آپ کی معلومات

Sunday 7 April 2013

حسن لغیرہ کے متعلق اشکالات اور ان کے جوابات قسط نمبر:4

2 comments


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راقم نے اپنے پہلے مضمون (حدیث- حسن لغیرہ کی حجیت )میں محترم حافظ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ کے حسن لغیرہ کی عدم حجیت کے متعلق ابن حزم ،ابن قطان ،ابن حجر اورابن کثیر کی عبارتوں کی اصل حقیقت بیان کی تھی کہ ابن حزم کا قول بے سند ہے ،ابن قطان تو حسن لغیرہ کا حجت ہونا ثابت ہونا کر رہے ہیں ،اور ابن حجر بھی اسی کے قائل ہیں اور ابن کثیربھی حسن لغیرہ کی حجیت کے قائل ہیں ۔اب ایک شخص نے ماہنامہ السنۃ جہلم میں اپنے تئیں یہ ظاہر کیا کہ میں ضیائے حدیث کے مضمون (حدیث -حسن لغیرہ کی حجیت )کا جواب لکھ رہا ہوں اور ماہنامہ السنہ جہلم کی دو قسطوں میں چوبیس صفحات لکھے مگر افسوس کہ نہ ہی ہمارے مضمون کا جواب دیاکیونکہ محترم زبیر صاحب کے جن دلائل کا ہم نے توڑ پیش کیا تھا جواب تو دور کی بات ہے ان کی طرف اشارہ تک نہیں کیا اور نہ ہی حسن لغیرہ کی حجیت پر دلائل پیش کیے،اتنے صفحات میں پھر کیا لکھا اس کی ضروری تفصیل درج ذیل ہے ۔
(١)مقبل بن ھادی کی عبارتیں پیش کیں کہ متقدمین کی تحقیق معتبر ہے ۔
راقم نے جوابا عرض کیا کہ مقبل بن ہادی بذات خود حسن لغیرہ کی حجیت کے قائل ہیں ان کے شاگرد نے حسن لغیرہ کی حجیت پر ایک مفصل کتاب بھی تالیف کی ہے ۔
(٢)دکتور حاتم العونی کی عبارتیں پیش کی گئیں کہ متاخرین کو کئی غلطیاں لگی ہیں اور منطق وغیرہ سے متاثر ہو گئے ہیں اور اسی سے اس شخص نے نتیجہ نکالا کہ:'':''یہی ہماری دعوت ہے کہ متاخرین جس طرح عقیدے کے بعض معاملات علم کلام سے متاثر ہو کر متقدمین کے منھج سے ہٹ گئے ہیں ،اسی طرح کئی معاملات میں فقھی موشگافیوں ،علم منطق اور علم کلام سے متاثر ہو کر وہ علم حدیث اور اصول حدیث میں بھی غلطی کھا گئے ہیں ۔لہذا ضروری ہے کہ جیسے ہم دیگر معاملات میں دلیل طلب کرنے کی روش اپناتے ہیں اسی طرح علوم حدیث میں بھی دلیل کے طالب ہوں اور صرف متاخرین کی کتب اصطلاح سے مرعوب ہو کر علم حدیث میں متقدمین کے منھج کو نہ چھوڑیں ۔'' 
اس کے جواب میں ہم نے کہا تھا کہ اس عبارت سے درج ذیل بات سامنے آتی ہے ۔
١:متقدمین متاثر ہوئے مگر کس جگہ کیاکوئی کہہ سکتا ہے کہ متاخرین نے حسن لغیرہ کا حجت ہونا منطقیوں وغیرہ سے لیا ہے۔
(ب)علم منطق اور کلام میں کہاں بحث کی گئی ہے کہ حسن لغیرہ حجت نہیں ہے جہاں سے محدثین نے لیا ہے ؟!! یقینا اس کا جواب کوئی نہیں دے سکتا 
(ج)حاتم شریف العونی کی تحریر جو حسن لغیرہ کے متعلق نہیں بلکہ عام ہے اور منطقیوں سے متاثر کی مثال انھوں نے متواتر کی دی ہے ، اس کو حسن لغیرہ کی بحث میں فٹ کرنا درست نہیں 
حالانکہ حاتم شریف العونی بھی حسن لغیرہ کی حجیت کے قائل ہیں دیکھئے (تحقیق مشیخۃ ابی طاہر بن ابص الصقر ص:١٤٦ )
(د)کیا شریف حاتم العونی خود یہ کہ رہے ہیںکہ حسن لغیرہ متاخرین نے منطقیوں سے متاثر ہوکر اخذ کی ہے اور خود حاتم العونی کہیں کہ حسن لغیرہ حجت ہے ۔؟؟!!
(ر)پاکستان میں حافظ ثناء اللہ زاہدی حفظہ اللہ نے متواتر کی بحث میں کہا ہے کہ یہ بحث منطقیوں وغیرہ سے متاثر ہونے کا نتیجہ ہے لیکن حسن لغیرہ کو وہ بھی حجت سمجھتے ہیں وہ لکھتے ہیں :
''حسن لغیرہ وہ حدیث ہے جس کا راوی حفظ اور ضبط کی وجہ سے ضعیف قرار دیا گیا ہو، فسق یا جھوٹ کی وجہ سے نہ ہو، یا اس کی سند منقطع ہو مگر اس کا ضعف متابع یا شاہد سے دور ہوجاتا ہے۔''
الفصول في مصطلح الحدیث الرسول صلی اﷲ علیہ وسلم (ص: ٢٧) 
دکتور حمزہ ملیباری کے نزدیک حسن لغیرہ حجت ہے :
حالانکہ حمزہ ملیباری خود حسن لغیرہ کے قائل ہیں ۔دیکھئیے (الموازنۃ بین المتقدمین والمتاخرین ص:٩٧،١٢٢،١٢٣)والحمدللہ ۔
خلاصہ بحث :
علماء کے عمومی اقوال یا حسن لغیرہ کے علا وہ کسی اور بحث کے متعلق کہے گئے، ان اقوال کے قائلین حسن لغیرہ کو حجت تسلیم کرتے ہیں والحمد للہ ۔مثلا
١:محدث یمن مقبل بن ھادی 
٢:دکتور حمزہ ملیباری 
٣:دکتور حاتم شریف العونی 
٤:حافظ ابن کثیر 
ان کے اقوال باحوالہ گزر چکے ہیں 
اہل علم حضرات سے انصا ف کا تقاضہ ہے ۔
(٣)اور ا س شخص نے امام ترمذی کے نزدیک حسن لغیرہ ثابت نہیں پر بحث کی۔
ہم نے ماہنامہ السنہ جہلم کی دونوں قسطوں پر تبصرہ بنام(حسن لغیرہ کی حجیت کے متعلق اشکالات اور ان کے جوابات )کیا جس میں ہر ہر اعتراض کا جواب دیا ۔پھر اب اسی شخص نے بغیر سوچے سمجھے ہمارے مضمون پر تبصرہ بنام(ماہنامہ السنۃ اور حسن لغیرہ حدیث (خیانتوں کی حقیقت )
)لکھ مارا،آئیں ذرا اس کی حقیقت بھی ملاحظہ فرمائیں ۔

[١]منسوخ عبارتوں کا جواب لکھنا کہاں کی تحقیق ہے ؟
نظر ثانی شدہ مضمون میں ہم نے بالکل صاف لکھا تھا کہ:ہمارے اس مضمون کا خلاصہ یہ ہے جس میں بعض ترمیمات انتہائی ضروری تھیں وہ ہم نے کر دی ہیں اور اسی کو اصل سمجھا جائے اور پہلی تحریر سے راقم الحروف بری ہے۔۔''
اگر کوئی شخص ان عبارتوں کو پیش کرنے کی جسارت کرے جن سے راقم، نے برات کا اعلان کیا ہوا ہے تو منصف علماء ایسے شخص کے اس رویے کو کیا نام دیں گے ۔کیا ہے کوئی منصف جو اس شخص کو سمجھائے کہ لکھنے کے اصولوں میں سے ایک یہ بھی اصول ہے کہ جس عبارت سے کوئی برات کا اعلان کردے اس کو اچھالنا بری حرکت ہے اور دیانت داری نہیں ہوتی ۔
[٢]مضمون نگار ہمارے بارے میں لکھتے ہیں ''پھر وہ شیخ محب اللہ شاہ رحمہ اللہ کی کتاب سے متقدمین اور متاخرین میں فرق مٹانے کے لئے حوالے پیش کرتے ہیں ''
متقدمین کی افضلیت کو کوئی بھی منکر نہیں لیکن جس انداز سے آپ متقدمین کو پیش کر رہے ہیں وہ محل نظر ہے ۔جو کچھ ہم نے لکھا تھاوہ پیش خدمت ہے ۔اہل انصاف کریں کہ جو کچھ ہمارے مہر بان کشید کرنا چاہتے ہیں کیا وہ ہو رہا ہے ۔ہم نے لکھ تھا۔ 
١۔ یہ بات کئی وجوہات کی بنا پر درست نہیں ہے۔ اس کے متعلق محدث سندھ شیخ الاسلام محب اللہ شاہ راشدیa فرماتے ہیں:
''لیکن میرے محترم یہ کوئی کلیہ تو نہیں کہ متقدم جو بھی کہے وہ صحیح ہوتا ہے اور جو ان سے متاخر کہے وہ صحیح نہیں ہوتا۔'' (مقالات راشدیہ ص :٣٣٢)[کیا یہ قول متقدمین اور متاخرین کے درمیان فرق مٹا رہاہے؟!]
نیز فرماتے ہیں:
''کسی کا زمانے کے لحاظ سے متقدم ہونا یہ کوئی دلیل نہیں کہ جو ان سے زمناً متاخر ہو اس کی بات صحیح نہیں۔ اعتبار تو دلائل کو ہے نہ کہ شخصیات کو۔'' (ایضا: ٣٣٣)
نیز کہا:
''تو کیا آپ ایسے سب رواۃ (جن کی حافظ صاحب نے توثیق فرمائی اور ان کے بارے میں متقدمین میں سے کسی کی توثیق کی تصریح نہیں فرمائی) کے متعلق یہی فرمائیں گے کہ ان کی توثیق مقبول نہیں یہ ان کا اپنا خیال ہے؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو اس طرح آپ اس جلیل القدر حافظ حدیث اور نقد الرجال میں استقراء تام رکھنے والے کی ساری مساعی جمیلہ پر پانی پھیر دیں گے۔ آپ خود ہی سوچیں کہ جناب کے اس نہج پر سوچنے کی زد کہاں کہاں تک پہنچ کر رہے گی۔'' (ایضا: ٣٣٥)
٢۔ فضیلۃ الشیخ ابن ابی العینین فرماتے ہیں، جس کا خلاصہ درج ذیل ہے:
''بعض طلبا جنھوں نے ماہر شیوخ سے بھی نہیں پڑھا وہ بعض نظری اقوال لے کر اپنے اصول و قواعد بنا رہے ہیں اور وہ کبار علما سے اختلاف کرتے ہیں۔ انھوں نے باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ ہم متقدمین کے پیروکار ہیں اور انھوں نے متاخرین کے منہج کو غلط قرار دیا ہے...۔''
(القول الحسن، ص: ١٠٣) 
٣۔ متقدمین کی حسن لغیرہ کے متعلق کون سی بحثیں ہیں کن کے خلاف متاخرین نے اصول وضع کیے ہیں؟!
٤۔ متاخرین نے علم متقدمین سے ہی لیا ہے اور وہ انھیں کے انداز سے اصول متعین کرتے ہیں ۔

[]ہمارے متعلق یہ بھی لکھا گیا :''امام ترمذی اپنی اصطلاح حسن سے مراد اقابل حجت حدیث مراد نہیں لیتے تھے اس کا کوئی جواب مضمون نگار کی طرف سے نہیں آیا ۔''[معلوم ہوا باقی تمام مضمون کا جواب مکمل تھا صرف یہی بات رہتی تھی ]اس کا جواب بھی ہم نے اپنے اصل مضمون میں دیا تھا سیٹنگ کے وقت کلیم حیدر بھائی سے رہ گیا ہے تو کوئی حرج نہیں ۔
امام ترمذی ٢٧٩ھ کے نزدیک حسن لغیرہ حجت ہے ۔
فضیلۃ الشیخ حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ لکھتے ہیں کہ:امام ترمذی کے علاوہ عام محدثین سے ایسی''حسن لغیرہ ''روایت کا حجت ہونا ثابت نہیں ۔[علمی مقالات :١/٣٠٠]معلوم ہوا کہ امام ترمذی بھی حسن لغیرہ کو حجت سمجھتے ہیں جیسا کہ محترم حافظ زبیر صاحب نے کہا ہے ۔
یہ اعتراف ہی راجح ہے ۔کہ امام ترمذی کے نزدیک حسن لغیرہ حجت ہے ۔
محترم حافظ خبیب احمد الاثری حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
حسن لغیرہ کو متعارف کروانے والے موصوف (امام ترمذی)ہیں، وہ فرماتے ہیں:
''وما ذکرنا في ھذا الکتاب حدیث حسن، فإنما أردنا بہ حسن إسنادہ عندنا. کل حدیث یروي لا یکون في إسنادہ من یتھم بالکذب، ولا یکون الحدیث شاذاً، ویري من غیرہ وجہ نحو ذلک فھو عندنا حدیث حسن.''
''ہم نے اس کتاب ''حدیث حسن'' کی اصطلاح استعمال کی ہے، اس سے ہماری مراد یہ ہے کہ اس کی سند ہمارے نزدیک حسن ہے اور وہ حدیث جس کی سند میں ایسا راوی نہ ہو جس پر جھوٹ کا الزام ہو۔ حدیث شاذ نہ ہو۔ اور وہ اپنے جیسی دوسری سند سے مروی ہو، وہ ہمارے نزدیک حسن ہے۔''
العلل الصغیر للترمذي (ص: ٨٩٨، المطبوع بآخر جامع الترمذي)
اس تعریف کا مصداق کیا ہے؟ محدثین نے اس پر خوب خبر دادِ تحقیق پیش کی ہیں، مصطلح کی کتب ان سے معمور ہیں، ہم اس سے صرفِ نظر کرتے ہوئے صرف یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ امام ترمذیa ضعیف حدیث+ ضعیف حدیث کی تقویت اور حجت کے قائل ہیں، بشرط کہ قرائن ایسی حدیث کی صحت کے متقاضی ہوں۔
حافظ برہان الدین بقاعیa ٨٨٥ھ اپنے شیخ (حافظ ابن حجرa) سے نقل کرتے ہیں کہ امام ترمذیa نے حسن لغیرہ کو متعارف کروایا ہے۔
النکت الوفیۃ للبقاعي (١/ ٢٢٤)
امام ابن سید الناسa فرماتے ہیں کہ وہ جس حدیث کو متعدد اسانید کی بنا پر حسن قرار دیتے ہیں وہ حسن لغیرہ ہے۔ النکت الوفیۃ (١/ ٢٢٩)
حافظ بقاعیa نے اس موقف کی تائید کی ہے۔ النکت الوفیۃ (١/ ٢٣٤)
امام ترمذیa ایسی احادیث کو بھی حسن گردانتے ہیں جو حسن لغیرہ سے زیادہ مضبوط ہوتی ہیں، مثلاً اس کی ذاتی سند مضبوط ہوتی ہے یا کوئی قوی متابع موجود ہوتا ہے یا کوئی عمدہ شاہد ہوتا ہے جو ضعیف سے مستغنی کر دیتا ہے۔
اگر ضعیف حدیث کی تائید ضعیف حدیث یا احادیث کریں تو وہ بھی ان کے نزدیک حسن ہے، جسے عرف عام میں حسن لغیرہ سے موسوم کیا جاتا ہے۔
دکتور خالد بن منصور الدریس نے جامع ترمذی کے سب سے معتمد علیہ نسخے نسخۃ الکروخی (ھو أبو الفتح عبد الملک بن أبي القاسم الکروخی الھروی البزار ٥٤٨ھـ) کو پیش نظر رکھ کر امام ترمذیa کی حسن احادیث کا تتبع اور دراستہ کیا ہے اور نتیجہ نکالا ہے کہ ضعیف حدیث + ضعیف حدیث = حسن لغیرہ کی تعداد چالیس ہے، جن میں بارہ (١٢) احادیث احکام شرعیہ کے متعلق ہیں، جبکہ باقی (اٹھائیس) احادیث فضائل، ترغیب و ترہیب پر مشتمل ہیں۔
الحدیث الحسن للدکتور خالد: (٣/ ١١٨٢) نیز (٥/ ٢١٣٤)
پھر انھیں (٣/ ١٣٥٣۔١٣٩٣) پھر بعنوان ''المنزلۃ الثانیۃ: حدیث ضعیف و شواہھدہ ضعیفۃ'' کے تحت بیان کیا ہے، ذیل میں ترمذی کے رقم الحدیث درج ہیں: ٤٠٦، ٥١٤، ٦٥٠، ٧٢٥، ٨١٣، ٨٨١، ١٠٠٥، ١٠٢٨، ١٠٥٧، ١٢٠٠، ١٢٠٩، ١٢١٢، ١٣٣١، ١٥٦٥، ١٦٣٧، ١٧٦٧، ١٧٧٠، ١٩٣١، ١٩٣٩، ١٩٨٧، ١٩٩٣، ٢٠٤٨، ٢٠٦٥، ٢١٦٩، ٢٣٢٨، ٢٣٤٧، ٢٤٥٧، ٢٤٨١، ٢٦٩٧، ٢٧٢٨، ٢٧٩٥، ٢٧٩٨، ٣٢٩٩، ٣٤٤٨، ٣٤٥٥، ٣٥١٢، ٣٥٩٨، ٣٦٦٢، ٣٧٩٩، ٣٨٠١)(مقالات اثریہ از حافظ خبیب احمد الاثری)

2 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔