آپ کی معلومات

Saturday 31 August 2013

الاصلاح ٹرسٹ کے تحت تربیتی ٹریننگ دینے کے لئے پروجیکٹر کی ضرورت ہے احباب توجہ فرمائیں

0 comments
مختلف تربیتی ٹریننگ کورسز کروانے کا پروگرام ہے جس کی خاطر پروجیکٹر کی ضرورت ہے اور اس کی لاگت تقریبا ایک لاکھ روپے ہے 
،تاکہ لوگوں میں دینی شعور پیدا کیا جائے اور باصلاحیت افراد پیدا کئے جائیں 
اس لئے اہل خیر توجہ فرمائیں ۔
بارک اللہ فیکم 
رابطہ:
ابن بشیر الحسینوی الاثری
00923024056187
ای میل:
ialhusainwy@gmail.com

شرح بخاری حدیث :1،انما الاعمال بالنیات

2 comments

امام ابن عسا کر نے اس حدیث کو اہمیت دیتے ہوئے اپنی کتاب اربعین میں اس باب کے تحت نقل کیا ہے :البلد الاول مکۃاولا التعریف بالبلد مکۃ حرسھا اللہ تعالی وھی البلد الامین ثانیا الحدیث راویہ (ص:۲۸)ابن عساکر نے اپنے شیخ عبداللہ بن محمد بن اسمعیل المکی سے یہ حدیث مکہ میں بیت اللہ کے سامنے باب ابراہیم خلیل کے طرف بیٹھ کر سنی ۔اورپھر اسی سند میں ہے کہ کریمہ بنت احمد نے یہ حدیث مکہ میں ہی بیان کی ۔
علامہ بغدادی نے اپنی سند سے بیان کیا ہے کہ ابو سلیمان بن اشعث نے کہا کہ فقہ کا دارومدار ہے اان میں ایک انما الاعمال بالنیات بھی ہے (الجامع لاخلاق الراوی :ج۵ص۱۷۴)
امام ابن االمنذر اس حدیث پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں :لایجزی التیمم ولا اداء شیء من الفرائض الا بنیۃ(الاوسط :ج۲ص۱۵۵)
خطیب بغدادی نے اپنی سند سے بیان کیا ہے کہ امام شافعی نے کہا :فقہ کے ستر ابواب میں یہ حدیث داخل ہوتی ہے (الجامع لاخلاق الراوی :ج۵ص۱۷۵)

نیت کی اہمیت:
ابن مبارک کے شیخ جعفر بن حیان نے کہا:ملاک ھذہ الاعمال النیات فان الرجل یبلغ بنیتہ مالا یبلغ بعملہ(الزہد للمروزی :ص۶۳)

تنبیہ :یہ حدیث صرف سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے عبدالمجید بن عبدالعزیز بن ابی رواد نے غلطی کرتے ہوئے اس کو ابو سعید خدر ی سے بیان کردیا ہے (الارشاد للخلیلی:ج۱ ص ۱۳۳۔۱۶۷،اعلام الحدیث للخطابی :ج۱ص۱۱۱،حلیۃ الاولیاء :ج۶ ص۳۴۲ )اور یہ بات باطل ہے اس کی کوئی اصل نہیں ۔جیسا کہ ابوحاتم (علل الحدیث ح:۳۶۲)نے اس کو باطل کہا ہے اور دیگر محدثین کے تبصرے پڑھنے کے لئے (الارشادات فی تقویۃ الاحادیث بالشواھد والمتابعات ص۲۰۹ )کا مطالعہ کریں ۔
تنبیہ:تمام طرق میں مرکزی راوی یحیی بن سعید ہے لیکن سھل بن صقیر نے اس کو ،دراوردی ،ابن عیینہ اور انس بن عیاض کے واسطے سے محمد بن عمر و بن علقمہ عن محمد بن ابراھیم سے روایت کیا ہے حالانکہ مذکورہ تینوں راوی اس حدیث کو یحیی بن سعید سے ہی بیان کرتے ہیں یہ سھل بن صقیر کی فحش غلطی ہے ۔(علل الدار قطنی:ج۲ص۱۹۲)
[COLOR="red"]فقہ السند:[/COLOR]
۱:محمد بن ابراہیم التیمی ثقہ مشہور راوی ہے اس کے باوجود امام احمد نے ان کے متعلق کہا:یروی احادیث منکرۃ،حالانکہ یہ انما الاعمال بالنیات کا مرکزی راوی ہے اس کا جواب یہ ہے امام احمد تفرد پر بھی منکر کا اطلاق کردیتے ہیں یعنی یہ راوی حدیث بیان کر نے میں اکیلا ہے ۔فافھم(الرفع والتکمیل :ص۱۳)
۲:یحیی بن سعید الانصاری سے بے شمار راوی اس حدیث کو بیان کرتے ہیں مثلا ابن عیینہ ،یزید بن ھارون ،مالک،سفیان ثور ی، حماد بن زید،عبدالوہاب ،لیث بن سعد ،ابوخالد الاحمر،حفص بن غیاث ،عبداللہ بن مبارک (المسند الجامع المعلل ج : ۳۳ص:۴۵)سفیان ثوری،حماد بن سلمہ ،شعبہ ،یحیی بن سعید القطان،ایک مخلوق جن کا شمار ناممکن ہے ،محمد بن علی الخشاب نے کہا :اس حدیث کو یحی بن سعید الانصاری سے دو سو پچاس راوی بیان کرتے ہیں ۔
امام ابوعبداللہ الانصاری کہتے ہیں : میں یہ حدیث یحیی بن سعید الانصاری کے سات سو شاگردوں سے لکھی ہے (البدر المنیر لابن المقن:ج۱ص۶۵۴۔۶۵۵)
اس پر حافظ ابن حجر تبصرہ کرتے ہیں کہ میں اس کو صحیح نہیں سمجھتا اور فرماتے ہیں کہ جب سے میں نے حدیث کو طلب کرنا شروع کیا ہے اس وقت سے لے کر اب تک میں جمع کرتا رہا ہوں میں سو بھی مکمل نہیں کر سکا ۔(فتح الباری ج۱ص۱۱)
ابن الملقن نے اس کی بہت عمدہ شرح بھی کی ہے (البدر المنیر لابن المقن:ج۱ص۶۵۴۔۶۶۵)
۳:سیدنا عمر سے صرف علقمہ بیان کرتے ہیں اور علقمہ سے صرف محمد بن ابراھیم اوران سے صرف یحی بن سعید الانصاری بیان کرتے ہیں ان سے آگے بے شمار لوگ بیان کرتے ہیں اسی کو بالجزم بیان کیا ہے ترمذی ،نسائی،بزار،ابن سکن ،اورالکنانی نے ۔(فتح الباری :ج۱ ص۱۱) علامہ خطابی نے کہا ہے یہ حدیث صرف اسی سند سے ہی پہچانی جاتی ہے اس لے علاوہ اس کی کوئی سند نہیں ہے ۔اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ابن حجر فرماتے ہیں :یہ بات اسی طرح ہے جس طرح انھوں نے کہی ہے مگر دو قیدوں کے ساتھ،پہلی قید :صحیح ہونا کیو نکہ یہ حدیث کئی معلول طرق سے بھی مروی ہے جن کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گا۔
دوسری قید:سیاق کے اعتبار سے اس کے معنی میں بے شمار روایات موجود ہیں جو مطلق کے متعلق ہیں مثلا من قاتل لتکون کلمۃ اللہ ہی العلیا فھو فی سبیل اللہ ۔اس طرح نیت کے متعلق بے شمار روایات صحیح ثابت ہیں ۔لیکن انما الاعمال بالنیات کے سیاق سے صرف ایک ہی ہے ۔(فتح الباری :ج۱ص۱۱)
ابن مندہ نے اس حدیث کو کئی ایک صحابہ کرام سے روایت ہونے کا دعوی کیا ہے (المعرفۃ لابن مندہ بحوالہ البدر المنیر لابن الملقن ج۱ص۶۵۶)جو کہ درست نہیں اسی طرح انھوں نے متابعات بھی ذکر کئے ہیں جو کہ ثابت نہیں واللہ اعلم بالصواب ۔ابن مندہ کی یہ تحقیق معتبر محدثین کے خلاف ہے ۔راجح بات یہی ہے کہ یحیی بن سعید الانصاری تک یہ سند منفرد ہی ہے ۔اور انماالاعمال باالنیات کے سیاق سے صرف سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے ۔علامہ فاکھانی لکھتے ہیں :قد روی من حدیث ابی سعید الخدری وابی ھریرۃ وابن عباس وابن عمر و معاویۃ وقالوا:لایصح مسندا الا من حدیث عمر بن الخطاب(ریاض الاحکام شرح عمدۃ الاحکام :ج۱ص۱۵)تحقیق یہ حدیث سیدنا ابو سعید الخدری ،سییدنا ابوھریرۃ ،سیدنا ابن عباس ،سیدنا ابن عمر اور سیدنا معاویۃ رضی اللہ عنھم سے روایت کی گئی ہے اور محدثین نے کہا ہے کہ مسند صرف سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی سے صحیح ثابت نہیں ۔
[COLOR="red"]اصول حدیث:
اس حدیث سے ثابت ہونے والے اصول :
[/COLOR]پہلا اصول :ابواسحاق الابناسی(المتوفی:۸۰۲) کہتے ہیں کہ امام ترمذی کے نزدیک حسن یہ ہے کہ وہ روایت کسی دوسری سند سے بھی مروی ہے یہ شرط صحیح حدیث میں نہیں ہے اس سے معلوم ہوا کہ جو حدیث صحیح ہوگی امام ترمذی کے نزدیک وہ حسن نہیں ہوگی جیسے انما الاعمال بالنیات ہے یہ صحیح ہے اس کی دوسری سند نہیں ہے اس لئے امام ترمذی کے نزدیک یہ حسن نہیں ہو گی ۔(الشذ الفیاح من مقدمہ ابن الصلاح ج:۱ص:۱۲۶)
دوسرا اصول:صحیح حدیث کے لئے دو سندوں کاہو نا شرط لگانا درست نہیں ہے بلکہ ایک سند بھی ہو لیکن وہ صحیح ہو تو اس حدیث کا قبول کرنا فرض ہے ۔
تیسرا اصول:خبر واحد جو صحیح ثابت ہو وہ یقین کا فائدہ دیتی ہے نہ کہ ظن کا جس طرح بعض نے باور کروایا ہے ۔یاد رہے جو بھی حدیث صحیح ثابت ہوجائے وہ یقین کا فائدہ دیتی ہے خصوصا صحیح بخاری و صحیح مسلم کی احادیث صحیح ہیں اور علم یقین کا فائدہ دیتی ہیں تفصیل کے لئے (احادیث الصحیحین بین الظن والیقین لحافظ ثناء اللہ الزاہدی )
چوتھا اصول:اما م ترمذی جس حدیث کو حسن صحیح کہیں اس کا مطلب راجح قول کے مطابق یہ بیان کیا جاتا ہے کہ اس حدیث کی دو سندیں ایک صحیح ہے اور دوسری حسن یا اس کو بعض محدثین نے صحیح کہا ہے اور بعض حسن۔لیکن حدیث انما الاعمال باالنیا ت کو بھی امام ترمذی نے حسن صحیح کہا ہے اور یہ خود اقرار بھی کیا ہے کہ لانعرفہ الا من حدیث یحیی بن سعید الانصاری ۔(سنن الترمذی :۱۶۴۷)راقم کی نظر میں اس کو کسی بھی محدث نے حسن نہیں کہا اور اس کی سند بھی ایک ہے اس کے باوجود امام ترمذی صاحب اس کو حسن صحیح فرما رہے ہیں !!!تو کہنا پڑے گا کہ یہ امام ترمذی کی اپنی خاص اصطلاح ہے۔
فائدہ: اس حدیث کا ذکر صحیح بخاری پر لکھے ہوئے مستدرکات  میں نہیں ملا ۔ 
فائدہ:امام بخاری نے یہ حدیث اپنے شیخ امام حمیدی سے بیان کی اور امام حمیدی اس حدیث کو اپنی مسند (۲۸)میں لائے ہیں یاد رہے کہ مسند حمیدی میں فمن کانت ہجرتہ الی اللہ ورسولہ فہجرتہ الی اللہ ورسولہ الفاظ موجود ہیں لیکن امام بخاری ان کو نہیں لائے ۔اور امام بخاری نے اس حدیث کو امام حمیدی ہی کی سند سے بیان کیا ہے ۔
علامہ خطابی کہتے ہیں :امام حمید ی کے بعض اثبات شاگردوں نے اس زیادتی کو بیان کیا ہے ،ابویحیی بن ابی میسرہ اور بشر بن موسی۔دیکھئے (اعلام الحدیث فی شرح صحیح البخاری للخطابی :ج۱ص۱۰۹)
اور بطور فائدہ عرض ہے کہ چونکہ امام بخاری اختصار کے قائل تھے اس لئے انھوں نے اختصار سے کام لیتے ہوئے امام حمیدی سے یہ لفظ چھوڑ دئیے ہیں اور اپنے استاد عبداللہ بن مسلمہ سے جب یہ روایت بیان کی ہے تب یہ الفاظ بھی بیان کر دئیے ہیں دیکھئے (صحیح البخاری:۵۴)
[COLOR="red"]باب کی حدیث سے مطابقت:[/COLOR]
وحی کے اہل اللہ تعالی اسی اپنے برگزیدہ بندے کو منتخب فرماتا تھا جس میں اخلاص اور حسن نیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہو تمام انبیاء کرام مخلص تھے اور ان کی نیتوں میں شک کرنا ان کی توہین ہے اسی لئے اللہ تعالی نے انھیں نبوت و رسالت کے عظیم منصب سے سرفراز فرمایا ۔
امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث کو وحی کے باب میں لاکر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وحی الہی برحق ہے اور جس پر وہ نازل ہوئی وہ بھی برحق شخصیات تھیں ،ان کی اطاعت فرض ہے ۔
اور یہ بھی بتانا مقصود ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی نیت بھی درست تھی اسی وجہ سے اللہ تعالی نے ان سے وحی الہی کو جمع کرنے کی توفیق عطافرمائی۔
اور یہ بھی سمجھانا تھا کہ اہل علم کو علم اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتا جب تک اس کی نیت درست نہ ہو گی ۔
[COLOR="red"]حدیث سے اخذ ہونے والا مسائل:[/COLOR]
یہ حدیث درج ذیل فوائد پر مشتمل ہے 
۱:تمام عبادات و معاملات کا دارو مدار نیتوں پر ہے ،نیت درست عمل بھی درست نیت خراب تو عمل بھی خراب اور بے فائدہ۔
۲:ہرہر عمل میں نیت کرنا ضروری ہے ۔
۳:ہجرت تب کارآمد ہے جب صحیح نیت سے کی جائے ۔
۴:شادی کروانا صاحب استطاعت پر فرض ہے لیکن اگر اس کی ہجرت کا مقصد صرف عورت سے شادی کرنا تھی تو اس کو ہجرت کا اجر نہیں ملے گا لیکن اس کی قرآن وحدیث کے مطابق کی ہوئی شادی درست ہے ۔
۵:ہر ہر انسان کی نیت ایک جیسی ناممکن ہے ،اچھی نیت میں خیر کثیر ہی نہیں بلکہ خیر ہی خیر ہے ۔اور اسے لئے لازم پکرنا چاہئے۔
۶:روایت بالمعنی بیان کرنا درست ہے جب معنی میں کوئی خرابی لازم نہ آئے ۔
۷:حدیث کا اختصار کرنا بھی جائز ہے جب کوئی خرابی لازم نہ آئے ۔
[COLOR="red"]حدیث کا صحیح مفہوم :[/COLOR]
استاد محترم المحدث النقاد حافظ عبدالمنان نورپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں :’’اس حدیث کی صحیح شرح میرے نزدیک یہ ہے کہ (انما الاعمال باالنیات )میں ذوات دینیہ کی نفی مراد ہے [یعنی نیتوں کے بغیر شرعی اعمال کا کوئی وجود نہیں]اور’’ بالنیات ‘‘میں شرعی نیتیں مراد ہیں اور اعمال ،اعمال صالحہ پر محمول ہیں اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی ﷺ نے (انما الاعمال باالنیات)میں جس چیز کو مجمل بیان کیا ہے اسی کی تفصیل (فمن کانت ھجرتہ ۔۔۔۔۔۔۔فھجرتہ الی ما ھاجر الیہ )میں بیان کی ہے ،پس ہجرت عمل صالح ہے اور پہلے مہاجر [اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف ہجرت کرنے والے کی ]کی نیت شرعی نیت ہے اور دوسرے مھاجر [دنیا یا عورت کی طرف ہجرت کرنے والے]کی نیت غیر شرعی ہے،پس پہلی ہجرت نیت شرعیہ کے ساتھ ملی تو شریعت کے ہاں اس کا وجود ثابت ہوگیا دوسری ہجرت نیت شرعیہ کے ساتھ نہ ملی تو اس کا وجود شرع میں ثابت نہ ہوا ،جس طرح نماز شرعی نیت کے ساتھ ثابت اور موجود ہوتی ہے اور اس کے بغیر موجود نہیں ہوتی ۔
پس جن اعمال میں نیت ہے اور جن میں نیت نہیں دونوں حدیث کے مدلول میں شامل اور داخل ہیں ،بغیر نیت والے اعمال کو حدیث کے مدلول سے نکالنا اور وضو باالنیۃ اور بغیر النیۃ کے صحیح ہونے کوقیاس کی طرف سونپنا بالکل ہی باطل ہے اور کئی دلائل سے غلط ہے ۔‘‘(ارشاد القاری الی نقد فیض الباری ج۱ص۱۲۷۔۱۲۸ مترجم)
[COLOR="Red"]نیت کے متعلق فقہی احکام و مسائل:[/COLOR]
اس پر راقم کا ایک تحقیقی رسالہ ہے جو شرعی احکام کا انسائیکلو پیڈیا مین مطبوع ہے 
حج میں نیت:
شیخ البانی رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ حج اور عمرہ میں نیت زبان سے کی جائے گی ؟
تو شیخ نے فرمایا کہ لبیک حجا او عمرۃ تو ذکر اور تلبیہ ہے نیت نہیں ہے اور جو نویت حجا او عمرۃ کہے اس کی کوئی اصل نہیں ہے ۔(دروس للشیخ )
فائدہ:امام ابن القیم رحمہ اللہ کی نیت کے متعلق تمام فقہی بحوث کو یکجا پڑھنے کے لئے (جامع الفقہ للیسری سید محمد ج۱ص۳۹تا۶۲)کا مطالعہ کریں ،راقم نے اس کتاب کو بہت مفید پایا ہے کیونکہ اس میں امام ابن القیم کی تمام منتشر بحوث فقہیہ کو ایک جگہ جمع کردیا گیا ہے اور یہ کتاب سات جلدوں میں ہے ۔اور دار الوفاء سے شایع ہوئی ہے ۔
فائدہ:(انور شاہ کشمیری دیوبندی نے صحیح بخاری کی پہلی حدیث انما الاعمال باالنیات کی تقریر میں بہت غلط استدلال کئے اور فقہ حنفی کے نیت کے باطل مسائل پر بحث کی تھی لیکن ان کا تفصیلی رد حافط محمد گوندلوی اور حافظ عبدالمنان محدث نورپوری رحمھما للہ نے کیا ہے فجزاھما اللہ خیرا ۔ارشاد القاری الی نقد فیض الباری ج:۱ ص: ۵۳تا۱۴۳مترجم)

شرح بخاری حدیث :1،انما الاعمال بالنیات

0 comments

امام ابن عسا کر نے اس حدیث کو اہمیت دیتے ہوئے اپنی کتاب اربعین میں اس باب کے تحت نقل کیا ہے :البلد الاول مکۃاولا التعریف بالبلد مکۃ حرسھا اللہ تعالی وھی البلد الامین ثانیا الحدیث راویہ (ص:۲۸)ابن عساکر نے اپنے شیخ عبداللہ بن محمد بن اسمعیل المکی سے یہ حدیث مکہ میں بیت اللہ کے سامنے باب ابراہیم خلیل کے طرف بیٹھ کر سنی ۔اورپھر اسی سند میں ہے کہ کریمہ بنت احمد نے یہ حدیث مکہ میں ہی بیان کی ۔
علامہ بغدادی نے اپنی سند سے بیان کیا ہے کہ ابو سلیمان بن اشعث نے کہا کہ فقہ کا دارومدار ہے اان میں ایک انما الاعمال بالنیات بھی ہے (الجامع لاخلاق الراوی :ج۵ص۱۷۴)
امام ابن االمنذر اس حدیث پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں :لایجزی التیمم ولا اداء شیء من الفرائض الا بنیۃ(الاوسط :ج۲ص۱۵۵)
خطیب بغدادی نے اپنی سند سے بیان کیا ہے کہ امام شافعی نے کہا :فقہ کے ستر ابواب میں یہ حدیث داخل ہوتی ہے (الجامع لاخلاق الراوی :ج۵ص۱۷۵)

نیت کی اہمیت:
ابن مبارک کے شیخ جعفر بن حیان نے کہا:ملاک ھذہ الاعمال النیات فان الرجل یبلغ بنیتہ مالا یبلغ بعملہ(الزہد للمروزی :ص۶۳)

تنبیہ :یہ حدیث صرف سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے عبدالمجید بن عبدالعزیز بن ابی رواد نے غلطی کرتے ہوئے اس کو ابو سعید خدر ی سے بیان کردیا ہے (الارشاد للخلیلی:ج۱ ص ۱۳۳۔۱۶۷،اعلام الحدیث للخطابی :ج۱ص۱۱۱،حلیۃ الاولیاء :ج۶ ص۳۴۲ )اور یہ بات باطل ہے اس کی کوئی اصل نہیں ۔جیسا کہ ابوحاتم (علل الحدیث ح:۳۶۲)نے اس کو باطل کہا ہے اور دیگر محدثین کے تبصرے پڑھنے کے لئے (الارشادات فی تقویۃ الاحادیث بالشواھد والمتابعات ص۲۰۹ )کا مطالعہ کریں ۔
تنبیہ:تمام طرق میں مرکزی راوی یحیی بن سعید ہے لیکن سھل بن صقیر نے اس کو ،دراوردی ،ابن عیینہ اور انس بن عیاض کے واسطے سے محمد بن عمر و بن علقمہ عن محمد بن ابراھیم سے روایت کیا ہے حالانکہ مذکورہ تینوں راوی اس حدیث کو یحیی بن سعید سے ہی بیان کرتے ہیں یہ سھل بن صقیر کی فحش غلطی ہے ۔(علل الدار قطنی:ج۲ص۱۹۲)
[COLOR="red"]فقہ السند:[/COLOR]
۱:محمد بن ابراہیم التیمی ثقہ مشہور راوی ہے اس کے باوجود امام احمد نے ان کے متعلق کہا:یروی احادیث منکرۃ،حالانکہ یہ انما الاعمال بالنیات کا مرکزی راوی ہے اس کا جواب یہ ہے امام احمد تفرد پر بھی منکر کا اطلاق کردیتے ہیں یعنی یہ راوی حدیث بیان کر نے میں اکیلا ہے ۔فافھم(الرفع والتکمیل :ص۱۳)
۲:یحیی بن سعید الانصاری سے بے شمار راوی اس حدیث کو بیان کرتے ہیں مثلا ابن عیینہ ،یزید بن ھارون ،مالک،سفیان ثور ی، حماد بن زید،عبدالوہاب ،لیث بن سعد ،ابوخالد الاحمر،حفص بن غیاث ،عبداللہ بن مبارک (المسند الجامع المعلل ج : ۳۳ص:۴۵)سفیان ثوری،حماد بن سلمہ ،شعبہ ،یحیی بن سعید القطان،ایک مخلوق جن کا شمار ناممکن ہے ،محمد بن علی الخشاب نے کہا :اس حدیث کو یحی بن سعید الانصاری سے دو سو پچاس راوی بیان کرتے ہیں ۔
امام ابوعبداللہ الانصاری کہتے ہیں : میں یہ حدیث یحیی بن سعید الانصاری کے سات سو شاگردوں سے لکھی ہے (البدر المنیر لابن المقن:ج۱ص۶۵۴۔۶۵۵)
اس پر حافظ ابن حجر تبصرہ کرتے ہیں کہ میں اس کو صحیح نہیں سمجھتا اور فرماتے ہیں کہ جب سے میں نے حدیث کو طلب کرنا شروع کیا ہے اس وقت سے لے کر اب تک میں جمع کرتا رہا ہوں میں سو بھی مکمل نہیں کر سکا ۔(فتح الباری ج۱ص۱۱)
ابن الملقن نے اس کی بہت عمدہ شرح بھی کی ہے (البدر المنیر لابن المقن:ج۱ص۶۵۴۔۶۶۵)
۳:سیدنا عمر سے صرف علقمہ بیان کرتے ہیں اور علقمہ سے صرف محمد بن ابراھیم اوران سے صرف یحی بن سعید الانصاری بیان کرتے ہیں ان سے آگے بے شمار لوگ بیان کرتے ہیں اسی کو بالجزم بیان کیا ہے ترمذی ،نسائی،بزار،ابن سکن ،اورالکنانی نے ۔(فتح الباری :ج۱ ص۱۱) علامہ خطابی نے کہا ہے یہ حدیث صرف اسی سند سے ہی پہچانی جاتی ہے اس لے علاوہ اس کی کوئی سند نہیں ہے ۔اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ابن حجر فرماتے ہیں :یہ بات اسی طرح ہے جس طرح انھوں نے کہی ہے مگر دو قیدوں کے ساتھ،پہلی قید :صحیح ہونا کیو نکہ یہ حدیث کئی معلول طرق سے بھی مروی ہے جن کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گا۔
دوسری قید:سیاق کے اعتبار سے اس کے معنی میں بے شمار روایات موجود ہیں جو مطلق کے متعلق ہیں مثلا من قاتل لتکون کلمۃ اللہ ہی العلیا فھو فی سبیل اللہ ۔اس طرح نیت کے متعلق بے شمار روایات صحیح ثابت ہیں ۔لیکن انما الاعمال بالنیات کے سیاق سے صرف ایک ہی ہے ۔(فتح الباری :ج۱ص۱۱)
ابن مندہ نے اس حدیث کو کئی ایک صحابہ کرام سے روایت ہونے کا دعوی کیا ہے (المعرفۃ لابن مندہ بحوالہ البدر المنیر لابن الملقن ج۱ص۶۵۶)جو کہ درست نہیں اسی طرح انھوں نے متابعات بھی ذکر کئے ہیں جو کہ ثابت نہیں واللہ اعلم بالصواب ۔ابن مندہ کی یہ تحقیق معتبر محدثین کے خلاف ہے ۔راجح بات یہی ہے کہ یحیی بن سعید الانصاری تک یہ سند منفرد ہی ہے ۔اور انماالاعمال باالنیات کے سیاق سے صرف سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے ۔علامہ فاکھانی لکھتے ہیں :قد روی من حدیث ابی سعید الخدری وابی ھریرۃ وابن عباس وابن عمر و معاویۃ وقالوا:لایصح مسندا الا من حدیث عمر بن الخطاب(ریاض الاحکام شرح عمدۃ الاحکام :ج۱ص۱۵)تحقیق یہ حدیث سیدنا ابو سعید الخدری ،سییدنا ابوھریرۃ ،سیدنا ابن عباس ،سیدنا ابن عمر اور سیدنا معاویۃ رضی اللہ عنھم سے روایت کی گئی ہے اور محدثین نے کہا ہے کہ مسند صرف سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی سے صحیح ثابت نہیں ۔
[COLOR="red"]اصول حدیث:
اس حدیث سے ثابت ہونے والے اصول :
[/COLOR]پہلا اصول :ابواسحاق الابناسی(المتوفی:۸۰۲) کہتے ہیں کہ امام ترمذی کے نزدیک حسن یہ ہے کہ وہ روایت کسی دوسری سند سے بھی مروی ہے یہ شرط صحیح حدیث میں نہیں ہے اس سے معلوم ہوا کہ جو حدیث صحیح ہوگی امام ترمذی کے نزدیک وہ حسن نہیں ہوگی جیسے انما الاعمال بالنیات ہے یہ صحیح ہے اس کی دوسری سند نہیں ہے اس لئے امام ترمذی کے نزدیک یہ حسن نہیں ہو گی ۔(الشذ الفیاح من مقدمہ ابن الصلاح ج:۱ص:۱۲۶)
دوسرا اصول:صحیح حدیث کے لئے دو سندوں کاہو نا شرط لگانا درست نہیں ہے بلکہ ایک سند بھی ہو لیکن وہ صحیح ہو تو اس حدیث کا قبول کرنا فرض ہے ۔
تیسرا اصول:خبر واحد جو صحیح ثابت ہو وہ یقین کا فائدہ دیتی ہے نہ کہ ظن کا جس طرح بعض نے باور کروایا ہے ۔یاد رہے جو بھی حدیث صحیح ثابت ہوجائے وہ یقین کا فائدہ دیتی ہے خصوصا صحیح بخاری و صحیح مسلم کی احادیث صحیح ہیں اور علم یقین کا فائدہ دیتی ہیں تفصیل کے لئے (احادیث الصحیحین بین الظن والیقین لحافظ ثناء اللہ الزاہدی )
چوتھا اصول:اما م ترمذی جس حدیث کو حسن صحیح کہیں اس کا مطلب راجح قول کے مطابق یہ بیان کیا جاتا ہے کہ اس حدیث کی دو سندیں ایک صحیح ہے اور دوسری حسن یا اس کو بعض محدثین نے صحیح کہا ہے اور بعض حسن۔لیکن حدیث انما الاعمال باالنیا ت کو بھی امام ترمذی نے حسن صحیح کہا ہے اور یہ خود اقرار بھی کیا ہے کہ لانعرفہ الا من حدیث یحیی بن سعید الانصاری ۔(سنن الترمذی :۱۶۴۷)راقم کی نظر میں اس کو کسی بھی محدث نے حسن نہیں کہا اور اس کی سند بھی ایک ہے اس کے باوجود امام ترمذی صاحب اس کو حسن صحیح فرما رہے ہیں !!!تو کہنا پڑے گا کہ یہ امام ترمذی کی اپنی خاص اصطلاح ہے۔
فائدہ: اس حدیث کا ذکر صحیح بخاری پر لکھے ہوئے مستدرکات  میں نہیں ملا ۔ 
فائدہ:امام بخاری نے یہ حدیث اپنے شیخ امام حمیدی سے بیان کی اور امام حمیدی اس حدیث کو اپنی مسند (۲۸)میں لائے ہیں یاد رہے کہ مسند حمیدی میں فمن کانت ہجرتہ الی اللہ ورسولہ فہجرتہ الی اللہ ورسولہ الفاظ موجود ہیں لیکن امام بخاری ان کو نہیں لائے ۔اور امام بخاری نے اس حدیث کو امام حمیدی ہی کی سند سے بیان کیا ہے ۔
علامہ خطابی کہتے ہیں :امام حمید ی کے بعض اثبات شاگردوں نے اس زیادتی کو بیان کیا ہے ،ابویحیی بن ابی میسرہ اور بشر بن موسی۔دیکھئے (اعلام الحدیث فی شرح صحیح البخاری للخطابی :ج۱ص۱۰۹)
اور بطور فائدہ عرض ہے کہ چونکہ امام بخاری اختصار کے قائل تھے اس لئے انھوں نے اختصار سے کام لیتے ہوئے امام حمیدی سے یہ لفظ چھوڑ دئیے ہیں اور اپنے استاد عبداللہ بن مسلمہ سے جب یہ روایت بیان کی ہے تب یہ الفاظ بھی بیان کر دئیے ہیں دیکھئے (صحیح البخاری:۵۴)
[COLOR="red"]باب کی حدیث سے مطابقت:[/COLOR]
وحی کے اہل اللہ تعالی اسی اپنے برگزیدہ بندے کو منتخب فرماتا تھا جس میں اخلاص اور حسن نیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہو تمام انبیاء کرام مخلص تھے اور ان کی نیتوں میں شک کرنا ان کی توہین ہے اسی لئے اللہ تعالی نے انھیں نبوت و رسالت کے عظیم منصب سے سرفراز فرمایا ۔
امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث کو وحی کے باب میں لاکر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وحی الہی برحق ہے اور جس پر وہ نازل ہوئی وہ بھی برحق شخصیات تھیں ،ان کی اطاعت فرض ہے ۔
اور یہ بھی بتانا مقصود ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی نیت بھی درست تھی اسی وجہ سے اللہ تعالی نے ان سے وحی الہی کو جمع کرنے کی توفیق عطافرمائی۔
اور یہ بھی سمجھانا تھا کہ اہل علم کو علم اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتا جب تک اس کی نیت درست نہ ہو گی ۔
[COLOR="red"]حدیث سے اخذ ہونے والا مسائل:[/COLOR]
یہ حدیث درج ذیل فوائد پر مشتمل ہے 
۱:تمام عبادات و معاملات کا دارو مدار نیتوں پر ہے ،نیت درست عمل بھی درست نیت خراب تو عمل بھی خراب اور بے فائدہ۔
۲:ہرہر عمل میں نیت کرنا ضروری ہے ۔
۳:ہجرت تب کارآمد ہے جب صحیح نیت سے کی جائے ۔
۴:شادی کروانا صاحب استطاعت پر فرض ہے لیکن اگر اس کی ہجرت کا مقصد صرف عورت سے شادی کرنا تھی تو اس کو ہجرت کا اجر نہیں ملے گا لیکن اس کی قرآن وحدیث کے مطابق کی ہوئی شادی درست ہے ۔
۵:ہر ہر انسان کی نیت ایک جیسی ناممکن ہے ،اچھی نیت میں خیر کثیر ہی نہیں بلکہ خیر ہی خیر ہے ۔اور اسے لئے لازم پکرنا چاہئے۔
۶:روایت بالمعنی بیان کرنا درست ہے جب معنی میں کوئی خرابی لازم نہ آئے ۔
۷:حدیث کا اختصار کرنا بھی جائز ہے جب کوئی خرابی لازم نہ آئے ۔
[COLOR="red"]حدیث کا صحیح مفہوم :[/COLOR]
استاد محترم المحدث النقاد حافظ عبدالمنان نورپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں :’’اس حدیث کی صحیح شرح میرے نزدیک یہ ہے کہ (انما الاعمال باالنیات )میں ذوات دینیہ کی نفی مراد ہے [یعنی نیتوں کے بغیر شرعی اعمال کا کوئی وجود نہیں]اور’’ بالنیات ‘‘میں شرعی نیتیں مراد ہیں اور اعمال ،اعمال صالحہ پر محمول ہیں اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی ﷺ نے (انما الاعمال باالنیات)میں جس چیز کو مجمل بیان کیا ہے اسی کی تفصیل (فمن کانت ھجرتہ ۔۔۔۔۔۔۔فھجرتہ الی ما ھاجر الیہ )میں بیان کی ہے ،پس ہجرت عمل صالح ہے اور پہلے مہاجر [اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف ہجرت کرنے والے کی ]کی نیت شرعی نیت ہے اور دوسرے مھاجر [دنیا یا عورت کی طرف ہجرت کرنے والے]کی نیت غیر شرعی ہے،پس پہلی ہجرت نیت شرعیہ کے ساتھ ملی تو شریعت کے ہاں اس کا وجود ثابت ہوگیا دوسری ہجرت نیت شرعیہ کے ساتھ نہ ملی تو اس کا وجود شرع میں ثابت نہ ہوا ،جس طرح نماز شرعی نیت کے ساتھ ثابت اور موجود ہوتی ہے اور اس کے بغیر موجود نہیں ہوتی ۔
پس جن اعمال میں نیت ہے اور جن میں نیت نہیں دونوں حدیث کے مدلول میں شامل اور داخل ہیں ،بغیر نیت والے اعمال کو حدیث کے مدلول سے نکالنا اور وضو باالنیۃ اور بغیر النیۃ کے صحیح ہونے کوقیاس کی طرف سونپنا بالکل ہی باطل ہے اور کئی دلائل سے غلط ہے ۔‘‘(ارشاد القاری الی نقد فیض الباری ج۱ص۱۲۷۔۱۲۸ مترجم)
[COLOR="Red"]نیت کے متعلق فقہی احکام و مسائل:[/COLOR]
اس پر راقم کا ایک تحقیقی رسالہ ہے جو شرعی احکام کا انسائیکلو پیڈیا مین مطبوع ہے 
حج میں نیت:
شیخ البانی رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ حج اور عمرہ میں نیت زبان سے کی جائے گی ؟
تو شیخ نے فرمایا کہ لبیک حجا او عمرۃ تو ذکر اور تلبیہ ہے نیت نہیں ہے اور جو نویت حجا او عمرۃ کہے اس کی کوئی اصل نہیں ہے ۔(دروس للشیخ )
فائدہ:امام ابن القیم رحمہ اللہ کی نیت کے متعلق تمام فقہی بحوث کو یکجا پڑھنے کے لئے (جامع الفقہ للیسری سید محمد ج۱ص۳۹تا۶۲)کا مطالعہ کریں ،راقم نے اس کتاب کو بہت مفید پایا ہے کیونکہ اس میں امام ابن القیم کی تمام منتشر بحوث فقہیہ کو ایک جگہ جمع کردیا گیا ہے اور یہ کتاب سات جلدوں میں ہے ۔اور دار الوفاء سے شایع ہوئی ہے ۔
فائدہ:(انور شاہ کشمیری دیوبندی نے صحیح بخاری کی پہلی حدیث انما الاعمال باالنیات کی تقریر میں بہت غلط استدلال کئے اور فقہ حنفی کے نیت کے باطل مسائل پر بحث کی تھی لیکن ان کا تفصیلی رد حافط محمد گوندلوی اور حافظ عبدالمنان محدث نورپوری رحمھما للہ نے کیا ہے فجزاھما اللہ خیرا ۔ارشاد القاری الی نقد فیض الباری ج:۱ ص: ۵۳تا۱۴۳مترجم)

حافظ زبیر علی زئی صاحب کی تحقیقات سے شیخ کفایت اللہ سنابلی کا رجوع

3 comments

شیخ کفایت اللہ حفظہ اللہ نے پہلے لکھا تھا:''الحمدللہ ہم حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کا بہت احترام کرتے ہیں اور ان کی تحریروں سے بکثرت استفادہ کرتے ہیں اور ان کے رسالہ الحدیث کو ممتاز رسالوں میں شمار کرتے ہیں اور عموما احادیث کے سلسلے میں ہم حافظ موصوف ہی کے فیصلہ کو ترجیح دیتے ہیں ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس عبارت پر حاشیہ لکھتے ہیں :زبیر علی زئی صاحب پر ہمارا یہ اعتماد قطعا باقی نہیں ہے،ہماری اس بات کو منسوخ سمجھا جائے جس طرح محدثین بعض رواۃ کی توثیق کردیتے ہیں اور بعد میں اصل حقائق سے آگاہی کے بعداسے مجروح قرار دیتے ہیں کچھ اسی طرح کا معاملہ ہمارے ساتھ پیش آیا ہے ۔دراصل ہم نے حسن ظن کی بنیاد پر یہ باور کیا تھا کہ زبیر علی زئی صاحب محدثین وائمہ کے حوالے سے جو کچھ نقل کرتے ہیں ان سب میں پوری امانت ودیانت کا ثبوت دیتے ہوں گے اسی طرح تحقیق حدیث میں جن قواعد و اصول کو بنیاد بناتے ہیں وہ بھی محدثین سے ثابت ہوں گے ۔
لیکن جب ہمارا ان سے مناقشہ ہوااور ہم نے ضرورت محسوس کی کہ ان کی پیش کردہ باتوں کو اصل مراجع سے دیکھا جائے تو اس مرحلہ میں یہ اوجھل حقیقت منکشف ہوئی کہ
زبیرعلی زئی صاحب اپنے اندر بہت ساری کمیاں رکھتے ہیں مثلا
۱:خود ساختہ اصولوں کو بلا جھجھک محدثین کا اصول بتاتے ہیں ۔
۲:بہت سارے مقامات پر محدثین کی باتیں اور عربی عبارتیں صحیح طرح سے سمجھ نہیں پاتے۔
۳:اور کہیں محدثین کی غلط ترجمانی کرتے ہیں ۔
۴:یابعض محدثین و اہل علم کی طرف ایسی باتیں منسوب کرتے ہیں جن سے وہ بری ہوتے ہیں ۔
۵:اور کسی سے بحث کے دوران مغالطہ بازی کی حد کر دیتے ہیں۔
۶:اور فرق مخالف کے حوالے سے ایسی ایسی باتیں نقل کرتے ہیں یا اس کی طرف ایسی باتیں منسوب کرتے ہیں جو اس کے خواب و خیال میں بھی نہیں ہوتیں ۔
ان تمام کوتاہیوں کے با وجود زبیر علی زئی صاحب کے اندرایک اہم خوبی یہ ہے کہ وہ جرح و تعدیل کے اقوال کی بھی چھان بین ضروری سمجھتے ہیں کہ آیا وہ ناقدین سے ثابت ہیں کہ نہیں یہ ایک اہم خوبی ہے اور محض اسی امتیاز نے راقم السطورکو ان کی تحریروں کی طرف راغب کیا لیکن افسوس کہ اس بابت بھی آنجناب کی تحقیقات پر اس لحاظ سے سوالیہ نشان لگ جاتا ہے کہ مبادا یہاں بھی موصوف نے وہی طرز عمل اختیار کیا ہوگا جس کی طرف سطور بالا میں اشارہ کیا گیا ہے ۔(زبیر علی زئی کے رد میں دوسری تحریر ص:۱وحاشیہ :۱)بحوالہ:https ://dl.dropboxusercontent.com/u/39094119/yazeed/zubair%20ali%20zai%20par%20rad/kiya%20yazeed%20sunnat%20ko%20badalne%2

0wale%202.pdf

Sunday 25 August 2013

شیخ کفایت اللہ سنابلی حفظہ اللہ کے شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کے رد پر مشتمل بلوگ

0 comments


علمی و منھجی اختلاف کی بہت زیادہ اہمیت ہوتی ہے اس پر اہل علم کو توجہ دینی چاہئے اسی خاطر شیخ کفایت اللہ حفظہ اللہ کے شیخ زبیر علی زئی صاحب کے رد میں مضامین پیش خدمت ہیں تاکہ قارئین پر حق واضح ہو سکے 

مقدمہ شرح صحیح بخاری لابن بشیر الحسینوی الاثری

0 comments



راقم اللہ تعالی کی توفیق خاص سے شرح مسلم سے فارغ ہو چکا ہے والحمدللہ 
اور اس سال سے دارالحدیث راجووال اوکاڑہ میں صحیح بخاری کی تدریس کر رہا ہے اور شرح پر کام بھی شروع کردیا ہے اللہ تعالی میر ی مدد فرمائے اور اس کو میرے لئے آسان فرمادے اور اس کی تکمیل کی توفیق بھی عطافرمائے آمیین ۔
دعا لینے کی غرض سے یہ شرح اور علمی فوائد انٹر نیٹ پر بھی شایع کرتا رہوں گا ان شاء اللہ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
۸ا اگست ۲۰۱۳بروز ہفتہ جامعہ دارالحدیث الجامعۃ الکمالیۃ راجووال اوکاڑہ کی پہلی میٹنگ میں راقم کو صحیح البخاری کی تدریس کی ذمہ داری سونپی گئی اس میٹنگ میں شیخ دکتور عبدالرحمن یوسف ،شیخ دکتور عبیدالرحمن محسن ،شیخ عنایت اللہ ،شیخ رفیق زاہد ،شیخ محمد فاروق ،شیخ آصف سلفی اور راقم الحروف(ابن بشیر الحسینوی )حفظھم اللہ موجود تھے ۔
اللہ تعالی مجھے اس کی تدریس پر کما حقہ محنت کرنے کی توفیق عطافرمائے آمین ،بیس اگست بروز سوموار کو صحیح بخاری کی تدریس کی ابتدا کی ہے ان شاء اللہ 
دوران مطالعہ جو فوائد ملیں گے انھیں ترتیب دیتا رہوں گا تاکہ بعد میں صحیح کی شرح ممکن ہو سکے ان شاء اللہ ۔
راقم پہلی مرتبہ صحیح بخاری کی تدریس کررہا ہے اس سے پہلے جامعہ محمد بن اسمعیل البخاری گندھیاں اوتاڑ قصور میں عرصہ آٹھ سال تدریس کی اس میں تین دفعہ صحیح مسلم اور تین دفعہ موطا امام مالک پڑھانے کی سعادت حاصل ہوئی صحیح مسلم کی تدریس کے دورا ن صحیح مسلم کی شرح بھی مکمل لکھی جو اب مکتبہ قدوسیہ لاہور سے شایع ہو رہی ہے والحمدللہ علی ذلک ۔
صحیح بخاری کا نام:
اس کا مشہور نام جو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے وہ یہ ہے :الجامع الصحیح المسند من حدیث رسول اللہ ﷺ وسننہ وایامہ ۔(ھدی الساری:ص۶)یہی نام طاہر الجزائری (توجیہ النظر ص۲۲۰)وغیرہ نے نقل کیا ہے جو کہ درست نہیں ۔
بلکہ اس کے برعکس حافظ نووی نے اس کا نام اس طرح لکھا ہے اور دلائل کی روشنی میں یہی صحیح ہے :(الجامع المسند الصحیح المختصر من امور رسول اللہ ﷺ وسننہ وایامہ (تھذیب الاسماء واللغات للنووی:ج۱ص۷۳)یہی نام ابن رشید السبتیی الاندلسی (افادۃ النصیح فی التعریف بسند الجامع الصحیح ص۱۶)اور علامہ عینی (عمدۃ القاری:ج۱ص۵)میں لیا ہے ۔دکتور نورالدین عتر نھے بھی اسی نام کو صحیح ثابت کیا ہے ۔(الامام الترمذی والموازنۃ بین جامعہ و بین الصحیحین لنور الدین عترص۴۱)اور یہی تحقیق ابوغدہ حنفی صاحب نے پیش کی ہے بلکہ انھوں نے تو قدیم دو قلمی نسخوں سے بھی یہی نام ثابت کیا ہے ۔دیکھئے((تحقیق اسمی الصحیحین واسم جامع الترمذ ی لابی غدہ)
تنبیہ:علامہ جمال الدین قاسمی نے بھی نام مین غلطی کی ہے مثلا :الجامع الصحیح المسند من حدیث رسول اللہ ﷺ وسننہ وایامہ ۔(حیاۃ البخاری ص۱۲)
صحیح بخاری کب لکھنی شروع کی اور کب مکمل ہوئی ؟
۲۳۲ ھ کو مکمل لکھ لی تھی اور ۲۱۶ھ کو لکھنی شروع کی تھی اس وقت آپ کی عمر ۲۲ سال تھی کیونکہ آپ ۱۹۴ ھ کو پیدا ہوئے تھے گویا آپ ابھی ۳۸ سال کے تھے کہ آپ نے صحیح بخاری مکمل لکھ لی تھی۔اور آپ ۶۵۲ ھ کو فوت ہوئے گویا آپ کتاب لکھنے کے ۲۴ سال بعد فوت ہوئے ۔
یہ تخمینہ ہے امام بخاری اور امام عقیلی کے ایک قول سے اخذ کیا گیا ہے ۔اور وہ قول یہ ہے :امام بخاری نے فرمایا کہ میں نے یہ کتاب سولہ سالوں میں لکھی اور امام عقیلی نے کہا کہ جب امام بخاری نے صحیح بخاری لکھ لی پھر امام احمد بن حنبل ،ابن معین،اور علی بن مدینی پر پیش کی انھوں نے اس کو بہت اچھا گردانا اور اس کے صحیح ہونے کی گواہی دی سوائے چار احادیث کے لیکن ان میں بھی امام بخاری کی تحقیق راجح ہے ۔(ہدی الساری ج ۲ ص۲۰۲)تنبیہ :یاد رہے یہ واقعہ صحیح ثابت نہیں ہے کیو نکہ اس کی سند میں من یقول مجھول ہیں لھذا یہ سارا تخمینہ درست نہ ہوا ۔یہ تحقیق نا سدید ابو غدہ حنفی صاحب تلمیذ کوثری جھمی نے کی ہے اور خود کہہ بھی دیا ہے کہ اس واقعے کی سند مجہول ہے ۔(تحقیق اسمی الصحیحین واسم جامع الترمذ ی لابی غدہ ص:۷۲۔۷۳)