آپ کی معلومات

Friday 22 March 2013

سید نذیر حسین محدث دہلوی اور مولانا محمد عبدالرحمن محدث مبارکپوری کے شاگرد مولانا محمد حیات لاشاری سندھی سے ملاقات

0 comments


راقم جامعہ لاہور الاسلامیہ لاہور المعروف جامعہ رحمانیہ کی درجہ خامسہ میں زیرتعلیم تھا (تمام اساتذہ سے ہی قریبی تعلقات تھے لیکن استاد محترم شیخ عبدالرشید راشد رحمہ اللہ سے خصوصی تعلق تھا کیونکہ وہ مجھے لکھنے کی ترغیب دیتے اور مختلف چیزیں لکھواتے رہتے تھے پھر ان کو چیک کرواتا تو بہت خوش ہوتے اور خصوصی دعاوں سے نوازتے رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ ،روئے زمین پر میرے بہت بڑے محسن تھے )
ایک دن استاد محترم شیخ عبدالرشید راشد رحمہ اللہ نے مجھے بتایا کہ ہم نے سندھ ایک علمی سفر کرنا ہے ادھر شیخ نذیر حسین محدث دہلوی کے ایک شاگرد سے ملاقات کرنی ہے
اور ان سے سند لینی ہے تم بھی ساتھ چلو ،میں نے پوچھا ۔استاد جی کتنا خرچہ پاس ہونا چاہئے توانھوں نے فرمایا :ایک ہزار کافی ہے ،میں اسی دن استاد محترم شفیق مدنی حفظہ اللہ سے چھٹی لے کر اپنے گاوں گیا اور والدہ محترمہ سے ایک ہزار روپے طلب کئے انھوں نے مجھے اسی وقت ایک ہزار روپے دے دیئے اور دعاوں کے ساتھ رخصت کیا ۔
مدرسہ پہنچا تو استاد محترم عبدالرشید راشد رحمہ اللہ نے بتایا کہ ٹکٹیں حاصل کر لی ہیں کل روانگی ہے اگلے دن تمام احباب ریل گاڑھی پر سوار ہو گئے اور سفر شروع ہو گیا اس سفر میں استاد محترم شیخ رمضان سلفی نائب شیخ الحدیث جامعہ رحمانیہ ،شیخ عبدالرشید راشد رحمہ اللہ ،شیخ آصف اریب افغانی حفظہ اللہ ،شیخ عبدالرب حفظہ اللہ ،بھائی سرور الہی بن نور الہی ،بھائی مرزا عمران حیدر ،بھائی حافظ ریاض آف کنگن پور اور راقم الحروف شریک تھے ۔
سفر بہت پر سکون ہوا ملتان پر ریل گاڑھی رکی نیچے اترے اور نماز ادا کی کھانا کھایا ۔اس سفر کی خاص بات یہ ہے کہ تمام اساتذہ کرام اور بھائی باری باری برتھ پر آرام بھی کرتے رہے اور باتیں بھی ہوتی رہیں لیکن استاد محترم شیخ عبدالرشید راشد رحمہ اللہ الگ اکیلی سیٹ پر سارے سفر میں بیٹھے رہے اور تمام احباب کے کہنے پر نہ ہی برتھ پر آرام کے لئے گئے اور نہ ہی سارے سفر میں کسی سے بات کی ،بس خاموشی سے بیٹھے رہے اور ذکر و اذکار میں مصروف رہے ۔رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ ۔
روہڑی پر پہنچے تو ادھر ہی اترنا تھا سخت سردی تھی رات کے تقریبا دو بج چکے تھے ادھر سٹاپ پر بھائی عبدالستار سندھی ہمارا انتظار کر رہے تھے ،وہ ہمیں دیکھتے ہی بہت خوش ہوئے اور اسی وقت ہوٹل سے چائے اور انڈے کھلائے ،بھائی عبدالستار نے دو کاروں کا اہتمام کر رکھا تھا ،اسن پر سوار ہوئے اور سفر شروع ہو گیا بھائی عبدالستار نے بتایا کہ پہلے ہم مولانا محمد حیات لاشاری صاحب کے پاس جائیں گے پھر کوئی آگے پروگرام بنائیں گے ۔
غالبا جیکب آباد میں لاشاری صاحب رہتے تھے ان کے گاوں پہنچے تو ان کے بیٹے ہارون سے ملاقات ہوئی وہ بھی بوڑھے تھے انھوں نے کہا کہ ابو جی تو کہیں گئے ہوئے ہیں ۔
ہم نے کہا کہ ہم نے ان سے ملنا ہے ہمیں ان کے پاس لے چلو تو وہ راضی ہو گئے ،اور ہمارے ساتھ کار میں سوار ہوئے ،میں ان کےساتھ بیٹھا تھا ،راستے میں نے ان سے مختلف سولات کئے ایک سوال یہ کیا کہ ابو جی کی گھر میں کیا مصروفیات ہیں تو انھوں نے کہا کہ گھر میں بس مطالعہ کرتے رہتے ہیں ،ابو جی کی عمر کتنی ہے ؟ہارون صاحب نے کہا کہ اس وقت ابو جی کی عمر ١٢٣ سال ہے ۔اور اب ایکسیڈنٹ کی وجہ سے ایک ٹانگ پر چوٹ آئی ہے اس لئے زیادہ چل پھر نہں سکتے ۔تقریبا ایک گھنٹے کے بعد مولانا محمد حیات لاشاری سندھی رحمہ اللہ کے پاس پہنچ گئے گاڑیاں ایک لکڑی کی دکان کے باہر کھڑی کی گئیں
پوچھنے پر بتایا گیا کہ لاشاری صاحب اندر بیٹھے ہوئے ہیں ،ہم دکان کے صحن سے گزرتے ہوئے اندر داخل ہوئے تو سامنے ایک سفید لمبی داڑھی والے نہایت کمزور حالت میں ،اونچے قد و قامت والے ،نہایت خوبصورت شکل و صورت میں بزرگ چارپائی پر بیٹھے ہوئے ہیں آگے بڑھے تو وہ ہمیں بڑے اچھے اخلاق سے ملے یہ تھے سید نذیر حسین محدث دہلوی کے شاگرد مولانا محمد حیات لاشاری سندھی رحمہ الل

جس کمرے میں محمد حیات لاشاری سندھی رحمہ اللہ بیٹھے ہوئے تھے اس کی حالت یہ تھی ایک چارپائی تھی اور ادھر ایک آدمی لکڑی کی چارپائی وغیرہ بنا رہاتھا اور کمرے کی ایک جانب چھوٹی سی دینی کتب کی لائبریری تھی۔لاشاری صاحب پرکمزوری کی وجہ سے رعشہ طاری تھا یعنی ان کے ہاتھ ،چہرہ اور دیگر اعضاء مسلسل کانپ رہے تھے ،انھوں نے مختصر سی خدمت کی چائے وغیرہ پیش کی ،
اس سے فارغ ہو کر استاد محترم شیخ عبدالرشید راشد آگے بڑھے اور لاشاری صاحب سے کہا کہ 
یہ جماعت اہل علم کی لاہور سے آپ کے پاس تشریف لائی ہے اور ہم نے سنا ہے کہ تم سید نذیر حسین محدث دہلوی کے شاگرد ہو اس لئے تمہاری سند عالی ہے ہم آپ سے سند حدیث لینے آئے ہیں ؟
لاشاری صاحب:ٹھیک ہے میں آپ کو سند حدیث کی اجازت دیتا ہوں آپ مجھ سے روایت کر سکتے ہیں ۔اور سند تو شیخ عبداللہ ناصر رحمانی صاحب کے پاس کراچی میں ہے ان سے منگوا لیں ۔
شیخ رمضان سلفی حفظہ اللہ :محترم آپ ہمیں عبارت لکھوا دیں تاکہ ہم وہ لکھ کر آپ کے دستخط کروا لیں پھر اس جماعت کے کے نام لکھ کر آپ کو سناد یتے ہیں ۔
لاشاری صاحب :جی لکھیں ،یہ جماعت علماء کی لاہور سے میرے پاس آئی ہے اور یہ مجھ سے سند حدیث کی اجازت چاہتی ہے تو میں ان تمام کو اجازت دیتا ہوں ،عبداللہ ناصر رحمانی صاحب سے گزارش ہے کہ ان کو میری سندیں دے دیں ۔
بھائی سرور الہی بن نور الہی آف کراچی فاضل مرکز التربیۃ الاسلایۃ مدرس جامعہ ابی بکر کراچی :شیخ صاحب میری عبداللہ ناصر رحمانی سے ملاقات ہے میں کراچی میں جا کر ان سے وصول کر لوں گا ان شاء اللہ ۔
شیخ عبدالرشیدراشد رحمہ اللہ :سند پر لاشاری صاحب کے دستخط ہونے ضروری ہیں تاکہ تصدیق ہو ۔
بھائی سرور الہی بن نور الہی :جی شیخ میں کراچی سے واپسی پر دستخط کرو اکے اسانید لاہور لیتا آوں گا ۔
شیخ عبدالرشید راشد رحمہ اللہ :یہ ٹھیک ہے ۔
شیخ رمضان سلفی حفظہ اللہ :لاشاری صاحب یہ میں نے ان تمام ساتھیوں کے نام لکھے ہیں اور عبارت بھی لکی ہے ذرہ سن لیں پھر اپنے دستخط کر دیں ۔
لاشاری صاحب :جی سنائیں ۔
شیخ رمضان سلفی حفظہ اللہ :نے وہ عبارت اور تمام ساتھیوں کے نام پڑھ کر سنائے 
شیخ عبدالرشید راشد رحمہ اللہ :شیخ صاحب میرے دو دوست سعودی عرب میں ہیں انھوں نے بھی مجھے کہا ہے کہ ہمارے لئے بھی وہ اسا نید حاصل کرنی کیا انھیں بھی اجازت ہے ؟
شیخ لاشاری :جی ان کو بھی مجھ سے روایت کرنے کی اجازت ہے ۔
شیخ آصف اریب حفظہ اللہ :عربی میں سوالات کرتے ہیں 
١:شیخ صاحب کیا آپ نے مستقل سید نزیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ سے پڑھا ہے ؟
شیخ لاشاری عربی میں جواب دیتے ہیں )میں نے مستقل نہیں پڑھا ۔
٢:پھر آپ اجازت کیسے ان کی سند سے روایت کرتے ہیں ؟
شیخ لاشاری :انھوں نے اپنی زندگی کے آخر میں اجازہ عامہ دیا تھے اور کہا تھا کہ جو بھی عالم دین میری زندگی میں زندہ ہے میں اس کو اجازت دیتا ہوں وہ میری سند سے حدیث روایت کر سکتا ہے تو وہ اجازہ مجھےبھی حاصل ہے ۔
بھائی مرزا عمران حیدر ٌشیخ کیا آپ نے ان کو دیکھا بھی ہے ؟
شیخ لاشاری :جی میں نے دہلی کا سفر کیا تھا اس وقت میں ان کے پاس حاضر ہوا تھا ،تو ان سے مستقل پڑھا نہیں لیکن ان کے درس میں شریک ہوا تھا ۔
راقم الحروف :شیخ آپ کو کیسے شوق پیدا ہوا کہ آپ نے سید نذیر حسین محدث دہلوی کی طرف سفر کیا ؟
شیخ لاشاری :میں نے ان کا نام بہت سنا تھا کہ وہ بہت بڑے محدث ہیں اس لئے مجھے شوق پیدا ہوا کہ ان سے ملنا چاہئے ۔
راقم الحروف :شیخ ،سید نزیر حسین محدث دہلوی کی شکل و صورت کسی تھی ؟
شیخ لاشاری :میں نے انھیں حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم نضر اللہ امرا کا صحیح مصداق پایا ہے ،ان کا چہرہ پر رونق تھا اور بہت ہی خوبصورت تھے قد لمبا تھا جسمانی لحاظ سے کمزور تھے ۔
راقم الحروف :شیخ ان کی کوئی بات یاد ہو آپ کو تو بتائیں ؟
شیخ لاشاری :انھوں نے منبر پر بیٹھ کر نصیحت کی تھی اپنے طلباء کو کہ بعض لوگ قرآن و حدیث کو عام نہیں کرنے دیتے بس میرے شاگردو پوری دنیا میں قرآن و حدیث کو عام کر دو ۔

اس کے بعد اساتذہ کرام نے اجازت چاہی کہ آپ کا بہت شکریہ اب ہمیں اجازت دیں تو اسی دوران ایک سندھی نوجوان حاضر ہوا اور آ کر کہنے لگا کہ شیخ صاحب علماء کرام موجود ہیں تمام مل کر میرے لئے دعا ء کر دیں تو شیخ لاشاری نے مختصر سی دعا کی ۔
اس کے بعد واپسی کا پروگرام بنا ،تو بعض ساتھیوں نے کہا کہ ہم نے اب عبدالستار سندھی بھائی کے گھر ہی جانا ہے کیوں نہ ہم شیخ لاشاری کو بھی اپنے ساتھ لے چلیں تا کہ اور فائدہ اٹھائیں تو شیخ لاشاریبھی اس پر خؤش ہو گئے وہ بھی ہمارے ساتھ عبدالستار سندھی کے گھر تک چلے گئے 

 عبدالستار سلفی کے گاوں میں پہنچے تو مسجد میں قیام کا اہتمام کیا گیا تھا ،مسجد میں جانے کے لئے ایک عارضی سی پل بنائی گئی تھی جس سے شیخ لاشاری رحمہ اللہ نہیں گزر سکتے تھے ان کو دو ساتھیوں راقم الحروف اور عبدالستار سلفی کے بھائی کے اپنے ہاتھوں پر اٹھا کر پل سے گزارا ۔
رات یہاں ٹھہرے اور یہاں بھی لاشاری رحمہ اللہ سے مختلف سوالات ہوئے جو مجھے اب یاد ہیں وہ درج ذیل ہیں 
راقم الحروف :شیخ صاحب آپ نے مولانا عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ کو دیکھا ہے ؟
شیخ لاشاری رحمہ اللہ :ہاں دیکھا ہے بلکہ ان سے باقاعدہ پڑھا بھی ہوں ۔
راقم الحروف :اچھا آپ نے ان سے کیا پڑھا ہے ؟
شیخ لاشاری رحمہ اللہ :میں نے ان سے صحیح بخاری کا کچھ حصہ پڑھا ہے ۔
راقم الحروف : آپ نے محدث مبارکپوری کو کیسا پایا ؟
شیخ لاشاری رحمہ اللہ :مجھے ایسے لگتا ہے جیسے انھیں سنن الترمذی زبانی یاد ہے وہ ماشا ءاللہ سنن الترمذی کی روایات زبانی پڑھتے جاتے تھے ۔
یہاں صبح کے بعد تمام اساتذہ نے واپسی لاہور کی تیاری شروع کر دی ،میں نے بھائی سرور الہی بن نور الہی حفظہ اللہ سے کہا کہ میں شیخ بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ کے مکتبہ جانا چاہتا ہوں اس میں میری رہنمائی کریں ؟
بھائی سرور الہی بن نور الہی حفظہ اللہ نے کہا کہ میں آپ کے ساتھ جاتا ہوں لائبریری میں چھوڑ کر آگے کراچی چلا جاوں گا اس پر میں بہت خوش ہوا ۔
صبح میں نے تمام اساتذہ سے کہا کہ اب شیخ بدیع الدین رحمہ اللہ کی لائبریری میں چلیں مگر سب نے معذرت کی اور استاد محترم شیخ عبدالرشید راشد رحمہ اللہ نے کہا کہ مجھے رستے میں ایک ضرری کام ہے وہاں میں نے ٹھہرنا ہے ورنہ ضرور آپ کے ساتھ جاتا۔رحمہ اللہ ۔ اسی دن راقم نیو سعید آباد مکتبہ راشدیہ پہنچ گیا اور شیخ لاشاری بھی رات کو ادھر پہنچ گئے پھر ہم تقریبا تین دن اکٹھے رہے ۔
شیخ لاشاری اہل حدیث کیسے ہوئے ؟

ہم نے سوال کیا :آپ شروع سے ہی اہل حدیث تھے ؟
لاشاری صاحب :نہیں پہلے میں مقلد تھا شاہ بدیع الدین کا مولوی عبدالکریم سےمناظرہ تھا اس مناظرہ میں ،میں بھی شریک تھا شاہ صاحب کتابوں کے ڈھیر اپنے ساتھ لے کر آئے اور مولوی عبدالکریم ایک رقعے ہر چند حوالے لکھ کر لایا تو مقلدوں نے مولوی عبدالکریم سے کہا کہ تم کسی بہانے نکل جاو ورنہ تم ہمیں ذلیل کرو گے کیونکہ تمہارے پاس کچھ بھی نہیں ہے بس نکلو یہاں سے ہم مناظرہ ختم کروا دیں گے ۔
ایسا ہی ہوا ،تو شاہ بدیع الدین نے کہا :
لوگو !مناظرہ نہیں ہو گا آپ سے گزارش ہے کہ میری تقریر سنیں اور میں فاتحہ خلف الامام ہی کے مسئلے پر گفتگو کروں گا ۔تمام لوگ بیٹھ گئے اور شاہ صاحب نے تقریر کرنی شروع کی تو دلائل کے انبار لگا دئیے اور احناف کے دلائل کی حقیقت بیان کر رہے تھے ہر ہر بات کتاب دکھا کر کرتے تھے تو مقلدین نے سوچا کہ کام تو خراب ہو گیا لوگ تو اہل حدیث ہو جائیں گے کچھ کیا جائے ،اس پر مقلدین نے پیچھے سے بجلی کی تار کاٹ دی اور سپیکر بند ہو گیا ۔لیکن شاہ صاحب نے مسلسل تقریری جاری رکھی ،تو ان کی تقریر سن کچھ افراد اہل حدیث ہوئے جن میں ایک میں تھا ۔
اس وقت میں نے سوچا کہ آج کے مقلدین تو لوگوں کو قرآن و حدیث سننے سے روک رہے اسی لئے تو بجلی کی تار کٹوائی ہے یہ تو ایسے ہی ہے جیسے مکہ کے لوگ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کو قرآن و حدیث بیان کرنے سے منع کرتے تھے ۔
اس بات نے مجھے اہل حدیث کر دیا ۔
شیخ لاشاری نیو سعید آباد میں :

راقم ادھر پہنچ گیا اور اس وقت مکتبہ کے منتظم اسلم صاحب تھے بھائی سرور الہی بن نور الہی مجھے ان کے اور شیخ بدیع کے پوتے عطاو الرحمن کے پاس مجھے چھوڑ کر خود کراچی روانہ ہوگئے تو اسی دن شام کو شیخ لاشاری بھی مکتبہ میں پہنچ گئے یہ مکتبہ علمی میراث شاہ بدیع الدین راشدی رحمہ اللہ کی تھی جہاں بیٹھ کر انھوں نے پوری دنیا کو سیراب کیا والحمدلل
یہاں پر جو میں نے لاشاری صاحب سے سوال کیا ہے وہ یہ ہے :
شیخ صاحب کونسی کتب کا مطالعہ بار بار کرنا چاہئے ؟
شیخ لاشاری :میں نے دو کتابوں کا مطالعہ بار بار کیا ہے اور بہت زیادہ فائدہ ہوا ہے ۔١:تحفۃ الاحوذی شیخ مبارکپوری رحمہ اللہ کی ٢:توضیح الکلام شیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ کی ،طالب علم اور عالم دین کو یہ دونوں کتب بار بار پڑھنے چاہئے ۔
راقم :آپ نے کوئی کتب بھی لکھی ہیں ؟
شیخ لاشاری:ہاں کچھ لکھی ہیں ،نحو و صرف پر بھی اور کچھ مسائل پر لکھی ہیں ۔شیخ بدیع الدین کی لائبریری میں میری کتب مل جائیں گے تلاش کرنے کی ضرورت ہے ۔
میں اسلم بھائی سے کہا کہ لاشاری صاحب کی کوئی کتاب ہے تو مجھے دکھائیں ؟توانھوں صرف پر لاشاری صاح کی ایک کتاب دکھائی جس کے ٹائٹل پر لکھا ہوا تھا :
ابوالنحو والصرف محمد حیات لاشاری ۔
میں نے اس کتاب کی فوٹو کاپی کروائی اور ٹائٹل پر شیخ لاشاری کے دستخط کروائے ۔
لاشاری صاحب نے بتایا کہ میری ملاقات ابراہیم سیالکوٹی سے بھی ہوئی تھی تو انھوں نے میرا نام اپنی کتاب تاریخ اہل حدیث میں سید نذیر حسین محدث دہلوی کے شاگردوں میں کیا ہے اور کہا :کہ میں روئے زمین ان کا آخری شاگرد ہوں ،میرے علاوہ کوئی بھی ان کاشاگرد موجود نہیں ہے ۔
کچھ باتیں راشدی خاندان کے آثار کے متعلق، جو راقم نے اپنی آنکھوں سے دیکھیں یا اپنے کانوں سے سنیں :

چونکہ راقم تقریبا تین دن شیخ بدیع اور شیخ محب اللہ شاہ راشدی کی لائبریریوں میں رہا کچھ باتیں جو میں نے دیکھیں یا سنیں درج ذیل ہیں۔
شیخ بدیع الدین کا مکتبہ جہاں دینی کتب کی دنیا آباد دیکھی اور وہ مکتبہ جہاں بیٹھ کر شیخ العرب وا لعجم نے محدثین کی جماعت کو تیار کیا :

آج سے دس سال پہلے جب راقم اس مکتبہ میں حاضر ہوا
تو مسجد الراشدیہ کے دائیں طرف شیخ بدیع کے گھر کے سامنے ایک بہت بڑا کمرا جس کے دو دروازے تھے ایک دروازہ مغرب کی طرف اور دوسرا جنوب کی طرف تھا راقم اس کمرے کے اندر داخل ہوا تو کمرے کے چاروں طرف چھت تک الماریاں کتابوں سے بھری دیکھیں اور کچھ جگہ چھوڑ کر تاکہ چلنا آسان ہو پھر الماریاں نصب کی ہوئی ہیں اور وہ بھی کافی اونچی وہ بھی کتابوں سے لیس ہیں شمالی دروازے کے سامنے دیوار پر ایک شعر لکھا ہو تھا 
الا یا مستعیر الکتب منی،راقم کے پوچھنے پر بتایا گیا کہ شیخ العرب والعجم کی مسند اس شعر کے نیچے ہوا کرتی تھی ۔
اور سرور الہی بھائی مجھے چھوڑ کر جلدی کراچی روانہ ہوگئے اور مجھے بھی کراچی کی دعوت دی لیکن میں نے کہا کہ اب تو شیخین اخوین کریمین امامین کی لائبریریوں کو چھوڑ کر جانا مناسب نہیں سمجھتا زندگی رہی تو کراچی بھی آوں گا ۔ 
اور چائے وغیرہ پینے کے بعد اسلم بھائی لائبریرین سے سوالات کرنے شروع کئے ۔
اسلم صاحب مجھے لائبریری کا مختصر سا تعارف کروا دیں تاکہ کتب تک رسائی آسان ہو ؟
اسلم صاحب کھڑے ہو کر کہنے لگے :کمرے کے مغربی کونے کی طرف مجھے ساتھ لے کر گئے اور کہا کہ اس کونے میں تمام مخطوطات ہیں اور جنوبی کونے میں کتب حدیث و رجال ہیں ،مشرقی اور شمالی کونے میں کتب فقہ ہیں فقہ حنفی سے لے کر فقہ جعفری تک ۔اور جو الماریاں بڑی الماریوں کے آگے رکھی ہوئی ہیں ان کی دونوں طرف کتب ہیں کچھ میں اصول حدیث اور کچھ دیگر موضوعات پر مشتمل اس کی تفصیل راقم کو بھول گئی ہے ۔
راقم:جزاکم اللہ بھائی ۔اب مجھے چھوڑ دیں تاکہ میں سارا مکتبہ غور سے دیکھوں ۔
اسلم بھائی :ٹھیک ہے جی میں بھی ادھر ہوں جو کوئی مشکل پیش آئے ضرور بتانا ۔
میں نے کوشش کی کہ ہر ہر کتاب کو پکڑوں اور کھول کر دیکھوں مسلسل تین دن اسی کام میں مصروف رہا ،اور ہر ہر کتاب میں صفحات پر شیخ بدیع کے قلم سے حاشیے لکھے ہوئے ہیں 
راقم نے کچھ حواشی قلم بند کر لئے اور کچھ کی فوٹو کاپی کروالی اللہ کرے کوئی نوجوان اٹھے اور ان تمام حواشی کو کتابی شکل میں جمع کر دے تا کہ ان قیمتی حواشی سے پوری دنیا فائدہ اٹھائے ،اسی طرح مخطوطات دیکھنے سے بہت لطف ائمہ محدثین کے ہاتھ سے لکھی ہوئی تحریروں سے کو دیکھا اور بڑی خوشی ہوئی ان محدثین کے خدمات پر دل سے دعائیں نکلیں کہ جس دور میں رواں قلم نہیں تھا وہ اللہ کی توفیق سے قلم دوات کی مدد سے وہ کچھ کر گئے کہ جو آگ کے تیز ترین قلم اور کمپوزنگ کے ماہرین جو ایک گھنٹے میں کئی صفحات لکھ جاتے ہیں نہیں کر سکے ۔
شیخ بدیع کے کاتبوں سے ملاقات

ایک رات شیخ بدیع کے گھر کی چھت پر بیٹھے ہوئے تھے تو کچھ مہمان آئے ہوئے تھے راقم نے ان کا تعارف کیا تو انھوں نے مجھے پوچھا کہ آپ ادھر کہاں سے اور کیوں ؟راقم نے اپنا تعارف کروایا اور بتایا کہ میں راشدی خاندان سے محبت کرتا ہوں یہی محبت مجھے ادہر لے آئی ہے ۔
ان مہمانوں میں سے ایک مولانا عبدالرحمن میمن تھے اور دوسرے اجمل صاحب تھے ان دونوں ساتھیوں نے بتایا کہ ہمیں فخر حاصل ہے کہ ہم شیخ بدیع کے کاتب تھے ،وہ ہمیں املاء کرواتے تھے اور ہم لکھتے جاتے تھے ۔!
میں نے کہا کہ مجھے شیخ بدیع کے متعلق کچھ باتیں بتائیں ۔انھوں نے کہا کہ تم رموز راشدیہ پڑھ لینا اس میں شیخ کا انٹرویو ہے تمام تعارف ہو جائے گا ۔
راقم :جو تم نے سب سے حیران کن چیز شیخ بدیع میں دیکھی وہی بتا دیں ؟
شیخ بدیع کے کاتب :صرف ایک واقعہ بتاتے ہیں اس سے اندازہ لگانا آسان ہے 
راقم :ضرر بتائیں ؟
شیخ بدیع کے کاتب :ایک ہی وقت میں ہم چار کاتب شیخ کے پاس لکھتے ہیں اور بیک وقت وہ چار فنون پر چار کتب لکھوا رہے ہوتے تھے کسی کو ایک فن کے متعلق اور دوسرے کو دوسرے فن کے متعلق اور تیسرے کو تیسرے فن کے متلعق اور چوتھے کو چوتھے فن کے متعلق ۔اور مزے کی بات یہ کہ جب ایک کو لکھواتے تو دوسرے کو کہتے کہ آگے لکھو اور ماشاءاللہ فی البدیع چاروں کو ایک ہی وقت میں الگ الگ عنوان پر لکھوا رہے ہوتے تھے اور یہ بھی نہیں بھولتے تھے کہ پہلے میں نے کیا لکھوایا ہے ۔الحمدللہ
پیر آف جھنڈا میں شیخ محب اللہ شاہ راشدی کے مکتبہ میں :

جمعرات کا دن تھا راقم پیر آف جھنڈا شیخ محب اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ کے مکتبہ گیا ماشاء اللہ بہت بڑا مکتبہ پایا اور کافی دیر کتب کا دیدار کرتا رہا مکتبہ کے سامنے بہت بڑی مسجد ہے اس کے ساتھ راشدی خاندان کے محدثین مدفون ہیں ایک ساتھی نے بتایا کہ یہ شیخ بدیع کی قبر ہے اور یہ شیخ محب اللہ کی اور یہ شیخ احسان اللہ کی وغیرہ اس چھوٹے سے قبرستان کی زیارت کی جہاں محدثین مدفون ہیں اور خوب ان کے حق میں دعائیں مانگی پھر شام سے پہلے واپس شیخ بدیع کے مکتبہ میں نیو سعید آباد پہنچ گیا ۔
رات شیخ لاشاری رحمہ اللہ سے باتیں کرتا رہا اور صبح جمعہ سے سالانہ کانفرنس شروع ہونی تھی اشتہار میں شیخ لاشاری رحمہ اللہ کا درس بھی لکھا ہوا تھا ۔اور صبح خطبہ جمعہ شیخ عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ نے دینا تھا جمعہ ادہر ہی ادا کیا چونکہ کل ہفتہ کو جامعہ رحمانیہ میں چھٹیاں ختم ہونی تھی اور مدرسہ میں پڑھائی شروع ہونی تھی اور یہ سفر مدرسہ کی چھٹیوں میں کیا تھا اس لئے جمعہ کو ہی واپسی حیدر آباد سے ریل گاڑی پر بیٹھ کر صبح جامعہ رحمانیہ اپنی کلاس میں حاضر ہوا اور کلا س میں اسباق پڑھے والحمدللہ ۔
اس سفر سے حاصل ہونے والے اسباق:
راقم نے اس سفر سے درج ذیل اسباق حاصل کئے ۔
١:مدرسہ کی چھٹیوں کو ضایع نہیں کرنا چاہئے بلکہ چھٹیوں کو قیمتی بنانے کے لئے کسی شیخ کی طرف سفر کرنا چاہئے ۔
٢:اساتذہ کو اپنے شاگردوں کی رہنمائی کرتے رہنا چاہئے ۔
٣:بڑے شیخ سے ملاقات کرنے کا شوق ہونا چاہئے اس میں طالب علم تھوڑے وقت میں بے شمار فوائد سمیٹتا ہے 
میں آخر میں دعا کرتا ہوں کہ اس سفر کا سبب بننے والے میرے استاد محترم میرے محسن اور مشفق استاد اسم با مسمی شیخ عبدالرشید راشد رحمہ اللہ جائزۃ الاحوذی شرح سنن الترمذی کے معاون اور کاتب اور جس کی طرف سفر کیا شیخ لاشاریرحمہ اللہ ،اور شیخ بدیع الدین ،شیخ محب اللہ شاہ راشدی رحمھما اللہ کو اللہ تعالی جنت الفردوس عطا فرمائے آمین 
۔
[H2]اگر کسی بھائی کو میری اس بحث سے کوئی فائدہ ملاہے وہ وہ میرے لئے اور میرے اساتذہ خصوصا شیخ عبدالرشید راشد رھمہ اللہ کے لئے خصوصی دعا کر دے کہ اللہ تعالی میرے استاد محترم کو معاف فرمائے اور مجھے تمام اساتذہ کے لئے صدقہ جاریہ بنائے ۔آمین [/
H2]
اور اللہ تعالی میری تمام مشکلات آسان فرمائے اور نیک پروگرموں میں میر ی مدد فرمائے ،۔آمین
کسی فرصت میں سعودی عرب کے مکہ اور مدینہ کے محدثین کے ساتھ جو ملاقاتیں ہوئیں ان کا ذکر بھی کروں گا ان شا ء اللہ ۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔