہمیں انکار نہیں ہے لیکن کیا سیاق وسباق سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ اصل مضمون نگار کا کیا مقصود ہے؟؟ان شاء اللہ ہم عام لوگوں کے ساتھ ساتھ مستنداہل علم کی عدالت میں بھی اپنا یہ مقدمہ پیش کریں گے اور پوچھیں گے سیاق وسباق ہماری سبقت قلم کی غلطی پر دلالت کرتا ہے یا نہیں ؟؟؟ اگر جمہور اہل علم یہ کہہ دیں کہ سیاق وسباق سبقت قلم کی غلطی کی طرف اشارہ نہیں کرتا تو میں اپنی کوتاہی تعبیر کا معترف ہوں گا۔لیکن اگر جمہور اہل علم شہادت دیں کہ سیاق وسباق اور مجموعی تحریر اسی پر دلالت کرتی ہے کہ مضمون نگار ابو ذر رضی اللہ عنہ سے ابوالعالیہ کے سماع کا قائل نہیں ، لیکن اس کی سبقت قلم سے ابوالعالیہ کہ جگہ ابومسلم تحریر ہوگیا تو ایسی صورت میں بھی اگرکوئی غلط تحریر شدہ لفظ کی تصحیح کئے بغیر اسے تنقید کا نشانہ بنالے یا کسی بھی مضمون نگار کی تحریر کے ساتھ اس طرح کی ناانصافی کرے تو عام طور سے اس کی درج ذیل وجوہات ہوسکتی ہے :
- ناقد نے تحریر پڑھنے میں تساہل سے کام لیا ہے ۔
- ناقد کے پاس اتنی اہلیت و صلاحیت ہی نہیں کہ سیاق وسباق سے سبقت قلم کی غلطیاں پکڑسکے۔
- ناقد نے اصل بات سمجھ لی ہے کہ سبقت قلم کی غلطی ہے لیکن اس غلطی کو غنیمت جان کر عام قارئین کے سامنے بلاوجہ مضمون نگار کو مطعون کرنے کی کوشش کی ہے۔
موخر الذکر دو وجوہات عام طور سے ان لوگوں کے یہاں بکثرت ہوتی ہیں جو صرف سبقت قلم ہی نہیں بلکہ کمپوزنگ کی غلطیوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنا لیتے ہیں ،چونکہ نقد ایک عظیم محدث شیخ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ کا ہے اس لئے ان کے بارے میں ہم حسن ظن ہی رکھیں گے کہ موصوف نے ہماری تحریر پڑھنے میں تساہل سے کام لیا ہے ، اور سبقت قلم کی غلطی پر آگاہ نہیں ہوسکے۔واضح رہے خود شیخ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ سے بھی بعض مقامات پر سبقت قلم کی غلطیاں ہوئی ہیں اوربعد میں اس کی اصلاح بھی کی گئی ہے۔بہرحال ہم سبقت قلم کی اس غلطی سے برات کا اعلان کرتے ہیں اور اس غلطی کی تصحیح کرتے ہوئے یہ دعوی کرتے ہیں کہ:’’ اور ابو ذر رضی اللہ عنہ سے ابو العالیہ کے سماع کا کوئی ثبوت قطعاً نہیں ‘‘اسد بھائی سے گذارش ہے کہ ہماری طرف سے یہ اعلان برات شیخ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ تک پہنچادیں ، اور ہمارا اصل دعوی کیا ہے اس سے شیخ کو باخبر کریں تاکہ ہمیں اپنی اصل بات کا جواب مل سکے ۔واضح رہے کہ بعض روافض نے ابوذررضی اللہ عنہ سے ابوالعالیہ کے سماع کے لئے امام ذہبی وغیرہ کے بعض حوالے دئے ہیں ان پر ہماری نظر ہے لیکن یہ سارے حوالے ہماری نظر میں محل نظر ہیں ۔
جملہ حقوق ©
مرکز التحقیقات الاثریہ حسین خانوالا ہٹھاڑ قصور پاکستان تحت اشراف: ابن بشیر الحسینوی الاثری | تقویت یافتہ بلاگر | بلاگر اردو سانچہ (BUT-2) | تدوین و اردو ترجمہ بی یو ٹمپلٹس
Anag Amor Theme by Arhytutorial | Bloggerized by Anag Amor theme