آپ کی معلومات

Friday 5 April 2013

حسن لغیرہ کے متعلق اشکالات اور ان کے جوابات

0 comments



حديث حسن لغيرہ کي حجيت کےمتعلق اشکالا ت اور ان کے جوابات -1

ازقلم: ابن بشير الحسينوي

محترم حافظ خبيب احمد الاثري نے لکھتے ہيں ’’حسن لغيرہ کے بارے ميں بعض لوگ انتہائي غير محتاط رويہ اپناتے ہيں، ان کے نزديک ضعيف حديث+ ضعيف حديث کي مطلق طور پر کوئي حيثيت نہيں، خواہ اس حديث کے ضعف کا احتمال بھي رفع ہوجائے۔ بزعم خويش حديث کے بارے ميں ان کي معلومات امام ترمذي، حافظ بيہقي، حافظ عراقي، حافظ ابن حجرؒ وغيرہ سے زيادہ ہيں۔ حالانکہ يہ بداہتاً معلوم ہے کہ جس طرح رواۃ کي ثقاہت کے مختلف طبقات ہيں اسي طرح ان کے ضعف کے بھي مختلف درجات ہيں۔ کسي راوي کو نسيان کا مرض لاحق ہے تو کسي پر دروغ بافي کا الزام ہے، بعض کے بارے ميں محدثين کا فيصلہ ہے: ’’يُعْتَبرْ بِھِمْ، يُکْتَبُ حَدِيْثُھُمْ‘‘ جبکہ بعض کے بارے ميں ’’لَا يُعْتَبرْ بِھِمْ، لَا يُکْتَبُ حَدِيْثُھُمْ‘‘ ہے۔
’’حسن لغيرہ کا مطلق طور پر انکار کرنے والے جس انداز سے متاخرين محدثين کي کاوشوں کو رائيگاں قرار دينے کي سعي نامشکور کرتے ہيں اسي طرح متقدمين جہابذۂ فن کے راويان کي طبقہ بندي کي بھي ناقدري کرتے ہيں اور بايں ہمہ وہ فرامين نبويہ کي خدمت ميں مصروف ہيں۔ إِنا ﷲ وإِنا إليہ راجعون۔‘‘
(مقالات اثريہ از حافظ خبيب احمد الاثري حفظہ اللہ)
پہلااشکال:
’’بعض لوگ ضعيف + ضعيف کے اصول اور جمع تفريق کے ذريعے سے بعض روايات کو حسن لغيرہ قرار ديتے ہيں۔‘‘
جواب:
حسن لغيرہ کو ماننے والے جمہور علما ہيں نہ کہ بعض لوگ، چنانچہ ذيل ميں ہم بعض علما و محدثين کي طرف اشارہ کرتے ہيں ۔
1۔ امام ترمذيؒ:
’’امام ترمذي کے علاوہ عام محدثين سے ايسي’’حسن لغيرہ ‘‘روايت کا حجت ہونا ثابت نہيں۔‘‘ (علمي مقالات: 1/ 300)
معلوم ہوا کہ امام ترمذي حسن لغيرہ کو حجت سمجھتے ہيں ۔والحمدللہ
2۔ امام بيہقي۔ (معرفہ السنن والآثار: 1/ 348، نصب الرايۃ: 1/ 93)
3۔ نووي (اربعين نووي حديث نمبر: 32)
4۔ ابن الصلاح (مقدمۃ علوم الحديث صفحہ: 37)
5۔ امام ابن قطان (النکت عليٰ ابن الصلاح لابن حجر: صفحہ 126، طبع دار الکتب العلميہ بيروت)
6۔ ابن رجب حنبلي (جامع العلوم والحکم صفحہ: 302)
7۔ ابن تيميہؒ (مجموع الفتاويٰ: 1/ 251)
8۔ ابن قيم (جلاء الافہام صفحہ: 199)
9۔ حافظ ابن حجر عسقلاني (فتح الباري: 3/ 188)
10۔ ابن کثير ( اختصار علو م الحديث صفحہ: 49، 50)
11۔ حافظ سخاوي (فتح المغيث)
12۔ سيوطي (تدريب الراوي: 1/ 160)
13۔ علامہ مناوي ( شرح الجامع الصغير: 982، 137)
14۔ زرقاني (شرح الزرقاني: 1/ 68)
15۔ شمس الحق عظيم آبادي (عون المعبود: 9/ 291)
16۔ عبدالرحمن مبارکپوري (مقدمۃ تحفۃ الأحوذي: 152)
17۔ عبيداللہ مبارکپوري۔ (مرعاۃ: 2 صفحہ 511)
18۔ طاہر الجزائري(توجيہ النظر: 506)
19۔ امام ناصر الدين الباني۔
20۔ جمال الدين قاسمي( قواعد التحديث صفحہ: 66)
21۔ دکتور حمزہ مليبار ي ( الموازنہ صفحہ: 49)
22۔ محدث کبير استاذ محترم ارشاد الحق اثري۔
23۔ غازي عزيز مبارکپوري (ضعيف احاديث کي شرعي حيثيت صفحہ: 192)
24۔ امام العصر علامہ ابو اسحاق الحويني(کشف المخبوء صفحہ: 23)
25۔ الدکتور خالد بن منصور الدريس( آراء المحدثين في الحسن لذاتہ ولغيرہ)
26۔ محدث حجاز -عبدالمحسن العباد ( شرح سنن ابي داود (15/133، 14/ 49، 3/ 345)
علاوہ ازيں امام سفيان بن عيينہ، امام شافعي، يحييٰ بن سعيد قطان، محمد بن يحييٰ ذہلي، امام بخاري، امام ترمذي، امام دارقطني، ابن ترکماني، حافظ علائي، حافظ ذہبي، حافظ عراقي سے بھي حسن لغيرہ کا حجت ہونا ثابت کيا گيا ہے ۔ان اقوال کي تفصيل کا طالب شيخ ابن ابي العينين کي کتاب ’’القول الحسن‘‘ کا مطالعہ کرے۔
جو علماء و محدثين حسن لغيرہ کو قابل عمل و احتجاج سمجھتے ہيں ان کے ناموں کا ذکر کرنے کا مقصود صرف يہ تھا ’’بعض لوگ ضعيف +ضعيف کے اصول اور جمع تفريق کے ذريعے سے بعض روايات کو حسن لغيرہ قرار ديتے ہيں۔‘‘ درست نہيں ہے
دوسرااشکال:
ليکن حافظ ابن حزم اس اصول کے سخت خلاف تھے بلکہ زرکشي نے ابن حزم سے نقل کيا ہے: ’’ولو بلغت طرق الضعيف ألفاً لا يقوي…‘‘ ’’اور اگر ضعيف حديث کي ہزار سنديں بھي ہوں تو اس سے روايت قوي نہيں ہوتي…۔‘‘ اگرچہ زرکشي نے اسے شاذ اور مردود کہا ہے ليکن انصاف يہ ہے کہ يہي قول راجح اور صحيح ہے۔‘‘
يہ قول محمد احمد جلمد نے بھي اپني کتاب الحديث الحسن بين الحد والحجيۃ ميں بطور دليل پيش کيا ہے !
جواب:
1۔يہ قول بے سند ہے
2۔ امام زرکشي نے اس قول کو شاذ ومردود کہا ہے
’’اگرچہ امام زرکشي نے اسے شاذاور مردود کہا ہے ليکن انصاف يہ ہے کہ يہ قول راجح اور صحيح ہے۔‘‘
اور امام ابن حزم کے قول کي ترديد کے ليے امام زرکشي کي عبارت ہي کافي ہے۔
تيسرا اشکال:
حسن لغيرہ کے مسئلے پر عمرو بن عبدالمنعم بن سليم کي کتاب ’’الحسن لمجموع الطرق في ميزان الاحتجاج بين المتقدمين والمتأخرين‘‘ بہت مفيد ہے۔
جواب:
قارئين سے گزارش ہے کہ اس مسئلے پر راہِ انصاف کو پانے کے ليے مندرجہ ذيل کتب بھي ملاحظہ فرمائيں جن ميں مذکورہ بالا کتاب اوراس مسئلے پر شبہات کا جائزہ ليا گيا ہے:


حديث حسن لغيرہ کي حجيت کےمتعلق اشکالا ت اور ان کے جوابات -2
1۔ القول الحسن في کشف شبھات حول الاحتجاج بالحديث الحسن مع تصويب الأسنۃ لصد عدوان المعترض علي الأئمۃ للشيخ ابن أبي العينين۔
2۔ الرد علي کتاب الحسن بمجموع الطرق في ميزان الاحتجاج بين المتقدمين والمتأخرين للشيخ أبي المنذر المنياوي۔
3۔ الحديث الحسن لذاتہ ولغيرہ للدکتور خالد بن منصور الدريس۔
4۔ مناھج المحدثين في تقويۃ الأحاديث الحسنۃ والضعيفۃ للدکتور المرتضيٰ زين أحمد۔
5۔ حسن لغيرہ للحافظ خبيب أحمد الاثري ۔
کيا ابن قطان کے نزديک حسن لغيرہ حجت نہيں؟
چوتھا اشکال:
حافظ ابن القطان الفاسي نے حسن لغيرہ کے بارے ميں صراحت کي ہے کہ: ’لايحتج بہ کلہ بل يعمل بہ في فضائل الأعمال…‘‘ ’’اس ساري کے ساتھ حجت نہيں پکڑي جاتي بلکہ فضائل اعمال ميں اس پر عمل کيا جاتا ہے…۔ (النکت علي کتاب ابن الصلاح: 1/ 402)
’’حافظ ابن حجر نے اس قول کو’’ حسن قوي‘‘ يعني اچھا مضبوط قرار ديا ہے۔‘‘
جواب:
1۔ پہلے امام ابن قطان کا مکمل قول ملاحظہ ہو:
’’لايحتج بہ کلہ بل يعمل بہ في فضائل الأعمال ويتوقف عن العمل بہ في الأحکام إلا إذا کثرت طرقہ أوعضدہ اتصال عمل أو موافقۃ شاہد صحيح أو ظاہر القرآن۔‘‘ (النکت لابن حجر: 402)
’’اس ساري کے ساتھ حجت نہيں پکڑي جاسکتي بلکہ اس کے ساتھ عمل کيا جاسکتا ہے اوراحکام ميں اس کے ساتھ عمل ميں توقف کيا جاتا ہے مگر جب اس کے طرق زيادہ ہوں يا اس کو مضبوط کرے کوئي متصل عمل، صحيح شاہد يا قرآن کے ظاہر کا اس کے ساتھ موافقت کرنا۔‘‘
امام ابن قطان تو کہہ رہے ہيں کہ اگر کثرت طرق ہوں تو عمل کيا جائے گا
انصاف شرط ہے کوئي بھي عالم دين اس مکمل قول کو پڑھے تو فوراً سمجھ جائے گا کہ امام ابن قطان تو حسن لغيرہ کا حجت ہونا ثابت کررہے ہيں اور ابن حجر نے بھي جواس قول کو ’’اچھا اور قوي قرار ديا ہے‘‘ تو انھوں نے بھي حسن لغيرہ کا حجت ہونا مراد ليا ہے۔
2۔ کئي علماء نے ابن قطان کي عبارت کو حسن لغيرہ کي حجيت ميں ذکر کيا ہے۔ مثلاً امام سخاوي (فتح المغيث، ص:49) طاہرالجزائري (توجيہ النظرصفحہ: 506) جمال الدين قاسمي (قواعد التحديث صفحہ: 66) دکتور حمزہ مليباري(الموازنہ، صفحہ: 49) علامہ ابواسحاق الحويني (کشف المخبوئ، صفحہ: 23) غازي عزيز مبارکپوري (ضعيف احاديث کي شرعي حيثيت صفحہ: 193)
پانچواں اشکال
 حافظ ابن حجرؒ کے نزديک حسن لغيرہ حجت نہيں۔
جواب
حافظ ابن حجرؒ کي کتب کا مطالعہ کرنے والاطالب علم بھي اس بات کي شہادت دے گا کہ حافظ ابن حجرؒ حسن لغيرہ کو حجت سمجھتے ہيں۔
حافظ ابن حجرؒ ايک مقام پر لکھتے ہيں کہ ’’جب ’’سيئ الحفظ‘‘ کي کسي ايسے قابل اعتبار راوي سے تائيد ہو رہي ہو کہ وہ اس راوي سے بڑھ کر ہو يا کم از کم اس جيسا ہو اس سے کم تر نہ ہو تو ان کي حديث حسن ہو جائے گي مگر حسن لذاتہ نہيں ہو گي بلکہ اس کا حسن بننا متابع اور متابع کے مجموعے سے ہو گا۔‘‘ (النزھۃ، ص: 48، النکت، ص: 139)
کيا حافظ ابن کثيرؒ کے نزديک حسن لغيرہ حجت نہيں؟
چھٹا اشکال:
حافظ ابن کثير نے فرمايا:
’’مناظرے ميں يہ کافي ہے کہ مخالف کي بيان کردہ سند کا ضعيف ہونا ثابت کرديا جائے، وہ لاجواب ہوجائے گا کيونکہ اصل يہ ہے کہ دوسري تمام روايات معدوم ہيں۔ الا کہ دوسري سند سے ثابت ہو جائيں۔‘‘ (اختصار علوم الحديث: 274,275/1، نوع: 22،)
جواب:
1۔ حافظ ابن کثيرؒ کے اس قول کا حسن لغيرہ کي حجيت اور عدمِ حجيت سے کوئي تعلق نہيں جيسا کہ ہر شخص بآساني اصل کتاب کي طرف مراجعت کرنے کے بعد معلوم کر سکتا ہے۔
2۔ حافظ ابن کثيرؒ اختصار علوم الحديث (صفحہ: 49، 50) ميں نقل کرتے ہيں:
’’ومنہ ضعفٌ يزول بالمتابعۃ، کما إذا کان راويہ سيء الحفظ، أو روي الحديث مرسلاً، فإن المتابعۃ تنفع حينئذٍ، و يرفع الحديث في حيز الضعف إلٰي أوج الحسني أو الصحۃ۔ واﷲ أعلم‘‘
’’بعض ضعف متابعت سے زائل ہوجاتا ہے جيسا کہ راوي سييء الحفظ(برے حافظے والا) ہو يا حديث مرسل ہو تو اس وقت متابعت فائدہ ديتي ہے اور حديث ضعف کي گہرائيوں سے بلند ہوکر حسن يا صحيح کے درجے کو پہنچ جاتي ہے۔‘‘ (اختصار علوم الحديث اردو: 29)
معلوم ہوا کہ ابن کثير تو ابن الصلاح کے اس قول کو حسن لغيرہ کي حجيت ميں نقل کررہے ہيں۔ اس سے معلوم ہوا کہ ابن کثير کا اپنا موقف بھي يہي ہے کہ حسن لغيرہ حجت ہے۔
3۔ اورتفسير ابن کثير(1؍170،2؍196) پڑھيں تو وہاں بھي ابن کثير نے حسن لغيرہ کو حجت تسليم کيا ہے۔
ساتواں اشکال :
بسا اوقات کسي ضعيف حديث کي متعد د سنديں ہوتي ہيں يا اس کے ضعيف شواہد موجود ہوتے ہے، مگر اس کے باوجود محدثين اسے حسن لغيرہ کے درجے ميں نہيں لاتے۔
جواب:
حسن لغيرہ کي عدمِ حجيت کے بارے ميں سب سے بڑي دليل يہي ہے اور اسي سے وہ لوگوں کو مغالطہ ديتے ہيں۔
اس کا جواب ہم محتر م حافظ خبيب احمد الاثري کي قيمتي کتاب ’’مقالات اثريہ ‘‘ سے نقل کرتے ہيں۔
کثرتِ طرق کے باوجود حديث کو مقبول نہ ماننے کي وجوہات کا بيان۔
عدمِ تقويت کے اسباب:
ايسي حديث کے حسن لغيرہ نہ ہونے ميں پہلا سبب يہ ہے کہ ناقد سمجھتا ہے کہ اس حديث کو بيان کرنے ميں شاہد حديث کے کسي راوي نے غلطي کي ہے، لہٰذا غلط متابع يا غلط شاہد ضعف کے احتمال کو رفع نہيں کر سکتے۔ اسے يوں سمجھا جا سکتا ہے کہ ايک حديث کي دو سنديں ہيں، اس کي ايک سند کے راوي کے بارے ميں راجح يہ ہے کہ اس نے سند يا متن ميں غلطي کي ہے، يعني وہ دوسروں کي مخالفت کرتا ہے، يا اس سے بيان کرتے ہوئے راويان مضطرب ہيں تو ايسي سند دوسري سند سے مل کر تقويت حاصل نہيں کر سکتي۔ اسے تطبيقي انداز ميں يوں سمجھا جا سکتا ہے کہ امام حاکم نے سفيان بن حسين عن الزہري ايک مرفوع حديث بيان کي ہے، پھر اس کا مرسل شاہد (ابن المبارک عن الزہري) ذکر کيا، اس مرفوع حديث ميں جس ضعف کا شبہ تھا اسے مرسل حديث سے دور کرنے کي کوشش کي۔ (المستدرک: 1/ 392۔ 393)
مگر حافظ ابن حجر اس مرفوع حديث کو اس مرسل روايت سے تقويت دينے کے قائل نہيں کيونکہ سفيان بن حسين، امام زہري سے بيان کرنے ميں متکلم فيہ ہے، بنابريں اس نے يہ روايت امام ابن المبارک کے برعکس مرفوع بيان کي ہے، حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہيں:


حديث حسن لغيرہ کي حجيت کےمتعلق اشکالا ت اور ان کے جوابات -5

جواب:
1۔ يہ بات کئي وجوہات کي بنا پر درست نہيں ہے۔ اس کے متعلق محدث سندھ شيخ الاسلام محب اللہ شاہ راشديؒ فرماتے ہيں:
’’ليکن ميرے محترم يہ کوئي کليہ تو نہيں کہ متقدم جو بھي کہے وہ صحيح ہوتا ہے اور جو ان سے متاخر کہے وہ صحيح نہيں ہوتا۔‘‘ (مقالات راشديہ ص :332)
نيز فرماتے ہيں:
’’کسي کا زمانے کے لحاظ سے متقدم ہونا يہ کوئي دليل نہيں کہ جو ان سے زمناً متاخر ہو اس کي بات صحيح نہيں۔ اعتبار تو دلائل کو ہے نہ کہ شخصيات کو۔‘‘ (ايضا: 333)
نيز کہا:
’’تو کيا آپ ايسے سب رواۃ (جن کي حافظ صاحب نے توثيق فرمائي اور ان کے بارے ميں متقدمين ميں سے کسي کي توثيق کي تصريح نہيں فرمائي) کے متعلق يہي فرمائيں گے کہ ان کي توثيق مقبول نہيں يہ ان کا اپنا خيال ہے؟ اگر جواب اثبات ميں ہے تو اس طرح آپ اس جليل القدر حافظ حديث اور نقد الرجال ميں استقراء تام رکھنے والے کي ساري مساعي جميلہ پر پاني پھير ديں گے۔ آپ خود ہي سوچيں کہ جناب کے اس نہج پر سوچنے کي زد کہاں کہاں تک پہنچ کر رہے گي۔‘‘ (ايضا: 335)
2۔ فضيلۃ الشيخ ابن ابي العينين فرماتے ہيں، جس کا خلاصہ درج ذيل ہے:
’’بعض طلبا جنھوں نے ماہر شيوخ سے بھي نہيں پڑھا وہ بعض نظري اقوال لے کر اپنے اصول و قواعد بنا رہے ہيں اور وہ کبار علما سے اختلاف کرتے ہيں۔ انھوں نے باور کرانے کي کوشش کي ہے کہ ہم متقدمين کے پيروکار ہيں اور انھوں نے متاخرين کے منہج کو غلط قرار ديا ہے۔۔۔۔‘‘ (القول الحسن، ص: 103)
3۔ متقدمين کي حسن لغيرہ کے متعلق کون سي بحثيں ہيں کن کے خلاف متاخرين نے اصول وضع کيے ہيں؟!
4۔ متاخرين نے علم متقدمين سے ہي ليا ہے اور وہ انھيں کے انداز سے اصول متعين کرتے ہيں ۔
محدثين کا اسماعيل بن ابي خالد کے عنعنہ کو قبول کرنا:
متعدد متقدمين محدثين نے اسماعيل بن ابي خالد کے بدونِ تدليس عنعنہ کو قبول کيا ہے۔اورہمارے اساتذہ کرام ميں سے بعض علماء ان کي عن روايات کو ضعيف کہتے ہيں مثلاديکھئے :’’اسماعيل بن ابي خالد عنعن وھو مدلس (طبقات المدلسين :36؍2 وھو من الثالثۃ)(انوار الصحيفۃ في الاحاديث الضعيفۃ من السن الاربعۃ :106ح2930،ص152ح4270،ص437

منھج متقدمين اور منھج متاخرين !
حسن لغيرہ کے مسئلے ميں کہا جاتا ہے کہ متقدمين کو ليا جائے گا ،،ہم متقدمين کي چند مثاليں پيش کرنا چاہتے ہيں ۔جن ميں متقدمين کي مخالفت کي جاتي ہے
تحقيق حديث ميں متقدمين کي مخالفت کي مثاليں
 تنبیہ:سجدہ تلاوت کی دعا کی سند انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے ۔


حديث حسن لغيرہ کي حجيت کےمتعلق اشکالا ت اور ان کے جوابات -6

ابوہريرہ رضي اللہ عنہ سے روايت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ سورہ فاتحہ کي قرات سے فارغ ہوتے تو اپني آواز بلند کرتے اور فرماتے :آمين ۔(صحيح ابن حبان :3؍147ح1803)
تحقيق
سند کي تحقيق
اسے درج ذيل محدثين نے صحيح کہا ہے ۔
1:ابن حبان (صحيح ابن حبان :3؍147ح1803)
2:ابن خزيمہ (صحيح ابن خزيمہ :1؍287)
3:حاکم (مستدرک حاکم :1؍223،معرفۃ السنن والآثار :1؍532)
4:ذھبي (تلخيص المستدرک :1؍223)
5:دارقطني (سنن الدارقطني :1؍335،وقال:ہذا اسناد حسن )
6:بيہقي (التلخيص الحبير :1؍236بلفظ :حسن صحيح )
7:ابن قيم (اعلام المؤقعين :2؍397)
8:ابن حجر (تلخيص الحبير ميں تصحيح نقل کرکے سکوت اختيار کيا ہے)
حافظ ابن حجر کا تلخيص ميں کسي حديث کو ذکر کے سکوت کرنا ديوبندي علماء کے نزديک صحيح يا حسن ہونے کي دليل ہے لہذا يہ حوالہ بطور الزام پيش کيا گيا ہے ۔
(ديکھئے قواعد في علوم الحديث للشيخ ظفر احمد تھانوي ص55،معارف السنن :1؍385،توضيح الکلام :1؍211 )
(امام زہري بہت کم تدليس کرتے تھے ۔(ميزان الاعتدال :4؍40)حافظ صلاح الدين کيکلدي نے جامع التحصيل ميں انھيں دوسرے طبقے ميں شمار کيا ہے جن کے عنعنہ (بعض )ائمہ نے (علت قادحہ نہ ہونے کي صورت ميں )قبول کيا ہے ،مولاناارشاد الحق اثري نے توضيح الکلام :1؍388۔390)ميں امام زہري کي تدليس کے اعتراضات کے جوابات دئے ہيں ۔)
تنبيہ :
ليکن ميري تحقيق ميں راجح يہي ہے کہ اما م زہري مدلس ہيں لہذا يہ سند ضعيف ہے ۔ليکن دوسرے شواھد کے ساتھ صحيح ہے۔(القول المتين ص26۔27)
قارئين نے ہمارا مقصود سمجھ ليا کہ يہ حديث متقدمين محدثين کے نزديک صحيح ہے ۔
1:داڑھي کے خلال کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمايا:’’ہکذا امرني ربي‘‘مجھے ميرے رب نے اسي طرح حکم ديا ہے ۔
اس کے متعلق لکھا گيا ۔اسنادہ ضعيف ۔وليد بن زوران :ليّن الحديث (تق:7423)وللحديث شاہد ضعيف عندا لحاکم (ج1ص149،ح529)فيہ الزہري مدلس (طبقات المدلسين :02ا۔3)و عنعن‘‘(انوار الصحيفۃ في الاحاديث الضعيفۃمن السنن الاربعۃ ص19ح145)
جواب :
تو آئيے جو علتيں اشکال ميں بيان کي گئي ہيں ان کا جواب ملاحظہ فرمائيں ۔
ہم بڑے ادب سے عرض کرنا چاہتے ہيں کہ يہ حديث صحيح ہے ضعيف کہنا درست نہيں ہے اس اجمال کي تفصيل درج ذيل ہے ۔
وليد بن زوران حسن الحديث راوي ہے کيونکہ امام ابن حبان نے اس کے ثقات ميں ذکر کيا ہے (ج7ص550)اور حافظ ذھبي نے بھي ثقہ کہا ہے ۔(الکاشف:6064)
اور صاحب انوار الصحيفہ نے اپنا قاعدہ بھي کتاب کے مقدمہ ميں ذکر کيا ہے کہ :’’لکن وثقہ المتساہلان فصاعدا ولم يضعفہ احد فھو حسن الحديث عندي ‘‘(مقدمہ انوار الصحيفہ ،ص6)ليکن جس راوي کو دو متساہل محدثين يا زيادہ ثقہ قرار ديں اور اس کو کسي نے ضعيف بھي نہ کہا ہو تو وہ ميرے نزديک حسن الحديث ہے ۔
اس قاعدے کے تحت بھي يہ راوي حسن الحديث ہوا کيو نکہ اس کو دو محدثين ثقہ کہ رہے ہيں اور کسي نے ان کو ضعيف نہيں کہا ۔صاحب انوارالصحيفہ نياس را وي کے بارے ميں حافظ ابن حجر کا قول نقل کيا کہ يہ راوي لين الحديث ہے۔اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ خود اس حديث کے متعلق فرماتے ہيں :
’’اسنادہ حسن لان الوليد وثقہ ابن حبان ولم يضعفہ احد وتابعہ عليہ ثابت البناني عن انس رضي اللہ عنہ ۔‘‘(النکت علي ابن الصلاح ج1ص423)اس کي سند حسن درجے کي ہے کيونکہ وليد بن مسلم کو امام ابن حبان نے ثقہ کہا ہے کسي نے بھي ان کو ضعيف نہيں کہا اور ثابت البناني نے ان کي متابعت کي ہے ۔
محترم کا يہ کہنا کہ اس کا ايک شاہد بي ہے اور اس کي سند ميں زہري مدلس ہيں اور وہ عن سے بيان کر رہے ہيں ۔تو عرض ہے کہ سلف وخلف محدثين ميں سے کسي نے بھي اس حديث کو زہري کے عن سے بيان کرنے کي وجہ سے ضعيف نہيں کہا بلکہ محدثين تو اس حديث کو صحيح کہ رہے ہيں مثلا ۔
1:امام حاکم نے کہا :’’اسنادہ صحيح‘‘(المستدرک :ج1ص276)
2:امام ضيا ء مقدسي نے کہا :’’اسنادہ صحيح ‘‘(الاحاديث المختارہ :ج3ص169،ح2710)
3:امام ابن قطان الفاسي نے کہا :’’ہذاالاسناد صحيح ‘‘(بيان الوہم والايھام :ج5ص220)
حافظ نووي نے کہا:’’اسنادہ حسن او صحيح‘‘(المجموع :ج1ص376)
4:حافظ ذ ہبي نے کہا :’’صحيح‘‘(تلخيص المستدرک ج1ص276)
5:حافظ ا بن قيم نے کہا :’’ہذا اسناد صحيح ‘‘(تہذيب سنن ابي داود :ج1ص76)
6:حافظ ابن حجرنے کہا :’’اسنادہ حسن‘‘(النکت :ج1ص423)
7:علامہ عبدالروف المناوي نے کہا :’’حسن‘‘(التيسير بشرح الجامع الصغير ج2ص276)
8:علامہ حمدي بن عبدالمجيد السلفي نے کہا :’’صحيح‘‘(تحقيق مسند الشاميين ج3ص6)
9:امام ناصر الدين الباني نے کہا :’’صحيح ‘‘(ارواء الغليل ج1ص130)
10:علامہ ابو عبيدہ مشہور حسن نے کہا :’’والحديث صحيح‘‘(تحقيق المجالسہ وجواہر العلم ج3ص323ح949)

تفصیل کا طالب :مقالات اثریہ کی طرف رجوع کرے ۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔