آپ کی معلومات

Friday 22 March 2013

شیخ الاسلام محب اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ اہل علم کی نظر میں

0 comments



ہمارے ممدوح متفقہ طور پر اسماء الرجال کے امام تھے اس بات میں کوئی اختلاف کرنے والا نہیں ملتا ۔والحمدللہ۔اگر اہل علم کے ان کی تعریف میں اقوال جمع کئے جائیں تو بلا مبالغہ ایک دفتر جمع ہوجائے اختصار سے کام لیتے ہوئے اس وقت ان کے ہم عصر اہل علم کی چند گواہیاں پیش خدمت ہیں ۔
شیخ العرب والعجم علامہ بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ نے کہا:اگر بھائی محب اللہ شاہ صاحب کسی کتاب یا حدیث پر کوئی نوٹ لکھ لیں تو ہمیں اس کے رد کرنے کی جرات نہیں ہوتی تھی اور میں اللہ تعالی کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ علم و عمل میں بحر بے کنار تھے ۔
علامہ عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ اپنے شاگرد رشید کے متعلق لکھتے ہیں :حضر ت الفاضل المحدث المحترم ۔(مقالات راشدیہ جلد اول صفحہ ۴۴۹)
علامہ قاسم شاہ راشدی حفظہ اللہ لکھتے ہیں :آپ ایک اعلی مرتبہ کے مصنف تھے آپ کی تصانیف میں طرز استدلال محدثانہ اور طرز تحریر میں سلف و صالحین کا نمونہ نظر آئے گا ،کسی پر بے جا تنقید نہ فرماتے اور بحث برائے بحث بھی نہ کرتے تھے ۔
محدث العصر شیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ لکھتے ہیں :محب اللہ شاہ راشدی صاحب وہ ہستی ہیں کہ جن کے تذکرے کے بغیر تاریخ سندھ نامکمل ہے ،آپ علم و فضل ،ورع وتقوی تحمل بردباری کے پہاڑ تھے ۔آپ کی زندگی بلا ریب سلف کا نمونہ تھی ۔تواضع و انکساری ،مہمان نوازی ،صاف گوئی میں آپ جیسا کوئی نہ تھا ،اکل حلال ،صاف مقال اور اتباع سنت ان کا طرہ امتیاز تھا ۔آپ کا اوڑھنا بچھونا صرف کتابیں تھیں ،آپ اس بات کے حقیقی مصداق تھے ۔مریں گے کتابوں میں ورق ہوگا کفن اپنا۔
محدث فیض الرحمن ثوری رحمہ اللہ نے کہا :ہو عالم کبیر ۔
محقق شہیر حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ لکھتے ہیں :اگر مجھے رکن و مقام کے درمیان کھڑا کرکے قسم دی جائے تو یہی کہوں گا کہ میں نے شیخنا محب اللہ شاہ سے زیادہ نیک ،زاہد اور افضل اور شیخ بدیع الدین شاہ سے زیادہ عالم وفقیہ انسان کوئی نہیں دیکھا ۔
مورخ اہل حدیث مولانا اسحق بھٹی حفظہ اللہ لکھتے ہیں :حضرت پیر شاہ سید محب اللہ شاہ صاحب علم وفضل کے اعتبار سے بڑے جامع الکمالات تھے ،تمام علوم اسلامیہ پر ان کو مکمل دسترس حاصل تھی ،تفسیر حدیث ،فقہ اصول فقہ ،تاریخ و سیر ،اسماء الرجال ،ادب فلسفہ اور منطق میں ید طولی حاصل تھا ،علوم حدیث سے قلبی لگاؤ تھا اور اسماء الرجال پر ان کا وسیع مطالعہ تھا ،تحقیق و تدقیق میں ان کو بہت زیادہ مہارت تھی۔
مولانا پروفیسر خدا بخش حفظہ اللہ لکھتے ہیں :پھر فن رجال میں مہارت حاصل کی پھر حدیث اور فن حدیث کے ہی ہو کر رہ گئے ،جب بھی کسی سے ملتے تو ایسا محسوس ہوتا کہ مدتوں بعد ملے ہیں ،ان کی زبان مطالعہ کے بعد ہمیشہ ذکر اللہ سے مرطوب رہتی تھی ۔۔۔۔بلاشبہ علم وفن کا چمن اپنے اس دیدہ ور اور یکتائے روزگار پر ہمیشہ فخر کرتا رہے گا ،ان کا خلوص ،دیانتداری نرمی طبع اور اعتدال پسندی وسیع القلبی ،وسعت ظرفی ۔آپ کی نمایاں خوبیاں تھیں ۔ان کے ہر مکتب فکر کے اصحاب علم و فضل سے اچھے تعلقات تھے ،وہ محبت بانٹتے تھے ،شاہ صاحب کے ہاں کتابوں کی رفاقت کے بغیر زندگی کا تصور نہ تھا۔عمر بھر کتابوں کے درمیان رہے اس کے کون کون سے اوصاف گنوائے جائیں ۔ 
نیز لکھتے ہیں :علمی دنیا میں فن رجال کے امام علامہ سید محب اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ کانام اظہر من الشمس ہے وہ ہمہ جہت شخصیت کے حامل تھے ،بلا شبہ ایسی نابغہ روز گار ہستیاں سعادت مند اقوام میں ہی جنم لیتی ہیں ،انھوں نے پوری زندگی کتاب و سنت کی خدمت میں بسرکی ۔
یہ سارے اقوال (مقالات راشدیہ جلد اول) کے مختلف مقدموں سے لئے گئے ہیں ۔تفصیل کے لئے محدث العصر نمبر (بحرالعلوم )کا مطالعہ کیا جائے 

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔