آپ کی معلومات

Sunday 31 March 2013

آئیں دینی کتب کی سماعت کریں عربی اور انگلش

0 comments
بعض ساتھیوں کو کتب پڑھنے کی بجائے سننے کاشوق ہوتا ہے ۔
 اپنے اس شوق کو قرآن و سنت پر مشتمل کتب کی آواز سننے سے پورا کریں
اس لنک سے کتب ڈاون لوڑ کرین اور سنیں :
 

Saturday 30 March 2013

یہ سارا مسئلہ ہوا کس بات پر تھا؟؟؟۔ جواب از ؒشیخ کفایت اللہ سنابلی حفظہ اللہ

0 comments

 اصل پیغام ارسال کردہ از: حرب بن شداد پیغام دیکھیے
یہ سارا مسئلہ ہوا کس بات پر تھا؟؟؟۔۔۔
اصل میں حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے یزید کی مذمت سے متعلق ایک مرفوع حدیث کو حسن قرار دیا ۔
پھر میں نے اس کا رد لکھا ۔
پھر ایک بھائی نے شیخ زبیر حفظہ اللہ اور شیخ ندیم سے گفتگو کی اور گفتگو کے بعد انہوں نے ہمارے مضمون کا جواب دیا ۔
پھر میں نے اس کا جواب الجواب دیا ۔
پھر شیخ زبیرحفظہ اللہ نے بھی خود ہماری دونوں تحریروں کا جواب دیا ۔
اب باری میری ہے اور میں ان شاء اللہ شیخ زبیر حفظہ اللہ کے اس جواب کا بھی رد لکھوں گا لیکن یہ جواب بہت طویل ہے اس لئے ظاہر ہے کہ اس کے رد کے لئے بھی ہمارا اچھا خاصا وقت درکار ہے ۔
لہٰذا ہمارے جواب کے لئے قارئین کو کئی دن بلکہ کئی ہفتے بھی انتظار کرنے پڑسکتے ہیں ۔

یہ پورا معاملہ ہے ۔
بحوالہ:محدث فورم


ایک ظاہری تضاد از شیخ کفایت اللہ سنابلی حفظہ اللہ

0 comments

 اصل پیغام ارسال کردہ از: محمد اسد حبیب پیغام دیکھیے
شیخ صاحب ہم نےیہ کہیں بھی نہیں کہا کہ ابولعالیہ کا ابوذر رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت ہے!
بلکہ ہم نے آپکے اصول میں جو ظاہری تضاد دیکھا اس کی وضاحت طلب کی تھی۔۔۔!
بہرحال آپکے جواب سےیہی ظاہر ہو رہا ہے کہ آپ ابوالعالیہ کے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے سماع کے قائل ہیں۔ سو اپنے اصول کی روشنی میں ابوالعالیہ کے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سےعدم سماع کی استثنائیت کی وضاحت کردیں۔جزاک اللہ خیراً۔

استثنائیت کی وضاحت ہم کریں گے لیکن آپ بھی تو اپنے اصول سے استثنائیت کی وضاحت کریں ۔
بھائی ہم بھی تو آپ کے اصول میں ظاہری تضاد دیکھ رہے کہ وہ یہ کہ عبداللہ بن بریدہ کا اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے سماع آپ نہیں مان رہے ہیں جبکہ معاصرت ثابت ہے اور یہی موقف حافظ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ کا بھی ہے ۔

اقتباس اصل پیغام ارسال کردہ از: محمد اسد حبیب پیغام دیکھیے
فضیلة الشیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے اسے مندرجہ ذیل وجوہ کی بنا پر ضعیف قرار دیا ہے:

اسنادہ ضعیف
عبداللہ بن بریدہ لم یسمع من عائشہ کما قال الدارقطنی (السنن233/3،ح3517) والبیہقی (118/7) ودفاع ابن الترکمانی باطل لان الخاص مقدم علی العام۔وللحدیث شاھد ضعیف عندالنسائی فی الکبری (10714) فیہ سفیان الثوری مدلس وعنعن۔وشاھد آخر موقوف عندہ (10707) وسندہ ضعیف، فیہ ۔۔۔۔۔ عبداللہ بن جبیر وفیہ نظر ویقال: حنین ویقال:حسن۔!
(انوار الصحیفہ فی الاحادیث الضعیفہ من السنن الاربعہ مع الادلة،ص297)

اور آپ حافظ موصوف کے موقف کوغلط نہیں مان رہے ہیں ۔
تو ایک جگہ معاصرت کی بنیاد پر سماع ثابت کرنا اور ایک جگہ معاصرت کے باوجود سماع ثابت نہ ماننا کیا یہ ظاہری تضاد نہیں ہے؟؟؟



آپ اپنے ظاہری تضاد کی وضاحت کردیں پھر ہم اپنے ظاہر ی تضاد کی وضاحت کردیتے ہیں ۔
اورہوسکتا ہے کہ آپ کی وضاحت ہی مجھ ناچیز کی وضاحت بھی بن جائے ۔



جزاک اللہ خیرا
بحوالہ محدث فورم


 اصل پیغام ارسال کردہ از: محمد اسد حبیب پیغام دیکھیے
ہائی لائیٹڈ الفاظ کی نشاندہی کر دیں کہ یہ ہم نے کہاں کہا ہے۔
بھائی ہم نے کب کہا کہ انہیں الفاظ میں آپ نے یہ بات کہی ہے لیکن آپ جس نکتہ پربحث اٹھانا چاہتے اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ آپ ابوالعالیہ اور ابوذر رضی اللہ عنہ کی معاصرت کوسماع کی دلیل بنانا چاہتے ۔
آپ نے شروعات یہی سے کی تھی کہ کیا آپ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ابوالعالیہ کا سماع مانتے ہیں ؟
صاف ظاہر ہے کہ آپ معاصرت کاحوالہ دینا چاہتے ہیں ، اور یہ کہنا چاہتے کہ ابوالعالیہ کا سماع اگر ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے تو ابوذر رضی اللہ عنہ سے ثابت کیوں نہیں ؟؟
اسی بنیاد پر ہم نے بھی دکھا یا کہ آپ بھی ایک مقام پر معاصرت ثابت ہونے کے باوجود سماع ثابت نہیں مان رہے ۔
لیکن اگر آپ یہ صراحت فرمارہے ہیں یہ سب کچھ کہنے سے آپ کا مقصد معاصرت سے سماع ثابت کرنا نہیں ہے توآپ کی صراحت سر آنکھوں پر ۔

لیکن ہم سوال کرنے کا حق رکھتے ہیں کہ اگرآپ نے اب تک یہ نہیں کہا تو اب ہمارے مطالبہ پر بتلادیجئے کہ :

کیا آپ معاصرت کو سماع کی دلیل سمجھتے ہیں؟؟؟؟؟

یادرہے ہم نے شروع میں ہی سوال کیا تھا:

اقتباس اصل پیغام ارسال کردہ از: کفایت اللہ پیغام دیکھیے
آپ عبداللہ بن بريدة کا سماع ، ان کے والد ، نیز معاویہ رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن المغفل اور سمرہ بن جندب اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم سے مانتے ہیں ؟؟ 
شاید آپ کا جواب ہی خود آپ کے سوال کا جواب بن جائے ۔
اس کاجواب آپ نے نہیں دیا ۔
ہم کہتے ہیں اب سے جواب دے دیجئے معاملہ صاف ہوجائے گا۔

Friday 29 March 2013

تمام حضرات بالخصوص اسماء الرجال میں دلچسپی رکھنے والے حضرات کی خدمت میں

0 comments
تالیف:
شیخ کفایت اللہ سنابلی حفظہ اللہ

محترم حافظ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ نے میری تحریر سے ایک خاص ٹکڑا نقل کیا اورپھر اس کا رد کیا ہے ملاحظہ ہو:

اقتباس اصل پیغام ارسال کردہ از: محمد اسد حبیب پیغام دیکھیے
۶)محترم کفایت اللہ سنابلی حفظہ اللہ نے لکھا ہے:
’’ اور ابو ذر رضی اللہ عنہ سے ابو مسلم کے سماع کا کوئی ثبوت قطعاً نہیں ‘‘
عرض ہے کہ ثبوت تو حسن لذاتہ سند کے ساتھ مسند احمد (۵/ ۱۷۹) اور مختصر قیام اللیل للمروزی (ص ۷۸) وغیرہما میں موجود ہے اور امام بخاری نے بھی فرمایا ہے کہ ابو مسلم نے ابو ذر (رضی اللہ عنہ) سے سنا ہے۔ (کتاب الکنیٰ ص ۶۸)
لہٰذا سماع کے انکار کا دعویٰ باطل ہے اور امام بخاری کے ارشاد سے یہی ظاہر ہے کہ امام بخاری بھی اسے ثابت سمجھتے تھے۔

پوری تحریر کا جواب تو متعلقہ تھریڈ میں ارسال کروں گا لیکن یہاں میں تمام حضرات خصوصا اسماء الرجال میں دلچسپی رکھنے والے حضرات کی خدمت میں ایک درخواست پیش کرنا چاہتاہوں وہ یہ کہ میری اس ادھوری عبارت سے آگے پیچھے پوری بات پڑھیں اور بتلائیں کہ کیاواقعی میرا یہی موقف و دعوی ہے کہ ابوذر رضی اللہ عنہ سے ابومسلم کے سماع کا کوئی ثبوت نہیں ہے ؟؟؟

مذکورہ ٹکڑے سے آگے پیچھے کی پوری بات قارئین آگے ملاحظہ فرمائیں:



نیز شیخ البانی نے بھی اس متن کی اایک روایت کو صحیح قرار دیا ہے:
۔ " أول من يغير سنتي رجل من بني أمية ".
أخرجه ابن أبي عاصم في " الأوائل " (٧ / ٢) : حدثنا عبيد الله بن معاذ حدثنا أبي حدثنا عوف عن المهاجر أبي مخلد عن أبي العالية عن أبي ذر أنه قال ليزيد ابن أبي سفيان: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فذكره. قلت: وهذا إسناد حسن، رجاله ثقات رجال الشيخين غير المهاجر وهو ابن مخلد أبو مخلد، قال ابن معين: " صالح ". وذكره ابن حبان في " الثقات ". وقال الساجي: " صدوق ". وقال أبو حاتم: " لين الحديث ليس بذاك وليس بالمتقن، يكتب حديثه ".
قلت: فمثله لا ينزل حديثه عن مرتبة الحسن. والله أعلم. ولعل المراد بالحديث تغيير نظام اختيار الخليفة، وجعله وراثة. والله أعلم. ( سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ ح:۱۷۴۹) ۲۔ "أول من يبدل سنتي رجل من بني أمية". "حسن". "ع" عن أبي ذر. الصحيحة 1749: ابن أبي عاصم. (صحیح الجامع:۲۵۲۸)

اولا:
شیخ البانی رحمہ اللہ عصرحاضر کے محدث ہیں اور ان کے فیصلہ کے برخلاف متقدمین محدثین نے بالاتفاق اس روایت کومردود قرار دیاہے، متقدمین کے متفقہ فیصلہ کے ہوتے ہوئے متاخرین کی بات کون سنے گا؟؟

ثانیا:
  • شیخ البانی رحمہ اللہ نے جس روایت کو صحیح کہا ہے اس کا متن زیربحث روایت سے بہت مختلف ہے۔
  • شیخ البانی کی تصحیح کردہ روایت میں یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ پر گھناؤنا الزام نہیں ہے۔
  • شیخ البانی رحمہ اللہ کی تصحیح کردہ روایت میں سنت بدلنے والے شخص کا نام مذکور نہیں ۔

اتنے فرق ہونے کے باوجود بھی یہ کہنا محل نظرہے کہ :
نیز شیخ البانی نے بھی اس متن کی اایک روایت کو صحیح قرار دیا ہے

ثالثا:
شیخ البانی رحمہ اللہ کی تصحیح کردہ سند عبدالوھاب والی نہیں ہے ، یہ سند صریحا منقطع ہے کیونکہ اس میں ابومسلم اور ابوذر رضی اللہ عنہ کے مابین کسی واسطے کاذکر نہیں ،اور ابوذر رضی اللہ عنہ سے ابومسلم کے سماع کا کوئی ثبوت قطعا نہیں ، ناقدین محدثین نے واضح طور پر یہاں انقطاع کی صراحت کی ہے ۔


رابعا:
یہ روایت ابن ابی عاصم میں مختصر ہے اور ابن عساکر میں مفصل ہے اور اس کی روشنی میں یہ روایت ابوذر رضی اللہ عنہ نے اسی جگہ بیان کی ہے جہاں امام بخاری کے کے بقول ابوذر رضی اللہ عنہ بیان ہی نہیں کرسکتے لہٰذا یہ روایت موضوع ومن گھڑت ہے ۔


آگے پیچھے کی مکمل بات جیسے اصل مقام پر تھی میں نے اوپر جوں کا توں نقل کردیا ہے ۔

اب اسی پوسٹ کو آگے دوبارہ نقل کرتاہوں اور کچھ مقامات پر الفاظ کے نیچے خط کھینچتا ہوں، اسی طرح کچھ الفاظ کو ہائی لائٹ کرتاہوں ۔

قارئین سے گذارش ہے کہ خط کشیدہ الفاظ کو سامنے رکھ کر پورے سیاق سے اسے جوڑیں اسی طرح ہائی لائٹ کردہ الفاظ کو ایک ساتھ سامنے رکھ کر پورے سیاق سے اسے جوڑیں ، اور پھرنتیجہ نکالیں کہ اصل معاملہ کیاہے؟؟



نیز شیخ البانی نے بھی اس متن کی اایک روایت کو صحیح قرار دیا ہے:
۔ " أول من يغير سنتي رجل من بني أمية ".
أخرجه ابن أبي عاصم في " الأوائل " (٧ / ٢) : حدثنا عبيد الله بن معاذ حدثنا أبي حدثنا عوف عن المهاجر أبي مخلد عن أبي العالية عن أبي ذر أنه قال ليزيد ابن أبي سفيان: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فذكره. قلت: وهذا إسناد حسن، رجاله ثقات رجال الشيخين غير المهاجر وهو ابن مخلد أبو مخلد، قال ابن معين: " صالح ". وذكره ابن حبان في " الثقات ". وقال الساجي: " صدوق ". وقال أبو حاتم: " لين الحديث ليس بذاك وليس بالمتقن، يكتب حديثه ".
قلت: فمثله لا ينزل حديثه عن مرتبة الحسن. والله أعلم. ولعل المراد بالحديث تغيير نظام اختيار الخليفة، وجعله وراثة. والله أعلم. ( سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ ح:۱۷۴۹) ۲۔ "أول من يبدل سنتي رجل من بني أمية". "حسن". "ع" عن أبي ذر. الصحيحة 1749: ابن أبي عاصم. (صحیح الجامع:۲۵۲۸)

اولا:
شیخ البانی رحمہ اللہ عصرحاضر کے محدث ہیں اور ان کے فیصلہ کے برخلاف متقدمین محدثین نے بالاتفاق اس روایت کومردود قرار دیاہے، متقدمین کے متفقہ فیصلہ کے ہوتے ہوئے متاخرین کی بات کون سنے گا؟؟

ثانیا:
  • شیخ البانی رحمہ اللہ نے جس روایت کو صحیح کہا ہے اس کا متن زیربحث روایت سے بہت مختلف ہے۔
  • شیخ البانی کی تصحیح کردہ روایت میں یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ پر گھناؤنا الزام نہیں ہے۔
  • شیخ البانی رحمہ اللہ کی تصحیح کردہ روایت میں سنت بدلنے والے شخص کا نام مذکور نہیں ۔

اتنے فرق ہونے کے باوجود بھی یہ کہنا محل نظرہے کہ :
نیز شیخ البانی نے بھی اس متن کی اایک روایت کو صحیح قرار دیا ہے

ثالثا:
شیخ البانی رحمہ اللہ کی تصحیح کردہ سند عبدالوھاب والی نہیں ہے ، یہ سند صریحا منقطع ہے کیونکہ اس میں ابومسلم اور ابوذر رضی اللہ عنہ کے مابین کسی واسطے کاذکر نہیں ،اور ابوذر رضی اللہ عنہ سے ابومسلم کے سماع کا کوئی ثبوت قطعا نہیں ، ناقدین محدثین نے واضح طور پر یہاں انقطاع کی صراحت کی ہے ۔


میرے خیال سے کوئی بھی شخص مکمل توجہ سے ہماری پوری بات پڑھے گا تو وہ خود بخود سمجھ جائے گا کہ یہاں سبقت قلم کے نتیجے میں ’’ابوالعالیہ ‘‘ کی جگہ ’’ابومسلم‘‘ کا نام درج ہوگیا ۔

یعنی صحیح عبارت یوں ہونی چاہئے :

’’ اور ابو ذر رضی اللہ عنہ سے ابو العالیہ کے سماع کا کوئی ثبوت قطعاً نہیں ‘‘ 

سبقت قلم کی یہ غلطی ایسے مقام پر نہیں ہے کہ قاری بغور پڑھنے کے باوجود بھی خود بخود نہ سمجھ سکے ، اور میری وضاحت کی ضرورت پڑے۔
کیونکہ یہاں سیاق وسباق میں کئی ایسے دلائل موجود ہیں جو اس سبقت قلمی پر دلالت کرتے ہیں ملاحظہ ہوں:

یوں تو سیاق وسباق کی بہت ساری دلیلیں ہیں لیکن ہم پہلے ان دلائل کو ذکر کرتے ہیں جو میری تحریر سے لئے گے اقتباس سے بالکل آگے پیچھے جڑے ہیں ، چنانچہ دیکھیں میرے مقتبس الفاظ اپنے آگے پیچھے کی عبارت کے ساتھ :

شیخ البانی رحمہ اللہ کی تصحیح کردہ سند عبدالوھاب والی نہیں ہے ، یہ سند صریحا منقطع ہے کیونکہ اس میں ابومسلم اور ابوذر رضی اللہ عنہ کے مابین کسی واسطے کاذکر نہیں ،اور ابوذر رضی اللہ عنہ سے ابومسلم کے سماع کا کوئی ثبوت قطعا نہیں ، ناقدین محدثین نے واضح طور پر یہاں انقطاع کی صراحت کی ہے ۔

سیاق کی پہلی دلیل:
میرے جن ادھورے الفاظ کا اقتباس لیا گیا ہے اس سے متصل پہلے لکھا ہوا ہے:
’’شیخ البانی رحمہ اللہ کی تصحیح کردہ سند عبدالوھاب والی نہیں ہے‘‘

یعنی عدم سماع کی بات کا تعلق اسی سند سے ہے جسے شیخ البانی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے اور اس سند میں ابومسلم ہے ہی نہیں بلکہ اس جگہ ابوالعالیہ ہیں جو ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت کررہے ہیں ۔
غورکریں کہ جب میں نے یہ کہہ دیا کہ ’’ یہ سند عبدالوھاب والی نہیں ہے‘‘ تو بھلا یہ سند ابومسلم والی میں کیسے مان سکتاہوں ؟ 

سیاق کی دوسری دلیل:
میرے جن ادھورے الفاظ کا اقتباس لیا گیا ہے اس سے متصل پہلے لکھا ہوا ہے:
’’یہ سند صریحا منقطع ہے ‘‘

اب ظاہر ہے کہ جس سند کو صراحۃ منقطع بتلایا جارہا ہے ، دعوائے عدم سماع کا تعلق بھی ان ہی رواۃ سے متعلق ہوگا جو اس سند میں موجود ہوں گے اور ابوذرضی اللہ عنہ سے روایت کرنے کی جگہ پر ابومسلم نہیں بلکہ ابوالعالیہ ہیں ، لہٰذا عدم سماع کا دعوی ابوالعالیہ و ابوذر رضی اللہ عنہ کے مابین ہی ہے ۔

سیاق کی تیسری دلیل:
میرے جن ادھورے الفاظ کا اقتباس لیا گیا ہے اس کے معا بعد لکھا ہوا ہے:
’’کیونکہ اس میں ابومسلم اور ابوذر رضی اللہ عنہ کے مابین کسی واسطے کاذکر نہیں‘‘ 

صاف کہا جارہا ہے کہ ’’اس میں ‘‘ یعنی علامہ البانی رحمہ اللہ کی پیش کردہ سند میں ، اور اس سند میں ابو ذر رضی اللہ عنہ سے قبل ابومسلم نہیں بلکہ ابوالعالیہ ہیں ، یہ سیاق اس بات کی دلیل ہے کہ عدم سماع کا دعوی ابوذررضی اللہ عنہ اور ابوالعالیہ ہی کے مابین ہے۔

سیاق کی چوتھی دلیل:
میرے جن ادھورے الفاظ کا اقتباس لیا گیا ہے اس کے معا بعد لکھا ہوا ہے:
’’ناقدین محدثین نے واضح طور پر یہاں انقطاع کی صراحت کی ہے ‘‘

صاف کہا جارہا ہے کہ ’’یہاں انقطاع کی صراحت کی ہے ‘‘ یعنی اس سند میں جسے علامہ البانی رحمہ اللہ نے پیش کیا ہے اور یہاں پر محدثین کی صراحت ابوذر رضی اللہ عنہ اور ابوالعالیہ ہی کے مابین ہے نہ کہ ابوذر رضی اللہ عنہ اور ابومسلم کے مابین ۔

ویسے مجھے حیرت ہے کہ حافظ موصوف نے میرے ان الفاظ ’’ناقدین محدثین نے واضح طور پر یہاں انقطاع کی صراحت کی ہے ‘‘ کو کیوں نظر انداز کردیا ؟ 
موصوف کو تو ان الفاظ کا بھی اقتباس لے کر پوچھنا چاہئے کہ کون کون سے محدثین ہیں جنہوں نے یہاں انقطاع کی صراحت کی ہے۔

سیاق کی یہ چار دلیلیں تو لیے گئے اقتباس سے متصل آگے پیچھے ہی ہیں ، علاوہ ازیں:

سیاق کی پانچویں دلیل:
متعلقہ مقام پر سب سے پہلے علامہ البانی رحمہ اللہ کی صحیح قرار دی گئی ایک سند کو پیش کیا گیا ہے اس کے بعد اسی کا جواب دیا جارہا ہے اور اس پیش کردہ سند میں ابومسلم کا نام ونشان ہی نہیں ہے بلکہ یہاں ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت کرنے والے ابوالعالیہ ہیں ۔
لہٰذا جواب دینے والا ایسی سند میں جب انقطاع کی بات کرے گا تو انہیں رواۃ کے مابین انقطاع بتلائے گا جو اس سند میں موجود ہوں گے اورابو مسلم تو اس سند میں موجود ہی نہیں۔

سیاق کی چھٹی دلیل:
اگرہم متعلقہ مقام پر ابومسلم ہٹا کر ابوالعالیہ رکھ دیں ، اور اس کے بعد اسی تحریر کو کسی عالم کے سامنے پیش کریں تو وہ ہرگز یہ اعتراض نہیں کرگے کہ یہاں ابوالعالیہ کا ذکربے محل ہے اس کے برعکس اگر ہم یہ تحریر کسی عالم کو نظر ثانی کرنے کے لئے دیں (اعتراض کرنے کے لئے نہیں ) تو وہ ضرور بتلائے گا کہ کتابت کی یہ غلطی صحیح کرلو ۔
اگر’’ابوالعالیہ‘‘ کی جگہ ’’ابومسلم ‘‘ لکھا جانا سبقت قلم والی غلطی نہ ہوتی تو تصحیح کرنے کے بعد یعنی ’’ابومسلم‘‘ کی جگہ ’’ابوالعالیہ‘‘ رکھنے کے بعدیہ جملہ سیاق وسباق سے کٹ جاتا لیکن تصحیح کے بعد ایسا کوئی بات ظاہر نہ ہونا بلکہ عین سیاق وسباق کے موافق معلوم ہونا اس بات کی قوی دلیل ہے کہ یہاں سبقت قلم کی غلطی ہے۔

سیاق کی ساتویں اور زبردست دلیل:
سب سے اہم بات یہ ہے کہ حافظ موصوف پر رد کرتے ہوئے ہم نے جو پہلی تحریر پیش کی تھی اس میں زیربحث روایت کی سند میں جو کمزوری بتلائی تھی وہاں ہم نے ابومسلم اورابوذر رضی اللہ عنہ کے مابین عدم سماع والی بات قطعا نہیں کی ہے اگر ہمارا یہ دعوی ہوتا کہ ابومسلم کا سماع ابوذر رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں تو ہم اپنی پہلی تحریر ہی میں اسے پیش کرتے ۔
ہمارا یہ طرزعمل بھی شاہد ہے کہ دکھایا گیا موقف ہمارا موقف قطعا نہیں بلکہ علامہ البانی رحمہ اللہ کی پیش کردہ سند پر بات کرتے ہوئے سبقت قلم سے ابوالعالیہ کی جگہ ابومسلم تحریر ہوگیا۔


ان شاء اللہ جو کوئی بھی انصاف کی نظر سے اور پوری توجہ سے اورسیاق وسباق کو سامنے رکھتے ہوئے ہماری تحریر پڑے گا وہ خود بخود سمجھ جائے گا کہ یہاں سبقت قلم کی غلطی ہے، اور مضمون نگار یہ کہنا چاہتاہے۔


اور سبقت قلم کی یہ غلطی مجھ سے کوئی پہلی بار نہیں ہوئی بلکہ اسے قبل بھی اس طرح کی چوک ہوچکی ہے چنانچہ گذشتہ رمضان میں ہم نے اپنے رسالہ ’’اہل السنہ ‘‘ میں لکھا :

’’یہ رویات منقطع ہے کیونکہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا دور نہیں پایاہے‘‘[دیکھئے مجلہ اہل السنہ،خصوصی شمارہ، رمضان نمبر 1433 ھ : ص 14 ]۔

حالانکہ متعلقہ سند میں عمرفاروق رضی اللہ عنہ نہیں بلکہ اس جگہ امام اعمش رحمہ اللہ ہیں اور انہوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا دور نہیں پایا۔

اب سیاق وسباق کو پیش نظر رکھنے والے ازخود سمجھ جائیں گے کہ سبقت قلم کی غلطی ہے ، لیکن کچھ لوگ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ دیکھو اس بے چارے کو ، یہ دو ہم عصر صحابہ کی ملاقات کا انکار کررہا ہے۔

واضح رہے کہ ہم نے مجلہ اہل السنہ کے اگلے شمارہ میں اعلان کردیا تھا کہ رمضان کے خصوصی شمارہ میں یہ غلطی ہے ۔

ایک اشکال:
ایک بات سمجھ میں نہیں آئی کہ ہم نے جب شیخ البانی رحمہ اللہ کی پیش کردہ ایسی سند جس میں ’’ابومسلم‘‘ نہیں ہے اس پر بات کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’’ اور ابو ذر رضی اللہ عنہ سے ابو مسلم کے سماع کا کوئی ثبوت قطعاً نہیں ‘‘ 
توپھرحافظ موصوف نے ہماری اس بنیادی تحریر پر تنقید کیوں نہیں کی کہ جس سند پر بحث کرتے ہوئے ابوذر رضی اللہ عنہ سے ابومسلم کے عدم سماع کا دعوی کیا گیا اس میں تو ابومسلم موجود ہی نہیں ؟؟
اصل تنقیدتو اسی پر ہونی چاہئے کیونکہ یہ اصل بنیاد ہے ۔
اسی طرح یہ بھی سوال اٹھانا چاہئے کہ اگر مضمون نگار کا یہ دعوی ہے کہ ’’ اور ابو ذر رضی اللہ عنہ سے ابو مسلم کے سماع کا کوئی ثبوت قطعاً نہیں ‘‘ تو مضمون نگار نے جہان ابن عساکر کی ابومسلم والی سند پر بحث کی ہے وہاں اس علت کو بنیاد بناکر ابن عساکر کی سند پر جرح کیوں نہیں کی ؟؟
کاش حافظ موصف ہمارے ادھورے الفاظ کو کم ازکم آگے پیچھے کے الفاظ کے ساتھ ہی نقل کردیتے تو گرچہ حافظ موصوف کچھ بھی سمجھیں لیکن دنیا میں اور بھی اہل علم ہیں اور ہمیں سب سے یہ امید نہیں کہ وہ ہماری مراد کے خلاف ہماری سبقت قلم کی غلطی کو بنیاد بناکر تنقید کریں گے اور ایسا جواب دیں گے جو سرے سے ہمیں مطلوب ہی نہیں ۔

Thursday 28 March 2013

غریبوں اور یتیموں کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کریں

0 comments

آج جس دور سے ہم گزر رہے ہیں مہنگائی زوروں پر ہے جس میں ہر انسان پریشان نظر آتا ہےاورامیر تو امیر تر ہوتا جا رہا ہے اور اسے کسی کا احساس تک نہیں بلکہ کنجوسی کی انتھاوں کو چھو رہاہے ۔بس اپنی فکر کسی غریب اور یتیم کی کوئی فکر نہیں ہے حالانکہ ہمارے مقدس دین اسلام نے ایک رہنما اصول سمجھایا ہے کہ امیروں کو غریبوں کی وجہ سے ہی رزق دیا جاتا ہے ۔
اے مسلمان !غربت اور امیری اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے اگر آج تیرے پاس دولت ہے تو یہ تیری نہیں بلکہ اللہ تعالی کی ہے عارضی طور پر تیرے پاس ہے جس نے دی ہے وہ مقدس ذات باری تعالی چھین بھی سکتی ہے ۔
آج تو نے اپنی اولاد کی بہترین تعلیم وتربیت پر کتنا روپے خرچ کیا اور کر رہا ہے لیکن افسوس کہ غریبوں اور یتیموں کے بچے ایک ایک روپے کو ترستے ہیں اور بچپن سے ہی ان کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ہوتا اور وہ معاشرے میں انتہائی حقیر سمجھے جاتے ہیں ،نہیں نہیں وہ حقیر نہیں ہیں ان کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے ان کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرنے کی ضرورت ہے ،تاکہ وہ بھی بہترین دینی اور دنیاوی تعلیم سے اپنے آپ کوآراستہ کر سکیں اور معاشرے میں ایک تربیت یافتہ فرد کی طرح زندگی بسر کریں ۔
ہر کسی سے میرا سوال ہے :
کہ آپ کتنے غریبوں اور یتیموں کی کفالت کر رہے ہیں ؟
آپ نے کتنے غریبوں اوریتیموں کو کتب خرید کر دیں اور کتنوں کی ماہانہ فیس کا اہتما کیا ؟
آپ نے کتنے غریبوں اور یتیموں کو قرآن و حدیث اور دنیاوی تعلیم کی طرف رہنمائی کی ؟
حضرات گرامی:
آئیں ہم اپنے محلوں او شہروں میں ایک تحریک چلا ئیں جس کا مقصد صرف یہ ہو کہ اللہ تعالی کی رضاکی خاطر غریبوں اور یتیوں کی تعلیم وتربیت کا بہترین انتظام کرنا ہے ۔ان شاء اللہ